اردو میں بچوں کا ادب -ایک تعارف

ڈاکٹر خوشحال زیدی برصغیر کے مایہ ناز ادیب، قلم کار،کہانی نگار کے علاوہ بچوں کے ادب کے مستند نقادہیں۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ اردو دنیا میں  ادب اطفال کو ایک باوقار مقام دلانا ہے۔

آپ نے بچوں کے لیے ڈھیر ساری کہانیاں لکھیں جس میں مٹھائی کا راز، جھوٹ کی بو، کتاب چور اور احسان فراموش قابل ذکر ہیں۔

آپ کی مشہور کتابوں میں ” بچوں کا ادب اکیسویں صدی کی دہلیز پر، اردو ادب اطفال کے معمار، اردو ادب اطفال میں خواتین کا حصہ، اردو ادب اطفال میں طنز وظرافت کی روایت، ادب نما کے علاوہ اردو کی درسی کتب میں حب الوطنی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

زیرِ نظر کتاب ( اردو میں بچوں کا ادب) مصنف کا وہ تحقیق شدہ مقالہ ہے جس پر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری تفویض کی تھی۔

پوری کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ” نظریات و مسائل ہیں” پہلے حصے میں چار ابواب ہیں، جن میں ” بچوں کا ادب، بچے کی نفسیات اور ادب اطفال، ادب اطفال میں بچوں کی نفسیات، بچوں کا ادب اور عمر کے مختلف مدارج، بچوں کا ادب اور اس کے بنیادی عناصر، ضروریات اور مسائل وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرا حصہ ” اردو میں ادب اطفال کا تاریخی ارتقاء ” ہے جس میں ادب اطفال کے تاریخی ادوار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ تیسرے حصے میں ” اردو ادب اطفال کی تخلیقی اصناف کا تجزیاتی مطالعہ” ہے، جس میں شاعری، کہانی، ناول اور ڈراما وغیرہ پر بحث ہے ۔

کتاب کی شروعات میں ہی بچوں کے ادب پر گفتگو کرتے ہوئے  موصوف کہتے ہیں کہ ہمیں ان سوالوں پر غور کرنا چاہیے کہ بچوں کا ادب کیسا ہونا چاہیے، بچوں اور بڑوں کے ادب میں کیا فرق ہوتا ہے وغیرہ ۔شفیع الدین نیر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ” بچوں کے ادب سے مراد نظم و نثر کا وہ ذخیرہ ہے جو خاص طور پر بچوں کے لیے لکھا گیا ہو یا اپنی معنویت اور افادیت کے اعتبار سے بچوں کے لیے موزوں ہو یا یوں سمجھئے کہ جو ادب چار یا پانچ سال کی عمر سے تیرہ چودہ برس تک کے بچوں کے لیے مخصوص ہو اسے ہم بچوں کے ادب سے تعبیر کرتے ہیں۔ بلاشبہ بچوں کے ادب کو بھی ان اقدار اور خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے جو کسی بھی زبان کی نظم و نثر کو ادب کا درجہ بخشتی ہیں۔ ان تحریروں میں خیال کی رفعت جذبہ کی صداقت ، زبان کی لطافت اور بیان کا حسن شامل ہیں”

زیدی صاحب اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ بچوں کے اندر ادبی ذوق کب پیدا ہوتا ہے اس  تعلق سے کہتے ہیں کہ ماہرین نفسیات، ماہرین تعلیم اور ماہرین لسانیات کی آراء کو اگر سامنے رکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بچوں کا ادبی ذوق چھ سال کی عمر میں جب وہ اچھی طرح سے بولنے لگتے ہیں تب  شروع ہوتا ہے اور تیرہ چودہ سال کی عمر تک پوری طرح ادبی شعور آجاتا ہے۔

موصوف نے مختصراً اس بات  پربھی گفتگو کی ہے کہ 7، 8 سال کی عمر کے بچوں کا ادب کیسا ہونا چاہیے، 9 سے 11 سال کے بچوں کا کیسا ہونا چاہیے، 12 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کا ادب کیسا ہونا چاہیے وغیرہ ۔ 7، 8 سال کے بچوں کے ادب کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس عمر میں جو طفلی ادب لکھا جائے وہ سادہ اور آسان زبان میں ہو اس میں تخیل زیادہ ہو، ساتھ ہی پرکشش تصاویر سے مزین ہو۔ 9 سے 11 سال کی عمر کے بچوں کے ادب میں زندگی سے متعلق چھوٹے چھوٹے واقعات، اخلاقیات وغیرہ کہانی کی شکل میں ہوں۔ 12 سے 14 سال والوں کے لیے کہتے ہیں کہ اس عمر میں بچوں کے اندر نئی امنگ، آزادی اور خودمختاری آجاتی ہے۔ اس لیے اس عمر میں ولولہ انگیز نظمیں، بڑے لوگوں کے کارنامے اور تاریخی و اخلاقی ناول وغیرہ پر توجہ دینی چاہیے۔

جولوگ بچوں کا ادب تخلیق کرتے ہیں ان کے بارے موصوف لکھتے ہیں ” لکھنے سے قبل مصنف کا فرض ہے کہ وہ یہ محسوس کرے کہ جو کچھ وہ لکھ رہا ہے خود اس کے اپنے لیے ہے، ادب اطفال کی تخلیق سے پہلے مصنف کو خود بچہ بننا پڑے گا۔ آج بچوں کے ادب کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ زیادہ تر کتابیں بچوں کے لیے محض سبق آموز، یا نصیحت آموز ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہم بچوں کو کچھ سکھانے کے لیے ان کی شخصیت کی تعمیر کے لیے لکھتے ہیں جس کے سبب وہ تصنیف تاثیر سے عاری ہوتی ہے۔”

آگے  لکھتے ہیں کہ  ادارکاری (Acting )  بھی بچوں کے لئے ضروری ہے اس سے جہاں ان کی قوت متخیلہ پروان چڑھتی ہے۔وہیں  ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے ، ساتھ ہی ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ان کے خیالات و افکار میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔

عام  خیال یہ  ہے کہ  جو بھی تخلیق آسان زبان میں ہو اسے بچوں کے ادب میں شامل کیا جاسکتا ہے یہ یوں کہہ لیں ہر وہ تخلیق جو آسان زبان میں ہو  وہی بچوں کا ادب ہے ۔ زیدی صاحب اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ بچوں کا ادب اور عام ادب میں بہت فرق ہے ہر کوئی ادیب اور کہانی کار بچوں کا ادیب نہیں ہوسکتا بلکہ بچوں کے لئے لکھناسب سے مشکل کام ہے۔ بچوں کے لیے لکھنے سے پہلے بچہ بننا پڑتا ہے۔ ان کی خواہشات ، ضرویا ت اور  ان کی دل چسپی ہر چیزکا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ عام فہم زبان میں لکھی گئی تحریریں بچوں کی درسی کتاب میں شامل کرسکتے جیسا کہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اسے بچوں کا ادب مان لینا درست نہیں ہے۔موصوف نے نظیر اکبرآبادی کی آدمی نامہ ، بنجارہ نامہ اور دوسرے  شعر ا کی نظموں اور کہانیوں کو بطور حوالہ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ یہ سب پڑھنے میں آسان تو ہیں لیکن یہ بچوں کے ادب میں شامل تحریریں یا نظمیں نہیں ہیں۔

آگے  بچوں کی اصناف شاعری ، کہانی  ، ناول  اور ڈراما وغیرہ پر بحث  اس میں بھی وہی بات بتائی گئی ہے بچوں اور بڑوں کا ادب  ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ان میں بھی بچوں کے احساسات وجذبات کا خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔

اس کے بعد بچوں کے نامور مصنفین اور شعرا کی  فہرست اور ادب اطفال کے سلسلے میں ان کے کارناموں کا ذکر ہے ،جس میں حالی ، شبلی ، ذکاء اللہ ، محمد حسین آزاد ، ڈپٹی نظیر احمد ، ماسٹر پیار ےلال ،اسماعیل میرٹھی ، نظیر اکبربادی ، اکبر الہ آبادی ، عبدالحلیم شرر،اقبال،پریم چندر، کرشن چندر ،ڈاکٹر ذاکر حسین،  قرۃ العین حیدر،حمید اللہ افسر ، شفیع الدین نیر ،افسر میرٹھی ، خلیل الرحمن اعظمی  وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

صاحب کتاب نے اس بات   پر دکھ کا اظہار کیا ہے کہ  ادب اطفال کی اہمیت و ضرورت  کو سامنے رکھتے ہوئے اردو میں بچوں کا ادب  نہیں لکھا گیا ۔ جنہوں نے طفلی ادب کی اہمیت و ضرورت کو سمجھتے ہوئے لکھا ہے ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے بلکہ بعض  ادیب اور شاعرایسے بھی جو  اسے ایک بچکانہ عمل سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔

قصہ مختصر کتاب اپنے موضوع کے اعتبارسے بہت عمدہ ہے ہر اس شخص کو جو ادب اطفال  میں دل چسپی رکھتا ہو اور  وہ جو بچوں کی تعمیر وسیرت کی نشوونما کے لئے  کوشاں ہو  اسے یہ کتاب اسے ضرور پڑھنی چاہیے۔

کتاب پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں۔

اردو میں بچوں کا ادب 

مبصر :  ابوالفیض اعظمیؔ

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے