اسکولوں میں سماجی سائنس: کیوں اور کیسے

موجودہ دور میں سماجی علوم ملک گیر سطح پر اسکولی نصاب کا حصہ ہیں لیکن ماضی میں صورت حال کچھ مختلف تھی۔ آزادی سے پہلے مضامین جیسےسماجیات، سیاسیات، اور معاشیات صرف کالجوں اور یونیورسٹیز کے نصاب کا حصہ تھے۔ آزادی کےبعدان مضامین کوکافی فروغ حاصل ہواجس کےنتیجہ میں سماجی علوم کواسکولی نصاب میں بھی متعارف کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

سماجی علوم کوپالیسی سائنسیز بھی کہاجاتاہےحالانکہ سماجیات اورسیاسیات جیسے مضامین کا اثر پالیسی سازی میں محدود اور بالراست ہوتا ہے۔ طلباء کو قانون ساز یا مشیر بنانے کی امید رکھنا ایک بے جا امرہوگا البتہ ایک عمومی شعوردلانا کہ کس طرح معاشی، سیاسی اور سماجی کام طلباء کو روزمرہ زندگی میں پالیسی کی اہمیت کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ،بہتر ہوگا۔اس سے طلباء کو اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک بنیاد فراہم ہوگی کہ کن پالیسیوں کو اپنانا ہے اور جو پالیسیاں بنائی گئی ہیں وہ کیوں کامیاب اور ناکام ہوتی ہیں۔

میرے خیال میں سماجی علوم کا زیادہ کام پالیسی سازی میں نہیں بلکہ شہریت کی تعلیم میں ہے۔ ایک تعلیم یافتہ شہری جمہوریت کی فعال کارکردگی کیلئے ناگزیر ہے۔ایک اچھا شہری بننے کیلئے شہری قوانین کی تعلیم حاصل کرنا اور اس کو فرو غ دینا ضروری ہے اچھا شہری ہونے کیلئے صرف شہری قوانین ہی نہیں بلکہ اس کوسماجی حالات سے بھی واقف ہونا ضروری ہے جس کا وہ اٹوٹ حصہ ہے۔

سماجیات مضمون کے نہ صرف حدود میں بلکہ اس کی بنیادوں میں بھی ماہرین تعلیم اختلاف رائے رکھتے ہیں اسی وجہ سے اسکول کی سطح پرسماجی علوم کی تدریس میں مشکل درپیش ہوتی ہے۔

سماجی علوم کی تعلیم میں اہمیت کو بیان کرتے ہوئے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسکول کی سطح پرسماجی علوم کی تدریس کیلئے مشکلات درپیش ہیں۔ اسکولی سطح پر سماجیات اور سیاسیات جیسے مضامین کی تدریس بہت مشکل ہے بہ نسبت ریاضی اور طبیعیات کے۔میں یہ بات حتی الامکان پوری قوت کے ساتھ کہوں گا اور اس کی تشریح بھی کروں گا کہ مذکورہ بیان کیوں صحیح ہے۔جس کیلئے میری بحث کا دائرہ کار سماجیات اور سیاسیات ہیں لیکن اس کا اطلاق دوسرے سماجی علوم پر بھی ہوسکتا ہے۔

سماجیات اور سیاسیات کے کئی اہم عناوین ایک ہئیت میں   نہیں ہوتے ہیں، ان میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اساتذہ کو اسکولی سطح پر جہاں طلباء15 یا 16 سال کے ہوتے ہیں، سماجی علوم کی تدریس میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے برخلاف طبیعات اور کیمیاء کے اساتذہ کو ایسی مشکل نہیں ہوتی کیوں کہ ان میں تصورات کافی طور پر ٹھوس شکل میں ہوتے ہیں۔اس حقیقت کو اسکولوں کی اعلیٰ پالیسی ساز کمیٹیوں نے بہت حد تک نظر انداز کیا ہے۔

اگلی چند سطور میں مسئلے کی نوعیت کو مزید واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔ میرے ہم منصب جن کا تعلق سائنس سے ہے خاص طور پر طبیعات کے، مجھ سے کہتے ہیں، میں یہ کہہ کر مبالغہ کرتا ہوں کہ ان کے تعلیمی و تحقیقی میدان میں تصورات ٹھوس ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طبیعات کی حدود میں تصورات بہت کم حد تک ٹھوس ہوتے ہیں اور ان میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتے رہتی ہیں۔ اصل دیکھا جائے تو ہر مضمون کے ساتھ یہی معاملہ ہے لیکن سماجیات کے معاملے میں نہ صرف حدود بلکہ بنیادی اصولوں میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور یہی چیز اسکولی سطح پر اس کی تدریس کومشکل بنادیتی ہے۔

مجھے ایک پوسٹ گریجویٹ تعلیمی و تحقیقی مرکز پر سماجیات کے استاد کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا، جہاں میں کہا کرتا تھا کہ سماجیات میں جواب سے زیادہ اہم سوال ہے۔ ذہین طلباء کے امتحانات کے لئے ایک مشق(خاکہ) ترتیب دیا گیا تھا جس میں طلباء سے کہا جاتا تھا کہ وہ سوالات خود ترتیب دیں اور اس کے جوابات لکھیں، جانچ سوالات اور جوابات دونوں کے معیار پر ہوگی۔ طلباء بہت جلدمیرے ارادے کو سمجھ گئے اور پچھلے سالوں کے امتحانی پرچوں سے سوالات منتخب کرتے ہوئے ان کے سیر حاصل جوابات قلمبند کردیے۔ہندوستانی طلباء کسی بھی قسم کے امتحانی نظام کی مشکلات کا سامنا کرنے میں ماہر ہیں۔

پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر میں نے طلباء کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ ایک سوال کا کوئی ایک خاص جواب (حل) نہیں ہوتا، میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس سطح پر بھی تمام طلباء اس بات سے متفق ہوئے ہوں گے۔پندرہ یا سولہ سال کے اسکولی طلباء سوالات کے خاص جوابات معلوم کرنا چاہتے ہیں تاکہ امتحان میں کامیابی حاصل کی جاسکے، ایسے میں طبیعات اور کیمیاء کے اساتذہ طلباء کو زیادہ مطمئن کرسکتے ہیں بالمقابل سماجیات اور سیاسیات کے اساتذہ کے۔

امتحانی نظام کا دباؤ، طلباء اور اساتذہ  دونوں پر ہوتا ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ یہ دباؤ تدریس پر بہت اثر کرتا ہے، طلباء اور اساتذہ اپنے آپ کو امتحانی نظام کے آگے بے بس محسوس کرنے لگتے ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ امتحانی نظام میں وقفہ وقفہ سے جو تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، وہ طلباء اور اساتذہ کی اکثریت کو بے ترتیب، اچانک اور ناقابل فہم محسوس ہوتی ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ امتحانی نظام پران کا کنٹرول نہیں یا بہت کم ہوتاہے۔

بڑے پیمانے پر امتحانات منعقد کرنے کی وجہ سے امتحانی سوالات اور ان کے متوقع جوابات کے معیار کے تعین میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مزید یہ کہ تدریس اور مضمون کی متعلقہ کتاب کے معیار کے تعین میں بھی دشواری محسوس ہوتی ہے، کچھ مضامین اس سے مبرّا ہیں۔ سماجی علوم کے اساتذہ طلباء کے گریڈس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے جو کہ عام طور پر ایک روایت سی بن گئی ہے۔لہٰذا سماجی علوم کی تدریس اور جانچ ان ہی خطوط پر ہوتی ہے جو کہ پہلے فطری سائنس میں ہوا کرتی تھی جس سے سماجی سیاسی اور معاشی زندگی میں جو نقائص پائے جاتے ہیں وہ دور ہوتے ہیں۔

اسکولی سطح پر سماجی علوم کی تدریس اس لئے پیچیدہ بن جاتی ہے کیوں کہ یہاں اقدار کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ اقدار پر مبنی فیصلہ اور حقیقت پر مبنی فیصلہ کے درمیان تفریق سے متعلق سوالات کا سامنا دوسرے فطری سائنسوں میں نہیں ہوتا جتنا سماجی علوم میں ہوتا ہے۔

سماجی علوم کا تعلق ان حقائق سے ہے جو بے ساختہ اور پیچیدہ ہیں۔ کسی بھی سائنس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حقائق کو جوں کا توں بیان کرے چاہے ان کا تعلق فطرت سے ہو یا سماج سے۔ فطری سائنس میں عام فہم اور روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے مشاہدات، بیانات اور حقائق کا تجزیہ کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن جب ہم سماج، سیاست اور معیشت کو پڑھتے ہیں تو ایسا ممکن نہیں۔ ان میں ہماری ذاتی ترجیحات کا دخل لازماََ ہوتا ہے۔جب ہم سماجی علوم کی بات کرتے ہیں تو اس میں حقائق کو بیان کرنے کے کچھ منظم طریقے ترتیب دئے گئے ہیں۔یہ طریقے ان طریقوں سے مختلف ہیں جو فطری سائنس میں استعمال کئے جاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ سماجی سائنٹسٹ، فطری سائنٹسٹ کے مقابلے میں عام فہم اور ذاتی ترجیحات کو مشاہدات، بیانات اور حقائق کے تجزیہ میں استعمال کرنے میں زیادہ آزاد ہے۔

تعلیم یافتہ ہندوستانیوں میں اخلاقیات کو اپنا نے کی ایک غیر معمولی لگن ہوتی ہے بالخصوص ٹیچرس میں یہ لگن زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن فطری سائنس اور سماجی علوم کے طریقوں کے مطابق اخلاقیات، بیان اور تجربہ کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ یہاں دونوں سائنسوں میں ایک فرق پایا جاتا ہے۔ ایک طبیعات کے استاد کو الیکٹران اور پروٹان کی تدریس کے دوران اخلاقیات کے درس کی گنجائش نہیں میسر ہوتی۔ جب کہ دوسری جانب ایک سماجی علوم کا استاد خاندان، بازار اور بیوروکریسی کی تدریس کے دوران آزاد ہوتاہے کہ وہ اخلاقیات کے پہلوؤں کو بیان کرے۔ جس کے نتیجہ میں وہ اپنی ترجیحات اور خیالات کو سماجی اقدار کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں، اس سے کچھ طلباء الجھن میں پڑجاتے ہیں جب کہ کچھ طلباء ان خیالات کو قبول کرلیتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ سماجی علوم کے اساتذہ کی ذمہ داری اخلاقیات کی تعلیم دینا اور اچھے اقدار کو طلباء میں فروغ دینا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اخلاقیات کی تعلیم سماجی حقائق کی تدریس کے دوران ہی دی جائے یا علٰحیدہ طور پر اس کا نظم کیا جائے۔ سماجیات، سیاسیات اور معاشیات کے تعلیمی مواد میں اخلاقی اقدار کی شمولیت ایک اہم مسئلہ ہے جس کے نقصانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے پہلے ہی سماجی علوم کے ان بنیادی معاملات میں اختلاف رائے کا حوالہ دیا ہے جن کا تعلق تصورات، تدریسی طریقوں اور نظریات سے ہے۔ کن اقدار کو صحیح (مثالی) اقدار کہا جائے گا یہ ایک گرماگرم بحث ہے۔

چند بنیادی اقدار کو ہندوستان کے دستور میں شامل کیا گیا ہے، طلباء کو ان اقدار کی ساخت اور اہمیت سے واقف کروانا چاہیے اور ان اقدار کو اپنی عملی زندگی میں اپنانے کے لئے طلباء کی ہمت افزائی بھی کرنی چاہیے۔ دستور میں بنیادی اقدارکو بہت ہی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جب ہم ان کا تفصیل سے مطالعہ کریں گے تب ہی ان اقدار کی باریکیوں اور مسائل کو اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔

چند مخصوص اقدار کو ملک گیر سطح پراسکولی نصاب میں شامل نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ جمہوریت کے بنیادی اصول کے منافی ہے۔جمہوریت تو اقدار میں تنوع کا درس دیتی ہے۔ہندوستان کی یہ ایک خوبی ہے جس پر ہمیں فخر ہے کہ یہاں مختلف قسم کی تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آپس میں رواداری کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ نصاب میں اقداری تعلیم کی شمولیت سے اس رواداری کے جذبے کو ٹھیس نہ پہونچے۔

مختلف قسم کی سماجی روایات اور اقدار ہوتے ہیں ان کے تحفظ پر زور دینا چاہیے۔ جب ہم ہندوستانی سماج کی بات کرتے ہیں تو ہندوستانی سماج مختلف زبانوں، مذاہب، قبائل، ذاتوں، تہذیبوں اور جماعتوں کا گہوارہ ہے۔ مخصوص اقدار یا ایک مخصوص مثالی سماج کے تصور کو فروغ دینا، دوسری جماعتوں اور تہذیبوں کو نقصان پہونچائے بغیر ممکن نہیں۔

آخر میں میرے اس مشاہدے کی طرف یاددہانی کروانا چاہوں گا جس سے میں نے آغاز کیا تھا سماجی علوم کی تدریس کا سب سے اہم قاعدہ شہریت کی تعلیم ہے۔طلباء کو شہریت کی تعلیم دینے سے قبل اس امر سے واقف کروایا جائے کہ وہ فطری اور سماجی دنیا کے بارے میں منظم اور واضح انداز میں سوچنے اور سمجھنے کے قابل بن جائیں۔ طلباء کو مختلف قسم کے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچوں (یا خاکوں) کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ جوشیلے اساتذہ اور کتاب کے مصنف کی ذاتی رائے اور ترجیحات، طلباء کو متاثر نہ کریں۔

الغرض اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تنوع   (یعنی کثرت میں وحدتہمارا ایک اہم اثاثہ ہے تو ہمیں چاہئے کہ طلباء کواس کی اہمیت کے بارے میں واقف کروائیں اور طلباء کو اس تصور میں دلچسپی لینے کی ہمت افزائی کریں۔ سماجی علوم کا شہریت کی تعلیم میں سب سے اہم رول یہ ہوگا کہ وہ طلباء کے اندر اپنی زندگی کے تئیں تجزیاتی نقطہ نظراور دوسروں کی زندگی کے تئیں ایک روادارانہ جذبہ فروغ دے۔

————————————————-

مضمون نگار: آندرے بیٹلّے
مترجم: محمدعبد الباطن

بشکریہ: لرننگ کرو، اشو(سوشیل سائنس)

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے