ریاضی سکھانے سے متعلق دونکاتی نظر: ریاضی کے سکھانے سے متعلق دو نظریات کے ذریعے مختلف پروگرامس کو تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی کلاس روم ان نظریات کا مجموعہ نظر آئیگا۔ پہلے نظریہ کے مطابق اگر مثلاََ طلباء کو اعداد کے جمع کرنے کے لئے کسی “الگورتھم“یا “شارٹ کٹ” کو بار بار مشق کروایا جائےتو وہ بالآخر یہ سیکھنے لگیں گے کہ الگورتھم کیسے اور کیوں کام کرتا ہے ۔بہرحال وہ اعداد کوجمع کرنے کے طریقے سے اچھی واقفیت حاصل کرلیں گے اورکسی بھی موقعے پر اس طریقے کو استعمال کرسکیں گے ۔ ہوسکتا ہیکہ سوال و مسئلہ کی نوعیت مختلف ہو۔
اس مضمون کا حصہ اول یہاں پڑھیں
دوسرے نظریے کے مطابق ریاضی سیکھنے سے مُراد اِس مضمون کی تشکیل و بناوٹ کو سمجھنا ، اس کے بنیادی اجزاءکو سمجھنااور الگورتھم کی تشکیل کے موجب قدم بہ قدم طریقے سے وافقیت ہے۔اِس نظریے کا مطابق بچے سے امید کی جاتی ہیکہ وہ مسئلہ کے حل کیلئے ایک سے زیادہ طریقے ڈھونڈے اور اگر وہ محسوس کرے کہ مروجہ الگورتھم بھی موزوں ہے تو وہ بھی استعمال کرنے کی آزادی جاتی ہے۔ایسا نہیں باور کروایا جائیگا کہ یہی الگورتھم موزوں تر ہے اور ہر کسی کو اسے ہی سیکھنا ہے بلکہ اگر بچے موزوں سمجھیں تو وہ سیکھ سکتے ہیں۔طلباء، مسئلہ کے حل کے لئے شارٹ کٹ کو بھی جان سکتے ہیں، نئے شارٹ کٹس دریافت کرسکتے ہیں اور اگر چاہیں تو انہیں عمل میں بھی لاسکتے ہیں۔
ایسی کئی مثالیں بھی ہیں جو الگورتھمس سے آگے بھی سیکھنے کی ضرورت پر روشنی ڈالتی ہیں۔سب سے آسان مثال دو اعداد کوجمع کرنےسے متعلق ہے جس میں بچے اعداد کے مجموعے کو مشینی طورپر سیکھتے ہیں اور دو غیر متعلقہ کالموں میں موجود اعداد کے ملانے کو جمع کرنا سمجھ بیٹھتے ہیں!
اعداد کوضرب دیتےہوئےدہائی ہندسے کے ضرب میں آنے والے ہندسی عدد کو ایک جگہ چھوڑ کر لکھا جاتا ہے(نیچے دی گئی مثال دیکھئے) ایکس کی علامت کے ذریعے ہندسے کو آگے کیا جاتا ہے۔
اس کی وجہ معلوم کرنے پرکم ہی ابھاراجاتاہے۔ اسی طرح کی مثالیں تقسیم کے طریقوں میں بھی ملتی ہیں۔
کچھ لوگ یہ دلیل بھی دیں گے کہ“کیاری اوور” اور “ہندسے مستعارلینے ” کے طریقے“اعدادکی جگہی قیمت – پلیس ویالیو” سمجھنے پر ہی ذہن میں بیٹھ سکتے ہیں۔جب تک بچوں میں پلیس ویالیو کی اچھے سے وضاحت نہ ہو، وہ جمع اورتفریق کرنے میں دشواری محسوس کرینگے جن میں اس کا بہت استعمال ہوتا ہے۔یہاں سب سے زیادہ زورمضمون کی بنیادی ساخت اور تصورات کو سمجھنے پر ہے۔جس کے بعد بچے اُن طریقوں کے اطلاق کو بتدریج سمجھ سکتے ہیں۔
بہر کیف ان دونوں نظریات کا ہدف گو کہ مشترک ہے لیکن اُس تک رسائی کے طریقے حیران کن طور پر بہت الگ ہیں۔
ریاضی میں مفروضہ(خلاصہ )اورحقیقی سوچ کا مطلب کیا ہے؟
تدریس کا ایک اہم پہلو کلاس روم میں آلات و چیزوں کے رول سے متعلق ہے۔ہم عام طور پر یہ مانتے ہیں کہ خلاصہ جاتی تصورات تک پہونچنے کیلئے کچھ حقیقت پر مبنی تجربات کی تخلیق اور ان کا تجزیہ ضروری ہوتا ہے۔ ریاضی کے کلاس روم میں حقیقی چیزوں اور آلات کی زیادہ سے زیادہ موجودگی پر بہت دھیان دیا جارہا ہے۔“ریاضی تجربہ گاہ – میاتھس لیاب ” کے تصور کو وسیع پیمانے پر عام کیا جارہا ہے۔ان سب کے پیچھے یہ احساس ہیکہ بچے لیابوریٹری(تجربہ گاہ ) میں تجربوں کے ذریعے ہی مجرد تصورات کو سمجھ سکتے ہیں۔اِس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
بچوں کو سیکھنے کے لئے حقیقی مواد اور حقیقی سیاق و سباق کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہ وقتی طور پر مفروضہ تصورات کے لئے ماڈل(نمونے) کی طور پر کام کرتے ہیں۔مثال کے طور پر 5 پتھر یا 5 کرسیاں عدد “5” کا حقیقی ماڈل پیش کرتے ہیں۔ کارڈ بورڈ سے کاٹی گئی مثلثی شکل، ایک مثلث کی کئی اہم خصوصیات کا اظہار کرسکتی ہے۔واضح رہے کہ مذکورہ ماڈلس(نمونے)، “عدد 5 “اور “مثلث “کا مکمل احاطہ نہیں کرتے بلکہ ابتدائی سطح پران الفاظ کو سمجھنے کیلئے ہمارا سہارا ہیں۔طلباء کو بتدریج اِس قسم کے حقیقی ماڈلس سے آگے بڑھتے ہوئے ریاضی تصورات کو مفروضوں کی نسبت لینے کے قابل بننا چاہئے جو کسی حقیقی چیز پر منحصر نہ ہوں۔
چار ضلعی، چار خطوط مستقیم سے بننے والی بند شکل ہے۔ خط، یک رخی لامتناہی تار ہے جسکی کوئی موٹائی نہیں ہوتی ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہیکہ ایک حقیقی خط،اور پھر ایک چار ضلعی کا ماڈل نہ ہی حقیقی زندگی میں بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی بورڈ پر اتارا جاسکتا ہے! لہٰذا یوں تو ابتداء میں حقیقی ماڈلس کے ذریعے ریاضی سیکھی جائے لیکن بالآخر بچے کو اس بات کا متحمل بنا یا جائے کہ وہ مفروضے کی زبان استعمال کرنے لگے۔تصویروں کے استعمال سے لے کر “ٹیلی مارکس ” سے گزرنے والی ریاضی “علامتوں” کو استعمال کرنا شروع کردیتی ہے۔اور یہ ریاضی کا وہ حصہ ہے جسے سیکھنا انتہائی ضروری ہے۔ریاضی کے تصورات کو بغیر کسی سہاروں کے ذریعے سوچنے اورسمجھنے کی مہارت حاصل کرنی چاہئے۔لہٰذا جب ہم سینئیر اسکول کے لئے میاتھس لیابوریٹری (ریاضی کی تجربہ گاہ)کی وکالت کرتے ہیں تو ہمیں نہ صرف تدریسی نقطہ نظر بلکہ علمِ ریاضی کے بنیادی سوالوں کو سامنے رکھتے ہوئے کرنا چاہئے۔
سائنسی لیابوریٹری کا مقصد یہ ہوتا ہیکہ طلباء کسی مظہر فطرت کا تجربہ و مشاہدہ کرسکیں۔مشاہدے کے بعد وہ وجوہات تلاش کرنے لگیں گے۔ سابق میں کیے گئے تجربات کی روشنی میں کچھ عمومی اصولوں کی دریافت کرتے ہوئے ، مزید تجربات کرتے ہوئے نظریے کی جانچ کی جاسکتی ہے۔ ریاضیاتی نظریات و خیالات کی جانچ کا طریقہ تجربوں کے دوران مشاہدے اور توثیق کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ریاضی میں ایسا نہیں کیا جاسکتا لہٰذا ریاضی کی تجربہ گاہ میں تجربے کرتے ہوئے، ماڈلس کی تیاری کرتے ہوئے طلباء ریاضیاتی مساوات و نظریات تک نہیں پہونچ سکتے اور ایسی کوشش کرنا نہ صرف ایک عِلمی غلطی بلکہ تدریسی غلطی بھی ہے۔ابتدائی سطح پر اس بات کی کوشش کی جانی چاہئے کہ بچہ مفروضاتی تصورات کو سمجھ پائے۔
جس طرح بچہ اسکول سے پہلے “زبان “کے کئی پہلوؤں سے گزر کر آتا ہے، ریاضی میں ایسا نہیں ہوتا۔ہر بچہ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے اعداد اور اُن کے حساب سے وافقیت رکھتا ہےاِسی طرح وہ اپنے اطراف موجود جگہ کا استعمال کرتے ہوئےاپنی بِساط بھر مختلف چیزوں، نقاط وغیرہ کو استعمال کر بہیتری شکلیں بنانے کی کوشش کرتے رہتا ہے۔یہ عِلم بیک وقت پیچیدہ اور گہرا بھی ہوتا ہے۔ ساتھ ہی بچے کے اندر موجود صلاحیتوں کو اجاگر بھی کرتا ہے جو خیالات و تصورات کو سمجھنے میں معاون ہوتی ہیں۔کسی بھی سماج کا کوئی بھی بچہ اِن خیالات کو سمجھ سکتا ہے۔مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہم ریاضی پڑھاتے وقت بچوں کو سیاق و سباق نہ سمجھائیں،اعداد ، اشکال اوردیگر ریاضی اعمال کو بغیر سمجھے بوجھے فرض کروانے لگوائیں ! ریاضی میں مناسب ڈسپلن اُسی کو کہا جاتا ہے جب بچہ مفروضوں کو اور اُن میں استعمال ہونے والی خیالی چیزوں اور حقیقی چیزوں کے مابین رشتے کو بھی سمجھ پاتا ہو۔
ابتدائی (پرائمری)کلاسوں میں سماجی (سوشل )سائنس اور سائنس بڑی حد تک انفرادی تجربوں پر محیط ہوتی ہیں اس لئے کہ اس بات کو مان لیا گیا ہیکہ اِس سطح پر اصول و ضوابط نہ سمجھائے جائیں۔حتیٰ کہ تحتانوی (اپر پرائمری )سطح پر بھی مخصوص جانے پہچانے شخصی تجربات کی روشنی اور خود کلاس روم میں تجربات کرتے ہوئے ریاضی کو دلچسپ بنایا جاسکتا ہےتا آنکہ بچے خود اصول و ضوابط کی تیاری کے فریم ورک بنا سکیں جس کے ذریعے وہ اصولوں کو سمجھیں بھی اور نئے اصولوں کی تیاری کی جانب قدم بڑھانے کے قابل بھی بنتے جائیں۔البتہ ریاضی میں یہ کام آسان نہیں ہے۔
ریاضی کی تدریس کا زیادہ تر انحصار استاد کا بچوں کے ساتھ کئے جانے والے معاملے پر ہوتاہے۔کلاس روم کا ماحول ایسا ہو کہ تمام بچے مشقوں و تجربوں میں حصہ لے پاسکیں، اپنے خیالات (آئیڈیاز) کو بِلا کم و کاست رکھ سکیں، تجربات و مشقیں کرتے ہوئے غلطیاں کریں اور اُن کے بارے میں بغیر کسی خوف کے بول بھی سکیں۔اِس قسم کا ماحول طلباء اور ریاضی کے مابین رشتہ کو پائیدار بنائے گا۔ ایسا کوئی طریقہ یا تکنیک موجودنہیں ہے صِرف جسکی پیروی کی ہدایت ہم استاد کو دے سکتےہیں۔استاد پر لازم ہیکہ وہ کلاس روم کی پیروی کرے، اور ایسے طور طریقے(پروسیس) ایجاد کرے جو سب بچوں کی شمولیت اور اُنکی بات چیت (ڈائیلاگ )کو یقینی بناسکیں اور جہاں بتدریج آگے بڑھتے رہیں وہیں واپس ابتدائی سطح پر پلٹ کر مزید ترقی بھی )اور اصولوں کو خود کے سابقہ شخصی تجربےکرتےرہیں۔ریاضی کے کلاس روم کا ایک اہم پہلو جس کی نشاندہی انتہائی ضروری ہے کہ بچے ریاضیاتی آئیڈیاز(Mathematical Ideas)اورخیالات کے اشتراک کے نتیجہ کے طور پر تیار کرسکیں اورکلاس روم میں استعمال پذیر بات چیت اور تدریس کےذریعےاُن کی کانٹ چھانٹ یا ان میں مزید نکھار پیدا کرسکیں۔
ہم میں سے ہر ایک کسی بھی مسئلے کے حل کے لئےمنفرد انداز اپناتا ہے۔ الگورتھم اور طریقوں سے وافقیت کے ساتھ ساتھ تخلیقانہ ذہنیت اور زیادہ سے زیادہ جانچ کرنے کا مادہ ہونا چاہئے۔
بچے اس قابل ہوں کہ وہ مروجہ خیالات و اصولوں کی سمجھ کرریاضی کے تصوراتی خاکے (Conceptual Framework) کو اُن اصولوں و خیالات کی روشنی میں سمجھ سکیں۔
کسی مسئلے کے حل میں ایسے ماڈلس و خاکے جو ایک بچہ بنوائے وہ ہمیشہ اور ہر دوسرےکیلئے بھی فائدہ مند ہوں ایسا ممکن نہیں کیونکہ ہم میں سے ہر ایک مختلف ماڈلس بناتا ہے۔
کسی بچے کو ریاضی سکھانے کا مطلب یہ نہیں کہ اُسے کچھ شارٹ کٹ بتادئے جائیں اور آپ جیسے مسئلے کو حل کرتے ہیں وہ ہی سکھلادیا جائے۔آپ کا سوال حل کرنے کا طریقہ ممکن ہے خود آپ کو بہت آسان ، شفاف اور خوبصورت نظر آئے لیکن عین ممکن ہے کہ بچوں کیلئے ایسا کچھ بھی نہیں ہو!ہم خیالات و تصورات کو اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق درجہ بندی کرتے ہوئے اپنی دانست میں مناسب طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ ایک بچے کیلئے یہ دوہرا مشکل کام ہوگا کہ وہ ایک طرف سوال کو بھی سمجھے اور پھر آپ کے بیان کئے گئے حل اور اس کی منطق کو بھی اچھی طرھ سمجھے!
ریاضی تب سمجھ میں آنے لگے گی جب طالب علم خود اپنا منصوبہ بنوائے ، اصول و ضوابط اور الگورتھمس کو وہ جیسے چاہے ویسے استعمال کرنے لگے۔ جو تبھی ممکن ہوگا جب بچوں کو زیادہ سے زیادہ مسائل حل کرنے کو دیا جائے اور حل کرنے کے ایک سے زیادہ طریقے مہیا کئے جائیں۔ہمیں طلباء کو نہ صرف مختلف طریقوں کی آگہی دینی ہوگی بلکہ اُن میں خود سے جوابات کی تلاش اور پھر دوسروں کے جوابات کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرنی چاہئے۔ طلباء غلطیوں سے ڈرنے والے نہ بنیں اور اپنی سمجھ بوجھ کو بِلا کم و کاست کہنے کے قابل بن سکیں۔اِس طریقے کی مرہونِ منت امید کی جاسکتی ہے کہ بچے کلاس روم میں خود سے سیکھنے لگیں گے، اپنے جوابات و حل شدہ سوالات کی تفصیلات بھی پیش کرینگے، یہاں تک کہ خود سے سوالات کی تعمیر بھی کرنے کی استطاعت حاصل کرنے لگیں گے۔کلاس روم ایسا ہو کہ بچہ ہمہ وقت متوجہ اور مثبت مشغولیت میں مصروف کریں گے اورنِت نئے جنرلائیزیشن(Generalisation)ہو۔
ہو۔Constructivist اور سیکھنے–سکھانے کی عمل کو لے کر کئی بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ کچھ لوگ دلائل دیتے ہیں کہ سیکھنے–سکھانے کا عمل Constructivism
جس کا کبھی کبھار مطلب یہ بھی ہوتا ہیکہ بچوں کو خود مختار طریقے سے سیکھنے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔جس طرح ریاضی میں اشیاء کا استعمال ہوتا ہےاُسی طرح بچےکی اپنی سمجھ بوجھ ، اُس کےاظہار کرنے کی صلاحیت و کیفیت اور پھر اُس کو مزید تقویت بخشنے کیلئے یہ انتہائی اہم ہوجاتا ہیکہ، بچے کو مضمون سے متعلق عِلم اور ڈسپلن کو منظم انداز میں دیا جائے ۔ایک مرتبہ ریاضی نصاب کے انتخاب کی بنیادیں طئے کرلی جائیں تو یہ ذمہ داری کلاس روم اور اسکول کی ہے کہ بچوں کو اُن چیزوں میں قابل بنایا جائے جو ریاضی کو سمجھنے میں اہم سمجھی جاتی ہوں۔استاد طلباء پر ہر قدم پر کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے نہ تھوپےبلکہ زیادہ سے زیادہ ایسے اختیارات دے جو ریاضی سیکھنے کے اہداف سے میل کھاتے ہوں۔تعمیری طریقے پرمزید تفتیش اور اُس کے اہم نکات کو افادہ عام کیلئے منظر عام پر لانے کی بھی ضرورت ہے۔
ریاضی میں استعداد جانچنے کا طریقہ:
کسی بھی تدریسی کاوش کا اہم حصہ “جانچ” ہوتا ہے۔جانچنے کے بنیادی اصول یہ ہوسکتے ہیں جن کو خطاب کئے بغیر آگے بڑھنا خام خیالی ہوگی:
1۔ جانچنے کا مقصد
2۔ جانچنے کے طریقے میں طلباء کی شرکت
3۔ جانچنے کی ترکیب (میکانزم)
4۔ جانچنے کے بعد طلباء کو تاثر(فیڈبیاک) دینے کا طریقہ
مروجہ جانچنے کا طریقہ اکثر بچوں میں خوف اور بے مقصد یت پیدا کرتا ہے۔ سوائے ان بچوں کے جو امتحان میں بہتر پرفارم کرنے کی امید رکھتے ہیں ماباقی بچوں پر یہ دھن سوار رہتی ہیکہ امتحان کی بلا دور ہو اور وہ چین و سکون کی سانس لے سکیں۔کوئی اس جانب خیال نہیں کرتا کہ امتحان، امتحان کے دوران پرفارمنس اور سیکھنے میں فرق کیا ہے۔خاص طور پر ریاضی کے امتحان میں جس طرح کے سوالات اور جانچنے کا جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے اس سے بچوں میں نہ صرف امتحان بلکہ ریاضی کے تئیں بھی خوف محسوس ہونے لگتا ہے۔جانچنے کا سارا طریقہ اس بات پر زیادہ دھیان دیتا ہیکہ بچے کو کیا معلوم نہیں ہے بجائے اسکے یہ جاننے کی کوشش کرے کہ بچہ کیا جانتا ہے۔ خلاصہ جاتی اور تشکیلاتی تشخیص کے تصورات، ایک اچھے جانچ کے طریقے کا مقصد، اہمیت اور اس کے نتائج کا پوری طرح احاطہ نہیں کرپاتے۔ابھی چند سالوں سے ہم “مسلسل اور جامع تشخیص” ، “تشخیص کے بغیر جانچ” اور استاد کی جانب سے کمزور بچوں پر مخصوص توجہ کی بات کررہے ہیں۔امتحانات کی منسوخی،نان–ڈیٹنشن پالیسی اور کلاس روم کے باہر استاد کی جانب سے بچوں پر خصو صی توجہ یوں تو کہنےکو اچھے لگتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد مشکل ہے۔
تعلیم کو ، اسکول–استاداور بچوں کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ سےتعبیر کیا جاسکتا ہے۔اگر اس ڈائیلاگ کو بھروسہ اور اعتبار کے ساتھ نہ کروایا جائے اور کھلے اور شفاف طریقے سے ڈائیلاگ نہ ہو تو عین ممکن ہے کہ کلاس روم اپنی سمت بھٹک جائے۔خاص طور پر ایک ریاضی کے استادکو ہر بچہ کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہوتا ہیکہ وہ کیا جانتا ہے(جانتی ہے) اور کن عناوین میں بچے کو مدد کی ضرورت ہے۔بچے کی تعلیمی ترقی کو اسکی سابق صلاحیت کی بنیاد پر بڑھاوا دیا جانا چاہئے۔کسی بھی بچے کوخود اس کے سابق و موجود میں آئی تبدیلی کی بنیاد پر گریڈ کرنا چاہئے نہ کہ دیگر بچوں سے مسابقت کی بنیاد پر۔
تشخیص اور توقعات انتہائی اہم چیزیں ہیں، وہیں امتحانات کا خوف ، تشخیص کے ماحصل کو بے مقصد نہیں کرنا چاہئے۔
ہمارا سماج ریاضی کو جیسے دیکھتا ہے وہ حیرت، خوف اور کامیابی کی شاہ کلید کے معجون مرکب کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو ریاضی میں اچھی قابلیت رکھتے ہیں وہ بہ نسبت دوسروں کے زیادہ ذہین اور کامیابی کے زیادہ مواقع اور اس کے لئے درکار صلاحیتوں سے متصف ہوتے ہیں۔ریاضی کو اعلیٰ علمی و فکری کام کرنے والوں اور سماج میں دیگر ضروری ادنیٰ کام کرنے والوں کے درمیان خط ِتنسیخ کی طرح کھینچا جاتا ہے۔علمی و فکری رول کو نبھانے کی خاطر والدین، بچوں کو ریاضی سیکھنے پر غیر ضروری زور ڈالتے ہیں۔ لاشعوری طور پر بچوں کی قابلیت اور انکی ذہنی استعداد کو مرتب کیا جاتا ہے صرف اس بنیاد پر کہ وہ ریاضی کو کتنا اچھے سے سمجھتے اور سیکھتے ہیں اور کمزور بچوں کو چند شارٹ کٹ کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے تاکہ وہ امتحانات کا قلعہ سر کرلیں۔تشخیص کا خوف اور اس سے جڑے ریاضی کو سیکھنے کا دباؤ کلاس روم میں ٹینشن کو فروغ دیتا ہے۔ سماج میں مروج یہ غلط خیال کہ ریاضی ایک مشکل مضمون ہے اور اسے چند ایک ہی سیکھ سکتے ہیں، بچوں کو اسے بتدریج ہی سہی سیکھنے کیلئے مائل ہونے سے روکتا ہے۔
اس بحث کا نتیجہ نکالنا تو مشکل ہوگا لیکن اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ ریاضی کے تدریسی توجیہات میں صرف تدریسی طریقے ، کلاس روم کا انتظام اور پریزنٹیشن کا انداز ہی اہم نہیں ہیں۔ ہمیں تعلیم اور تعلیمی عمل کو اسکی مکمل توجیہ کے ساتھ دیکھنا چاہئے اور اس کو ریاضی کے مخصوص دائرے کے ساتھ ساتھ ، بچوں، والدین، اساتذہ اور ان سب کے عزائم کے درمیان دیکھنا چاہئے۔ اور تب یہ ممکن ہے کہ ہم تدریس کا اسکے صحیح معنوں میں انجام دے پائیں گے۔
تحریر: ہردئے کانت دیوان
ترجمہ: عبدالمومن
بشکریہ– لرننگ کرو ، عظیم پریم جی یونیورسیٹی ، بنگلور