زلزلے سے درختوں کی افزائش میں بھی مدد ملتی ہے

مترجم : زبیر صدیقی

زلزلوں کا تعلّق ہمیشہ تباہی سے ہی کیا جاتا ہے لیکن ایک نئی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ زلزلے، تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی، جنگلات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جرنل آف جیو فیزیکل ریسرچ بائیوسائنسز میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق شدید زلزلوں کی وجہ سے درختوں کی جڑوں کے اردگرد زیادہ پانی بہنا شروع ہو جاتا ہے جس سے درختوں اور پودوں کے نشوونما میں مدد ملتی ہے- اس قلیل مدتی نشونما درختوں کے خلیوں میں اپنا نشان چھوڑتی ہے جس کی مدد سے ماضی میں ایسے زلزلوں اور اس وقت کا بہتر طرح سے اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔

درحقیقت، پوٹسڈیم یونیورسٹی کے ہائیڈروولوجسٹ کرسچن موہر زلزلوں اور درختوں کی نشونما کے درمیان تعلق کی تلاش کرنے نہیں گئے تھے- وہ تو ساحلی چلی دریائی گھاٹیوں میں تلچھٹ کی منتقلی کی تحقیق کرنے گئے تھے- ان کی اس تحقیق کا رخ بدل گیا جب 2010 میں چلی میں 8.8 شدت کا زلزلہ آیا- زلزلہ اور اس کے ساتھ آنے والی سونامی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس نے دریا کی گھاٹیوں کو ہلاکر رکھ دیا- ساحلی چلی کے کچھ حصّے تباہ ہو گئے، سینکڑوں لوگ ہلاک اور لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔

زلزلوں کا تعلّق ہمیشہ تباہی سے ہی کیا جاتا ہے لیکن ایک نئی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ زلزلے، تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی، جنگلات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

جب موہر اور انکی تحقیقی ٹیم ایک دریا کی گھاٹی میں واپس آئی تو انہوں نے دیکھا کہ دھارے پہلے سے زیادہ تیزی سے بہہ رہے ہیں- انکا اندازہ تھا کہ زلزلے کے شدید جھٹکوں نے مٹی کو ڈھیلا کر دیا ہوگا جس سے زمین کے اندر کے پانی کی ندیوں کا گھاٹی کی طرف بہنے کا راستہ آسان ہو گیا- یعنی زلزلے کی وجہ سے پہاڑی کے اوپری حصّے میں موجود درختوں کی قیمت پر گھاٹی کے درختوں کو بڑھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس کی حقیقت کو جانچنے کے لئے موہر اور انکے ساتھیوں نے ساحلی چلی کے پاس کی گھاٹی کے فرش اور پہاڑوں کی چوٹی پر لگے چھ مونٹیرے پائن درختوں سے لکڑی کے دو درجن نمونے (پلگ) نکالے- یہ پلگ پنسل سے پتلے اور لمبائی میں اس سے دوگنا تھے- انہونے پلگوں کی ان چھوٹی-چھوٹی کٹانوں کی تحقیق خوردبین کی مدد سے کی اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ زیادہ پانی ملنے پر درختوں کے ولیوں (رنگ) کے اندر کی خلیوں کی شکل میں کس طرح کی تبدیلیاں آتی ہیں۔

قدرت کا عمل ہمیشہ تعمیری ہوتا ہے۔

اس کے  علاوہ، انہوں نے ان خلیوں میں بھاری اور ہلکے کاربن آئسوٹوپس میں تبدیلی کی بھی تحقیق کی- فوٹو سینتھیسس کے دوران  درخت کاربن-13 کے مقابلے کاربن-12 زیادہ لیتے ہیں- لہذا خلیات میں کاربن کے ان دو آئسوٹوپس کے تناسب میں تبدیلی سے فوٹو سینتھیسس میں اضافے کی معلومات مل سکتی ہیں۔

تحقیق میں انہوں نے گھاٹی کے فرش کے پاس کے درختوں میں زلزلے کے بعد افزائش میں معمولی اضافہ پایا، جو کچھ ہفتوں سے لیکر مہینوں تک جاری رہا- یہ افزائش بھاری بارش کے بعد ہونے والی افزائش جتنی ہی تھی- دوسری طرف، جیساکہ اندازہ تھا، زلزلے کے بعد چوٹی پر لگے درختوں کی افزائش کم ہو گئی۔

دیگر محققین کا کہنا ہے کہ اس تکنیک کی مدد سے زلزلوں اور ایسے واقعات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جو درختوں کی قلیل مدتی افزائش کا سبب بنتے ہیں- اس طرح کی افزائش صرف درختوں کے رنگز کی موٹائی کی تحقیق کرنے سے پکڑ میں نہیں آ پاتی- چونکہ درخت کے رنگز ہر سال درخت کی اوسط افزائش کو بتاتے ہیں، اس لئے زلزلے، آتش فشاں پھٹنے اور سونامی جیسے واقعات کے واقع ہونے کا وقت ایک سال کی درستگی تک ہی پہچانا جا سکتا ہے- لیکن، کاربن آئسو ٹوپ ڈیٹا اور خلیوں کے ناپ سے تعلّق رکھنے والے ڈیٹا کو ایک ساتھ رکھنے پر محققین چلی میں واقع زلزلے کے وقت کو ایک مہینے کی درستگی کے ساتھ طے کر پاے۔

اس تکنیک کو مختلف مقامات پر دوہرایا جانا چاہئے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ تکنیک درختوں کی مخقلف اقسام اور آب و ہوا پر لاگو ہے یا نہیں- ویسے موہر کا اندازہ ہے کہ یہ طریقہ نسبتاً خشک علاقوں میں بہترین کام کریگا، جہاں زیادہ پانی کی وجہ سے اضافہ زیادہ ہوتا ہے- وہ کیلی فورنیا کی ناپا گھٹی میں تحقیق کو دوہرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سورس : Srote features

Author: Zubair Siddiqui

ایکلویہ فائونڈیشن سے جڑے ہیں اور سائینسی تعلیم اور تحریر میں دلچسپی رکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے