معیار تعلیم ۔ مفروضات اور حقیقت

مصنف : خالد پرواز

آج والدین اپنے بچوں کی معیاری تعلیم کے سلسلے میں بڑے فکر مند ہیں۔ان کی فکر مندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے لئے بڑی بڑی رقمیں خرچ کرنے  کو تیار ہیں،یہاں تک کہ اس کے لئے اپنا مقام چھوڑکر بڑے شہروں کو منتقل بھی ہو رہے ہیں۔اتنا سب کرنے کے بعد کیا ان کے بچوں کو معیاری تعلیم مل پا رہی ہے۔یا معیاری تعلیم کے فرضی دکھاوے، رکھ رکھاوء اور چمک دمک نے ان کی خواہشات کا استحصال کیا ہے؟کیا صرف خوب صورت لباس اور عمارتیں ہی معیاری تعلیم ہونے کی دلیل ہیں یا کوئی اور کسوٹی ہے جس کے ذریعے ہم کسی اسکول کے تعلیم کو معیاری یا غیر معیاری کہہ سکتے ہیں۔تعلیم کے معیارات کو چانچنا والدین کے لئے ضروری ہو گیا ہے۔کیوں کہ اس میدان میں مقابلہ آرائی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیاں تعلیم میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور تاجر اس کو منافع کی تجارت سمجھ کر۔ نیشنل،انٹرنیشنل اور اسلامی ناموں کے ساتھ ہر سال نئے نئے اسکول منظر عام پر آرہے ہیں جو دیدہ زیب پمفلٹ،پوسٹر اور بڑے ہورڈنگ کے ذریعہ معیاری تعلیم کا دعویٰ پیش کر رہے ہیں اور والدین کو اپنی طرف راغب کرنے کی کو شش کر رہے ہیں۔اور والدین مخمصے میں ہیں کہ کونسا اسکول بہتر ہے اور اپنے لخت جگر کو کس کے حوا لے کریں۔ایسے حا لات میں صحیح اسکو ل کا انتخاب ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔آئیے دیکھیں وہ کیا معیارات ہیں جن کے ذریعے یہ معلوم ہو سکے کہ کس اسکول کی تعلیم معیاری ہے۔

۱)تربیت یافتہ اساتذہ:
اسکول کی عمارت کتنی ہی خوبصورت ہو،اگر وہاں پڑھانے والے اساتذہ یا ٹیچرس تربیت یافتہ اور ماہر نہ ہوں تو معیاری تعلیم ممکن ہی نہیں۔ایک ماہر استادہی تعلیمی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے۔طلبہ میں تبدیلی،کردار میں نکھار،صلاحتوں میں نشونمااور شخصیت کا ارتقاء ایک اچھے استاد ہی کی بدولت ہوتی ہے۔اچھا استاد عمارت کی خوبصورتی کی کمی،وسائل کی قلت کو اپنی قابلیت سے پورا کر سکتا ہے لیکن پر کشش عمارت،وسائل کی فراوانی اور ظاہری رکھ رکھاوء ایک ماہر استاد کی کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔اس لئے سب سے پہلے اس نکتہ پر غور کیا جائے کہ اسکول کے اساتذہ کیسے ہیں،انتظامیہ ان کے انتخاب اور تربیت پر کتنا توجہ دیتی ہے،تعلیم کے میدان میں ہونے والے نئی تحقیقات سے وہ کتنا واقف ہیں،تدریس کے نئے اصول اور طریقوں کا استعمال وہ کتنا کرتے ہیں۔وہ بچوں کو مارنے،دھمکانے اور ذلیل کرنے والے ہیں یا بچوں سے محبت،ہمدردی اوران کی عزت نفس کا خیال کرنے والے ہیں۔

اسکول کی عمارت کتنی ہی خوبصورت ہو،اگر وہاں پڑھانے والے اساتذہ یا ٹیچرس تربیت یافتہ اور ماہر نہ ہوں تو معیاری تعلیم ممکن ہی نہیں۔ایک ماہر استادہی تعلیمی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے۔

۲)طریقہ تعلیم:
تعلیم کے موثر ہونے اور مطلوبہ معیار پر اترنے کے لئے ضروری ہے طریقہ تعلیم کا جائزہ لیاجائے کہ کیا وہاں پر روایتی   انداز میں تعلیم دی جاتی ہے یا جدید طریقہ تعلیم کا استعمال ہوتا ہے؟اس بات پر غور کیا جائے کہ آیا وہاں رٹانے یا یادہانی پر زور دیا جاتا ہے یا مواد کو سمجھانے اور تصورات کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ نکتہ بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ طلبہ اس طریقہ تعلیم کے ذریعہ خوشی محسوس کر رہے ہیں اور ان میں مزید ددلچسپی پیدا ہو رہی ہے یا اسکول کو وہ مصیبت سمجھ رہے ہیں۔ تعلیم اور دلچسپی ایک سکہ کے دو رخ ہیں اور ان دونوں میں سمجھ بوجھ کا پُل حائل ہے جتنا وہ مواد کو سمجھیں گے اتنی ہی دلچسپی پیدا ہوگی۔تو ا س طرح جس اسکول میں مواد کو سمجھانے،تصورات کو واضح کرنے ا ور مہارت و صلاحیت کو پروان چڑھانے کے جتنے مختلف طریقے استعمال کئے جائینگے، تعلیم کا معیار اونچا ہوتا جائیگا۔

۳) پروجکٹ،تحقیق اور آموزشی وسائل:
ایک معیاری اسکول کے ترکیبی عناصر میں اس اسکول کے طلبہ کو دئے جانے والے پروجکٹ،تحقیقی کام اور ٓاموزشی وسائل شامل ہیں۔یہ سرگرمیاں جتنی تخلیقی ہونگی اور جتنی بہتر انداز میں طلبہ کی رہنمائی کی جائیگی۔، طلبہ میں تحقیقی سوچ اور خود اکتسابی کی صلاحیت پیدا ہوگی۔اور تعلیم کا عمل نصابی کتابوں سے اطراف کے ماحول اور معاشرے میں پھیل جائیگا۔
آج عام طور پر جو پروجکٹ اور تحقیقی کام دئیے جاتے ہیں وہ کچھ تصوریں یا الفاظ جمع کرنا ہوتاہے جو کسی کتاب،اخبار یا گوگل پر آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں،اس میں ذہنی اور تحقیقی پہلو بہت کم ہوتا ہے۔ لیکن ایک معیاری اسکول اس نکتہ  پر بہت اہمیت دیتا ہے اور  طلبہ کو اس کام میں اتنا مشغول کرتے ہیں کہ کم عمر میں ہی وہ نئی سوچ اور نئے آئیڈیاز کے مالک بن جاتے ہیں۔

اس تحقیقی کام میں مدد کے لئے چند آموزشی وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے،ان میں لائبریری سب سے اہم ہے۔
ایک معیاری اسکول میں لائبریری ایک بنیادی ضرورت ہے،جس سے طلبہ میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوتا ہے۔فکری و ذہنی صلاحتیں پروان چڑھتی ہیں اور وہ غور و فکر کے عادی بنتے ہیں۔

۴) صحت مند ماحول:
ایک اہم نکتہ جو معیاری اسکول کے ضروری ہے وہ اس اسکول کا بچوں کی صحت پر توجہ دینا۔کیوں کہ تعلیم ایک ہمہ جہتی عمل ہے جس میں صحت و تندرستی بھی تعلیم کاحصہ ہونا چاہئے۔صحت ایک کا میاب زندگی گذارنے کے لئے اور اچھے دل اور دماغ کے لئے ضروری ہے۔ہر روز کھیل کا گھنٹہ ہونا چاہیے،کھیل سے طلبہ کی نہ صرف صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ ان میں مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے،لیڈرشپ کی صلاحیت اور ٹیم اسپرٹ کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے۔
اچھی صحت کے لئے کلاس روم روشن اور ہوادار ہونے چائیے۔پینے کے صاف پانی کا انتظام، دوپہر کے کھانے  کی سہولت اور پاک و صاف بیت الخلاء میسر ہو۔

۵) دوسرے اداروں کے ساتھ اشتراک و تعاون:
اسکول کو مزید بہتر و معیاری بنانے کے لئے دوسرے اداروں کے ساتھ اشتراک و تعاون اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس کے ذریعے ایک دوسرے کی صلاحتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے،ایک دوسرے کے تجربات اور آیڈیاز کا تبادلہ ہو سکتا ہے۔طلبہ و اساتذہ میں مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوسکتا ہے۔ایک دوسرے کے پاس موجود ماہرین سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔اگر ہم اشتراک نہیں کریں گے تو اپنے ہی خول میں بند رہیں گے۔خود کو ہی بہترین سمجھ کر اپنے آپ پر ترقی کا راستہ بند کرلیں گے۔

آج کا دور اجتماعیت کا دور ہے،اجتماعیت میں بڑی برکت ہوتی ہے۔کم توانائی میں زیادہ نتائج آتے ہیں۔شہری،ریاستی اور ملکی سطح کے وفاق ہوں یا کسی ملکی یا  عالمی تعلیمی ادارے سے افیلیٹ کیا جائے تو تعلیمی ادارے کو ایک معیاری تعلیمی ادارہ بنانے میں مدد ملے گی۔

۶)تشخیصی نظام:
کسی بھی اسکول کے معیاری بننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا تشخیصی نظام مستعد ہو۔اس میں ہر کلاس کے بعد کے جائزے  سے  لے کرتمام ٹسٹ اور امتحانات شامل ہیں۔مسلسل اور جامع تشخیص کے ذریعے یہ دیکھا جاتا ہے کہ طلباء نے اسباق کو کتنا سمجھا ہے اور ان میں موجود تعلیمی مقاصد کو کتنا حاصل کیا ہے۔لیکن یہ جانچ صرف طلباء کی نہیں ہوتی بلکہ اساتذہ اور اسکول کی بھی ہوتی ہے۔کتنے طلباء تک تعلیمی مقاصد کو پہنچایا جا چکا ہے اور کتنے طلبہ کو اس مقام تک لانا ہے، اس کے لئے وہ کیا منصوبہ بناتے ہیں اور کس طرح اس کو نافذ کرتے ہیں۔اسکے بعد پھر تشخیص و جائزے کا عمل ہوتا ہے اور دیکھا جا تا ہے وہ اس کوشش میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔اصل میں کمزور بچوں کو آگے لانے کا میکانزم جس اسکول میں ہوگا وہ ایک معیاری اسکول ہوگا۔

ہر اسکول میں ایک جائزہ کمیٹی ہونی چاہئے جو ان تمام امور کی نگرانی کرے، ہر چھے ماہ میں اسکول کا جائزہ ہو۔تمام تعلیمی سرگرمیوں کا، اساتذہ کا اور وسائل کی جانچ ہو کہ وہ کتنے موثر ہیں اور کس طرح وہ تعلیمی مقاصد کو حاصل کر رہے ہیں۔جائزے کے بعد پھر منصوبہ بنے جو اگلے جائزے تک چلتا رہے۔اس طرح ایک اسکول اپنی کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے ایک معیاری اسکول بن سکتا ہے۔

Author: Khalid Parwaz

تعلیم ایم ایس سی فزکس۔ بیس سال سےپیشہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ بچوں اور نوجواں کی تعلیم و تربیت کے متعلق اخبارات و رسائل میں لکھتے رہتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے تعلیمی معیار اور اساتذہ کی تربیت پر کام کر رہے ہیں۔

2 thoughts on “معیار تعلیم ۔ مفروضات اور حقیقت

  1. اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    ماشاءاللہ بہت مفید تحریر ہے. چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اسکول مینجمنٹ تک اس کی رسائی ممکن ہو.
    کسی اسکول میں جس میں ہماری پہنچ ہو ان تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے امپلملمینٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ایک ماڈل پیش کر سکیں.

    اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صلاحیتوں سے نوازے اور تحریروں میں مزید بہتری آئے. آمین
    جزاکاللہ خیرا

  2. ماشاء اللہ بہت ہی معیاری اور معلوماتی مضمون ہے حصولِ تعلیم میں در پیش چنیدہ مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے جس سے ایک اچھے استاد کی پہچان اور ایک بہترین اسکول کا انتخاب کرنا آسان ہوجاتاہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے