بچوں کیلئے جامع کلاس رومز اور انکی زبان سیکھنے کی مختلف ضرورتیں

منصف: سونالی ناگ

مترجم:  سمین رضوی 

زبان سیکھنے کے عمل کو ایک ایسے لمبے جملے کی طرح  تصور کریں جس میں بہت سے الفاظ ہوتے ہیں۔ اب ذرا تصور کریں کہ ایک پوشیدہ  ہاتھ   اس جملے میں چند الفاظ کو  حذف کر دے یا بدل  دے۔ اس طرح کی ہر مداخلت جملے کو تھوڑا بہت بدل دے گی، لیکن کچھ تبدیلیاں دوسروں کے مقابلے مفہوم میں ایک بڑے بدلاؤ کا سبب بنے گی۔  ‘اور’ یا ‘یہ’ جیسے الفاظ کو حذف کر دینے سے شاید جملے کے اندر کوئی ڈرامائی تبدیلی  واقع  نہ ہو بہ نسبت اسکے کہ need  کو deed سے یا rhyme کو  rote سے  بدل  دیا جاے۔  اب ان میں سے ہر ایک تبدیلی کو ممکنہ طریقوں کے طور پر تصور کریں جس میں جین (gene) اور دماغی طریقہ کار زبان سیکھنے کے عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ زبان کی نشوونما پر اثرات بالکل  مختلف ہیں: کچھ رکاوٹیں چھوٹی اور آسانی سے ٹھیک ہوجاتی ہیں، دیگر زبان سیکھنے میں ایک بہت بڑا فرق چھوڑ دیتی ہیں جو اسکولی درجات سے بھی آگے بچے کے ساتھ باقی رہتی ہیں ۔ حیاتیاتی عطیات زبان کے استعمال میں مہارت اور ہنر  کی راہ کو گہرائی سے  وضع کرتے ہیں-

 لیکن حیاتیات اور پیدایشی صلاحیتیں ہی صرف  پوشیدہ ہاتھ نہیں ہیں جو زبان سیکھنے کے عمل کو تشکیل دیتے ہیں۔ زبان سیکھنے کے عمل میں ایک بار پھر مداخلت کا تصور کریں، لیکن اس بار ان طریقوں سے جو ہم اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ درس و تدریس میں چھوٹی چھوٹی  غلطیاں ہوتی ہیں جن کی اصلاح بے ساختہ یا اتفاقی  تجربات سے کر لی جاتی ہے۔  تاہم ، زبان کی تدریس کے کچھ خاص طریق کار سیکھنے کے عمل پر اپنے مخصوص انداز اثر کی وجہ سے دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جو حال لاپرواہی سے برتے گئے جملوں کے ساتھ ہوتا ہے اسی طرح تدریسی عمل میں چھوٹی لغزشوں  سے مفہوم اور مقصد میں چھوٹی تبدیلی واقع ہوتی ہے لیکن دیگر  مداخلتیں انتہائی تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ بچے کی زبان کی مکمل صلاحیت کا اظہار زبان سیکھنے کے ہر مرحلے میں اپنائے جانے والے نصاب سے متاثر ہوتا ہے۔

  فطرت اور پرورش کے درمیان ایک قدیم تناؤ ہے:وہ  صلاحیت جو بچے کو سیکھنے کی صورتحال  کے لئے تیار کرتی ہے اور وہ مواقع جو اس صلاحیت کے اظہار  کے لئے پیدا کیے جاتے ہیں۔ لیکن جو کچھ بھی یقینی نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ زبان کی تعلیم کے لئے کچھ مخصوص طریقے بچوں کی زبان سیکھنے کی صلاحیتوں کو نفیس اور مہارت کی اعلی سطح پر منتقل کرسکتے ہیں۔ دہائیوں کی مداخلت کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خصوصی تعلیمی ضروریات والے بچوں کے لئے بھی یہ سچ ہے۔ بالکل بنیادی سطح پر،  ایسا ماحول زبان کو سیکھنے کا ایک جامع ماحول  بھی  ہوسکتا ہے۔

میں اس ماحول کی وضاحت کروں گی جو میں سمجھتی ہوں کہ سیکھنے کا ایک جامع/وسیع ماحول ہے، لیکن سب سے پہلے، خصوصی ضروریات والے بچے کون ہیں؟

 تعلیمی ضروریات کے مختلف اقسام

زبان کے  سیکھنے کی کمزوری، سیکھنے اور  شعورکی کمی کے عارضے کے شکار بچے کلاس روم میں اپنی مخصوص ضروریات کے لئے کافی آسانی سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی مشکلات  کی سنگینی کی بنیاد پر ، یہ بچے ڈیسلیکسیا، مخصوص زبان کی خرابی، توجہ کی کمی، ڈاؤن سنڈروم یا آٹزم اسپیکٹرم عوارض میں سے ایک کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ان میں سے کچھ   بچے سادہ/آسان پڑھنے اور ہجے کے ساتھ جدوجہد کرسکتے ہیں، دوسرے کسی بھی  سطح کے پیچیدہ اور  گہرے تحریری لفظ کو پڑھنے  سے قاصر رہ سکتے ہیں۔ کئی طبی حالات میں زبان سیکھنے کا عمل مایوسی کا مجموعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

 مثال کے طور پرمرگی، نیوروفائبرومیٹوسس اور میننجائٹس کی وجہ سے بچوں کو زبان کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات پر جانے میں مشکل در پیش ہو سکتی ہے۔ قوت بینائی  و سماعت کی کمی بھی رکاوٹیں پیدا کر سکتی ہے۔ اور بالآخر وہ بچے جن کی معاشرتی و جذباتی زندگی ایک جدوجہد کی حیثیت رکھتی ہے وہ زبان سیکھنے کے مواصلاتی اور انٹرایکٹو پہلوؤں کو سیکھنے  کے قابل نہیں ہوسکتے۔  یہ مذکورہ بالا فہرست مکمل نہیں ہے بلکہ مخصوص ضرورتوں کی حدود کا مناسب تعارف ہے جو  ایسےکلاس رومس کی  مقتضی  ہے جو عمل و جزبہ دونوں کے اعتبار سے وسیع اور جامع ہوں ۔

ایسی دیگر تعلیمی ضروریات بھی ہیں جو ہمارے روزمرہ کے طریقوں کا ورثہ ہے۔ کولکاتا جو ایک ترقی پذیر میٹروپولیس ہے ، کے مرکز میں جودھ پور پارک کے اندر ایک کلاس روز مرہ کے معمولات کے مطابق ہوتی ہے۔ وہاں زبان کا سبق جاری ہے اور بچے بنگلہ زبان میں ایک سبق ایک ساتھ پڑھ رہے ہیں۔  تاہم، بہت سی آوازوں کا اتار چڑھاؤ سبق میں مشغولیت کی کمی کو چھپا نہیں سکتا۔ یہی تلاوت شہر کے کلاس رومس میں بھی گونجتی ہے اور دیہی علاقوں میں بلند تر ہوجاتی ہے۔

یہ اور اس جیسے دیگر معمولات کی وجوہات کی بناء پر  بچوں کی  ایک بہت بڑی تعداد  ایسی ہوتی ہے جو پڑھنے لکھنے کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہوتی ہے حالانکہ انہوں نے اپنا تعلیمی سفر  صحیح طور پرشروع کیا تھا۔ یہ وہ بچے ہیں جو کلاس 3 میں اپنے نام پڑھنے میں بھی ناکام رہتے ہیں ، جو کلاس 5 میں کسی زبان کے ٹیسٹ سے پہلے ہر جملے کو حفظ کرتے ہیں اور کلاس 7 میں  کسی تحریر کی باریکی کو سمجھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے اپنے اسکولی کیریئر کی شروعات کسی مخصوص عارضے کے بغیر کی تھی لیکن ان کی درسی کتب کے صفحات نے ان کو نقصان پہنچایا ہے۔

 بچوں کی ایک بڑی تعداد  کے زبان کی صلاحیت کے کم ہونے کے پس منظر   میں میں جامع اور وسیع کلاس روم کی وضاحت کرنا چاہوں گی: ایک درس و تدریس کا ماحول جو انفرادی امتیازکی ہر سطح پر حمایت کرتا ہے۔ چاہے یہ امتیازات ان بچوں کی طبی یا ان کی  تعلیمی تاریخ کے سبب کیوں نہ پیدا ہوئے ہوں۔

تغیرات پر غور

شعوری عمل کا سلسلہ بچے کے زبان سیکھنے کی کارکردگی میں بہتری لاتا ہے۔ یہ شعوری عمل ان طریقوں کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں جن کے ذریعے دماغ کی نام نہاد سخت وائرنگ خود کلاس روم میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ شعوری عمل پیچیدہ دماغی افعال کو روزمرہ کی زبان کے اظہار میں اشعار پڑھنےسے لیکر ڈکٹیشن ٹیسٹ، کہانی لکھنا اورتبصرہ کتب میں بدل دیتے ہیں۔ اگر ہم ان کاموں میں بچوں کی ایک تعداد کا جائزہ لیں جو ان ادراکی  اعمال (cognitive processes) میں سے کسی ایک کا مطالبہ کرتے ہیں تو، ہمیں ایک بہت بڑا گروپ مل جائے گا جو اوسط درجے میں کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا جبکہ کچھ ایسے بچے جو نہایت بہترین تو کچھ نہایت بری کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔  ان ادراکی اعمال کے اظہار کو تسلسل کے ساتھ رکھنا اس بات کو یقینی بنائے گا کہ بیماری کی تشخیص کسی خصوصی تعلیمی اعانت کا ابتدائی نقطہ نہ بن جائے۔ بلکہ، اگر کوئی بچہ مہارت کے تسلسل سے پھسل جاۓ تو یہ فکر کی بات ہو سکتی ہے۔

ایسے  بچے جن میں کسی کلینیکل حالت  (condition) کی تشخیص ہوتی ہے وہ کچھ مخصوص کلسٹر کے ادراکی عمل کے معاملے میں گراوٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈسلیکسیا والے بچوں کو کسی زبان میں حروف پہچاننے اور بولنے   میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے وہ حروف اور اکشر کی آوازوں کی صحیح تمیز کرنے میں جدوجہد کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پڑھنے اور ہجے کی بار بار غلطیاں ہوتی ہیں۔ زبان کے گرائمر سے متعلق متزلزل ادارکی عمل اور ذخیرہ الفاظ کو جمع کرنے کی مشکلات دراصل Specific Language Impairment (ایس ایل آئی) والے بچوں کی شناخت ہے۔ زبان کی ان وسیع صلاحیتوں میں کمزوری بچوں کو  سننے اور پڑھنے دونوں میں  ناقص رکھتی ہے ۔

توجہ کی کمی میں ہونے والی خرابی کی شکایت،Attention Deficit Disorder کی وجہ سے زبان سیکھنے کے عمل سے ادراکی پراسس غائب ہو جاتا ہے۔ انتشار (disorder) کے نام سے ہی پتا چلتا ہے کہ ADD کا شکار بچہ، توجہ دینے کی کوشش میں سخت دشواری کا سامنا کرتا ہے۔ اس کا مطلب صرف لرننگ پر توجہ مرکوز نا کر پانا ہی نہیں، بلکہ توجہ میں دخل دینے والے عوامل کو کنٹرول نہیں کر پانا بھی ہے۔ اس طرح کی دشواری کے ساتھ، ADD کا شکار بچہ ڈسلیکسیا والے بچے سے بہتر پڑھنا  سیکھ سکتا ہے اور SLI والے بچے سے بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے، لیکن پھر بھی زبان سیکھنے میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بہت سی غلطیاں کرسکتا ہے۔

طبی حالات کے یہ تھمب نیل خاکے  زبان کو سیکھنے میں شامل  مختلف ادراکی عمل کو بیان کرتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ کیسے کسی ایک محاز  میں معذوری  سیکھنے کی رفتار کو کم کر دیتی ہے۔  تاہم ، یہ خاکے ‘خالص’ کیسز کے ہیں، جو بہت کم ہوتے ہیں۔ بہت ساری مشکلات والے بچوں میں کمزوریوں کا ایسا پروفائل موجود ہوتا ہے جو تشخیصی زمرے کو بھی توڑ دیتا ہے۔

ایک جامع (inclusive) کلاس روم کا مطلب یہ ہوا کہ بچوں کو اس طرح سے مخاطب کیا جائے گویا انہیں سیکھنے کے لیے ہر طرح کی مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔

کچھ بچے جو کلینیکل کنڈیشن سے گزر رہے ہوتے  ہیں انہیں یقینی طور پر زیادہ سہارے کی ضرورت ہوگی۔ اس طرح کے انفرادی سہارے کو وسائل روم یا  سیکھنے میں معاون سیکشن میں پل آؤٹ پروگرام کے ذریعہ بہترین طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

لیکن کسی اسکول میں پل آؤٹ پروگرام قائم کرنے سے کسی بھی طرح inclusive کلاس کی ضرورت  کو کم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  صرف مختلف صلاحیتوں والے بچوں سے بھری کلاس میں ہی نئی صلاحیتوں اور مقابلہ کرنے کے طریقوں پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، جامع کلاس روم صرف وہ جگہ نہیں ہے جہاں بچوں کو متزلزل مہارت کو مضبوط کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جامع کلاس روم واقعتا واحد راستہ ہے جس میں ایک اسکول بغیر کسی کمی کے  بچے کی بھرپور پرورش کرتا ہے  ۔

 پریکٹس مفید ہے اور تنوع (variety) اس سے بھی زیادہ مفید

برسوں کے نیورو سائنس کی تحقیق سے جو بات واضح  ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نئی آموزش کے بہت سے علمی راستے تدریسی عمل میں بہتری لاتے ہیں۔ نئی آموزش ہجے کی گتھیوں کو سلجھانے، نئے لفظوں کے قواعد وضع کرنے یا غیر متوقع طور پر پیچیدہ حصوں سے معلومات تیار کرنے کیلئے ہوسکتی ہے۔ جب کہ کئی طرح کے راستے ہیں کہ کیسے نئی صورتحال میں مہارت حاصل کرنے کیلئے کس طرح متعدد نقطہ نظر موجود ہیں، مداخلت کی تحقیق ( intervention research) میں کچھ اتفاق رائے یہ ہے کہ پریکٹس سے بہتر کچھ بھی نہیں۔ تاہم، اس آسان محور کے فوائد ضائع ہو سکتے ہیں جب میکانیکی عمل اور تکرار کو  مشقوں کے  مساوی کیا جائے۔ ہجے (spelling) سکھانے کیلئے بچوں کو 25 بار کسی لفظ کی کاپی کروانا ایک غلط طریقہ ہے۔ یہ مصنوعی معمولات ہیں جو   چند باتیں سیکھنے  میں معاون ہو سکتے ہیں   لیکن طویل عرصے میں، بچے کے اندر زبان کو  کھیل کھیل میں  سیکھنے اور اسکی گہرائی میں اترنے کی بے ساختہ خواہش کو ختم کر دیتے ہیں۔  توازن تب پیدا ہوتا ہے جب اختراعی (innovative) اساتذہ  پریکٹس کو متنوع طریقوں کے اندر  شامل   کرتے ہیں۔  جامع (inclusive) زبان والے کلاس روم اس طرح ایک ایسا درس و تدریس کا ماحول رکھتے ہیں جو زبان سیکھنے کے عمل میں،  بچوں کی صلاحیتوں اور مشکلات کو مد نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ   کسی ٹاسک کے بارے میں بچے کے جذبات اور محرکات کا بھی لحاظ رکھتے ہیں۔

 جامع / وسیع طور پر کام کرنا

ایک جامع کلاس روم کی ساخت میں لچک ہوتی ہے۔ یہ کلاس روم کھلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں، نا کہ تمام بچوں کو لازمی طور پر ایک بند، پہلے سے طے شدہ منصوبے میں فٹ کرنا چاہتے ہیں۔ درج ذیل تین شعبوں میں کشادگی کلاس روم کو واضح طور پر جامع بنا سکتی ہے۔

ہر بچے کے لئے صحیح ورک شیٹ

  (1 کسی خاص موضوع پر اپنے اسباق کی منصوبہ بندی کرتے وقت تھوڑی زحمت گوارا کرتے ہوئے  متعدد ورکشیٹس تیار کریں۔ ورک شیٹ میں اضافی سوالات متعارف کروانا ان طلبا کے سامنے چیلنجز پیش کرسکتا ہے جو باقی گروپ سے تیز ہیں۔ خاکہ، فلوچارٹس اور مائنڈ میپس (mind maps) کے ذریعے معلومات فراہم کرنے والی ورکشیٹس ان بچوں کے لئے معاون ہو سکتی ہیں جو  کسی ایک  پیسیج میں پوائنٹس کو جوڑنے میں الجھنوں  میں پڑ جاتے ہیں۔  نکات (bulleted points) والی ورک شیٹس انہیں لمبے پیسیجز پڑھنے میں کافی مدد فراہم کر سکتی ہے۔

 ہر بچے کے لئے صحیح ہوم ورک

 2) خاص ضرورتوں والے بچے دوسرے بچوں کے مقابلے میں اکثر کئی گھنٹے کام کرتے رہتے ہیں۔ انہیں کلاس ورک ختم کرنے کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ گھر بھیجے ہوئے کام کو مکمل کرنے کے لئے بھی انہیں مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، بچے کے پاس بہت کم فری ٹائم رہ جاتا ہے۔ اساتذہ اس بات کا اطمینان رکھ کر مدد کرسکتے ہیں کہ گھر کے اسائنمنٹ کی لمبائی بچے کے کام کی رفتار سے مماثل ہے۔

جب اساتذہ اس طریقے سے بچوں کے کاموں کی نگرانی کرتے ہیں تو کچھ بچوں کا دوسروں کے مقابلے میں کم ہوم ورک ہوتا ہے-

 ہر بچے کے لئے صحیح ٹیسٹ

3) جب تحریری ٹیسٹ تشخیص کا واحد طریقہ ہوتا ہے تو سارے بچے اپنی آموزش کو ظاہر (showcase) نہیں کرسکتے ہیں۔ کچھ بچے زبانی ٹیسٹ پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ دوسرے بچے بھی ہیں جو رفتار کے دباؤ میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن جب ٹیسٹ پابند وقت (timed) نہ ہو، تو وہ بہتر نمبر حاصل کرتے ہیں۔ تشخیص(assessment) کچھ بچوں کی انفرادی قوت کیلئے حساس ہوسکتی ہے اور انکی کمزوریوں کیلئےمختلف صورتوں میں آزمائش بھی ۔ اساتذہ بچوں کو اپنی تعلیم کو ظاہر (show) کرنے کے زیادہ امکانات پیش کرسکتے ہیں جیسے، انکا ایک پورٹ فولیو تیار کرا کے۔ ایک پورٹ فولیو ،تحریری اور  زبانی ٹیسٹوں میں،  ذاتی رفتار والےکام (self-paced tasks) اور پابند وقت حالات (timed situations) میں تحقیق پر مبنی کام اور تجرباتی کام میں بچوں کی کارکردگی کو ملا کر  رکھتا ہے۔

—————————————-

 منصف: سونالی ناگ ایک طبی ماہر نفسیات ہیں جو علمی نیورو سائنس میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ وہ بنگلور کے پرومس فاؤنڈیشن میں ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیں اور سنٹر فار ریڈنگ اینڈ لینگویج ، یونیورسٹی آف یارک ، یو کے میں ایک ریسرچ فیلو ہیں-

بشکریہ لرننگ کرو  ، عظیم مریم جی یونیورسٹی، بنگور

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے