اس مضمون کا پہلا حصہ قرانی قصوں کی منفرد سبق آموزی پر مرکوز تھا جس کا اصل خاصہ اس کا دلوں پر گہرا اثر چھوڑ جانا ہے ۔ انسان، سماج اور تہذیب کو روشنی اور ابدی کامیابی کی طرف رواں دواں کر دینا ہے ۔ آئیے اس کے دوسرے حصے میں ہم ان قصوں سے اصلی فائدہ اٹھانے والوں کا راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور قرانی قصوں کی تکرار کے پیچھے چھپی حکمت کوبھی ٹٹولتے ہیں۔۔۔
اس مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں
ہوش مند لوگوں کے لیے
قرانی قصوں کی تشکیل ہی ایسی ہے کہ وہ ہمیں تدبر پر آمادہ کرتے ہیں۔ حالانکہ اصلاًیہ قاری کی ذمہ د اری ہے کہ وہ گہرائی سے قران پر غور و فکر کرے تاکہ اس کا اصل فائدہ اسے حاصل ہو سکے لیکن اس کا انداز تصنیف بھی ایسا ہے جو قاری کو اس کے انمول پیغامات کے ساتھ فعال مشغولیت اور چوکس رہنے میں سہولت فراہم کرتا ہے ۔ جیسا کہ راغب اصفہانی نے اپنی تاریخی لحاظ سے مشہور قرانی اصطلاحات کی لغت میں اس بات کی طرف نشاندہی کی ہے کہ ایسی کہانیاں جن میں عبرۃلاولی الالباب (ہوش مند لوگوں کے لیے سبق) ہو، دراصل اُن کے پُل(bridge) ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔۔۔ کہ ان قصوں کے اصل معانی کو اپنی زندگی میں عبور کر لیا جائے۔ اس نکتے کی پشت پر ہمارے لیے کچھ ایسی حکمتیں بھی کھلتی ہیں جو قران میں کہانیوں کو توڑ کر بکھیر دینے کے پیچھے موجب ہوتی ہیں: صرف اختصار کے لیے نہیں جو ہماری دلچسپی کو تازہ رکھے ، بلکہ اس لیے بھی کہ ہمیں ان کہانیوں میں ضرورت سے زیادہ ڈوب جانے سے روک سکے جو ہماری ان کہانیوں کی روشنی میں خود احتسابی کرنے میں ، جو کہانی سنانے کا اصل مقصد ہے، مانع بنتی ہے ۔ مثال کے طور پر آپ ناول اور فلموں کے بارے میں سوچیں؛ باوجود اس بحث کے کہ یہ حقیقت ہیں یا افسانے، لوگ ان کہانیوں میں اس طرح ڈو ب جاتے ہیں کہ وہ اس امر کو قطعی بھول جاتے ہیں کہ یہ سرگزشتیں انھیں کیسے محسوس کروا رہی ہیں یا ان سے وہ اپنی زندگی کے لیے کیا سیکھیں۔ یہی وہ انداز ہے جو کسی کو قران کی روشنی میں اپنا راستہ ڈھونڈنے سے روکتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کہتا ہے:
“حقیقت یہ ہے کہ یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں” (12:7)۔
یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی اور اس کے حقیقی مقصد کے بارے میں ہمیشہ سےچلے آرہے عظیم سوال کو پوچھ رہے ہیں، اور وہ لوگ ہیں جو قران کے خدا کی طرف سے نازل ہونے کی دلیل مانگ رہے ہیں، یہی لوگ قران اور اس کے قصوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ وہ لوگ جو خود اپنے آپ میں گم ہیں یاغور و فکر سے بہت زیادہ غافل ،وہ اس سے کچھ نہیں پائیں گے۔
ایک بار ابن عبا س (رضی اللہ تعالی عنہ )جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے ، جنھیں ‘ترجمان القران ‘کے لقب سے جانا جاتا تھا ،پوچھا گیا کہ” آپ نے علم میں اتنی گہرائی کیسے پائی؟” تو انھوں نے کہا، متجسس زبان اور قبول کرنے والے دل کے ساتھ۔
جیسا کہ اللہ ایک جگہ فرماتا ہے:
“اِس تاریخ میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو، یا جو توجہ سے بات کو سنے” (50:37)۔
ابن قیم کہتے ہیں کہ یہ آیت بڑے ہی جامع انداز میں کسی بھی قصے کے موثر ہونے کے لیے تین اہم عوامل کی نشاندہی کرتی ہے۔اس میں اثر انداز ہونے کے لیے اندرونی طاقت ہونی چاہئے، اس کا ہدف، ترغیب اوراثر قبول کرنے والا ہونا چاہئے، اور اس کہانی کی قوت شاقہ اور اس کے اثر کے بیچ میں رکاوٹ کو دور کرنے والا ہونا چاہیے۔ یہاں ” اِس تاریخ میں عبرت کا سبق ہے” قران کے اسی اندرونی طاقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ “ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو” کا اشارہ اس سنجیدہ روح کی طرف ہے جو زندہ ہے اور جو اس کے پیغام کے مضمرات کو سمجھتی ہے۔ آخر میں “جو توجہ سے بات کو سنے” آگاہ رہنے(mindfulness) کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس لیے قران شروع سے آخر تک (جس میں اس کی کہانیاں شامل ہیں) اپنی قیمتی اسباق انھیں نہیں سنائے گا جو اسے سمجھنے کا تعلق رکھتے ہیں ۔
دوسری آیت میں، اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتا ہے “تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں”۔ اس طرح یہ عمل دو مرحلوں پر محمول ہے جس میں قران پہلے تو آب حیات کے اس حوض کی طرف لاتا ہے جس سے انسان اپنی ابدی پیاس بجھا سکے لیکن یہ صرف انھیں لوگوں کو پلاتا ہے جو اسے پینا چاہتے ہیں۔ وہ لو گ جو ان قرانی قصوں سے سرسری طور پر جلد از جلد گزر جاتے ہیں وہ اس کے گہرے نقطہ نظر اور فیضان کے سیلاب سے کبھی سر شار نہیں ہو سکتے جو وہ لوگوں کی زندگی میں لاتا ہے۔ اس کی ایک سہل مثال ان نکتہ چیں حضرات کی ہے جو اپنی مذہبی روایات کے کٹر دفاع کے چکر میں قران کو نیچا دکھاتے ہیں کہ اس میں متن کی کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر عام طور پر ماضی اور حال کے مستشرقین میں پایا جاتا ہے جن میں سے کچھ نے تو قران کو اور زیادہ قابل فہم بنانے کے لیے اس کو موضوعاتی بنیاد پر پھر سے ترتیب دینے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ لیکن جیسا کے ہم جانتے ہیں یہ کتاب جو ذریعہ ہدایت ہے سمجھدار لوگوں کے لیے تو ایسے لوگ جو پہلے سے ہی اس کے ناقابل فہم ہونے کایقین رکھتے ہیں وہ اسے سمجھنے کے لیے کبھی بھی حقیقی کوشش نہیں کرتے۔ اس کے نتیجے میں ، اسے پڑھنے سے وہ اور دور بھٹک جاتے ہیں اور ان کی عصبیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جیسا کہ اللہ (رب ذوالجلال والاکرام) کہتا ہے:
“ہم اِس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا”۔
اگر ان کا ایسا مخالفانہ نقطہ نظر نہیں ہوتا تو وہ ایسے ہوشمند لوگوں میں سے ہوتے جو قران کی ہر سورۃ کو اپنے آپ میں مکمل اور اس کے کلام کوایک یا ایک سے زیادہ موضوع پر مرکوز پاتے۔ پھر ان کے لیے قرانی سورۃ اپنی ظاہری بکھراؤ سے نکل جاتا ، اور اس کی ہر کہانی بجائے اس کے کہ غیر متعلق مباحثوں کی طرف لے جانے والی بے ترتیب موضوعات لگیں، اب قاری کو ایک غالب موضوع کی طرف مرتکز ہوتی نظر آتی ہیں ۔ ہر قصے کا کونسا حصہ فی سورۃ شامل ہے ، اور وہ سورۃ میں کس مقام پر آیا ہے، دھیرے دھیرے سیاق کا سراغ دینے لگتے ہیں جو ان قصوں کو ایک ہی ہار میں مماثل موتیوں کا قیمتی مجموعہ بنا کر پیش کرتے ہیں نا کہ زمین پر بکھرے ہوئے بھاری بھرکم پتھر کے ٹکڑوں کی طرح۔ مثال کے طور پر، سابقہ انبیاء کا قریب قریب یکساں ذکر اور ان کے مشکلات الگ الگ سیاق میں الگ الگ مقصد سے آئے ہیں:
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید تکلیف اور بدسلوکی کے لمحات کے دوران تسلی دینا۔
- اللہ کے ہر نبی اور رسول کا ایک ہی پیغام توحید کی طرف دعوت، اس اہم نکتے کو واضح کرنا۔
- یہ بتلانا کہ ہر کوئی جس نے اس سے پہلے آنے والے رسول کا انکار کیا ان کا ایک ہی جیسا حشر ہوا۔
- کافروں کو اس بات کی طرف متنبہ کرنا کے وہ ایمان کے خلاف بے بنیاد دلائل پیش کر کے اپنے آپ کو خودفریبی میں نہ رکھیں۔
- ماضی بعید کے کھوئے ہوئے علم و حکمت کو واضح طور پر ظاہر کرنا، جس سے صرف بنی اسرائیل کے اعلیٰ ترین علماء ہی واقف تھے۔
اسی طرح مند درجہ دو آیات میں، جن کے درمیان 18 سورتوں کا فاصلہ ہے، تخلیق کائنات کا تقریبا ایک جیسا قصہ آیا ہے لیکن ان دونوں کا مدعا الگ الگ ہے:
“وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا، اُس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مدد گار ہے اور نہ کوئی اُس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟” (32:4)
“ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن کے درمیان کی ساری چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کر دیا اور ہمیں کوئی تکان لاحق نہ ہوئی” (50:38)
اگر ان آیتوں کو بالکل الگ کر کے پڑھا جائے تو ان کا مدعا ایک ہی دکھتا ہے۔ لیکن اپنے سیاق میں ہر آیت بالکل ہی الگ اور منفرد حقائق کو پیش کرتی ہے اور انہیں پختہ کرتی ہے۔ پہلا تو یہ ہے کہ انسان کو کبھی بھی خدا کے قادر مطلق ہونے اور مردہ کو آسانی سے دوبارہ اٹھانے کی طاقت پر شک نہیں کرناچاہیے (جو سورۃ سجدۃ کا مرکزی مضمون بھی ہے)۔ دوسرا (سورۃ ق) کہ ائے نبیؐ آپ تو اس بات کو یاد کر کے اپنے اوپر ہونے والی بے عزتی سے اوپر اٹھنے کا حوصلہ تو پا ہی سکتے ہیں، جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ خدا ان لوگوں کو کس طرح برداشت کرتا ہے جنھوں نے اس پر یہ الزام لگا یا کہ” کائنات کو چھے دنوں میں بنانے کے بعد ساتویں دن اسے تھکاوٹ کی وجہ سے آرام کی ضرورت پڑی”۔ جیسا کہ سورۃ ق کی اگلی آیت پھر کہتی ہے:
“پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ” (50:39)
ابن عقیلہ المکی (متوفی 1738) اپنی تصنیف کردہ قرانی علوم کے مجموعے میں تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ کس طرح قران اسی کہانی کو دوبارہ استعمال کرتاہے، بس اسے نئے سیاق میں بٹھا کر (کبھی کبھی لطیف انداز میں الفاظ کو بدل کر) غیر متعلقہ تصورات کی ایک بڑی تعداد کو نمایاں طور پر تقویت دینے کے لیے ۔
وہ پھر امام بخاری کی تشبیہ دیتے ہیں کہ کس طرح علماء کرام اس بات پر ان کے لگاتار گن گاتے رہتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے احادیث نبوی کی شاندار تدوین کی۔ خاص طور پر اس بات پر کہ وہ کس طرح ایک ہی روایت نبوی کو اتنے سارے باب میں باندھ دیتے تھے کیونکہ ایک ہی حدیث سے وہ کافی ساری تاویلات نکال پاتے تھے۔ یہاں یہ بات بالکل ملحوظ خاطر رکھنی چاہئے کہ امام بخاری اور ان کی ذہانت کے خالق کےدرمیان کوئی جوڑ ہی نہیں ہے۔ ابن عقیلہ کی فکر کی طرح ابن عابدین بھی یہ کہتے ہیں کہ
“اگر آپ قران میں کسی چیز کی تکرار دیکھ رہے ہیں تواس کے اندر ذرا گہرائی سے جھانکیں۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کیا آیا ہے اس پر دھیان دیں، تاکہ اس کا مطلب آپ پر وہ خود کھولے۔ “
قران کے کلام کا ایک اور قابل ذکر پہلو اس کا تہ بہ تہ چھپے ہوئے معانی ہیں جہاں ایک ہی کہانی یا منظر کے کافی سارے مطالب ساتھ ساتھ بنائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سورۃ قصص میں ہمیں موسی علیہ السلام کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ:
” اس کے پاس آئی ان دونوں عورتوں میں سے ایک چلتی ہوئی حیا سے کہنے لگی میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں۔۔۔” (28:25)۔
ہم یہاں “حیاسے” پر رک کر دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تابع فعل(adverb) ان کے چلنے کے انداز کی تفصیل بن جاتا ہے۔ البتہ اگر ہم “چلتی ہوئی” پر توقف کر یں تو پھر ” حیاسے” اس کے بعد آنے والے فعل کو بیان کرتا ہے جو ان کے مودبانہ انداز میں بات کرنے کی تفصیل پیش کرتا ہے۔ اگر “حیا سے” کا نحوی تعین لطیف انداز میں جان بوجھ کر “چلتی ہوئی” کے بعد اور “کہنے لگی” سے پہلے نہیں ہوتا تو بیک وقت یہ دونوں اشارے نہیں مل پاتے۔ فصاحت کا یہ صاف اور شاندار اظہار ایک گہری لسانی خصوصیت ہے جو قران میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے، اس کی کہانیوں میں اور دوسری جگہوں پر بھی۔ یہ قران کی ایک اور خصوصیت ہے جو قران کے عجلت پسند ناقدین پر کھل نہیں پاتی ہے۔ جہاں وہ ایک ہی آیت کے متعدد توضیحات کو باضابطگی کی کمی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، وہیں علماء قران اسے صحیفائی بیان کی افزودگی کی طرح دیکھتے ہیں اور اکثر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کس طرح وقف اور ابتداء(pausal modes) قرانی قصوں کو خاص طور پر گہرائی سے سمجھنے کے لیے ضروری ہتھیار ہیں۔
دوہری معنی کی ایک اور قسم ہمیں سورۃ یوسف کے اختتامی کلمات میں ملتی ہے جہاں اللہ کہتا ہے:
“اے محمدؐ، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ورنہ تم اُس وقت موجود نہ تھے جب یوسفؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی”(12:102)۔
اس آیت کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کھوئے ہوئے علم تک رسائی کا خصوصی اعزاز دیا تھا جو ان کی نبوت کا ثبوت تھا، جس میں اس کہانی کے شرارتی کرداروں کی خفیہ سازش کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔ البتہ، وہ واقعہ جو اس سورۃ کے نازل ہونے کا باعث بنااس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے لیے دھمکی کا کام کررہی ہے جو رسول صلی علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔
اس کی تفصیل کے لیے آپ دیکھیں کہ، یہود (اہل کتاب) سے عرب کے کفار و مشرکین نے مشورہ کیا کہ وہ کیا بہترین ہتھکنڈہ ہوسکتا ہے جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نیچا دکھایا جا سکے۔ ان کا مشورہ تھا کہ ان سے یوسف کے بارے میں پوچھا جائے جس پر سورۃ یوسف نازل ہوئی اور جس نے اپنی غیر معمولی سچائی سے مشیروں اور ان کے موکلوں کو حیران کر دیا تھا۔ البتہ سورۃ ،کہانی کے خاتمے پر ختم نہیں ہو جاتی ہے۔ اللہ کو تو یہ بات معلوم ہی تھی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنان اپنی حجت میں ہار جانے کے بعد ، ذہنی باتوں سے نکل کر پنجہ آزمائی پر آجائیں گے، اور جلد ہی جسمانی جارحیت کا منصوبہ بنائیں گے۔ سورۃ یوسف واضح طور پر اسی سیاق کو پیش نظر رکھتا ہے۔ سورۃ یوسف کی تکمیل سے ذرا ہی پہلے، ریل(reel) کو پھر گھمایا جاتا ہے اور یوسف کے بھائیوں کی طرف پیچھے پلٹایا جاتا ہے ۔ کس طرح انھوں نے منصوبہ بندی کی، سوچا سمجھا، اور اسے عمل میں لایا، اور پھر اللہ نے ان کے سوچے سمجھے منصوبے کو کس طرح ناکام بنا دیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے اللہ ان جھگڑالو کفار و مشرکین کو چیلنج کر رہا ہو کہ ، “ٹھیک ہے آگے بڑھو، اپنی اگلی چال چلو، خود اپنے خون اور نسل محمد اور قریش کے اپنے دوسرے بھائیوں کے خلاف منصوبہ بنانے کی ہمت کرو ۔ جس طرح یوسف کے بھائیوں نے ایک بار کیا تھا۔ آگے بڑھو اورمسلمانوں کوجلا وطن کرنے کے لیے اپنی خفیہ نشست بلاؤ ۔ اسی طرح جس طرح یوسف کے بھائیوں نے انھیں جلاوطن کیا تھا۔ ہم ہمیشہ تم سے ایک قدم آگے ر ہیں گے۔”
بنا کسی تنبیہ کے، مکہ کے بت پرستوں کو یہ احساس ہونے لگا:
اللہ صرف ان دیکھے ماضی کا پورا علم نہیں رکھتا، بلکہ وہ حال میں ہو رہی محتاط سرگوشیوں کی بھی خبر رکھتا ہے (جس پر کچھ عربوں کو شک ہوتا تھا)۔ اور اس سے زیادہ انھیں یہ بھی سمجھ میں آیا کہ صرف وہی نہیں منصوبہ بندی کر رہے ہیں بلکہ اللہ بھی ان کے خلاف منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ان کے لئے یوسف کی کہانی اوراس کی صدیوں پہلے مدفون تاریخ اور ان کے اپنے حال میں اچانک ایک خوفناک نسبت پیدا ہوگئی ۔ ایک الہی رچی ہوئی منصوبہ بندی کا پیچ (twist)۔ جس کہانی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنا ہتھیار بنانے کے لیے وہ اتنے دور تک کا سفر کیے تھے اچانک ان کی ہی کہانی بن گئی، جو انھیں کی طرف رخ کر رہی تھی، کسی خوش گوار اختتام کی ضمانت کے بغیر۔
مقالہ نگار: شیخ محمد الشناوی
مترجم: مجاہد الاسلام، عظیم پریم جی یونیورسٹی
بشکریہ : https://yaqeeninstitute.org/read/paper/the-unique-storytelling-style-of-the-quran