قدیم ہندوستان اور ریاضی

تصنیف: سندر سروکائی

ترجمہ: سید نثار احمد

اس وسیع موضوع کا مکمل احاطہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ قدیم ہندوستانی ریاضی دانوں کی فہرست مرتب کی جائے، اور فی الواقع انھوں نے ریاضی میں بہت کام کیا ہے۔ حسابات (منجملہ اعشاریہ کی مقامی قدر کی تخلیق، اور صفر کی ایجاد) علمِ مثلث ( سائین کے مفصل جدول) الجبراء (بائنامئیل کے کلیات اور دو درجی مساوات کا حل)، علمِ نجوم و فلکیات (مفصل عددی حسابات)۔ اس کے بعد کیرالا اسکول کے ریاضی دانوں نے لا متناہی سلسلہ، تفاعل کی حد اور تجزیہ کے تصورات دریافت کیے جو کیلکیولس کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔

چونکہ یہ معلومات اب با آسانی میسر ہیں اسی لئے میں انھیں یہاں بیان نہیں کروں گا۔ میرے لیے یہ بات باعثِ دلچسپی ہے کہ یہ سرگرمیاں کس طرح سے “ریاضیاتی” تھیں۔ اس دوران میں اس الزام کا بھی جواب دے رہا ہوں کہ “وہ لوگ ریاضی نہیں بلکہ کچھ اور کر رہے تھے”۔ یہ اسی طرح کا الزام ہے جو “قدیم ہندوستان میں سائنس” پر لگایا جاتا ہے، مثال کے طور پر “جو کچھ فلزیات (دھات کاری) میں کیا جاتا تھا وہ سائنس نہیں بلکہ صرف صناعی دستکاری تھی”۔ اسی طرح ایک اور دعویٰ ہے کہ ہندوستانی ریاضی حقیقی ریاضی نہیں تھی۔ وہ دراصل اس دنیا سے متعلق تھی جو سیاروں کے مقام و محل کا حساب یا پھر قربان گاہ کے طول و عرض کی پیمائش کا کوئی طریقہ تھا۔ جو حقیقتاً منطق پر مبنی نہیں تھا کیونکہ وہ صرف مفصل مشاہدات و تجربات کا مجموعہ تھا۔

ہندوستانی ریاضی واضح طور پر عالمِ قدرت سے متعلق تھی۔ اور کسی طرح سے ہمارے ادراک و مراجعت کی نوعیت کے ساتھ ساتھ فطری دنیا سے بھی جڑی ہوئ تھی۔ اس کا زیادہ ترتعلق عمل آوری سے تھا اور ایک طرح سے تعمیری اور تخلیقی نمونے سے قریب بھی ۔ اس کی ایک مشہور مثال ہندوستانیوں کا حقیقت پسندی کے ساتھ عدد ۲ کے جذر کو قبول کرنا ہے ( مثال کے طور پر، جو تعمیر میں استعمال ہوتا ہے) بخلاف اہل پائیتھاگرس کے اس کو اکملیت کی بناء پر رد کرنے کے۔

ہندوستانی ریاضی کی ایک اور انفرادیت رسم الخط ہے جس میں وہ لکھی گئی ہے۔ قدیم ریاضی اکثر منظوم انداز میں رقم کی جاتی تھی۔ حالانکہ ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستانی ریاضی دانوں نے اس طرح کی علامات استعمال نہیں کی ہیں جیسا کہ جدید ریاضی میں ہم دیکھتے ہیں، لیکن یہ مکمل سچ نہیں ہے کیونکہ انھوں نے سنسکرت کے حروف کو بطور مخصوص اعداد کے استعمال کیا تھا۔ ریاضی کو منظوم انداز سے لکھے جانے کے مضمرات پر زیادہ تفصیل سے غور نہیں کیا گیا بے۔ میرے لئے یہاں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ریاضی تدریس کیلئے یہ طریقہ بہت اہم مضمرات کا حامل ہے۔ 

ہندوستانی اور یونانی ریاضی میں کچھ چیزیں مشترک ہیں مگر کچھ قابلِ لحاظ فرق بھی ہے۔ صرف انداز میں ہی نہیں بلکہ وسیع عالمی تصور ( جو اہم رول ادا کرتا ہے جیسے یونانی اور ھندوستانی روایات میں عددی نظام کا فہم یکسر مختلف طریقوں سے ہوتا ہے)۔ ان‌اختلافات نے کئ مصنفین کیلئے اس دعوے کی راہ ہموار کی کہ اہلِ ہند (اور دوسروں کے مطابق اہل چین) سائینس اور ریاضی کے لئے کسی طرح کے اشارہ جات ‌و علامات کے حامل نہیں تھے۔ قدیم غیر مغربی تہذیب میں سائنس اور ریاضی کے سوال کا پہلا اور حتمی جواب ایک مشکوک امر ہے ۔ 

کیا اہل ہند اور اہل چین کے پاس واقعی میں وہ چیز تھی جسے ہم آج ریاضی اور سائنس کہتے ہیں۔ یہ شبہ اہل مغرب کے معروف مفکرین میں صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔(اور درحقیقت اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اس دعوے کو بھی شامل کرتا ہے کہ ہندوستانیوں کے پاس فلسفہ، منطق یہاں تک کہ مذہب بھی نہیں تھا)‌ تو قدیم ہندوستان میں سائنس اور ریاضی کی نوعیت سمجھنے سے قبل ہم ‌کو اس شبہ کے جواب دینے کی ضرورت ہے۔ ایک طرح کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ مغرب میں سائنس اور ریاضی کے تصور کی ترقی پر غور کیا جائے، مغرب میں کچھ صدیوں قبل تک بھی سائنس نامی الگ الگ شعبہ جات نہیں تھے۔ بلکہ ان کے پاس انواع اقسام کے مختلف شعبہ جات تھے ،مثلاً طبیعیات، کیمیا ت، معدنیات و فلزیات ، ارضیات وغیرہ۔ اٹھارویں صدی کے اوائل میں یہ شعبہ جات “سائنس” نام کے تحت متحد ہو نے لگے۔ اور اس دور کے مباحثے اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ اتحاد کس قدر مسئلہ کن تھا کیونکہ ان مختلف شعبہ جات میں مشترک عناصر تلاش کرنا کافی مشکل امر تھا۔ درحقیقت لفظ “سائنسداں” خود ۱۸۳۳ میں “وہی ویل” کے ذریعہ استعمال کیا گیا اور اس وقت کے معروف سائنسدان مکرر اس بات پر متعجب رہے کہ ان شعبہ جات میں کیا چیز مشترک تھی۔

یہ مباحثہ کہ کیا چیز سائنس کو تشکیل دیتی ہے، آج بھی جاری ہے اوریہ اس وقت بہترین طریقہ سے سائنس دانوں کے (اکثر منفی) رد عمل سے جھلکتا ہے جب سماجی سائنس کو سائنس کہا جاتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ جب علمِ فلکیات کو سائنس کہا جاتا ہے۔

مختلف شعبہ جات مثلاً طبیعیات، کیمیات، ارضیات، مناعیات وغیرہ کو سائنس نامی ایک ہی زمرے میں رکھنے میں واقعی ایک معقول مسئلہ درپیش ہے۔ ان شعبہ جات کے طریقہ عمل میں موضوعاتی مواد میں بہت کم اشتراک ہے۔ یہ مسئلہ ہمیں ایک مشترکہ طریقہ کار کی تلاش میں لے جاتا ہے۔ کچھ ایسا جو ‘سائنسی طریقہ کار’ کہلایا جا سکے اور جو غالباً ہر اس چیز میں پائی جائے جسے ہم ‌سائنس کہتے ہیں۔ لیکن اس مبہم طریقہ کار کی تلاش طویل و مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر کامیاب بھی نہیں ہے۔ اس کو اکثر آسان الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ سائنسی طریقہ کار نظریات اور تجربات کے عوامل پر مبنی ہے۔ لیکن اس طرح تو کئی اور انسانی سرگرمیاں سائنسی عمل بن جائیں گی۔ 

سائنس کی نوعیت کو سمجھنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اس کو بطور ایک عنوان دیکھا جائے۔ ایک ایسا عنوان جو چند اشخاص کی ایک جماعت نے دیا ہے جو خود کو سائنس کے نمائندے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ بلکہ سائنسی قومی انجمنیں جس ‌طرح سائنس کے متعلق بات کرتی ہیں، اگر ہم ‌دیکھیں تو یہ کوشش صاف‌ نظر آتی ہے۔ ان جماعتوں کا یہ ضابطے متعین کرنا کہ کیا سائنس ہے اور کیا نہیں اس بات کا اشارہ ہے کہ سائنس محض ایک عنوان ہے۔

یہ پس منظر پیش کرنے کے بعد یہ سوال اور بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اہل ہند اور اہل چین کے پاس سائنس اور ریاضی کا علم تھا اور واجبی طور پر اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب 

۱۔ پہلے یہ سمجھا جائے کہ سائنس اور ریاضی کے تحت  کس طرح کے مختلف مضامین کو جمع کیا جا سکتا ہے۔

۲۔ اور یہ کہ ‌اس طرح کا سوال مغربی سیاق و سباق میں کیوں نہیں اٹھا یا گیا۔

جیسا کہ مشہور ہے کہ ارسطو کی سائنس اور جدید سائنس میں بہت کم اشتراک ہے۔ اس کے برخلاف یہ ارسطو کے عالمِ قدرت کے نظریات کا استنباط تھا جس نے سائنس کو اس طرح بنایا جس طرح ہم‌ آج جانتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود  ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر سائنسداں یونانی سائنس کے بارے میں بغیر علمی قابلیت کے بات کرتے ہیں۔ مگر جب دوسرے تمدن کی بات آتی ہے چاہے وہ قدیم ہو یا جدید تو ایک اس میں گہرا اشکال ہوتا ہے۔

ریاضی کا معاملہ سائنس سے تھوڑا مختلف ہے۔ اگرچہ کہ مختلف شعبہ جات کے اتحاد کے متعلق سوالات باقی ہی رہتے ہیں۔ اور یہ کہ ریاضی یونانی ایجاد ہے اور یہ سب سے موثر شعبہ جات میں سے ایک ہے جس نے دوسرے شعبوں کو عمل انگیز کیا جیسے کہ منطق ایک عرصہ دراز تک مقبول رہا اور اب بھی “تمدنی فنِ‌ تعلیم” کا گراں قدر حصہ ہے۔ آج بھی بے حد موثر ‌نصابی کتب، ‌ماہرانہ کتابیں اور مشہور کتابیں بھی اس مفروضے کو اس طرح سے جاری رکھے ہوئے ہیں کہ جیسے دوسرے تمدن کی ان تک رسائی ہی نہیں۔

پھر بھی بخلاف سائنس کے، ریاضی کی تعریف متعین کرنے میں کم‌ الجھن دکھائ دیتی ہے۔ سائنس کے معاملے میں شعبہ پہلے آ تا ہے پھر وہ‌ سائنس ‌کے زمرے میں رکھے جاتے ہیں۔ ریاضی میں صورتحال بالکل مختلف تھی کیونکہ ابتداء سے ہی کچھ قسم کی سرگرمیوں کو ریاضی سے متعلق دیکھا جا تا تھا۔ اور یہ ھندوستانی اور یونانی دونوں روایات کے لئے صحیح تھا۔ لیکن جو سوال سائنس کے لئے مسئلہ کن ہے وہ جزوی طور پر ریاضی کے لئے بھی ہے۔ کس طرح ہم نئے شعبہ جات مثلاً کیلکولس، تفرقی مساوات وغیرہ کی شناخت کریں گے جو کہ اسی طرح سے ریاضیانہ ہیں کہ جس طرح سے حسابات اور جیومیٹری ریاضی ہیں؟

اگر جیومیٹری اقلیدس کے لئے ریاضی کا مثالی نمونہ ہے تو اقلیدس کے نظریاتی نظام میں اور کیلکولس، وضعیت اور اس طرح کے دوسرے شعبہ جات کے جدید تصور ات میں کیا چیز مشترک ہے جو ریاضی کے تحت آتی ہیں؟ مثال کے طور پر جب کیلکولس ایجاد کیا گیا تو یہ اقلیدس کے نظریاتی نظام کی طرح نہیں تھا۔ پھر کیلکولس کو اسی طرح ریاضی کیوں کہا جاتا ہے جس طرح اقلیدسی جیومیٹری ریاضی ہے؟

پھر بھی عام طور پر سائنس کے موازینے میں ریاضی کی شناخت کرنا آسان ہے ۔ مثلاً ریاضی کچھ مخصوص چیزیں جیسے اعداد، سیٹ، تفاعل اور میٹریسس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے ۔عام طور پر ریاضی میں “موضوعاتِ گفتگو” میں کچھ اشتراک ہوتا ہے۔ بخلاف سائنس کے کیونکہ طبیعیات مادی دنیا سے (یاد رہے کہ نیوٹن کا ماننا تھا کہ طبیعیات کا بنیادی مقصد حقیقی حرکت اور ظاہری حرکت میں تمیز کرنا ہے)، کیمیات نامیاتی اور غیر نامیاتی سالمات سے (جو کہ اکثر ترکیب شدہ ہوتی ہیں اور تجربہ گاہ میں تیار کی جاتی ہیں)، حیاتیات جانداروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ریاضی کے معاملے میں سیٹ تھیوری الجبراء اور حسابات پر حاوی ہے اور وضعیت سیٹ تھیوری پر وغیرہ۔ 

دوسرے شعبوں کی بنسبت ریاضیانہ اشیاء میں زیادہ ربط ہے۔ اس کے علاوہ بھی ریاضی کے ذیلی شعبہ جات میں اور دوسرے مشترک اشارہ جات ہیں۔ علاماتِ عوامل کا کردار، حسابات کی سرگرمی، اشارہ جات کا تخلیقی استعمال، جدید اشارہ جات کی تخلیق، علامتِ مساوت کا بنیادی اور لازمی رول (اور اسی سے متعلق علاماتِ غیر مساوت ہیں)۔ ان اوصاف میں سے اکثر ایک مخصوص انداز سے زبان کے ساتھ تعلق رکھنے کے طریقہ سے منسلک ہے (بالخصوص علمِ علامات و اشارات)۔

پس ریاضی ایک مخصوص ‘زبان’ کی حیثیت سے ایک ایک اور مشترک خیالیہ / موضوع ہے جو ان ‌ذیلی شعبہ جات میں مشترک ہیں۔ یہ قدیم ہندوستانی ریاضی میں بھی مشترک ہیں چاہے حسابات ہو، علمِ مثلث ہو، الجبراء ہو یا تجزیہ ۔ لیکن یہ مشترک با تیں ہمیں اس منفرد فرق کو دیکھنے سے باز نہ رکھے جو ریاضی کی میراث ہے۔ اگر ہم اس نکتہ کو سنجیدگی سے لیں تو زیادہ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ قدیم ہندوستانی ریاضی پر عمل پیرا حضرات کے لیے ریاضی اور سائنس میں کوئ واضح فرق نہیں ہے (بخلاف یونانی اور اس کے بعد کی مغربی دانشورانہ روایات کے) صرف اتنا ہی جتنا سائنس اور منطق میں پایا جاتا ہے۔ اس سے اہل ہند اور اہل یونان کے لئے ریاضی حقیقت اور ریاضی اشیاء کے متعلق مختلف آراء ہونے میں پیش رفت ہوتی ہے۔ 


نوٹ: سندر سروکائی حالیہ شروع کئے گئے مرکز برائے فلسفہ، اور فنونِ عامہ ، منیپال یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ہیں ۔ وہ حالیہ عرصے تک’ NIAS’ بنگلور میں فلسفہ کے پروفیسر تھے۔ ان کی تحقیقی دلچسپی کے موضوعات میں ساینس اور ریاضی کا فلسفہ، مابعد جدیدیت اور مظہریت ہیں ۔ ان سے 
[email protected] 
پر ربط کیا جاسکتا ہے۔

بشکریہ لرننگ کرو عظیم پریم جی یونیورسٹی

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے