تعلیم و تربیت کا عمل ایک بڑا ہی مقدس ، اہمیت کا حامل اور مشکل عمل ہے ۔ اس کو نتیجہ خیز اور صحیح طریقہ پر انجام دینے اور اس میں کامیاب ہونے کے لئے معلم کے اندر چند اوصاف کا پایاجانا نہایت ضروری ہے ۔ جو درج ذیل ہیں:
(۱)اخلاص:
ایک کامیاب معلم كے لئے سب سے پہلا اور ضروری وصف یہ ہے کہ وہ اپنے تدریس و تعلیم کے عمل میں مخلص ہو، اور اس کا اس عمل سے مقصد حصول رضائے الٰہی،احیاء علوم کتاب وسنت، شریعت اسلامیہ کی نشرو اشاعت،اصلاح معاشرہ،اور لوگوں کو شرک وکفر اور بدعات وخرافات سے نکال کر کتاب وسنت کی شاہراہ اور توحید وہدایت کے صراط مستقیم پر لگانا ہو۔
اس سے مقصد کوئی دنیوی غرض،حصول مال ودولت،جاہ و منصب،معاصرین پر فوقیت ، شہرت،طلبہ اور عوام کی بھیڑ جمع کرنا،دوسرے علماء کو شکست دے کر انہیں خاموش کر نا وغیرہ نہ ہو ۔
اس لئے کہ تعلیم وتعلّم ایک عبادت ہے جیسا کہ حدیث’’’’مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِى بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ ‘‘الخ سے معلوم ہو تا ہے،اور عبادت کی صحت اور قبولیت كے لئے اخلاص اور صحیح نیت شرط ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: ﭽ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَاء وَيُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّکَاةَ وَذَلِکَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ ﭼ (البينة: ٥ ) انہیں حکم نہیں دیا گیا مگر اس کا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس حال میں کہ وہ اسی كے لئے ا طاعت کو خالص کر نے والے ہوں۔
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا ، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 1/ 2 , صحيح مسلم : 6/ 48)
تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،اور ہرشخص كے لئے اس کی نیت کے مطابق اجر ہے ، چنانچہ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول كے لئے ہے۔اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کا سبب ہے،اور جس کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی خاتون سے شادی كے لئے ہے اس کی ہجرت اسی كے لئے ہے جس كے لئے اس نے ہجرت کی۔
اورجب ہجرت جیسا عمل جس میں آدمی اپنے گھر بار اور اعزاء واقارب کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے بغیر سچی نیت کے عند اللہ مقبول اور مفید نہیں تو تعلیم وتدریس کا عمل بغیر اخلاص کے کیسے مقبول اور رضاء الٰہی کاموجب ہو گا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے دوسرے مؤلفین نے اسی حدیث سے اپنی کتاب کا آغاز فرمایا ہے، اور اس سے ان کا مقصد اس کتاب کے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنی نیتوں کی اصلاح کرلیں،اور پڑھنے پڑھانے کا مقصد رضائے الٰہی اورا علاء کلمۃ اللہ کو بنالیں، کیونکہ اگر نیت درست نہیں تو یہ پڑھنا پڑھانا بے کار ، بلکہ وبال جان ہے، اور آخرت میں عذاب الٰہی کا موجب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لاَ يَتَعَلَّمُهُ إِلاَّ لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. يَعْنِى رِيحَهَا. (رواه احمد وابوداود وابن ماجه وصححه الحاکم والذهبي ، وقال العراقي : جيد ، وقال الألباني : اسناده صحيح.مشکاة:۱؍۷۸)
جس نے کوئی علم جس سے اللہ کی رضا مندی مطلوب ہو تی ہے دنیاوی فائدہ كے لئے حاصل کیا تو اس کو قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں ملے گی۔
اور حضرت کعب بن مالک رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِىَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِىَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ ‘‘(رواه الترمذي وقال: غريب ، وقال الالباني:لکن يشهد له الحدثيان بعده . انظر المشکاة:۱؍۷۷)
جو شخص اس واسطے علم حاصل کرتا ہے تاکہ اس کی وجہ سے علماء پر فخر کرے،یا اَن پڑھ اور کم سمجھ لوگوں سے جھگڑا کرے، یا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرے، تواللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں داخل کرے گا ۔
اور حضرت ابو سعید خدری رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عليه رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأَتَى بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعْمَتَهُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ فَقَالَ: قَاتَلْتُ فِي سَبِيلِكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ ولكنك قاتلت لأَنْ يُقَالَ: جَرِيءٌ فَقَدْ ثم أمر بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وعلمه وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَتَى بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وعلمته وَقَرَأْتُ فيك الْقُرْآنَ وَعَلَّمْتُهُ، قَالَ: كَذَبْتَ ولكنك تعلمت العلم ليقال : عالم ، وقرأت القرآن ليقال : هو قارئ فَقَدْ قِيلَ ثم أمر بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مِنْ أَنْوَاعِ الْمَالِ فَأَتَى بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ فقَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ شَيْءٍ تُحِبَّ أَنْ أُنْفِقَ إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهِ لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ إِنَّمَا أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: فُلَانٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ فَأُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ ، وَرَجُلٌ وسَّعَ اللّهُ عَلَيهِ وأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّهِ ، فَاُتِيَ بِهِ فعرَّفهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، قَالَ:فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ:مَاتَرَکْتُ مِنْ سَبِيْلٍ تُحِبُّ أن ينْفَقَ فِيهَا اِلاَّأنْفَقْتُ فِيهَا لَکَ قَالَ:کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ:هُوَ جَوَادٌ، فَقَدْ قِيْلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فسُحِبَ علٰی وَجْههِ ثُمَّ اُلقِيَ فِي النَّارِ‘‘(رواه مسلم،انظر المشکاة:۱؍۷۱-۷۲)
سب سے پہلے قیامت کے دن جس کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہو گا،اس کو لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتوں کی یاد دلائے گا، وہ ان نعمتوں کوپہچان لے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس سے فر مائے گا کہ تو نے اس سلسلہ میں کیا عمل کیا ؟ تو وہ کہے گا کہ میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا، اللہ تعالیٰ فر مائے گا تو نے غلط کہا، تو نے اس لئے جنگ کی تھی تاکہ تجھے بہادر کہا جائے، اور تجھے یہ کہا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
دوسرا وہ شخص ہوگا جس نے علم حاصل کیا اور دوسروں کو تعلیم د ی اور قرآن پڑھا، اس کو بھی لا یا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کو اسے بتائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا ،پھر اللہ تعالیٰ اس سے فر مائے گا کہ تو نے اس کے بارے میں کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور تیری رضا کے لئے قرآن پڑھا، اللہ تعالیٰ فر مائے گا :تو نے کذب بیانی کی، تو نے علم اس لئے سیکھا تھا تاکہ تجھے عالم اور قاری کہا جا ئے ،اور لوگوں نے تجھے کہا، پھر اس کے بارے میں بھی حکم ہو گا اور منھ کے بل گھسیٹ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔
تیسرا وہ شخص ہوگا جس کو اللہ نے ہر قسم کے مال ومتاع سے نوازا ،اس کو بھی لایا جائے گا اور اس کے سامنے بھی نعمتوں کا تذکرہ کیا جائے گا ،وہ ان کا اعتراف کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فر مائے گا کہ تو نے اس مال سے کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا :مولا میں نے کوئی راہ نہ چھوڑی جہاں تیری رضا کے لئے مال خرچ نہ کیا ہو، اللہ تعالیٰ فر مائے گا تو نے کذب بیانی کی، تونے اس لئے مال خرچ کیا تاکہ تجھے سخی کہا جائے، اور وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں بھی حکم دیا جائے گا اور منہ کے بل گھسیٹ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
اس واسطے اساتذہ و معلّمین کو سب سے پہلے اپنی نیتوں کی اصلاح کرنی چاہئے ،ان کا یہ عمل خالصۃً لوجہ اللہ ہونا چاہئے،اور تنخواہ اور دیگر مراعات کو اصل مقصد ہر گز نہیں بنا نا چاہئے،یہ سب ثانوی چیزیں ہیں اور انہیں ثانوی درجہ ہی میں ہی رکھنا چاہئے ،ورنہ آخرت میں ساری محنت رائیگا ں چلی جائے گی اور بڑے بھیانک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔اَعاذَنا اللّهُ مِن هذِهِ البَلِيَةِ و الخَسَارَةِ۔
(۲) طلبہ کی تعلیم وتر بیت اور اصلاح کا حریص ہو نا:
استاذکو اپنے طلبہ وطالبات کی تعلیم وتربیت اور اصلاح کا بہت حریص ہونا چاہئے،ان کی تعلیمی ترقی اور اصلاح کے لئے خود بھی خوب محنت کرنی چاہئے اور ان سے بھی خوب محنت کرانی چا ہئے ۔ اگر ان کے اندر کوتاہی اور غفلت دیکھے تو انھیں بار بار نصیحت کرے ۔ اچھی طرح سمجھائے، علم کی اہمیت وفضیلت بتائے ۔ان کی کامیابی اور ہدایت کے لئے دعائیں کرے۔ اوراگر اس کی محنت اور جد وجہد کے باوجود کوئی طالب علم راہ راست پر نہیں آتا تو اسے اس پر غم اور افسوس ہو ۔
ایک استاذکو اپنے طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ہر وقت فکر رہنی چاہئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو معلم انسانیت تھے اور جن کی زندگی تمام اساتذہ ومعلّمات کے لئے اسوہ اور نمونہ ہے آپ کو اپنی امت کی اصلا ح و ہدایات کی اس قدر فکر تھی کہ شب و روز اس کے لئے محنت کرتے،ہر طرح سے انھیں سمجھاتے،قر بانیاں دیتے،تکلیفیں برداشت کر تے۔پھر بھی جب وہ راہ راست پر نہیں آتے اور ایمان اوررشد وہدایت کی راہ اور صراط مستقیم پر نہیں چلتے تو آپ کو ایسا غم ہو تاکہ لگتا اس کی وجہ سے آپ اپنے نفس کو ہلاک کر ڈالیں گے۔اللہ تعالیٰ آپ کو خطاب کر کے فرماتا ہے: ﭽ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَی آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيْثِ أَسَفاً ﭼ (الكهف: ٦) لگتا ہے اگر یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے تو آپ ان کے پیچھے اپنے نفس کو ہلاک کرڈالیں گے۔
اس واسطے اسوۂ نبوی کے مطابق اساتذہ و معلّمات کو بھی اپنے تلامذہ کی تعلیم و تربیت کے لئے بھر پور محنت اورجدوجہد کرنی چاہئے۔طلبہ کو خوب شوق اور جذبہ سے پڑھانا چاہئے۔ کلاس میں ٹائم پاس نہیں کرنا چاہئے۔
(۳)تعلیم و تدریس سے دلچسپی :
کسی بھی عمل میں کامیابی کے لئے اس کا شوق اور دلچسپی سے انجام دینا ضروری ہے ،اگر کسی کام سے دلچسپی نہ ہو اور اسے بادل نخواستہ انجام دیا جائے تو پھر اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اور جو شخص بھی کسی کام کو اپنے دل کی آمادگی اور ہنسی خوشی سے انجام نہیں دے گا اس میں وہ کامیاب نہیں ہوگا ۔ اس واسطے تعلیم و تربیت کے عمل میں کامیابی کے لئے بھی اس سے دلچسپی ہونا اور شوق و رغبت سے انجام دینا ضروری ہے اور کسی بھی استاذ اور معلمہ کو تربیت و تعلیم کا پیشہ اختیار کرنے سے قبل یہ جائز ہ لینا ضروری ہے کہ اس کے اندر اس کے لئے رغبت اور خواہش ہے یا نہیں ۔ اور وہ اس کام کو پورے شوق و ذوق اور دلچسپی سے انجام دے سکتا ہے یا نہیں ۔ اگر اس کے اندر اس کا شوق اور قلبی رجحان و میلان ہو تو ٹھیک ہے ورنہ اس خار دار اور دشوار گذار وادی میں اسے قدم نہیں رکھنا چاہئے۔
کچھ لوگوں کو تعلیم و تدریس سے دلچسپی نہیں ہوتی ہے، مگر کسی کے دباؤ کی وجہ سے تدریس کا پیشہ اختیار کرلیتے ہیں اور نا کام رہتے ہیں ، ایسے لوگوں کو چاہئے کہ پوری جرأت سے اس حقیقت کا اعتراف اور اظہار کر کے اس پیشہ کو ترک کردیں اور جس کام سے دلچسپی ہو اس کو اختیار کریں۔ بعض لوگ کوئی کام نہ ملنے کی وجہ سے کسی مدرسہ میں پڑھانے لگتے ہیں ۔ اور بچوں کو محنت سے نہیں پڑھاتے ، بلکہ وقت گذاری کرتے ہیں اور دوسرا کام تلاش کرتے رہتے ہیں اور جیسے ہی دوسرا کام مل جاتا ہے مدرسہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔یہ تعلیم اور طلبہ پر بڑا ظلم ہے ،ایسے حضرات عند اللہ جوا بدہ ہوں گے، مدرسہ کے ذمہ داروں کو بھی ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ جوذمہ داران مدارس ایسے لوگوں کو کم تنخواہ کی بنا پر تلاش کرتے ہیں وہ بھی بہت بڑی غلطی کا شکار ہیں۔انھیں اس سے احتراز کرنا چاہئے ،ورنہ وہ بھی عند اللہ مسؤل ہوں گے۔
(۴)وضع قطع ،صفائی ستھرائی اور اخلاق وغیرہ میں مثالی ہو نا:
اساتذہ کو شکل و صورت ، وضع قطع، لباس، صفائی ستھرائی ، اخلاق و محبت ، وعدہ وفائی ، کلاس میں حاضری ، روزہ، نماز ، وقت کی پابندی اور دیگر تمام ذمہ داریوں اور فرائض اور واجبات کی ادائیگی میں اپنے آپ کو مثالی بنا کر رکھنا چاہئے ۔اس واسطے کہ طلبہ و طالبات ان کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ اور آئیڈیل مانتے ہیں۔ انھیں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔اور جتنا اعتماد انھیں اپنے اسا تذہ و معلّمات پر ہوتا ہے اتنا اعتماد انھیں اپنے والدین پر بھی نہیں ہوتاہے ۔ کیونکہ وہ انکو علم وفضل،تقوی وپرہیز گاری ، اخلاص واخلاق اور حکمت و دانائی میں اعلی معیار پر سمجھتے ہیں۔اس واسطے اساتذہ و معلّمات کو ہمیشہ اپنے منصب ومقام کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور ہر چیز میں طلبہ وطالبات کے سامنے بہترین اسوہ پیش کرنا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو معلم انسانیت تھے آپ کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر نیک عمل میں دوسرں كے لئے اسوۂحسنہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﭽ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﭼ (الأحزاب: ٢١) بیشک تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔حضرت عائشہ رضى الله عنہا جو آپ کی زوجہ مطہرہ تھیں اور آپ کے ظاہری و باطنی اور خارجی و داخلی امور اور تمام حالات سے سب سے زیادہ واقف تھیں وہ فرماتی ہیں: ’’ كَانَ خَلْقُهُ الْقُرْآنَ ‘‘ (مسند أحمد بن حنبل: 6/ 91)آپ کا اخلاق اور آپ کی سیرت قرآن کریم کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔
چنانچہ اگر آپ نے عبادت کا حکم دیا تو آپ کا حال یہ تھا کہ عبادت الٰہی کے لئے اتنی محنت کرتے اور راتوں کو اتنی دیر تک نمازیں پڑھتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا اور جب آپ سے کہا جاتا کہ آپ کے تو تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردئے گئے ہیں پھر آپ اس قدر کیوں عبادت کرتے ہیں ؟ تو آپ فرماتے:’’ أَفَلاَ أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ‘‘ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 2/ 63 , صحيح مسلم : 8/ 141)
آپ کے جو د و سخا کا یہ عالم تھا کہ حضرت انس رضى اللہ عنہ کے بقول آپ سے جب بھی کوئی چیز طلب کی گئی آپ کی زبان مبارک سے کسی نے لفظ ’’نا ‘‘نہیں سنا ،ایک بار ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا توآپ نے اس کو اتنی بکریاں عطافرمائیں کہ اس نے اپنی قوم میں جاکر کہا : لوگو! اسلام قبول کرلو، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عطاکرتے ہیں کہ پھر فقر وفاقہ کا کوئی خوف نہیں رہتا ۔ ( صحیح مسلم کتاب الفضائل ،باب فی سخاوۃ صلی اللہ علیہ وسلم: ۶؍۳۰)
آپ کے زہد وقناعت کی یہ حالت تھی کہ چٹائی پر سوتے اور آپ کے بدن پر اس کے نشانات بن جاتے، صحابہ کرام رضى الله عنہم نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!کیوں نہ ہم آپ كے لئے ایک بچھونا تیار کر دیں ، جسے آپ چٹائی پر بچھا لیا کریں۔ آ پ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا لینا دینا ہے، میرا تو اس سے بس اتنا ہی تعلق ہے جیسے کوئی مسافر ایک پیڑ کے نیچے سستانے كے لئے کچھ دیر بیٹھے اور پھر وہاں سے چل د ے ۔(رواہ الترمذی وقال: ھذا حدیث حسن صحیح )
فقر و فاقہ پر صبر کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ کچھ صحابہ کرام رضى الله عنہم نے اپنے فقر و فاقہ کی شکایت کی اور کرتہ اٹھا کر پیٹ پر بندھا ہو ا پتھر دکھایا اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول! ہم نے شدت بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے ۔ آپ نے اپنے بطن مبارک سے چادر ہٹائی تو شکایت کرنے والے صحابی نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر ایک کے بجائے دو پتھر باندھ رکھے ہیں ۔ پھر وہ بھی صبر و رضا کا پیکر بن گیا ۔ ( رواہ الترمذی : ۴؍ ۵۸۵ (۲۳۷۱)
آپ کے اللہ پر توکل و اعتماد اور حوصلہ کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ ایک غزوہ سے واپسی میں ایک منزل پر پہونچ کر آپ نے صحابہ کرام ث کو آرام کرنے کا حکم دیا اور خود بھی اپنی تلوار ایک ببول کے درخت پر لٹکا کر آرام فرمانے لگے ، تھوڑی دیر بعد ایک دشمن ادھر آنکلا ، آپ کو سوتا دیکھ کر اس نے موقع کو غنیمت سمجھا ،اورآپ کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے کر ناپاک ارادہ سے اسے سونتا کہ آپ کی آنکھ کھل گئی، آپ فوراً کھڑے ہو گئے ۔ دشمن نے تلوار دکھا تے ہوئے کہا:’’ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي ؟‘‘ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے بڑے اعتماد اور حوصلہ و جرأ ت سے فرمایا: ’’اللَّهُ ‘‘، یہ سن کر اس کے ہاتھ پاؤں تھر تھر کانپنے لگے اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئی، آپ نے تلوار اٹھا لی اور فرمایا: ’’ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي ؟ ‘‘ بتا ؤ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ یہ سن کر وہ دشمن معافی مانگنے لگا اور آپ سے کبھی نہ لڑنے کا عہد کیا تو آپ نے اسے معاف کردیا۔( صحيح البخاري: 4/ 48)
غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت وریاضت ،جود وسخا، صدق وصفا ، امانت و دیانت، جرأت و شجاعت ، زہدو تقو ی ، صبر و ضبط ، اخلاق و محبت، وعدہ وفائی وغیرہ ہر چیز میں لوگوں كے لئے اسوہ و نمونہ تھے ۔
اسی طرح اساتذہ و معلمات کو بھی اپنے تلامذہ کے لئے ہر اچھی چیز میں اسوہ اورنمونہ ہونا چاہئے، ورنہ ان کی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔ کیونکہ حسن عمل اور اعلی کردار کے بغیر نہ تعلیم و تر بیت مؤثر ہوتی ہے ،نہ وعظ و نصیحت ۔ بلکہ اس پر اللہ کی وعید ہے، ارشاد خدا وندی ہے: ﭽيَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (2) کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ﭼ (الصف: ٢ – ٣)
اے مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے، اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ اور ناراضگی کی بات ہے کہ تم لوگ ایسی باتیں کہو جن کو تم خود نہیں کرتے ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک شخص کو لا کر جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ جہنم میں اس کی انتڑیاں با ہر آجائیں گی اور وہ ان کے درمیان اس طرح چکر کاٹے گا جیسے گدہا چکی کولے کر گھومتا ہے، یہ دیکھ کر اہل جہنم اس کے ارد گرد جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے: اے فلاں! یہ تم کو کیا ہوا؟ کیا تم دنیا میں لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے ؟ وہ کہے گا: ہاں ایسا ضرور تھا، لیکن میں تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتا تھا اور خود نہیں کرتا تھا ، اور تمہیں بری باتوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا ، اس واسطے آج مجھے یہ سزا دی گئی ہے۔(متفق علیہ)
بہر حال اساتذہ و معلّمات کو اعمال صالحہ ، اخلاق فاضلہ، شکل و صورت، لباس اور وضع قطع، منکرات و محرمات سے اجتناب اور ہر اچھی چیز میں اپنے طلبہ و طالبا ت اور تمام لوگوں كے لئے بہتر ین نمونہ ہونا چاہئے۔ اسواسطے کہ طلبہ کلاس میں صرف استاذ کے درس اور لیکچر کو نہیں سنتے، بلکہ ان کے لبا س ، وضع قطع ،عادت و اطوار اور عقائد و خیالات وغیرہ کا بھی اثر لیتے ہیں ۔ لہٰذا اگر اساتذہ کر ا م طلبہ کی صحیح تعلیم و تربیت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنا جائزہ لیں اور جو اعلیٰ اقدارواوصاف ان کے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں پہلے اپنے اندر پیدا کریں ۔طلبہ میں ا نھیں چیزوں کا انعکاس ہوگاجو اساتذہ میں ہوگا ۔
(۵)باصلاحیت ہونا:
ایک مدرس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس فن یا کتاب کو پڑھانے کے لئے لے اس میں اسے اچھی طرح مہارت حاصل ہو ،یا کم از کم اس کے اندر اتنی لیاقت اور صلاحیت ہو کہ وہ مطالعہ کرکے اس کی تیاری کرسکے اور طلبہ کو اسے اچھی طرح پڑھاسکے اور اس کا حق ادا کرسکے ۔ اگر کسی کے اندر اتنی علمی لیاقت نہ ہو تو اس کے لئے تدریس کا عمل مناسب نہیں ، البتہ اگر وہ بڑی جماعت کی کتابوں اور طلبہ کو نہ پڑھاسکتا ہو مگر چھوٹی جماعتوں میں تدریس کا عمل بآسانی انجام دے سکتا ہو تو بلا تکلف صدر مدرس سے اظہار حقیقت کر کے جس جماعت کی کتابوں کو بآسانی پڑھاسکتا ہو اس کی گھنٹیاں لے لے ۔ اور اگر کوئی خاص مضمون یا خاص کتاب پڑھانے میں اس كے لئے پریشانی ہوتو ذمہ داروں سے کہہ کر اس کے بدلے دوسرا مضمون یا کتاب لے لے ،ویسے نئے مدرسین كے لئے زیادہ مناسب یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی فن کو اس کی ابتدائی کتابوں سے پڑھانا شروع کریں اور جب ایک دو سال اسے پڑھالیں اور اچھی طرح اس کتاب کو سمجھ لیں اور اطمینان ہوجائے تب اس سے اونچی کتاب پڑھائیں ، اس طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہیں اور پھر بڑی بڑی کتابوں کو پڑھانے لگیں ۔
بعض اساتذہ کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ ذہین ، محنتی اور با صلاحیت و باہمت ہوتے ہیں اور شروع ہی سے بڑی کتابیں پڑھانے لگتے ہیں مگر ایسا کم اور عموما چھوٹے مدارس میں ہوتا ہے۔ بہر حال مدرس جو فن یا کتاب پڑھائے اس کو اس پر دسترس اور عبور ہونا چاہئے اور بلا صلاحیت اور علم کے پڑھانا درست نہیں ،ارشاد باری ہے : ﭽ وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً ﭼ (الإسراء: ٣٦) جس چیز کاتمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، بیشک کان ، آنکھ اور دل کے بارے میں ان میں سے ہر ایک سے سوال کیا جائے گا ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﭽ قُلْ َهذِهِ سَبِيْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّهِ عَلَی بَصِيْرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ﭼ(يوسف: ١٠٨)اے نبی کہہ دیجئے یہ میرا راستہ ہے ، میں اور میرے متبعین بصیرت کے ساتھ اللہ کی جانب دعوت دیتے ہیں ۔
(۶)متواضع ہونا:
استاذ کو ہمیشہ متواضع ہو نا چاہئے، اور تعلي اور فخرو مباہات سے اجتناب کرنا چاہئے ،تواضع ہر آدمی کا بہترین زیور ہے، اس سے اس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتاہے،لوگ اس سے محبت اور اس کی مجلسوں سے خوب استفادہ کرتے ہیں ،اور متکبرشخص سے لوگوں کو نفرت ہوتی ہے،کہتے ہیں جو درخت جتنا زیادہ پھل دار ہوتا ہے وہ اتنا ہی جھکا ہوا ہوتا ہے ،اسی واسطے جس استاد کے پاس جتنا زیادہ علم ،صلاحیت اور تقوی وپرہیزگاری ہو اسے اتنا ہی متواضع ہونا چاہئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بعض اوقات کوئی اعرابی آجاتا اورآپ کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی سے پیش آتا، مگر آپ خندہ پیشانی سے اس کو جواب دیتے اور صبر وضبط سے کام لیتے ۔تواضع آپ کا شیوہ تھا، آپ خود تکبر اور فخرو مباہات سے بچتے تھے اور صحابہ کرامث کو بھی بچنے کی تلقین کرتے تھے۔
ہمارے اسلاف کے تواضع کا یہ حال تھا کہ جب ابو جعفر منصور نے حج کیا تو وہ مدینہ منورہ بھی آیا ،وہاں اس نے امام مالک رحمہ الله کو بلایا اور کہا : میں چاہتا ہوں کہ آپ کی کتاب ’’الموطأ‘‘ کے متعدد نسخے بنوا ؤں اور ایک ایک نسخہ ہر شہر میں بھیج دوں اور لوگوں کو حکم دوں کہ جو مسائل اس میں ہیں انھیں پر عمل کریں ۔اور ان کے علاوہ جو مسائل ان کے پاس ہوں ان کو ترک کریں ۔کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں اس کی اصل اہل مدینہ کی روایت اور ان کا علم ہے ۔مگر امام مالک رحمہ الله نے عرض کیا : امیر المؤمنین! ایسا نہ کیجئے ،لوگوں کے پاس اس سے پہلے بہت سی باتیں پہونچی ہیں ،لوگوں نے بہت سی حدیثیں سنی ہیں،صحابہ کے اقوال و فتاوی پر ان کا عمل ہے ،اور اب ان کے لئے ان فتاووں اور احادیث کا چھوڑنا بہت گراں اورمشکل ہو گا۔اس واسطے جن مسائل پر وہ عمل کرتے ہیں انھیں کرنے دیجئے اور اس کتاب پر عمل کرنے پر مجبور نہ کیجئے ۔
ایک مرتبہ عبد الرحمن بن قاسم رحمہ الله نے امام مالک رحمہ الله سے کہا: اہل مصر سے زیادہ میں کسی کو بیوع کا علم رکھنے والا نہیں جانتا، امام مالک رحمہ الله نے پوچھا : ایسا کیوں ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : آپ کی وجہ سے ۔ امام مالک رحمہ الله نے فرمایا: میں تو خود بیوع نہیں جانتا ،پھر وہ لوگ میری وجہ سے اس کو کیسے جانیں گے ؟ یہ تھا اما م مالک رحمہ الله کا تواضع۔
اور اس میدان میں امام مالک ؒ اکیلے نہیں ہیں، بلکہ ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا۔ امام شافعیؒ فرماتے تھے : میری خواہش ہے کہ لوگ مجھ سے یہ علم سیکھ لیں اور اس کی نسبت میری جانب نہ کریں اور نہ ہی لوگ میری تعریف کریں، تاکہ مجھے اس کا اجرو ثواب ملے ۔
بہر حال استاذ کو تواضع اختیار کرنا چاہئے اور کبر و نخوت اور بیجا ڈینگ ہانکنے سے اجتناب کر نا چاہئے۔
(۷)باہمّت ہونا:
ایک استاذ کوباہمت اور بارعب ہونا چاہئے، تاکہ وہ پوری جر ا ء ت اور اطمینان قلب کے ساتھ طلبہ کو کلاس میں پڑھا سکے ،ان کے اخلاق و عادات کی اصلاح کر سکے ، ان کے اعتراضات اور سوالات کے جواب دے سکے ، ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کر سکے ۔ اور اس کے رعب کی وجہ سے طلبہ مطالعہ کرکے اور سبق و آموختہ یاد کرکے آئیں ، اور ہوم ورک وغیرہ کرنے میں سستی نہ کریں ، اس کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں،اور ادارہ کے اصول و ضوابط کی پابندی کریں۔
شروع شروع میں ہر استاذ و معلمہ کو کلاس میں طلبہ کے سامنے کھڑے ہونے اور بولنے اور اسباق کے پڑھانے میں کچھ خوف محسوس ہوتا ہے اور گھبراہٹ ہوتی ہے ، لیکن آہستہ آہستہ یہ خوف ختم ہوجاتا ہے، ہمت مضبوط اور جھجک دور ہوجاتی ہے ، اور پھر ایسی عادت ہوجاتی ہے کہ درس اور لیکچر وغیرہ میں ذرا بھی پریشانی نہیں ہوتی ۔ مگر کچھ لوگ دل کے بڑے کمزور اور پست ہمت ہوتے ہیں ، اور کلاس میں جانے کے تصور سے ہی وہ پریشان ہوجاتے ہیں ، اور کلاس میں پہونچ کر تھر تھر کانپنے لگتے ہیں ،ہوش و حواس کھو دیتے ہیں ، زبان خشک ہوجاتی ہے ، چہرے کا رنگ فق ہوجاتاہے اور جب بھی پڑھانے جاتے ہیں ان کا یہی حال ہوتا ہے ، چنانچہ نہ وہ درس کی تشریح خاطر خواہ انداز میں کر پاتے ہیں ،نہ کلاس میں طلبہ پر کنٹرول کرپاتے ہیں، نہ طلبہ پر ان کا رعب رہتا ہے کہ اسباق و آموختہ یاد کر یں اور ہوم ورک کرکے لائیں، نہ وہ طلبہ سے ادارہ کے قوانین کی پابندی کراپاتے ہیں ، اس طرح وہ تعلیم و تربیت کے عمل میں بالکل ناکام رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو تعلیم و تربیت کا عمل ترک کر کے کوئی دوسرا کام کرنا چاہئے ، اور اس میدان میں انھیں لوگوں کو قدم رکھنا چاہئے جن لوگوں کے پاس ہمت و جرأت ہو، جو اپنی بات کو بلا جھجک طلبہ کے سامنے پیش کرسکیں ،جو عبارت خوانی اور مسائل کی تشریح کرتے وقت نہ گھبرائیں ،نہ ڈ ریں ،جو طلبہ پر کنٹرول کرسکیں، جو طلبہ کے اعتراضات کا بے با کی سے جواب دے سکیں، جو ان کی شرارتوں اور شور ہنگاموں سے دل برداشتہ نہ ہوں، بلکہ کمال جرا ء ت ودانشمندی سے ان کا علاج کر سکیں، جو حق بات کہیں اور’’ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے ہوئے بیٹھے نہ رہیں۔
بہر حال اخلاص وعلم کے ساتھ اساتذہ ومعلمات میں مناسب جراء ت وہمت کی بھی ضرو ر ت ہے۔اس کے بغیر تعلیم وتربیت کا عمل صحیح طریقے پر انجام نہیں دیا سکتا۔
(۸)خوش اخلاق وملنسارہونا:
معلم کو بڑاہی خوش اخلاق ، صابر ،ملنسار اور خوش طبع ہونا چاہے، اسے طلبہ وطالبات سے ہمیشہ خندہ پیشانی اور نرمی سے پیش آنا چاہئے۔انھیں اپنے بچوں کی طرح سمجھنا چاہئے،ان کے ساتھ شفقت و محبت کا سلوک کرنا چاہئے ، اگر کوئی طالب علم بیمار ہو تو مزاج پرسی کرنا اور اس کے دوا علاج کی فکر کرنی چاہئے ،چھوٹے بچوں کو تسلی دینا اور حال چال معلوم کرنا چاہئے ،اگر کوئی بچہ غریب اور مالی اعتبار سے کمزور ہے تو بقدر استطاعت اس کی مدد کرنا یا سفارش کرنا چاہئے ۔اسی طرح اگر کوئی بچہ پڑھنے میں کمزور ہے تو درس سے خارج اوقات میں اس کو پڑھا دینا یا کسی اچھے اور ذہین طالب علم کو اسے پڑھانے كے لئے لگا دینا چاہئے ، اس سے ان کی ہمت افزائی ہوتی ہے ،مدرسہ اور اس کے ماحول سے وہ جلدمانوس ہوجاتے ہیں اور پڑھنے میں ان کا دل لگنے لگتا ہے اور کامیاب ہو جاتے ہیں اور کبھی ان سے بے ادبی اور نالائقی سرزد ہو جائے تو ان سے الجھنے کی بجائے عفو و درگذر سے کا م لینا ، محبت سے انھیں سمجھانا اور اصلاح کرنے کی کوشش کرناچاہئے ۔ اور جب اس سے کام نہ چلے تب زجر وتوبیخ اور سزا کے طریقے استعمال کرنا چا ہئے ۔
بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ بچوں کی اصلاح وسزا کے سلسلہ میں وہی اسلوب اور طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو بیو ی کی اصلاح کے لئے شریعت اسلا میہ نے بتا یا ہے ،یعنی پہلے انہیں اچھی طرح سمجھانا چاہئے ، اس سے کام نہ چلے توزجر وتوبیخ کرنا چاہئے ،اس سے بھی کام نہ چلے تو ان سے بات چیت بند کردینا چاہئے، اور اس سے بھی کام نہ چلے تب سزادینا چاہئے، مگر اصلاح کی نیت سے اور مناسب اور ہلکی سزا دیں اور چہرے اور نازک وحساس اعضاء پر نہ ماریں ،مقصد اصلاح ہو، تعذیب نہ ہو ، اور طلبہ کی اصلاح و تربیت میں ان کے سرپرستوں اور دیگر اساتذہ اور ذمہ داروں سے بھی مدد لیں اور جب کسی طرح اصلاح نہ ہو سکے تب اخراج کی سفارش کریں۔
اسی طرح اساتذہ کو اپنے زملاء ،طلبہ کے سرپرستوں اور ادارہ کے ذمہ داروں وغیرہ کے ساتھ بھی خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے،اس سے طلبہ وغیرہ پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے، ان کی اخلاقی تربیت ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے تعلق خاطر اور محبت ہوتی ہے اور وہ بھی ان کی عزت واحترام اور قدر کر نے لگتے ہیں۔
(۹)زبان وبیان پر قدرت رکھنا:
اساتذہ و معلّمات کو زبان وبیان پر بھر پور قدرت ہو نی چاہئے، تا کہ وہ مضمون ،طلبہ کے معیار، اور حالات وظروف کے مطابق مناسب الفاظ میں اپنے مافی الضمیرکی تعبیر کر سکیں اور اپنی باتوں کو طلبہ کے سامنے اسطرح پیش کر سکیں کہ وہ جلد از جلد اور اچھی طرح سمجھ جائیں اور وہ باتیں ان کے دل وماغ کو اپیل کر سکیں اور ذہن میں راسخ ہو جائیں۔ ان کا اسلوب خوبصورت اوردلکش ہونا چا ہئے، ان کے اندر اتنی صلاحیت ہونی چاہئے کہ مختلف پیرائے میں اپنی باتوں کو سمجھا سکیں اور وقت پر منا سب الفاظ اور جملوں کا استعمال کر سکیں۔ تذکیر وتانیث اور واحد و جمع کے استعمال اور رعایت میں ان سے غلطی نہ ہو۔ وہ الفاظ کے صحیح تلفظ سے واقف ہوں اور انھیں ان کے مخارج کی رعایت کر کے ادا کرتے ہوں، انھیں اچھے اچھے جملے، مثالیں، آیات واحادیث ،حکماء کے اقوال ، مصطلحات ، ضرب الامثال اور اشعار وغیرہ مناسب مقدار میں یادہوں اور ان کابروقت استعمال جانتے ہوں۔ اور زبان و ادب کے اصول وضوابط کی رعایت کرتے ہوئے خوبصورت اور فصیح وبلیغ جملوں کا استعمال کرنے کی قدرت رکھتے ہوں ، ان کی ہر بات مدلل اور دلنشین ہو اور زبان میں لکنت اور تتلاہٹ نہ ہو۔
معلوم رہے کہ استاذ کو جس قدر زبان وبیان پر قدرت ہو گی اور وہ اپنی باتوں کو جس قدر مختلف انداز، متعدد اسالیب اور آسان پیرائے میں سمجھانے کی صلاحیت رکھے گا اسی قدر وہ تعلیم و تر بیت کے میدان میں کامیاب ہوگا۔اسی واسطے انبیاء علیہم السلام کو فصاحت وبلاغت، اور زبان وبیان کی بڑی اعلی صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا،ان کی زبان بڑی ادبی اور معیاری ہوتی تھی، بڑے ادباء اور فصحاء وبلغاء اس میں کوئی عیب نہیں نکال سکتے تھے، وہ جس وقت قوم سے خطاب کرتے ایک سماں بندھ جاتا ، لوگوں سے گفتگو فرماتے تو ان کا اسلوب اور بیان اتنا موثر ہو تا کہ لگتا مخاطبین کے دل و دماغ پر انھوں نے جادو کر دیا ہے، اسی واسطے ان کے مخالفین لوگوں کو ان سے ملنے اور گفتگو کر نے سے منع کرتے تھے اور اس کے لئے بھر پور جدوجہد کرتے تھے ،حضرت موسی علىہ السلام کی زبان میں بعض اسرائیلی روایتوں کے بموجب بچپن میں منھ میں انگارہ رکھ لینے کی وجہ سے لکنت ہوگئی تھی اور ان کے بھائی حضرت ہارون علىہ ان سے زیادہ فصیح اللسان تھے ، اس لئے انھوں نے اپنی مدد كے لئے اللہ تعالیٰ سے اپنے بھائی کو نبوت عطا کرنے کی دعا کرتے ہوئے عرض کیا: ﭽ وَأَخِیْ هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَاناً فَأَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْءاً يُصَدِّقُنِیْ إِنِّیْ أَخَافُ أَن يُکَذِّبُونِ ﭼ (القصص: ٣٤) اور میرابھائی ہارون(علىہ السلام)مجھ سے زیادہ فصیح زبان والا ہے، پس تو اسے بھی میرا مددگار بناکر بھیج دے کہ وہ میری تصدیق کرے، مجھے ڈر ہے کہ وہ سب مجھے جھٹلا دیں گے۔ پھر اللہ نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﭽ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِيْکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَاناً فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْْکُمَا بِآيَاتِنَا أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَکُمَا الْغَالِبُونَﭼ (القصص: ٣٥) ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے ،چنانچہ فرعونی تم تک پہونچ ہی نہیں سکیں گے، ہماری نشانیوں کی وجہ سے تم اور تمہاری تابعداری کرنے والے ہی غالب ر ہیں گے۔
بہر حال تعلیم وتربیت اور دعوت وتبلیغ کے میدان میں زبان وبیان پر قدرت اور فصاحت وبلاغت کی بڑی اہمیت ہے، اس واسطے اساتذہ کرام کو اس کے لئے بھی محنت کرنا چاہئے اور ان کے اندر یہ صلاحیت بھی وافر مقدار میں ہونا چاہئے۔
(۱۰)حالات حاضرہ اور جدید مسائل سے واقف ہونا:
اساتذہ کرام کو حالات حاضرہ، عصر حاضر کے جدید مسائل اور نئے سماجی ومعاشرتی امور سے بھی واقف ہونا چاہئے، تاکہ وہ نصوص کتاب وسنت اور ادلۂ شرعیہ کی روشنی میں ان پر گفتگو اور تبصرہ کرسکیں اور اپنے دروس ومحاضرات اور خطبات وغیرہ میں موقع و محل کی مناسبت سے انکی تاریخ ، پس منظر،اسباب وعلل،ان میں حصہ اور دلچسپی لینے والے عناصر اور ان کے اغراض ومقاصد،صحیح حقائق،تدلیسات وتلبیسات، ان کا صحیح حل اور طریقِ کار وغیرہ کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈال سکیں۔ اور بہت سے عالمی ،علمی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی مسائل کے سلسلے میں جو طلبہ کے ذہنوں میں اشکالات اور الجھنیں رہتی ہیں وہ دور کر سکیں، تاکہ وہ قوم وملت کی قیادت وسیادت،معاشرے کی خدمت ا ور ان کے مسائل کا حل اطمینان قلب اور انشراح صدر کے ساتھ پیش کر سکیں۔اس کی خاطر انہیں اخبارات وجرائد اور دیگر وسائل اعلام ونشر واشاعت سے استفادہ کرنا چاہئے۔بڑے بڑے علماء ومفکرین کے افکار وخیالات کا مطالعہ کرنا چاہئے اور کتاب وسنت کے نصوص پر غور کر کے صحیح رائے اورفکر تک پہونچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور انہیں کنویں کا میڈک بن کر ہر گز نہیں رہنا چاہئے۔بلکہ انہیں مقامی، ملکی اور عالمی حالات سے پوری واقفیت رہنی چاہئے۔تبھی وہ تعلیم وتربیت کے حقیقی مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اور ان کی تعلیم وتربیت سے فقہاء، محدثین،مجددین، مفکرین،مصلحین اور قائدین پیدا ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں کوئی صالح انقلاب آسکتا ہے۔اورانسانیت کی صحیح تعمیر اور قوم وملت کی اصلاح وبیداری کا کام ہوسکتا ہے، ورنہ نہیں۔
(۱۱) بچوں کی نفسیات وغیرہ سے واقف ہونا:
استاد کو بچوں کی نفسیات، ان کی ذہنی وجسمانی صلاحیت، ان کے گھر کے حالات وماحول اور مزاج وغیرہ سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے، اسے معاملہ شناس، زیرک اور ہو شیار ہونا چاہئے تاکہ ان سب امور کا اعتبار کرتے ہوئے تعلیمی عمل کو انجام دے اور کامیابی اس کی قدم بوسی کرے۔ورنہ نتیجہ اس کے برعکس ہوگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے :’’ نحنُ معشرَ الأنبياءِ اُمِرنَا انْ نُنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَهُم ونُکَلِّمَهُمْ عَلٰی قَدْرِعُقُوْلِهِمْ ‘‘۔(رواہ ابوداود)
ہم انبیاء کی جماعت کو حکم دیا گیا کہ لوگوں کے مراتب ودرجات کا خیال رکھیں اور ان سے ان کی عقلی صلاحیت کے مطابق گفتگو کریں۔
چنانچہ علم کی قدروقیمت سے نا آشنا،تعلیم اور مدرسے سے نفرت رکھنے والے طلباء کے سامنے علمی موتیوں کو بکھیرنے سے قبل انھیں علم کی قدروقیمت اور اہمیت وفضلیت بتانی چاہئے اور جب وہ اس کے قائل اور قدرداں ہو جائیں اور ان کے اندر حصول علم کا شوق ہوجائے تب ان کے سامنے علمی باتیں پیش کرنی چاہئے ،ورنہ اس کی مثال ایسے ہو گی جیسے کوئی خنزیروں کی گردنوں میں سونے کا ہار پہنائے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب منسوب ایک قول ہے:’’لَا تَطْرَحِ الْلُؤلُؤَ اِلی الْخِنْزِيْرِ ،فَاِنَّ الْخِنْزِيْرَ لاَ يَصْنَعُ بِالْلُؤ لُؤِ شَيْئاً، وَلَا تُعْطِي الْحِکْمَةَ لِمَنْ لاَ يُرِيْدُهَا فَاِنَّ الْحِکْمَةَ خَيْرٌ مِّنَ الْلُؤ لُوؤ، وَمَنْ لَا يُرِيْدُهَا شَرٌّ مِّنَ الْخِنْزِيْرِ‘‘ خنزیر کو موتی نہ دو، کیونکہ خنزیر موتی لے کر کچھ نہیں کرے گا ،اور حکمت اس کو نہ دو جو اس کا خواہش مند نہ ہو کیونکہ حکمت موتی سے بہتر ہے ،اور جو اسے نہ چاہے وہ سور سے بھی بدتر ہے۔(جامع بیان العلم وفضلہ: ص۱۳۲)
اساتذہ کو چاہئے کہ تعلیم وتربیت میں ہمیشہ طلبہ وطالبات کی نفسیات کا خیال کریں۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لحاظ فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ ایک نوجوان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:یا رسول اللہ! مجھے زنا کی اجازت دیجئے۔ یہ سن کر قریب تھا کہ صحابہ کرام رضى الله عنہ اس پر ٹوٹ پڑتے۔مگر آپ نے فرمایا:اسے چھوڑ دو اور میرے قریب آنے دو۔جب وہ آپ کے قریب آگیا تو آپ نے فرمایا:’’أتُحِبُّهُ لأمِّکَ‘‘کیا تم یہ بری حرکت اپنی ماں كے لئے پسند کرو گے؟اس نے جواب دیا:اللہ کی قسم۔نہیں، اورکوئی بھی اپنی ماں کے ساتھ زنا کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟پھر آپ نے اس کی لڑکی،بہن،پھوپھی اور خالہ کی مثال دے کر پوچھا کہ ان میں سے کسی كے لئے تم زنا کو پسند کرتے ہو؟اس نے سب کا جواب نفی میں دیا۔پھر آپ نے فرمایا:اسی طرح کوئی شخص بھی پسند نہیں کرے گا کہ تم اس کی ماں، بیٹی،بہن، پھوپھی یا خالہ کے ساتھ زنا کرو۔اس سے زنا کی قباحت اس کے ذہن میں بیٹھ گئی اور آپ کی باتوں پر مطمئن اور زنا کی حرمت کا قائل ہوگیا۔پھر آپ نے اس کے جسم پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس کے حق میں یہ دعا کی:’’اللّٰهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ، وَطَهِّرْ قَلْبَهُ ،وَحَصِّنْ فَرْجَهُ‘‘(رواہ الطبرانی)اے اللہ اس کے گناہ معاف فرمادے،اس کا دل پاک کردے اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔
اس حدیث کے راوی امامہ باہلی رضى اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ کی اس دعا کے بعد وہ نوجوان کبھی کسی برائی کی جانب مائل نہیں ہوا۔
ایک مرتبہ بنی فزارہ کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:یا رسول للہ!میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے،حالانکہ میں گورا ہوں اور میری بیوی بھی گوری ہے۔آپ نے فرمایا:کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟اس نے جواب دیا:ہاں یا رسول اللہ! آپ نے پوچھا :ان کا رنگ کیسا ہے؟جواب دیا:ان کا رنگ سرخ ہے،آپ نے فرمایا کیا تمہارے اونٹوں میں کوئی خاکستری رنگ کا اونٹ بھی ہے؟جواب دیا:ہاں،پھر آپ نے فرمایا: یہ رنگ کہاں سے پیدا ہوگیا؟ اس نے جواب دیا: اس کی گذشتہ پشت میں کوئی خاکستری رنگ کا اونٹ رہا ہوگا، جس کا اثر اس پر آگیا ہے۔آپ نے فرمایا:اسی طرح تمہاری یا تمہاری بیوی کی گذشتہ پشت میں کوئی شخص کالے رنگ کا رہا ہوگا جس کا اثر تمہارے نو مولود بچے پر آگیا ہے۔(صحيح مسلم : 4/ 211)
یہ سن کر وہ شخص مطمئن ہوگیا اور دربار رسالت سے اطمینان ویقین کی دولت لے کر واپس گیا۔بہر حال اساتذہ کو اپنے طلبہ اور مخاطبین کی نفسیات،مزاج ،ماحول اور ذہنی وعقلی صلاحیت وغیرہ کا بھر پور علم ہونا چاہئے۔اور تعلیم وتدریس میں برابر اس کا لحاظ رکھنا چاہئے۔
(۱۲)مز من امراض اور بڑے جسمانی عیوب سے خالی ہونا:
تعلیم وتربیت کے عمل کو صحیح طور پر انجام دینے كے لئے ضروری ہے کہ استاذ کسی مزمن اور بڑی بیماری میں مبتلا نہ ہو۔کیونکہ اگر استاذ کسی مزمن مرض میں مبتلا ہو تو وہ تعلیم وتربیت جیسے اہم اور مشکل عمل کو صحیح طور سے انجام نہیں دے سکتا اور اس کے لئے جتنی محنت کرنی چاہئے وہ محنت نہیں کرسکتا۔نیز اپنی مستقل بیماری کی وجہ سے وہ بکثرت غیر حاضری کرے گا جس کی وجہ سے بھی تعلیم کا نقصان ہوگا۔
اسی طرح اگر کسی استاذ کے اندر کوئی بڑا جسمانی عیب یا ملفت نظر چیز پائی جاتی ہے تو اس کا بھی تعلیم پر برا اثر پڑے گا۔جیسے کوئی شخص بہت ناٹا یا بونا ہے تو اس كے لئے تعلیم وتربیت کے عمل میں خاصی پریشانی ہوگی اور شریر ومنچلے لڑکے اس کو دیکھ کر ہنسیں گے،مذاق اڑائیں گے اور پیٹھ پیچھے برے القاب سے پکاریں گے۔اور کلاس پر کنٹرول کرنا اور صحیح طور سے پڑھانا اس كے لئے مشکل ہو جائے گا۔کوئی ٹیبل پر بیٹھنے ،کوئی کرسی پر کھڑا ہونے كے لئے کہے گا ،کوئی اس کی کتاب لینے اور کوئی خود اسے گود میں اٹھانے کی کوشش کرے گا۔اس طرح اس سے تعلیم وتربیت کا عمل صحیح طور پر نہیں ہو پا ئے گا۔
اسی طرح اگر کوئی بہت موٹا یا بہت لمبا تڑنگا ہے تو وہ بھی لوگوں كے لئے ملفت نظر ہوگا اور طلبہ درس کو توجہ سے سننے کے بجائے اس کے مٹاپے اور قد وقامت پر غور وفکر اور تبصرہ کریں گے۔ اور شریر لڑکے ’’موٹو ‘‘اور’’ لمبو ‘‘کہہ کر تنا بز بالا لقاب کے گناہ کاارتکاب کریں گے۔
اسی طرح اگر کوئی ملفت نظر حد تک لنگڑا یا لولا ہے تو اس کو بھی تعلیم میں پریشانی ہوگی۔کم سننے اور کم دیکھنے والے اور بہت زیادہ ہکلانے والے استاذ كے لئے بھی دشواریاں ہوں گی۔اور بالکل بہرے یا گونگے شخص كے لئے تو پڑھانا ناممکن ہے۔ نابینا شخص كے لئے بھی تدریس کا عمل پریشان کن ہوتا ہے۔البتہ اگر مہذب،باوقار اور اہل علم کی دل سے عزت وقدر کرنے والے بڑی جماعت کے طلبہ ہوں تو باصلاحیت اساتذہ سے بعض جسمانی عیوب کے باوجود استفادہ کرسکتے ہیں۔اور ایسی صورت میں انہیں ایک معلم اور مربی کی حیثیت سے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ورنہ عام حالات میں اصحاب مدارس وجامعات کو اس پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور ایسے علماء کرام اور با صلاحیت حضرات سے دوسرے طریقوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔بہر حال ان میں سے ا کثر صفات از قبیل کمالیات ہیں ،جن کا حتی الامکان لحاظ کرنا چاہئے۔ لیکن کچھ استثنائی اور مخصوص صورتوں میں انہیں نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
تالیف – ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی، جامعہ محمدیہ ، منصورہ مالیگاؤں
بشکریہ- http://drfazlurrahmanmadni.blogspot.com/2011/02/blog-post_6555.html