فن تعلیم و تربیت – افضل حسین – باب سوم – تعلیم و تر بیت پراثر انداز عو امل


اس سلسلہ کا پچھلامضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

تعلیم کے اس وسیع مفہوم سے یہ بات بخوبی وا ضح ہو جاتی ہے کہ بچو ں کی تعلیم وتر بیت پر متعدد عوامل (Agencies) اثرانداز ہو تے ہیں۔ ان میں سے خاص خاص یہ ہیں۔

(۱) گھر (۲) مدرسہ (۳) ماحول (۴) معاشرہ (۵) مملکت یا حکومت۔

۱۔گھر

بچّوں کے سادہ دہن دماغ پر گھر  یلو زندگی کے جو گہر ے نقوش ثبت ہو جا تے ہیں وہ زند گی بھر نہیں مٹتے۔مدرسے میں دا خل ہونے کے بعد بھی گھر کی اہمیّت کم نہیں ہو تی ۔ کیو نکہ مدرسے میں  بّچےصرف چند گھنٹے ر ہتے ہیں۔ اس مختصر وقت میں انہیں لکھا نا پڑ ھانا ، ان کی جسما نی ، عملی اور اخلا قی تر بیت کر نا ، ان کے عادات وا طوار پر نظر رکھنا یہ سب کام گھر کے تعاون کے بغیر تنہا مدرسہ کسی طرح بھی انجام نہیں دے سکتا۔

تعلیم و تر بیت کا اّو لین اور اہم ترین ادارہ گھر ہے۔  پیدائش سے لے کر چارپا نچ سال کی عمرتک بچّے کی ساری چلت پھرت گھر کی چہاردیو اری تک محدودرہتی ہے۔گھر کے افراداور گھریلوما حول کا جو اثر بچہ قبول کر تا ہے وہ بہت ہی دُوررس اور انتہائی اہم ہو تاہے۔ یہیں وہ اُ ٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھر نا ، کھانا پینا ، بات چیت کر نا غرض سب کچھ سیکھتا ہے یہیں اسے وہ حقیقی محّبت و شفقت ،ہمدردی و تعاون اور آسائش و ناز داری نصیب ہو تی ہے جو اس کی تربیت و پرورش کے لیے نہایت ضروری ہے ، ماں ، باپ ، بہن بھائی ، دادا دادی اور دوسرے اعزہ و اقارب مختلف حیثیتوں سے اس کے معلم کاکام انجام دیتے ہیں ، ان کے عادات واطور ، حرکات و سکنات کی تقلیدکر کے بچّہ اپنے کو مختلف اوصاف سے متصف کر تا ہے ، بچّوں کے سادہ دہن دماغ پر گھر  یلو زندگی کے جو گہر ے نقوش ثبت ہو جا تے ہیں وہ زند گی بھر نہیں مٹتے۔مدرسے میں دا خل ہونے کے بعد بھی گھر کی اہمیّت کم نہیں ہو تی ۔ کیو نکہ مدرسے میں  بّچےصرف چند گھنٹے ر ہتے ہیں۔ اس مختصر وقت میں انہیں لکھا نا پڑ ھانا ، ان کی جسما نی ، عملی اور اخلا قی تر بیت کر نا ، ان کے عادات وا طوار پر نظر رکھنا یہ سب کام گھر کے تعاون کے بغیر تنہا مدرسہ کسی طرح بھی انجام نہیں دے سکتا۔گھر کو بہرحال مندرجہ ذیل فر ائض انجام دنیے ہی پڑیں گے۔

فرائض    

  • پرورش  جسما نی تر بیت اور صحت و صفائی کی دیکھ بھال۔کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کا منا سب بند وبست کرنا،جسم اور لباس کی صفائی ، پا بندی سے نہا نے دھونے،کپڑے بدلنے، ناخن اور بال تر شو انے وغیرہ کا اہتمام کر نا۔کھیل کُودیا ورزش اور حفظانِ صحّت کے اصولوں کی پابندی کر انا و غیرہ۔ 
  • بچےّ کی عادات وا طوار پر نظررکھنا۔شفقت و محبّت سے ان کی تربیت کر نا اور رفتہ رفتہ پسند یدہ عادات و معمو لات کا پابند بنانا۔
  • تعلیم و تر بیت کے ضمن میں مدرسے کی طرف سے د ی ہو ئی ہدایات کی پابندی کرانا۔
  • گھریلو زندگی کو پا کیزہ بنا نے اور افرادخاند ان کے اہم تعلقات کو استوار رکھنے کی پوری کوشش کر نا تاکہ بچہ شعوری تقلید کےلیےاچھےنمونے پاسکے۔
  • گھر کے کا م کاج میں ہا تھ بٹا نے کے مواقع د ینا ، فرصت کے اوقات کے لیے کوئی دلچسپ مشغلہ(ہا بی)فراہم کرنا نیز صلاحیت کے مطابق کو ئی گھر یلوذمہ داری سپردکرنا  تاکہ محنت و مشقت ، احساس ذ مہ داری، انہماک تعاون و غیرہ کا عادی بنایا جا سکے۔
  • ہمجولیوں کے ساتھ کھیلنے کُو دنے اور اعزہ واقارب سے ملنے جُلنے کے مواقع دینا تا کہ معاشرتی تر بیت ہو سکے البتہ ہمجو لیوں کے عادات داطوارپرنظر رکھنا اور بُری محبت سے بچانا بھی ضروری ہے۔
  • بچّوں کی عّزت نفس کا لحاظ رکھنا اور جائز حددو میں ان کے ذوق اور جذبات کی پوری رعایت کرنا۔
  • بچّہ ا گر کسی ایسے مدرسے میں پڑھنے پر مجبورہے جہاں دینی تعلیم و تر بیت کا بندوبست نہیں ہے تو اپنے طور پر اس کابندوبست کرنا۔

صنعتی انقلاب نے گھر یلو نظام کو اور زیادہ درہم بر ہم  کر دیا ہے ۔ باپ کہیں  رہتا ہے بچے کہیں ۔ بھلا ان کی دیکھ بھال کون کر ے ؟ نتیجہ  یہ ہو تا ہے کہ مدرسے عمو مََا گھر وں کے تعاون سے محروم رہتے ہیں ۔ محدود ومسا ئل کے با عث مدارس بھی عام طور پر اقامتی نہیں ہو تے اسی  لیے تعلیم و تر بیت کی پُوری ذ  مہّ د اری تنہا نہیں اٹھاسکتے ، چنا نچہ بچوں کی تعلیم و تر بیت بے حدمتاثر ہو رہی ہے ۔

یہ ہیں وہ بنیادی فرائض جو صحیح طور پر گھر ہی انجام دے سکتا ہے اور اسی کو دینا بھی چا ہئیے ، لیکن جہالت ، افلاس ، مسائل وذرائع کی کمی ، والدین کی مصروفیت اور عمو می بگاڑ کے با عث بہت کم گھر اپنے ان فرائض کو کما حقہ ، انجام دیتے یا دے سکتے ہیں ۔ صنعتی انقلاب نے گھر یلو نظام کو اور زیادہ درہم بر ہم  کر دیا ہے ۔ باپ کہیں  رہتا ہے بچے کہیں ۔ بھلا ان کی دیکھ بھال کون کر ے ؟ نتیجہ  یہ ہو تا ہے کہ مدرسے عمو مََا گھر وں کے تعاون سے محروم رہتے ہیں ۔ محدود ومسا ئل کے با عث مدارس بھی عام طور پر اقامتی نہیں ہو تے اسی  لیے تعلیم و تر بیت کی پُوری ذ  مہّ د اری تنہا نہیں اٹھاسکتے ، چنا نچہ بچوں کی تعلیم و تر بیت بے حدمتاثر ہو رہی ہے ۔ گھر یلو نظام کو مستحکم رکھنے اور افراد خاندان کو بچوں سے متعلق اپنے فرائض کو انجام  دینے کی طرف برابر تو جہ دلاتے رہنا چا ہیےورنہ آ ئندہ نسلوں کا خداہی حافظ ہے۔

 ۲ ۔ مدرسہ

بچوں کی تعلیم و تربیت پر اثر انداز ہو نے والا و وسراسب سے مّوثرعامل مدرسہ ہے ۔ بچّوں کی شخصیت کے مختلف پہلو وّں کو ہم آ ہنگی کے ساتھ پروان چڑھانے کی ذمّہ داری اسی کے سپردہو تی ہے ۔ بچے جو کچھ مدرسے کے باہر سیکھتے ہیں اس میں نہ توکو ئی نظم ہو تا اور نہ تر تیب ، مدرسہ ایک  منظم ادارہ ہوتا ہے جو با صلاحّیت اساتذہ کی مددسے ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ بچوں کو تعلیم د یتا اور ان کی سیرت و شخصیت کو سنوار تا ہے۔ گھر کی طرح اپنے مدرسے سے بھی بچّوں کو جذباتی لگاؤہوتاہے۔ وہ اپنے استا دکو دنیا کا سب سے بڑ اآدمی سمجھتے ہیں ، اسکی معلو مات پر غیر معمولی اعتمادکر تے ہیں ، اس کی سیرت و کردار کو اپنے لیے قا بلِ تقلید اسوہ سمجھتے ہیں۔ مدرسے کی فضا انہیں بے حدمتا ثر کر تی ہے۔یہاں بچے کی سیرت و شخصیت پر جو نقوش ثابت ہو تے ہیں وہ زندگی بھر قائم رہتے ہیں ، انہیں و جوہ سے اس عامل کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔

مدرسے کے فرائض

مدرسے کو مندرجہ ذیل فرائض انجام دینے پڑتے ہیں:

  • بچوں کی مختلف علوم و فنون میں مہارت  پیداکرنا ۔ بچّے اِدھراُدھر سے جو کچھ سیکھتے یا معلومات حاصل کر تے ہیں وہ عمومی طور پر  نا قص یا نا کافی ہو تی ہیں۔ان میں کوئی نظم و ترتیب بھی نہیں ہو تی ، مدرسے کا فرض ہے کہ وہ ایک خاص   ترتیب کے ساتھ انہیں معلومات بہم پہنچا ئے اور مہارت پیداکر ے۔
  • اصلاح وتر بیت کر نا ۔ علمی، عملی، جسمانی یا اخلاقی حیثیت سے بچّوں میں جو خرابیاں جڑپکڑ نے لگتی ہیں ، ان کی اصلاح کر نا ، پسند یدہ عادات وا طور کا حامل بنانا ۔ ان کی اندرونی  صلاحیتوں کو صحیح رُخ پرڈانا ، نیز انہیں ان عملی واخلاقی او صاف سے متصف کر نا جو انفرادی ، اجتماعی اور عا ئلی ذ مّہ دار یوں کو بحسن و خو بی انجام د ینے میں معاون ہوں۔
  • بچّو ں کے اندربُرےبھلے کی تمیز ، حق سے محبت اور با طِل سے  نفرت بھلا ئیوں کے پھیلانے اور بُرائیوں کے مٹا نے کا جذبہ بیدارکرنا تاکہ وہ معاشر ے کے نا پسندیدہ  رجحانات کا مقابلہ کر سکیں خوداس کاشکار ہو نے سے محفوظ رہیں -اور دوسردں کو بھی بچانے کی کوشش کریں۔
  • بچپن اور جوانی ، کتابی دنیا اور عملی دنیا، مدرسے اور معاشرے کے مابین جو خلاہے اُسے پُر کر نا ۔تاکہ بچے حقیقی دنیا میں کا میابی کے ساتھ زندگی گزار سکیں ۔
  • بنی نو ع انسان کے کار آمدتجربات اور اسلاف سےملِے ہو ئے علمی ، فنی اور ثقا فتی ورثہ کا تحفظ اور اُن میں منا سب اضافہ کر کے آیٔندہ نسلوں کو منتقل کرنا ۔ ہمارے اسلاف نے محتلف علوم و فنون کا جو ورثہ چھوڑاہے مدرسے کا فرض ہے کہ ان کو ضائع ہو نے سے بچا ئے اور اپنی تحقیق و تجربے سے اس میں مناسب اضافہ کرکے اگلی نسلوں کو منتقل کر ے۔
  • بچوں میں یہ جذبہ اُ بھارنا کہ وہ اپنے علم پرخود بھی عمل کریں اور اسے دوسروں تک پہنچا  ئیں۔
  • سماج کو وعلم و فضل کی ایک کسو ٹی فراہم کرنا۔ یعنی مدرسے کی دی ہو ئیِ سندوں سے سماج اندازہ  لگا سکے کہ کسی سند کا حامل کن صلاحیتوں کا مالک ہے اور وہ کس طرح کی ذ مّہ دار یاں اٹھاسکتاہے۔
  • طلبہ کے مابین ذ ہنی ، جسمانی ، معاشرقی اور اخلاقی اعتبار سے جو فرق ہوتاہے اسےملحو ظ رکھتے ہو تےان پر انفرادی تو جّہ د یناتا کہ ہر بچہ اپنی بساط و صلا حیت کے مطابق آ گے بڑھ سکے۔ 

                           ۳۔ قریبِی ماحول

یہ تیسرااہم عامل ہے۔بچّو ں کی تعلیم و تربیت پر  ان کے ماحول کا بھی بہت گہرا اثر پڑ تا ہے۔ بچّہ جس جغرافیِائی  ماحول میں رہتا ہے۔ جس طرح کے  مناظر سے دو چار ہوتا ہے، جس طبقے سے تعلق رکھتاہے ،جن بچّو ں کے ساتھ کھیلتا کو دتااوراُٹھتا بیٹھتاہے ،اُن سب  کا مجموعی اثر قبول کرتا ہے ۔ پاس پڑوس کے لوگوں کے رہن سہن، عقائد و اعمال ، رسم ورواج وغیرہ سے متاثر ہوتا ہے۔ماحول اگر اچھا ہوتو مدرسے اور گھر دونوں کی کوششیں بارآو رہو تی ہیں ورنہ دونوں کو بڑی دشواریاں پیش ہیں۔بسا اوقات بھلے گھر وں کے بچّے اور معیاری مدارس میں تعلیم حاصل کر نےو الے طلبہ بھی باوجود ہر طرح کی کو ششوں کے بُرے ماحول کا شکار ہو جاتے ہیں ، اور ان کی اُٹھان مطلوبہ پہنچ  پر نہیں ہو پاتی ۔اس لیے ماحول کو بھی تعلیم و تر بیت کے لیے سازگار بنا نے کی پوری کوشش ہو نی چا ہئیے۔

                                             ۴     ۔ معاشرہ

انسان عمومی طور پر  اپنے ماحول اور معاشر ے ہی کی پیداوارہو تاہے، بہت کم افراد ایسے انقلابی ذہن کے ہوتے یا براہیمی نظر کھتے ہیں جو اپنے گر دو پیش سے بند ہو کر کچھ سوچ اور کرسکیں ۔معاشر ے میں جن چیزوں کا چلن ہوتا ہے ، افراد بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر انہیں کو اپنا لیتے ہیں۔

مثال کے طور پر مختلف قسم کی مذہبی ، سماجی و سیاسی جماتیں کلب، سوسائٹیاں ، پریس ، پلیٹ فارم ، سینما ، ریڈیو ، میلے ٹھیلے، دارالمطالعےو کُتب خانے ، عجائب گھر اور نمائش گا ہیں، خدمتِ خلق اوررفاہِ عامہ کے ادارے وغیرہ ۔ افراد ساری زندگی ان سے کچھ نہ کچھ سیکھتے اور ان کے اثرات قبول کر تے رہتے ہیں ۔ معا شرے کے یہ مختلف عناصر اگر صحیح بنیادوں پر کا م کر تے ہیں تو افراد کو اونچا اٹھا نے اور ان کی سیرت و کر دار کو سنو ارنے میں بہت معاون ہو تے اور اپنے لیے بے لوث خادم تیارکر تے ہیں ورنہ ان کی وجہ سے افراد بگڑتے اور معاشرے کے ساتھ خود انہیں بھی لےڈوبتے ہیں۔

آج کی سوسائٹی ہیں متعدد عنا صر سرگرم عمل نظر آ تے ہیں اور افراد اپنے بُرے بھلے نقوش ثابت کر تے رہتے  ہیں ۔ مثال کے طور پر مختلف قسم کی مذہبی ، سماجی و سیاسی جماتیں کلب، سوسائٹیاں ، پریس ، پلیٹ فارم ، سینما ، ریڈیو ، میلے ٹھیلے، دارالمطالعےو کُتب خانے ، عجائب گھر اور نمائش گا ہیں، خدمتِ خلق اوررفاہِ عامہ کے ادارے وغیرہ ۔ افراد ساری زندگی ان سے کچھ نہ کچھ سیکھتے اور ان کے اثرات قبول کر تے رہتے ہیں ۔ معا شرے کے یہ مختلف عناصر اگر صحیح بنیادوں پر کا م کر تے ہیں تو افراد کو اونچا اٹھا نے اور ان کی سیرت و کر دار کو سنو ارنے میں بہت معاون ہو تے اور اپنے لیے بے لوث خادم تیارکر تے ہیں ورنہ ان کی وجہ سے افراد بگڑتے اور معاشرے کے ساتھ خود انہیں بھی لےڈوبتے ہیں۔

معاشرے کے فرائض 

معاشرے کا فرض ہے کہ وہ:۔

  • اجتماعی ضمیر کو بیداررکھے تا کہ بُرے عنا صر اُبھرکر معاشرے کو بگاڑ نہ سکیں۔ 
  • طرح طرح کے اداروں ، کلبوں اور سوسائٹیوں وغیرہ سے اپنے آپ کو مالامال رکھے تا کہ ہر صلاحیت اور رجحان کے افرا داپنے ذوق اور بساط کے مطابق خود بھی استفادہ کر سکیں اور سماج کو بھی فائدہ پہنچا سکیں۔ 
  • افراداوراداروں کی سر گر میوں پر نظر رکھے ،معروف میں ان کے سا تھ پُورا تعاون کر ے اور منکرات کی ر و ک تھام کے لیے سر گر م عمل ر ہے۔
  • سماج کے پس ماندہ ، معذ وراو رکچلے ہوےافراد کو سہارا دینے اور ان کی صلا حیتوں کو برو ئے کا رلا نےکا اہتمام کر ے۔

 ۵۔حکومت یا مملکت

مملکت کا دائرہ اختیاردن بہ دن وسیع ترہوتا جارہاہے ۔اجتما عی اُ مورسےآ گے بڑھ کر اب وہ انفرادی زندگیوں میں بھی دخل دینے لگی ہے، اس کے وسائل وذرائع بہت وسیع ہیں ۔ شہریوں کی زندگی کا کوئی شعبہ  اس کے اثر ات سے خالی نہیں ۔ چنانچہ تعلیم و تربیت کا بھی یہ سب سے بڑا اور سب سے مو ثرعامل ہے۔ ایسی صورت میں اس کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔

فرائض

مملکت کے حسبِ ذیل افراد ہیں:

  •   ابتدائی تعلیم و تربیت سے ہر شہری کو آراستہ  کر نا۔
  • بالغان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کر نا۔
  • بلا لحاظ مذہب وملت ، رنگ و نسل ہر ایک کو اس کی صلاحیت کے مطابق تعلیم حاصل کر نے کے مواقع دینا۔
  • علم و فن ، طب وجراحت صنعت و حرفت  ، انجنیئرنگ  و زر اعت و غیرہ کی تر قی کے لیے چھوٹے بڑے طرح طرح کے متعدد ادارے قا ئم کر نا۔ 
  • اقلیتوں کو ا پنی پسند کے ادارے چلانے کی سہولتیں بہم پہنچا نا۔
  • پرائیویٹ اداروں کو حتی الا مکان آزادی سے کام کرنے کے مواقع دینا۔
  • شہریوں کی تعلیم و تر بیت پر غیر معمولی توجہ دینا اور ملکی بجٹ میں اس کے لیے زیادہ گنجائش نکا لنا۔
  • نادار طلبہ کی تعلیم کے لیے وظائف ومراعات کا بندوبست  کر نا ۔
  • گو نگے بہرے ،اندھے غبی اور ذہنی یا جسمانی حیثیت سے معذور بچّوں کے لیے ان کے مناسب حال تعلیم و تر بیت کا انتظام کرنا۔
  • تعلیم و تربیت کو آسان ، و دلچسپ،  موثراورہمہ گیر بنانے کے طورطریقوں پر تجربات اور تحقیقی کام کر نے نیز معیاری درسی وغیرہ  درسی کتب تیار کرنے لیے سہولتیں  بہم پہنچانا۔
  • وسیع پیمانے پر اچھے کر دار کے صاحبِ صلاحیت اساتذہ تیار کر نا۔

یہ ہیں تعلیم و تر بیت کے مختلف عوامل۔ان عوامل ہی کی اچھا ئی برُائی ، فر ض شناسی ، لاپروائی پر تعلیم و تربیت کے اچھے برُے نتائج کا انحصار ہے لیکن جہاں تک خودان عوامل کے برُے یا بھلے ہونے کا تعلق ہے تو اس کا دارومدار ان اساسی تصّور ات ومعتقدات پر ہے جو ان اداروں کی تشکیل پانے یا چلنے کے محرک ہو تے ہیں ۔ اسی لیے اچھی تعلیم و تربیت کے لیے ان اداروں کو اچھا اور فرض شناس بنانے کی جددجہد ہو نی چا ہیئے اور یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے ، جب ان کی پُشت پر کام کر نے والے تصّورات  معتقدا ت   کی اصلاح کی جائے۔  

باب چہارم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


ماخوذ: فن تعلیم وتربیت (مصنف :  افضل حسین )  –   باب سوم

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے