مجھے کیمسٹری کیوں پسند ہے؟

تحریر: نیرجہ راگھون  

مترجم : زبیر صدیقی

 نویں درجہ میں پہنچنے تک میں بھی اسکول کی دوسری لڑکیوں کی طرح تھی جسے یہ تک نہیں معلوم تھا کہ وہ کالج میں کیا کرنے والی ہے- کبھی میری دلچسپی ادب تو کبھی فن تو کبھی علم طب میں ہوتی تھی- اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ مستقبل کافی دھندھلا لگ رہا تھا جس نے باری باری  سے دیگرساتھیوں کےرجحانات سے  متاثرہ ایک نئی شکل اختیار کرلی تھی-    

تعلیم سے پریشان بچّہ في الحقیقت بہترین استاذ کی تلاش میں رہتا ہے

اور پھر، ہمارے درجہ 9 میں علم کیمیا کی ٹیچر داخل ہوئیں- میں نے ان کے غیر معمولی اور انوکھی خصلتوں کے بارے میں سنا تھا: کہ وہ بنا چنّٹ کے ساڑی پہنتی تھیں، بہت زیادہ میک اپ کرتی تھیں اور وہ ہمیشہ چھت کی طرف دیکھتے ہوئے بات کرتی تھیں اور میں نے  سارے ہی معاملوں میں ان کی شہرت کے مطابق ہی ان کو پایا-

لیکن مجھے یہ کسی نے نہیں بتایا کہ وہ ایک دل آویز خاتون تھیں!

ان کی طرف میری توجہ ‘گو ‘ لفظ سے ہوئی! مجھے وہ موضوع تو یاد نہیں لیکن وہ جیسے جیسے کیمیا کے موضوع کو واضح طور پر پڑھاتی جاتیں میری پوری توجہ انکی طرف یوں ہوتی گویا کسی نے جادو کر دیا ہو- مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ ان کی پہلی کلاس کے بعد میری شخصیت پہلے جیسی نہیں رہی تھی- یقینا   ان کے اندر موجود واضح انداز تفہیم حیران کن تھا- 

یہ ایسا تھا کہ جیسے جیسے ان کی زبان سے الفاظ نکلتے جاتے میری آنکھوں کے سامنے ایک صاف شفاف کتاب کے صفحات منور ہوتے جاتے-  واہ کیا عنوان ہے، اگر اس دلچسپ شعبے میں مجھے مزید سیکھنے کا موقع ملے تو میں ضرور سیکھنے کے لئے تیار ہوں-

ابھی میں جان گئی ہوں کہ میں کیا کرنا چاہتی ہوں: کیمیا، کیمیا اور صرف کیمیا- اگرچہ کوئی میرے گلے    میں کیمیا کے بیرل در بیرل ڈال دے تو میں خوشی خوشی یہ سب پینے کے لئے تیار ہوں- حقیقت تو یہ ہے کہ اس دن سے جب بھی میں ٹائم ٹیبل کے مطابق اپنا بستہ باندھنے کا کام کرتی  تو کیمیا کا پیریڈ ٹائم ٹیبل سے چمکتا ہوا نظر آتا تھا گویا اس کی اپنی کوئی روشنی ہے- میں درد بھرے انداز میں فکر کیا کرتی کہ ہمارے سبھی آٹھ گھنٹےکیمیا کے کیوں نہیں ہوتے- اور ان دنوں جب کسی روز کیمیا کے دوگنے گھنٹے ہوتے تھے تو میں انتہائی خوشی کے ساتھ اسکول جایا کرتی تھی-   

جب بچہ اپنی دلچسپی کا موضوع ڈھونڈ لیتا ہے تو وہ علم کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔

اب آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اس استانی کے بارے  میں کیا خاص بات تھی- سب سے پہلے تو ان کی گفتگو کا انداز واضح تھا- میرے لئے ان کا ایک بار بتانا ہی کافی ہوتا تھا- میں سمجھ جاتی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہیں- اس کے ساتھ ہی وہ کسی موضوع کے علم استدلال کی تشریح واضح انداز میں پیش کرتی تھیں- ان کے پڑھانے پر کیمیا ایک بہت ہی آسان سبجیکٹ معلوم ہوتا تھا (اور میرے اسکول ختم ہونے تک وہ ہی میری کیمیا کی استانی رہیں)- مجھے اس بات پر مکمّل اعتماد تھا کہ بورڈ (اسکول چھوڑنے) امتحاں میں دوسرے سبجیکٹ کے مقابلہ کیمیا میں مجھے سب سے زیادہ نمبر حاصل ہونگے-  (جب کہ ایسا نہیں ہوا اور پانچ سبجیکٹ میں سے مجھے سب سے کم نمبر کیمیا میں ملے)-   

لیکن میرے لئے سب سے قیمتی بات یہ تھی کہ امتحانات میں میری کارکردگی نے اس سبجیکٹ سے میری محبت کو متاثر نہیں کیا-

مجھے محترمہ گومیز نے انمول چیز عطا کی تھی: ایک ایسے سبجیکٹ سے محبت جو عقیدت کا روپ اختیار کر چکی تھی- علم کیمیا میرا پہلا سچا پیار تھا: اور مجھے اس بات سے کوئی اعتراض نہیں کہ میری محبت یک طرفہ ہے! میں کالج میں اس سبجیکٹ کے حصول کے لئے پوری طرح سے پرعزم تھی- کیوں، کیونکہ میں ایک نیا عنصر دریافت کروں گی اور اسکا نام نیرجنیم رکھا جائے گا-میرے لئے میری کیوری (Mary Curie) پہلی رول ماڈل تھیں اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر محترمہ گومیز- 

بچہ اپنی خوشی اپنے اندر تلاش کرتا ہے جب مل جاتی ہے تو وہ نمبرات وغیرہ سے بےنیاز ہو جاتا ہے۔

میرے اسکول کے آخری سال میں، دوردرشن نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام نشر کیا جس میں انہوں نے دہلی یونیورسٹی کے محققین کا انٹرویو لیا تھا- ٹی.وی. چینل نے علم کیمیا میں پی.ایچ.ڈی کرنے والے نوجوان مرد اور خواتین سے گفتگو کی تھی- ان نوجوانوں کو دیکھ کر ایسا لگتا جیسے ان سے زیادہ افسردہ گروہ اور کوئی نہیں ہے- ان کی پوری باڈی لینگویج (Body language) ان کی مایوسی کو پیش کر رہی تھی- کیمرے کے سامنے یہ افسردہ نوجوان ایک ایسے میدان کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی قسمت پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے جس کا کوئی مستقبل نہیں ہے- ان میں سے بہت سے لوگوں نے سستی کے ساتھ یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے ڈاکٹریٹ مقالے جمع کرنے کے بعد کس طرح  بےروزگار ہوں گے-    

اگلے ہی دن میں نے خود کو میری جماعت کے ساتھیوں کے بیچ گھرا ہوا پایا-

[سبھی اچھی طرح جانتے تھے کہ میں نے کالج میں علم کیمیا کی پڑھائی کرنے کی طرف دل لگا لیا ہے-]

“پھر” انہوں ‘نے بناوٹی طور سے ہنستے ہوئے پوچھا- “کیا تم نے کل رات کا پروگرام دیکھا تھا؟”

میں نے کافی سکون سے جواب دیا ” ہاں میں نے دیکھا”

“اور؟ تم نے کالج میں اب کیا کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟”

میں نے بنا رکے جواب دیا “کیمسٹری”

“کیا تم پاگل ہو؟” وہ حیران ہو گئے اور گدھوں  (vultures)کے جھنڈ کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑے- کیا مجھے اس بارے میں ذرا بھی اندازہ ہے کہ میں کیا کرنے جا رہی ہوں؟ ایک برباد زندگی؟ ایک ایسی زندگی جس میں کیریئر کے کوئی مواقع نہیں ہیں-

مجھے اس بات کا ذرا بھی اندیشہ نہیں تھا اور میں نے بہت ہی نرمی کے ساتھ ان کو جواب دیا کہ “مجھے یہ سبجیکٹ پسند ہے اور میں یہی کرنا چاہتی ہوں”-

یہ اس شدّت کا مظاہرہ کرتا ہے جس کے ساتھ میں نے پہلے سے ہی اس سبجیکٹ سے محبّت کی اور بالکل بھی ڈر نہیں لگا- بہر حال، جب کوئی اپنے پسند کا کام کرتا ہے، تو وہ کسی اور مقصد کی طرف نہیں دیکھتا، بس یہی میری سادہ سی منطق تھی- اس کے کچھ سال بعد جب میں نے کیمیا میں ماسٹرس کی تعلیم مکمّل کی اور اسی سبجیکٹ میں پی.ایچ.ڈی کرنے کا فیصلہ کیا، تب میں نے محترمہ گومیز کو ایک خط لکھا اور اس دیرپا عشق کا بیج بونے کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا- 

جب ایک استاذ بچّہ کو اسکی علمی دلچسپی کے راز سے آشنا کردیتا ہے تو وہ ہر خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔

یہ تو اور آگے چل کر کیریئر کے انتخاب کا سامنا کرنے پر میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے اس طرح کا ایک اور بیج بویا ہے: کیونکہ اب تک مجھے واضح طور پر یہ سمجھ آ گیا تھا کہ مجھے ٹیچر بننا ہے- اگر ایک استاد مجھ پر اثر ڈال سکتا ہے تو یہ کتنی اچھی بات ہوگی کہ میں کسی طالب علم کو اسی طرح متاثر کر سکوں- 

اور اس طرح سے 

ایک Dedicated ٹیچر نے اعلی تعلیم کے لئے، میرے ذریعہ موضوع  اور کیریئر کے انتخاب اور کئی طریقوں سے کیمیا اور سائنس میں میرے سوچنے کے انداز میں،  میری زندگی کے رخ کو موڑ دیا- 

مجھ سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اس استاد نے اپنے تمام طلباء پر اسی طرح کا اثر ڈالا:  نہیں، انہوں نے کسی اور پر ایسا اثر نہیں ڈالا- اگرچہ بیشتر طلباء یہ مانتے تھے کہ وہ اچھا پڑھاتی ہیں، میں ان چند لوگوں میں سے تھی جو مکمل طور سے ان کے اثرمیں تھی-

لیکن مجھے لگتا ہے کہ میری کہانی سے کئی سبق ملتے ہیں جیسے، ایک استاد کے دسترس  میں نہ صرف سبجیکٹ کو دیکھنے کے نظریہ بلکہ کیریئر کے انتخاب کو بھی قابو میں رکھنے کی طاقت ہوتی ہے- آج، میں ایمانداری کے ساتھ گواہی دے سکتی ہوں کہ کیمیا کوئی ایسا سبجیکٹ نہیں جس کو دوسرے علوم کی نسبت زیادہ حافظہ کی ضرورت ہے- کیوں کہ مجھے ایسا ہی سکھایا گیا ہے، مجھے امید ہے کہ، میں اسی طرح سکھانے میں بھی کامیاب رہونگی- شکریہ، محترمہ گومیز-  

مصنفہ کے بارے میں:نیراجا راگھوان عظیم پریم جی یونیورسٹی میں پی، ایچ، ڈی اسکالر، مشیر، اکیڈمک اور تدریس کی ماہرہ ہیں۔ ا اس ای میل کے ذریعے اُن سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔  

[email protected]

بہ شکریہ : لرننگ کرو

 

Author: Zubair Siddiqui

ایکلویہ فائونڈیشن سے جڑے ہیں اور سائینسی تعلیم اور تحریر میں دلچسپی رکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے