برسات کی دس مختلف قسمیں دادی اماں کی زبانی

صحرائے تھار کے بعد برصغیر میں شاید دکن کا واحد مقام ہے جہاں، جو مانسون یا “برسات” کو بہت احترام ، پیار اور شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ہر بارش  کے موسم کو ہمیشہ ایک مہمان ،  اورایک ایسے “شخص “کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کی اپنی منفرد شخصیت، مزاج اور زندگی ہوتی ہے۔

میری دادی امی کے الفاظ میں، جو نصف مہاراشٹرین ہیں، “برسات کا ہر دن نیا پنی اتائی” (مانسون کے ہر دن کے ساتھ نئی بارش آتی ہے)۔ جس کے بعد وہ عقل کی گرہیں کھولنا شروع کردیتی ہیں، اور  اس جملے کا مطلب بتلاتی ہیں ‘نئی بارشیں’۔

وہ کہتی ہیں کہ ہر مہینے میں بارش کی دو قسمیں ہوتی ہیں ، ہر ایک  15 دن تک جاری رہتی ہے۔ یہ بہت دلچسپ بات تھی کہ انہوں  نے بارش کا حوالہ اس طرح دیا جیسے وہ کوئی شخص ہو ، جو آنے والا اور آکر ٹھہرنے والا ہو ، اور  جس کے جانے سے پہلے اس کی اچھی خاصی خاطر مدارت کرنی ہوتی ہے۔ انہوں نے  مجھے بارش کے 10  سے زیادہ مختلف  ناموں سے روشناس کروایا ۔

شروعاتی،بے خبری میں آنے والی او ر غیر موسمی بارش  جوموسم گرما میں آتی ہے ، “اوکال” کہلائی جاتی ہے۔ جو آم کی آخری فصل کے بعد فضاء میں موجود گندگی کو دور کرتی ہے  اور سوندھی مٹیالی سی خوشبو ہمیں فراہم کرتی ہے۔

جون کی 7ویں تاریخ کو “مِرگ” دندناتی ہوئی آتی ہے  جو مانسون کی پہلی بارش  ہوتی ہے جس کی آمد کی خوشی میں سطح مرتفع دکن  کے لوگ (کم از کم وہ جنہیں میری دادی ماں جانتی ہیں) اس پر جشن مناتے ہیں، مرغی اور مچھلی خاص طور پر پکاتے ہیں۔

جس کے اگلے ہی ہفتے “اَردھادا” آتی ہے  جو دو ہفتے تک زمین کو سیراب کرتی ہے۔یعنی وہ بارش جو “دھڑا  دھڑا “کا گانا گاتی ہے  اسی طرح جیسے کوئی مَست اداکار اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتا ہے ہر ایک کو محظوظ  اور خوش کرتا ہے  البتہ یہ بارش محفل کو  لوٹ لینے سے پہلی ہی چلے جاتی ہے۔

سطح مرتفع کے سر سبزو شاداب  کھیت  کھلیان  اور جنگلات  اگلے پورے مہینے ہر محیط “چھوٹے پھُسیا ” اور “بڑے پھُسیا” سے مستفید ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں جیسے مراٹھی میں مقولہ مشہور ہے “پھُسیہ کے لاگلی جھاڑی ، سوئیرا نے گھیتلا ئے پاڈی” یعنی پھُسیا کی پھُوار آگئی ہے ، اب سب کچھ رُک جانا چاہئے۔مسلسل صبح اور شام کی بارش  ایسے ہی جیسے کوئی پیپل کے ننھے پودے کو ہر وقت پانی دے رہا ہو جو  محض 30 دنوں میں ایک بڑے تنے کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔

یہ ایسا موسم  ہوتا ہے جب کہ مہمان  بارش کے رکنے کا انتظار کرتے ہیں، لوگ اپنے سفر کو ملتوی کردیتے ہیں ،جو متحمل ہوں وہ کام سے ایک آدھ دن کی چھٹی بھی لے لیتے ہیں اور جو قرنطینیہ کی شکل میں گھروں میں بند پڑے  رہتے ہیں وہ دکن کی بارشوں کے بارے میں  لکھتے رہتے ہیں۔

جب آدھا موسم گزر جاتا ہے تو ، “اسد” خان “آتا ہے جو اپنی پوری طاقت کے ساتھ پڑتا ہے اور چمکتی دھوپ کی روشنی لاتا ہے ، اس کے بعد کبھی افق کے اس پار دوہرے ست رنگ (رینبو)کا سماں بھی باندھتی ہیں ہیں۔

اگست کے اختتام پر “مگہ” نامی سیدھے گرنے والی  بارش آتی ہے ، جو اتنی برستی ہےکہ  چٹانیں بارش کے پانی کے راہداریوں کے نشانات دیتی ہے۔

مانسون کی چھٹی بارش کو “اُترا” کہا جاتا ہے جو سرخ مٹی والی زمین  پر کی جانے والی  پیداوار کے لئے کسی خوش قسمتی سے کم نہیں ہے۔دادی ماں کہتی ہیں  کہ “اترا ، بھٹ کھا نہ کچرا” (اترا ،اتنا پیدا کرتا ہے کہ کتے بھی چاول کو نہیں پوچھتے  ہیں)۔

اس کے بعد جو بارش آتی ہے وہ  دکن کی سبھی چھوٹی چھوٹی ندیوں  کو بھردیتی ہے۔ بارش کی گھڑا گھڑآواز کے ساتھ پانی میدانی سطح کے تپش حرارت سے  لے کر پہاڑوں کے درمیان سے گذرتے ہوئے خشک جنگلات تک کا سفر کرتا ہے۔جو محبان ِبارش کے کانوں تک موسیقی بہم پہونچاتا ہے ۔ اس بھر دینے والی بارش کو “پوربہ” کہا جاتا ہے۔

سیزن کی آخری دو بارشیں “ہاتھی” اور “چٹھی” ہیں۔ “ہاتھی” اس وقت ہوتی ہے جب آسمان میں ہاتھی کی جسامت کے بڑے  بڑے سیاہ بادل نمودار ہوتے ہیں ، جو تیز تر لیکن ستمبر کے آغاز میں وقفہ وقفہ کے ساتھ پانی  چھڑکتی  ہے۔

چٹھی دراصل  مانسون کی آخری بارش ہے۔ جب غیر مجاز ورثہ کی  عمارتیں اور گاؤں کے مکانات گر پڑتے ہیں۔ “چٹھی پاردلی بھٹّی” (چٹھی دیواروں کو گرانے کے لئے آتی ہے)۔ سیزن کی یہ آخری بارش مرتی ہوئی ثقافتوں اور فن تعمیرات کے تابوت میں آخری کیل کی طرح  ہوتی ہے اور غریبوں کے لئے مانسون کے ملبے کی مرمت کے لئے نئے چیلنجوں کا آغاز۔

میں نے اس سے پہلے کبھی دادی امی کو کسی اور چیز کے بارے میں اتنے پرجوش  انداز میں بات کرتے نہیں دیکھا تھا ۔ وہ کہتی ہیں کہ مانسون ان کا خاص موسم تھا ، موسموں میں موسم  چھپے ہوتےہیں ، اور مزاجوں میں مزاج  چھپے ہوتے ہیں۔ہر ننھا سا پودا بلند ترین آسمانوں سے گرنے والے تازہ تر پانی کے قطرات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ “کیسی قدرت ہے اُس کی” کہتے ہوئے اور  ہونٹوں پر لگے پان کے دھبوں کو اپنی ساڑی کے کنارے سے صاف کرتے ہوئے وہ اختتام کی طرف بڑھتی ہیں۔

مضمون نگار: خرم مراد بیدری

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے