تحتانوی مدارس میں حقیقی اور ٹھوس تجربات کا کردار

مصنفہ :مینا سریش 

مترجم : نثار احمد

اگرچہ کہ بہت ساری دوسری چیزیں جیسے ہمارا تمدن، عقائد اور طرزِ زندگی میں زبردست تبدیلیاں ہو رہی ہیں ،‌لیکن مدارس میں ریاضی تعلیم کے روایتی خاکے لگ بھگ ایک صدی سے بغیر کسی تبدیلی کے زیادہ تر وہی ہیں۔ آج تک بھی مدارس میں ریاضی کی تعلیم سخت ذہنی مشقت کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ مدار س میں بالخصوص تحتانوی جماعتوں میں تعلیم پر ارتکاز کھو چکا ہے ۔ ریاضی اساتذہ کے لئے ایک الجھانے والا مضمون رہا ہے جنھیں خود ہی پتہ نہیں ہوتا کہ در حقیقت یہ کیا چیز ہے۔ وہ اس مضمون سے جڑے تعلیمی و تدریسی مسائل سے بخوشی لا علم رہتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے سے قاصر اساتذہ محض خام تیاری کرتے ہیں اور نتیجتاً طلباء کے لئے اسکولی دنوں میں ایک الجھن جاری و ساری رہتی ہے ۔

علم ریاضی کی اُلجھن اور استاذ کی سختی سے پریشان بچہ!

یہ بھی ایک تضاد پایا جاتا ہے کہ اسکولی ریاضی میں اعلیٰ درجہ حاصل کرنے والے طلباء بھی کالج کی سطح کی ریاضی کے لئے تیار نہیں رہتے ہیں۔ تیزی سے بڑھ رہے ٹیوشن کے ادارے اس حقیقت کے عینی شاہد ہیں۔

اس سمجھ کی کمی کے گہرے اثرات ، ان امور پر بھی پڑتے ہیں جو کوئی شخص بطور عام آدمی کے انجام دیتا ہے۔ جیسے کہ فیصد معلوم کرنا یا محصولات کے حسابات وغیرہ۔ یہ اس مباحثہ کی طرف پیش رفت کرتا ہے کہ “کیا امتحانی ریاضی ، ریاضی کے حقیقی فہم کا مظہر ہے ؟”۔

NCTM( National Council of Teachers of Mathematics)
نے ریاضی کی تعلیم کے معیار کے طور پر دو معیارات کی نشاندہی کی ہے ۔ اور وہ معیار ات ہیں،
1) ریاضی فکر کا معیار
2)ریاضی مواد کا معیار
ریاضی فکر کا معیار ، ریاضیانہ طرزِ فکر پر ارتکاز کرتا ہے ۔یعنی مسائل کا حل ، مواصلات ، استدلال اور رابطے ۔ ریاضی مواد کا معیار مخصوص ریاضی عنوانات جیسے عددی شعور و ادراک ،‌تخمینہ جیومیٹری ، پیمائش ، شماریات، احتمال ،کسر ،خاکہ اور تعلقات وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔
اگر چہ کہ ریاضی مواد بے حد اہم ہے لیکن ریاضی فکر کے عنوانات کو بھی مواد میں شامل رکھنا بھی مساوی طور پر اہم ہے۔ اسکول کی تعلیم کا جملہ تجربہ ایک ہی تانا بانا بن جانا چاہئے جس پر طلباء اپنے تجربات کو نقش کر سکیں تا کہ نئے خیالات و افکار دریافت ہوں اور ریاضیانہ فکر پروان چڑھے ۔ ریاضیانہ تکنیکیں فطری طور پر مجموعی ہو تی ہیں ، ایک تکنیک گذشتہ سیکھی ہوئی تکنیک کی بنا ءپر نشونما پاتی ہیں۔ تحتانوی سطح پر یہ ضروری ہے کہ طلباء کو بنیاد ی تصورات کا واضح فہم ہو، نہ کہ محض فارمولے اور حقائق کو استاد کے حکم پر ذہن نشین کر یں۔

عملی تجربات ٹھوس اور حقیقی تجربہ مہیا کرتے ہیں۔

اور اس طریقہ کار میں طلباء کو زیادہ سے زیادہ ملوث رکھا جاسکتا  ہے۔

اس طرح کی تعلیم سمجھنے اور تنقیدی فکر پر ارتکاز کرتی ہے۔ تا کہ طلباء منصوبہ بندی، عمل آوری تبادلۂ خیال ، مواصلات کے علاوہ ازخود نتائج اخذ کرسکیں۔ یہ بالخصوص ریاضی کی حقیقی روح ہے کیونکہ مضمون تجرید کیا گیا ہوتا ہے۔
طلباء کے لئے اس طرح کی تجرباتی تعلیم کا عملی طریقہ ‘ متحرکات’ کا استعمال ہے ۔ متحرکات وہ اشیاء ہیں جنہیں چھوا جا سکتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ کسی مخصوص ریاضی مواد کو متعارف یا نافذ کروانے کے لئے ان متحرکات کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ متحرکات خاص طور پر ریاضی سیکھنے میں معاون ہوتے ہیں کیونکہ وہ بنیادی سطح سے تجرید ی سطح کی طرف بڑھتے ہیں۔
یہ بات جاننا بےحد ضروری ہے کہ محض متحرکات کا استعمال مطلوبہ نتائج لانے کے لئے کافی نہیں ہیں جب تک کہ متحرکات کو استعمال کرتے ہوئے تجربات کو غور سے ترتیب نہ دیا جائے۔ اس سے ہم عملی سوال ،” کیوں ، کہاں ، کیا، کیسے اور کس کے ساتھ متحرکات کے مواد کو استعمال کیا جا ئے ” پر پہنچتے ہیں ۔ اگرچہ کہ مندرجہ بالا سوالات پر تذکرہ کرنا اس مضمون کی وساطت کے باہر ہے ، لیکن یہ تو طے ہے کہ اساتذہ یہ سوالات خود سے پوچھ سکتے ہیں اور نتیجہ پر پہنچنا مشکل نہیں ہوتا۔ ہم اس تجرباتی تعلیم کو کلاس روم کے اکمل استعمال کے پس منظر میں ذکر کریں گے ۔تجربات کو متحرکات کو استعمال کرتے ہوئے اس طرح ہونا چاہیے کہ طلباء اپنے نتائج اور ریاضیاتی شعور پا سکیں۔
طریقہ محققانہ ہونا چاہیے اور

اساتذہ محض رہنما اور مدد کرنے والے ہوں ۔ طلباء کو اس بات کی اجازت ہو کہ وہ بلا کسی نتیجہ اور مضحکہ خیز لگنے والے کام بھی کریں۔ گفتگو کو مزید آگے لے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ  کلاس روم میں کیا ہوتا ہے۔

پہلی صورت: جوڑ کے ذریعہ عددی قطارکا تعارف۔جوڑوں کو بیرونی نمائندگی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے

عام حالات میں استادایک  رِنگ ماسٹر کا کردار دھار لیتے ہیں اور جماعت کو ایسی ترتیب وار ہدایات دیتے ہیں جن میں تحقیق کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔

ہدایات جیسے ” لال جوڑ لیجئے اور میز پر رکھ دیجئے۔ دو جوڑ لے کرانھیں جوڑ ئیےاورانھیں ساتھ ساتھ رکھ دیجئے۔ اور ” جیسا میں کہوں ویسا کرو ” ۔ اور یہ سرگرمی اساتذہ کے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے ساتھ تکمیل کو پہنچتی ہے کہ انھوں نے تدریسی مواد کما حقہ پہنچا دیا۔ لیکن طلباء کیلئے یہ سرگرمی بے جوڑ ہوتی ہے اور یقینی طور پر طلباء نے اس قبیل کےمواد سے کچھ بھی ” ریاضی فکر” اخذنہیں کی ہوتی ہے ۔

ایک حساس استاد متحرکات کا بہتر استعمال کرتے ہیں اور اس طرح کی ہدایات مثلاً ” لال جوڑ استعمال کیجئے” یا “دو جوڑ ساتھ رکھئیے ” وغیرہ سے باز رہتے ہیں۔

ایسے استاد کم سے کم ہدایات دیتے ہیں اور طلباء کو رنگوں کے امتزاج اور رنگوں کی پسند خود سےکرنے دیتے ہیں جس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات پربھی توجہ مرکوز رکھتے ہیں کہ طلباء کو مختلف لمبائی اور رنگوں کے دھاگے بنا کر ترتیب سے رکھنا ہے اور خو د سے اس نتیجہ پر پہنچنا ہے کہ”ایک اضافہ کے اگلا عدد حاصل ہوتا ہے”۔

بچّہ گنتی، جمع اور نفی سیکھتے ہوئے!

دوسری صورت: حسابی الگورتھم کے اظہار کے لیے کاؤنٹر س کا‌استعمال

جب ایک استاد جمع سکھانے کی کوشش کرتے ہیں ( مثلاً 3+2=5) ، طلباء 3 لال کاؤنٹر س اور 2 سفید کاؤنٹر س اٹھا تے ہیں اور ان‌سب کو گنتے ہیں تا کہ 5 کے جواب پر پہنچ سکیں ۔ اس سرگرمی میں متحرکات ، اظہار کی نمائندگی کی طور پر استعمال کئے گئے تھے۔اس طرح کے تجربات ایک بہترین ابتدائی مرحلہ ہے ۔

لیکن جلد ہی استاد اگلے مرحلے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں جہاں متحرکات ،طلباء کے ریاضی مسائل کو حل کرنے کے اندازِ فکر کی‌جانب اشارہ کرتے ہیں۔ طلباء خود سے مشاہدہ کریں اور مجموعی صفت یا جمع کی شناختی صفت (صفر کے جمع) معلوم کریں۔ اساتذہ بطور رہنما ، طلباء کی ، صرف اشارہ جات اور اس سے منسلک مواصلات کو معلوم کرنے میں مدد کریں۔

تیسری صورت : لفظی مسائل: متحرکات بطور عددی قدر ، بیرونی طور پر اندازِ فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے:۔

دیا گیا لفظی مسئلہ :- ایک اسکول میں 156 لڑکے اور 212 لڑکیاں ہیں ۔ منجملہ کتنے طلباء ہیں۔

 اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے طلباء عددی قدر کے متحرکات کو استعمال کرتے ہیں۔( عددی قدر کے متحرکات میں چھوٹے مربعے ہو تے ہیں جو اکائی، پٹیاں بطور دہائی اور دہائی کی پٹیوں سے بنے بڑے مربعے بطور سینکڑا کے استعمال ہوتے ہیں۔ ) یہاں متحرک، بطور بیرونی انداز فکر اور قطار کی نمائندگی کے استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی طلباء متحرکات کو بطور بیرونی فکر کے طریقے کار کے تصور کرتے ہیں اور اس کو محض کوئی عمل کرنے کے لئے استعمال نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلباء جانتے ہیں کہ انھیں کیا استعمال کرنا ہے اور تدریسی مواد کو محض جواب تک رسائی کے لیے بطور معاون استعمال کریں۔یہ تجربات ٹھیک ہیں لیکن ان میں ریاضیانہ شعور کی کمی ہے ۔ ریاضیانہ شعور ایک انسان کا ذاتی  طور پر احساس کرنا ہے ۔

چوتھی صورت: پہاڑے :- ترچھے خاکوں میں جمی ہوئی لکڑی یاں جو بطور حسابی الگورتھم کے بیرونی اظہار کے

طلباء ‘متحرکاتی پہاڑے ‘ ( ترچھے خاکوں میں جمی ہوئی لکڑی یاں جو پہاڑے سیکھنے کے لئے ہوتی ہیں) کو استعمال کرتے ہیں ۔ یہ تجربہ ایک سرگرمی کے طور پر ہوتا ہے جس میں متحرکات ، حسابی الگورتھم کے بیرونی اظہار کے لیے ہوتے ہیں۔ جب تک کہ طلباء کو یہ ریاضی ترکیب معلوم نہیں ہو جاتی کہ ضرب ، متعدد جمع کا اختصار ہے اور وہ یہ دیکھیں کہ ضرب ہوتے ہوئے اعداد کس طرح بڑھتے ہیں۔ یعنی اس قابل ہوں کہ تصور کر سکیں کہ

6×4 =  6+6+6+6

ہے اور کس طرح 6 اس میں بڑھتا ہے۔

اس طرح کے تجربات میں محرکات کا استعمال تصورات کے عنصر ی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

پھر سے یہ ایک نا مکمل ریاضیانہ ‌نقطہ نظر ہے۔ ایسے تجربات جو مباحثات ، اور وضاحت جو قیاس اور استنباط کو فروغ دیں ، ریاضی تعلیم کیلئے بہترین ذرائع ہیں ۔

(نوٹ : میں کچھ جیپسی طلباء کے ساتھ میرے تجربے کو بیان کرنا چاہتی ہوں، جو سبھی کانچی پورم میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعہ چلائے جانے والے مدرسہ کے تارک تھے ۔ میں ششدر رہ گئی جب میں نے ایک طالب علم کو اپنے ساتھی کو یہ بتاتے ہوئے پایا کہ وہ بطور پہاڑے ،‌کلاس میں کیا کرتے تھے۔ وہ سمجھا رہا تھا کہ ضرب، چین فروخت کرنے جیسا ہی ہے۔ وہ سمجھاتے ہوئے آگے بڑھا، ” ہم اشیاء کا دام کس طرح معلوم کرتے ہیں؟” ۔ فرض کرو کہ ہم 6 روپے کی قیمت والی چین بیچتے ہیں تو 4 چین کی قیمت 24 روپے ہو گی۔ یہ تبصرہ اس حقیقت کو جاننے کے لئے کافی ہے کہ اعداد پر طلباء کی ابھی بھی گرفت کمزورہے جبکہ انھیں ریاضی  کی ان علامات

‘x’ ,÷کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔

پانچویں صورت :- رقبہ کا فہم ، مربع ٹائلس ، بطور انداز فکر کے بیرونی اظہار کے اور ما بعد مباحثہ اور مشاہدہ کے اشارے کے

اساتذہ متحرکات کو مندرجہ ذیل نتیجہ ،

رقبہ= طول x عرض

کو اخذ کرنے کے لئے ٹائلس کو مربع اور مستطیل انداز میں ترتیب دے کر استعمال کرتے ہیں۔ یہ اقل ترین تعلیم ہے جو اس تجربے سے حاصل ہوتی ہیں ۔ یہ تجربہ اسی وقت اہم ہوگا جب طلباء یہ سمجھنے کے قابل ہوں گے کہ مربع صرف 4، 9، 16 مربع اکائیوں میں ہی نہیں بلکہ کوئی بھی رقبہ ممکن ہے ۔(جبکہ متحرکات محدود نہ ہوں) ۔ اس تجربے میں متحرکات نہ صرف تصوراتی فہم کے کام آتا ہے بلکہ یہ فہم کو بانٹنے کے کام بھی آتا ہے۔ پھر یہ تذکرہ کلاس کو یہ سمجھنے کی طرف لے جائے کہ یہ ممکن ہے کہ مختلف احاطوں سے رقبہ مستطیل بنائےجا سکتے ہیں ۔ کئی بار کوششیں کرنے اور بار بار ترتیب دینے سے طلباء اس پوشیدہ مدعا پر پہنچتے ہیں کہ مربع کم سے کم احاطے سے بننے والی چیزہے۔

یہ متحرکات کا بہتراستعمال ہوگا۔

مندرجہ بالا دی گئی مثالوں سے یہ واضح ہو گا کہ تجرباتی تعلیم صرف متحرکات استعمال کرنے والی سرگرمی کے مترادف نہیں ہے۔

اساتذہ کو طلباء کو ایک سرگرمیوں کے تسلسل سے گزارنا پڑتا ہے جہاں متحرکات ، اظہار اور طرزِ فکر کے بیرونی اظہار اور ما بعد مذاکرے اور مشاہدے کے اشارے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ تجرباتی تعلیم انفرادی طالب علم پر پہلے ارتکاز کرتی ہے ۔ پھر پوری جماعت پر مجموعی طور منتقل ہو جاتی ہے ۔ جس طریقہ پر محرکات استعمال کی جاتی ہیں وہ ابتداً مکمل طور سے اساتذہ پر منحصر ہوتا ہے۔ پھر یہ بتدریج پوری طرح سے طلباء کی ذمےداری بن جاتی ہے۔‌

یہ اس وقت ہوتا ہے جب فکری ریاضی، مادی ریاضی سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے ۔

تجرباتی‌تعلیم بالخصوص تحتانوی جماعتوں میں محرکات کے ساتھ اچھی ہوتی ہے۔ لیکن یہ صرف شروعات ہے ، محرکات کا صرف یک بارگی استعمال پھر بہت ساری ہدایات کے ساتھ اور غیر مرکوز تحریر ی مشق ” فکری ریاضی” کے معیار ات کو پانے میں معاون ثابت نہیں ہو گا۔

متحرکات کا بغور انتخاب ، ذکی منصوبہ بندی کے ساتھ اساتذہ کے اکمل ہدایات اور مباحثہ جات جو متحرکات کے استعمال کے بعد ہوتے ہیں نو خیز طلباء کے ساتھ یقیناً بہترین کام کریں گے جو علمی اور آزادانہ تعلیم کو فروغ دے گی جس کے ساتھ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے ۔

نوٹ: مینا سریش فی ا لحال رامانوجم عجائب گھر اور ریاضی تعلیمی مرکز کی ناظمہ ہیں ۔وہ معلمِ اساتذہ ہیں اور اساتذہ کے لئے

“Hands – on Mathematics”

پر 100 سے زائد ورکشاپ منعقد کر چکی ہیں۔ تنظیم کے ساتھ انہوں نے

‘ Hand in Hand ‘

نامی غیر سرکاری تنظیم، واقع کانچی پورم، تامل ناڈو کی ساتھ اشتراک کیا ہے جہاں 14000 طلباء 250 مساحی (شام کے وقت کے) ٹیوشن مراکز میں مستفید ہو رہے ہیں۔

ان سے

[email protected] 

پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

بشکریہ لرننگ کرو (عظیم پریم جی یونیورسٹی)

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے