فن تعلیم و تربیت – افضل حسین – باب دوم – تعليم کا مفہوم


اس سلسلہ کا پچھلامضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

بچوں کی تعلیم،ایک ایسا موضوع ہے جس سے کم وبیش ہرایک کو دلچسپی ہو تی ہے۔کسی مجلس میں اس مسٔلہ کو چھیڑ کر دیکھ لیجئے۔ مرد،عورت،امیرغریب شہری دیہاتی، مسلم، غیر مسلم، غرض ہر فرقے و طبقے کے لوگ متوجہ ہوجائیں گے اور موقع   ملا تو ہر ایک اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ تبصرہبھی کر دے گا۔
یہ عمومی دلچسپی کچھ فطری بھی ہے کیوں کی:

  •  اللہ کے فضل سے سب بال بچے والے ہوتے ہیں اور سب کو اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر بھی ہوتی ہے
  • ہر ایک اپنی اولاد کو اپنے سے بڑھ چڑھ کر دیکھنا چاہتا ہے اور اس کیلئے تعلیم وتربیت کا سہارا ڈھونڈھتا ہے ۔
  • ہر ایک کی بعض آرزوئیں اور تمنائیں ایسی ہوتی ہیں  جو اسکے اپنے ہاتھوں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔ وہ اپنی اولاد کے ذریعے اُنکی تکمیل چاہتاہے، چناں چہ اس کیلیے وہ منا سب تدابیر معلوم کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
  • اپنے آدرشوں کے مطابق اپنی اولادکو پروان چڑھتا نہیں دیکھتا تو ہر ایک کڑھتا ہے اور بے اطمینانی کااظہار کرتا ہے
  • مستقبل کی تیاری کے لیے قدرت نے بچپن کی جو طویل مدت عطافرمائی ہے ہر ایک اسے کار آمد بنانا
    چاہتا ہے۔

لیکن اس مسٔلہ پر لوگوں کے تبصرہ کا تجزیہ کیجیے،جتنے منہ اتنی باتیں ہوں گی ۔ایسا محسوسہوگا کہ ہر ایک کے ذہن میں تعلیم کا ایک الگ مفہوم ہے اور ایک جدا گانہ تصور۔ بمشکل چند افراد ایسے ملیں گے جو کسی ایک مفہوم یہ ایک تصور پر متفق ہوں یہاں تک کہ ماہرینِ تعلیم کے مابین بھی اس ضمن میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

اس انتشار فکری کے بھی دراصل متعدد وجوہ ہیں

۱۔ نظریٔہ حیات کا اختلاف

زندگی کے متعلق لوگوں کے نظریات مختلف ہیں۔  کچھ لوگ دنیوی زندگی اور اسکی لذتوں ہی کو سبکچھ سمجھتے ہیں تو کچھ لوگ زندگی بعد موت کے قائل ہیں اور آخرت کی کامیابی کو منزلِ مقصود قرار دیتے ہیں، کسی کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف دولت سمیٹنا اور بینک بیلنس بڑھانا ہےتوکسیکے نزدیک قوت واقتدار حاصل کرنا اور دوسروں پر رعب جماناہےبعض لوگ دنیوی جھمیلوں سے الگ تھلگ راہبانہ زندگی میں یقین رکھتےہیں بعض دنیاکے ہنگاموں سےگزرتےہوئےخدا کی خوشنودی حاصل کرناضروری سمجھتے ہیں۔نظریۂ حیات کا یہی اختلاف تعلیم وتربیت کے متعلق تصوّرات میں بھی اختلاف کا موجب ہوتا ہے۔

 

۲۔ آدرشوں کا اختلاف

مختلف لوگوں کے سامنے مختلف آدرش ہوتے ہیں۔کوئی اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا چاہتا ہے،کوئی انجینئر،کوئی لیڈر بنانا چاہتا ہے۔کوئی پیلیڈر، کسی کے سامنے زراعت یا تجارت ہوتی ہے،کسی کے سامنے صحافت یاسیاست،کوئی عالم دین بنانےکاخاہان ہوتا ہے تو کوئی ملازم سرکار، غرض جیتنے افراد اتنے آدرش۔آدرشوں کے اس اختلاف کے نتیجے میں تصورات میں اختلاف پیداہوتا۔
۳۔ ماحول کا اختلاف

ہر مقام کا فطری وسماجی ماحول جدا ہوتا ہے،اپنے ماحول میں فٹ ہونے کیلئے افرادمیں کچھ مخصوص اوصاف اور صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں جو تعلیم وتربیت ہی کے ذریعے پروان چڑھائی جاسکتی ہیں، ماحول اور اس کے تقاضوں کا یہی اختلاف تعلیم کے بارے میں تصورات میں اختلاف کا موجب ہوتا ہے۔

۴۔ حالات وضروریات میں اختلاف

ہر ایک کہ اپنے مخصوص حالات ہوتے ہیں اور ہے ایک کی جدا جدا ضروریات،تعلیم میں انکی رعایت نہیں کی جاتی تو اسے بے اطمینانی ہوتی ہے۔

۵۔ شخصیت کی پیچیدگی

انسان کی شخصیت بڑی پیچیدہ ہے،اسکےمتعدد پہلو ہیں مثلاً ذہنی، جسمانی،عملی اور اخلاقی وغیرہ،کسی کے نزدیک ایک پہلو اہم ہوتا ہے کسی کے نزدیک دوسرا۔ہر ایک تعلیم وتربیت کے ذریعے اپنے پسندیدہ پہلو کی نشو ونما اور ترقی کواہمیت دیتا ہے اور اسمیں کمی پاتا ہے تو بے اطمینانی کا‌اظہار کرتا ہے۔

۶۔ تعلیمی اسکیموں میں اختلاف

ماہرینِ تعلیم نے غور وفکر اور تجربے سے متعدد تعلیمی ا سکیمیں نکالی ہیں۔کسی کو ایک اسکیم پسند ہے کسی کو دوسری۔

۷۔ طریق تعلیم کا اختلاف

مختلف لوگوں نے اپنے اپنے تجربات کے مُطابق تعلیم وتربیت کے مختلف طریقوں کو مفید اور کامیاب پایا ہے،چنانچہ آج متعدد طریقے رائج ہیں۔ہر ایک اپنے پسندیدہ طریقے ہی کو صحیح اور معقول سمجھتا  ہے۔

تعلیم کے معنیٰ

(علم سے باب تفعیل میں)تعلیم کے لغوی معنیٰ کسی کو کچھ بتانا، پڑھانا یا سکھانا۔بعض لوگ غلط فہمی میں اسکو تدریس کاہم معنیٰ سمجھتے ہیں۔ طلبہ کوبعض مضامین یا کتب کا درس دے دینا یا اُنہیں لکھناپڑھنا اور حساب وغیرہ سکھا دیناحالاں کہ یہ بہت جامع لفظ ہے۔اسکے مفہوم میں تدریس کے ساتھ ساتھ تدریب(فنون میں مہارت پیدا کرنا)تادیب(ادب سکھانا)اور تربیت(شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی ہم آہنگ نشوونما کرنا)بھی شامل ہے

تعلیم کا محدود اور وسیع مفہوم

تعلیم کا لفظ آتے ہی ذہن عمومًا اُن منظّم کوششوں کی طرف منتقل ہوتاہے جو طلبہ کیلئے تعلیمی ادارے انجام دیتے ہیں۔بلا شبہ باضابطہ اور رسمیFormalتعلیم یہی ہے اور اسکے اثرات بھی بہت دوررس ہوتے ہیں۔مگریہ تعلیم کا بہت ہی محدود مفہوم ہے۔

کیوں کہ تعلیمی ادروں میں تو بچے بہت کم وقت گزارتے ہیں اوربہت ہی محدود معلومات وتجربات حاصل کرتے ہیں جب کہ انکے جاننے، سیکھنے اور تجربات حاصل کرنے عمل پیدائش سے لیکر موت تک برابر جاری رہتا ہے تعلیمی اداروں کی باضابطہ تعلیم کے علاوہ نہ جانے کتنی باتیں وہ اپنے گھر،محلّے پڑوسی،فطری وسماجی ماحول اور اپنے گردشِ و پیش پھیلی ہوئی دنیا اور اسمیں بسنے والے افراد سے سیکھتےہیں۔اگرچہ یہ تعلیم غیر رسمی اور بے ضابطہ(Informal)  ہوتی ہے لیکن اثرات و نتائج کے اعتبار سےباضابطہ تعلیم سے کم نہیں ہے۔

اسطرح تعلیم کے وسیع مفہوم میں وہ تمام معلوماتو تجربات شامل اہم شمار ہوتے ہیں جو گود سے گور تک ہر فرد باضابطہ یا بے ضابطہ خود حاصل کرتا ہے یا  اُسے حاصل کرائے جاتے ہیں۔

ماخوذ: فن تعلیم وتربیت (مصنف :  افضل حسین )  –   باب دوم
باب سوم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے