پرائمری اسکول کی ریاضی کے اہم اصول

ابتدائی عمر میں ریاضی استعداد اور سیکھنے کی قابلیت سے متعلق جو کچھ   ماہر نفسیات (Psychologist) حضرات نے تحقیق کیا ہے اُس میں سے مَیں نے اِس مضمون میں دو 2عنوانات کو چُنا ہے۔ایک، ذہنی نمبر لائن کی اہمیت اور دوسرے، پرائمری اسکول میں سیکھنے کے اصولی اورعملی طریقوں کے درمیان پائی جانے والی مطابقت (یا مطابقت کی کمی)۔بہر کیف میری دانست میں یہ دونوں، اُن افراد کیلئے اہمیت کا باعث ہیں جو 6 سے 11 سال کی عمر کے بچوں میں کام کررہے ہوں اور جو بچوں میں حساب اور ریاضی کے اصولوں کی داغ بیل ڈال رہے ہوتے ہیں۔

ذہنی نمبر لائن : – Mental Number Line

ذہنی استعداد پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے پچھلے چند دہوں کے اندر یہ ثابت کیاہیکہ شماریات کرنا (اعداد کا استعمال)ہماری جِبِلّت میں ہے۔ پری اسکول سطح کے بچوں پر تحقیق کرنے پر یہ عُقدہ کھلا کہ 4 یا 5 سال کی عمر سے قبل ہی بچے بنیادی اعدادی استعداد (و مہارت)حاصل کرلیتے ہیں اور لگاتاراس کی مشق بھی کرتے رہتے ہیں۔بچوں میں اس مہارت کی ترقی ٹھیک اُسی طرح ہے جس طرح وہ زبان سیکھتے ہیں۔ایسا لگتا ہیکہ ہمارے ذہن میں ایک بٹن ہوتا ہے جو مناسب ماحول ملتے ہی آن ہوجاتا ہے اور سیکھنے پر مائل کردیتا ہے۔ابتدائی تعلیمی سطح میں سب سے اہم چیزوں میں سے ایک اعداد کو جمع کرنے کیلئے منٹل نمبر لائنکا صحیح استعمال بھی ہےاور یہ کوئی مشکل چیز بھی نہیں ہے۔ جب کوئی چھوٹا بچہ چیزوں کو گِنتا ہے تو وہ بنیادی طور پر مندرجہ ذیل کم ازکم پانچ چیزوں کا ادراک کرتا/کرتی ہے:

1۔ چیزوں اور اعداد کے درمیان ایکتاایک کا رشتہ ہو تا ہے، یعنی آپ دو مختلف چیزوں کو ایک نمبر جیسے 4 سے نہیں جوڑ سکتے۔

2۔ لیکن اس کے بعد بھی کسی چیز کے ساتھ ایک ہی نمبر کو مستقل طورپر جوڑنا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ عین ممکن ہیکہ اگلی گنتی میں تمام کی تمام چیزوں سے جوڑے گئے اعداد کو بدل دیا جائے۔

3۔بچے نمبروں کواکثر الٹا سیدھا پڑھتے ہیں جیسے ایک، دو، تین، پانچ، سات۔۔۔یہاں تک کہ وہ خود صحیح گنتی سیکھ لیتے ہیں ۔

4۔ آخر میں بولا جانے والا نمبر دئے گئے چیزوں کی جسامت کا اظہار کرتا ہے۔

5۔ کسی بھی قسم کے چیزوں کی گنتی کی جاسکتی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے پِن سے لیکر لوگوں تک کی۔

وقت کے ساتھ ساتھ، منٹل نمبر لائن کو دو نمبروں میں تقابل کرنے کیلئے استعمال کیا جانے لگاجو مزید نکھر کر نمبروں کو جمع کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جانے لگا، جیسے 4 اور 2 کو جمع کرنے کیلئے ان میں سے بڑے نمبر یعنی 4 سے شروع کیا جانے لگا جو منٹل نمبر لائن میں دونوں اعداد(نمبروں) میں بڑا واقع ہوا ہے۔4سے مزید 2 اکائیاں آگے بڑھ کر 6 تک رسائی کی جانے لگی۔5 سال کے بچے بھی اس مناسب و سَلّیس طریقے کو خود سے سیکھنے لگتے ہیں۔

جب بچے اسکول میں داخل  ہوتے ہیں تو وہ اس قسم کے غیر رسمی طریقوں سے واقف ہوتے ہیں جن کو استعمال میں لاکر وہ کسی بھی نئی چیز کو سیکھنے کے سزاوار ہوتے ہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہیکہ تمام بچے اسکول میں یکساں طور پر نہیں سیکھتے۔ رپورٹس کےمطابق(اور خود ٹیچروں کا تجربہ اس بات کا گواہ ہیکہ) بچے ابتدائی سطح میں نمبروں کاعِلم یکساں نہیں رکھتے ۔ ایسا ہوتا ہیکہ کچھ بچے نمبروں سے متعلق کئی ایک حقائق جان لیتے ہیں جیسے انہیں4 اور 2 کو جمع کرنے کیلئے کچھ نہیں کرنا پڑتا بلکہ وہ خود اپنی یادداشت کا ستعمال کر فَٹ سے 6 کا نمبر کہہ دیتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہیکہ وہ جمع کرنے کے طریقوں کو مزید بہتر انداز میں بَرَت سکتے ہیں اور اِس قَبیل کے دیگر مسائل و مشقوں کو حل کرنے میں پھرتی دکھاتے ہیں۔وہیں وہ بچے جو بدقسمتی سے منٹل نمبر لائن سے نبردآزما نہیں ہوسکے تھےانہیں نمبروں سے متعلق حقائق سے بھی وافقیت کم ہوتی ہے۔

اس اختلاف کے کئی لوگوں نے مختلف وجوہات بتائی ہیں ، وہیں ماہرین ِ نفسیات اس بات کی کوشش میں سَرگَرداں ہیں کہ نسبتاََ کمزور بچوں کو جتنا جلدی ہوسکے بنیادی اصول و ضوابط سکھوادئے جائیں۔ سب سے پہلے اور متوقعہ مشورہ یہ دیا جاتا ہیکہ منٹل نمبر لائن اور اُسکے خواص کو ابتدائی کلاس(پہلی) میں سکھایا جائے۔دلچسپ بات یہ ہیکہ نمبروں کو سمجھنے کی صلاحیت میں طلباء کے سماجی و معاشی پسِ منظر( بیک گراؤنڈ )کا اثر ہوتا ہے۔ اسکول شروع کرنے سے پہلے نچلی معاشی و سماجی سطح کے بچے درمیانی اور اوپری سطح کے بچوں کے بالمقابل نمبروں کے علم میں کمزور ہوتے ہیں!۔اگر اس صورتحال پر توجہ نہ دی جائے تو خوف ہیکہ یہ فرق وقت کے ساتھ اور بھی بڑھتا جائےگا۔

رابرٹ سیگلر اور گیتا رمانی اس کی ایک اہم ودلچسپ وجوہ بتاتے ہیں:Developmental Psychologists

نچلی معاسی و سماجی سطح کے بچوں کیلئےایسے بورڈ گیمس (جیسے سانپسیڑھی اورلیوڈو)کی رسائی بہ نسبت دیگر بچوں کے بہت مشکل ہوتی ہے جن میں نمبروں کی لڑیاں قطار(لائن) میں بندھی ہوتی ہیں۔ آپ اپنے ٹوکن کو ایک ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور ایک ایک نمبر بڑھاتے جاتے ہیں۔ کہا جاتاہیکہ اس قسم کے گیم کھیلتے ہوئے پری اسکول کے بچوں میں منٹل نمبر لائن سیکھنے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے۔

سیگلر اور گیتا نے یونائیٹید سٹیٹس آف امریکہ میں نچلی اور درمیانی سطحوں کے کئی بچوں پر ایک تحقیق کی جس میں انہوں نے اس عمومی خیال کو تقویت بخشی کہ نچلی سماجی و معاشی سطح کے بچے مندرجہ ذیل آسان عددی تخمینہ تک کو کرنے میں نسبتاََ بہت کمزور واقع ہوئے: ایک ایسی لائن جسکے ابتدائی سِرے پر(صفر ) اور آخری سِرے پر10(سو) کا عدد دیا گیا ہو اور ترتیب وار درمیانی اعداد کی جگہ خالی رکھی گئے اور بچوں سے کہا گیا کہ وہ ایک تیسرا نمبر جیسے 37(سینتیس) کو لائن میں اس کے مناسب مقام پر رکھیں۔ مزید انہوں نے نچلی سماجی و معاشی سطح کے بچوں کیلئے 30 ایسے سیشنس منعقد کئے جس میں انہیں 10 سلسلہ وار خانوں والابورڈ گیم کھلایا گیا۔خوشگوار بات یہ ہیکہ محض 2 گھنٹوں کی کوشش کے بعد بچے اعداد (نمبروں)سے وافقیت اور اعداد کےتصور سے آشنا ہوگئے۔ اس قسم کے تجربات کو ہندوستان میں بھی دہرانا چاہئے۔

تصورات کو طریقوں سے مربوط کرنا:اعداد (نمبروں)کی اشکال اور ان سے بننے والے نسخوں اوراعدادکے تصور کے درمیان خلیج بہت عام ہے۔نمبر کے نسخوں کی ایک مثال ضرب دینے کے اس لمبے طریقے کی ہے جس میں ہم سیدھی جانب سے شروع کرتے ہیں اور بائیں جانب یکے بعد دیگرے دئے گئے ضربوں کے جمع کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔۔۔پرائمری اسکول کی ریاضی میں ایسے الگورتھمس کی بھر مار ملے گی۔لیکن طلباء اس بات کو نہیں بتا پائیں گے کہ یہ الگورتھمس کیسے کام کرتے ہیں۔یہاں یہ بات سمجھنے کی ہیکہ پہلے کسی تصور پر بحث کرنا، پھر اُس کے مطابق الگورتھمس سکھانا(جو مختلف طریقوں پر مشتمل ہوتے ہیں) اور مشقوں پر مشقیں کروادینا اور واپس تصور پر نظر ثانی نہ کرنا ، دراصل مناسب اور کافی نہیں ہے۔ عام طور پراساتذہ الگورتھمس و طریقوں کے پیچھے کارفرما منطق ریاضیاتی تصورات سے جوڑ کر سمجھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پرضرب دینے کیلئے ہم کیوں سیدھی جانب سے شروع کرتے ہیں، حاصل ضرب کو الٹی جانب ایک ایک کرکے آگے بڑھاتے جاتے ہیں اور بالآخر سب کو ملاتے ہیں؟ ضروری نہیں کہ اس کو ایک یا دو بار سمجھانے سے وضاحت ہوجائیگی!

آپ تعجب کررہے ہوں گے کہ یہ ترتیب کیوں ضروری ہے۔اِسی بات کو مزیدکُریدنے پر یہ عُقدہ کُھلتا ہیکہ ریاضیاتی تصورات اور طریقوں میں مضبوط تعلق ہوتا ہے۔ ریاضی کے طریقوں کو حل و استعمال کرتے ہوئے خود ریاضیاتی تصورات مضبوط ہوتے ہیں۔دراصل تصورات اور عملی مشقوں کے درمیان ربط کو بنانے کیلئے بار بار کوشش کرنی ہوتی ہے۔کوئی کامیاب طریقہ کیوں اور کیسے کام کرتا ہے کوئی غلط طریقہ کیوں کام نہیں کرتا اور اس قسم کےسوالات کو مخاطب کرنا واپس تصور ات کو سمجھنےمیں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔اس ربط کو جوڑنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہیکہ اِس سے آنےوالے نئے مسائل کے حل میں آسانی ہوگی۔اسی طرح حساب کے الگورتھمس میں غلطیوں کو سدھارنے کیلئے بار بار غلطی کی نشاندہی نہیں بلکہ انکے پیچھے کارفرما منطق کو سمجھا نا ہی مفید ثابت ہوتا ہے۔

ماہر نفسیات(سائیکولوجسٹ) لارین رسنیک نے دوسری اور تیسری کلاسوں کے بچوں پر سال 1982 میں کچھ بہترین تجربے کئے جسکا نتیجہ انہوں نے یہ نکالا کہ اعداد(نمبروں) کا عِلم اور بچوں کی حسابی صلاحیتوں میں کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ دو تصورات بچوں کے ذہنوں میں بڑی خوبصورتی سے الگ الگ جاگزیں ہوتے ہیں ۔دراصل انہوں نے یہ دریافت کیا کہ بچے ابتداء میں ان دو نوں تصورات میں باہم کوئی ربط نہیں جوڑ پائے ۔اُسکے بعد انہوں نے میاپنگ انسٹرکشنطریقہ بنایا جس میں کثیر التعداد ہندسوں کی تفریق(ملٹی ڈجٹ سبٹراکشن) کو کرنے کیلئے نمبروں اور خانوں کو شانہ بہ شانہ رکھ کرمدد لی جاتی ہے۔ 100، 10 اور 1 سائز والے خانوں کو الگورتھمس کے مرحلوں کے مطابق رکھا جاتا اور حسابی طریقے کو پورا کیا جاتا۔مذکورہ خانے دراصل نمبروں کے ذریعے لکھے جانے والےحساب کو تقویت بخشتے ہیں وہیں لکھا جانے والا حساب اُن خانوں کی ترتیب کو تقویت بخشتے ہیں۔اِس سارے طریقے کو صرف 40 منٹ لگے۔ جس کے بعد بچے نہ صرف الگورتھمس کو سمجھنےلگے بلکہ اُن کے پیچھے کارفرما تصورات کو بھی جاننے لگے۔

یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ ہماری روزمرہ کی ٹیچنگ میں کچھ مفید اور مناسب ترتیب دئے گئے طریقوں کے استعمال کے ذریعے ہم اکتساب اور تدریسی عمل میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں، خاص طور ہر پرائمری سطح پر۔


مصنف – کملا مکندا

بشکریہ: مندرجہ بالامضمون عظیم پریم جی یونیورسٹی، بنگلورو، انڈیا کے سہ ماہی تعلیمی تحقیقی جرنل لرننگ کرو – اِشو نمبر 14 بضمن میاتھس ایجوکیشنکے ایک باب کا ترجمہ ہے۔

ترجمہ: عبد المومن

 

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے