ہم اکثر سائنسدانوں کی عبقری صلاحیتوں اور کامیابیوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں لیکن اُن کی غلطیوں پرکم ہی بات کرتے ہیں/ یا نہیں کرتے ہیں۔ اس قسم کے رویے کا اثر یہ ہوتا ہیکہ بچے “سائنسی دریافت” کوایساجادوئی عمل سمجھ بیٹھتے ہیں جیسے“ایک راکٹ نے اُڑان بھری اور اپنے نشانے کو جا لیا“۔ ایسے میں بہت ضروری ہوجاتا ہیکہ سائنس کی تدریس میں غلطیوں(افراط و تفریط) پر مبنی سوچ و خیالات کو بھی شامل رکھیں، جسکی مدد سے نہ صرف ایک طالب علم بلکہ استاد کیلئے بھی حقیقی سائنسی دریافت کا راستہ آسان ہوسکے گا۔یہاں ہم ماضی میں جنم لئے ان مفروضات کی چھان پھٹک کرینگے جوتکرار اور تسلسل جیسے خواص سے متصف تھے جس کی وجہ سے انہیں مطلق “سچ “مان لیا گیا تھا اور یہ بھی جانیں گے کہ اس قسم کی سوچ کیسے سیکھنے کے عمل کو جلا بخشتی ہے۔
انٹرنیٹ پر سائنس کی تاریخ پر بہت مواد موجود ہے(کتابوں کی شکل میں اور غیر کتابی شکل میں بھی)۔اُن کتابوں میں ایک بہترین کتاب “اے ہسٹری آف سائنس ” ہے جِسے “جان گیریبن” نے لکھا تھا۔اس قسم کے عنوان کے ساتھ نا انصافی ہوگی اگر چند صفحات میں بات سمیٹ لی جائے۔ بہر حال ہم آنے والے صفحات میں سائنسی دریافت میں غلط و بے بنیاد مفروضوں پر مبنی نظریات ، سوچ اور تجربات پر روشنی ڈالینگے (چونکہ ایسا ہونا عین انسانی فطرت کے مطابق ہے)۔
تقریباَ چار سو سالوں تک “اسکندریہ اسکول برائے طب “میں یہ سکھلایا جاتا رہا تھا کہ انسانی نَسوں میں سے ہوا گزرتی ہے! “گیلن” نامی سائنسداں نے(دوسری صدی) میں تجربے کے ذریعے ثابت کیا کہ نسوں میں سے ہوا نہیں بلکہ خون گزرتا ہے۔
جس کے بعد لوگوں نے اپنے غلط مفروضے سے رجوع کرلیا۔ گیلن نے طبی دنیا میں کئی اہم کام انجام دئیے، مرض کی شناخت کی خاطر “نبض کی شرح” سے مدد لینے کا طریقہ انہوں نے ہی دریافت کیا تھااور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔
گیلن نے یہ نظریہ بھی پیش کیا تھا کہ خون جگر میں مسلسل بنتا جاتا ہے اور جسم میں گھلتا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف دوران ِ خون بلکہ غذا سے خون کے بننے کو بھی نہیں مانتے تھے۔گیلن کے علمی دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ تقریباَچودہ صدیوں تک ان کے اِن مفروضات کو حقیقت ہی مانا جاتا رہا۔
بالآخر سال سولہ سو بیس (سترہویں صدی)میں ولیم ہاروے نے اِس مفروضے کی حقیقت پر سوال اٹھایا اور جب وہ یہ تجربہ کررہے تھے کہ ایک مکمل دن میں دِل سے نکلنے والے خون اور جسم میں داخل ہونے والی غذا کا تقابل کیا جائے تو معلوم ہوا کہ دِل سے نکلنے والے خون کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ضروری حساب کتاب کے بعد ہاروے نے ثابت کیا کہ جسم میں خون کا دربارہ استعمال ہوتا ہے، یہاں سے“دوران خون “کی دریافت بالکل آسان تھی۔
انیسویں صدی کے اوائل میں “لیامارک” نے“نظریہ ارتقاء ” کے متعلق کچھ صحیح اور کچھ غلط نظریات پیش کئے تھے۔اُن کا ایک مفروضہ تھا کہ“فلیمنگو“(یا جسے راج ہنس بھی کہا جاتا ہے) پرندہ ہمیشہ اِس کوشش میں رہتا ہے کہ پانی کی سطح سے اوپررہے جسکی وجہ سے اس پرندے کے پیر لمبے ہوتے ہیں۔اِس سے اُنہوں نے یہ مفروضہ اخذ کیا کہ جو جیسا چاہے گا اُس قسم کے خواص حاصل کرسکتا ہے! “ڈاروِن “اور “ویالیس ” مخلوق کے ابتداء کے متعلق ایک ہی خیال کے حامی تھےلیکن دونوں کے اس خیال تک پہونچنے کا راستہ بالکل الگ تھا۔
جہاں ڈارون نے بحری سفرکے دوران ہوئے مشاہدات کی بنیاد پر یہ نتائج اخذ کئے وہیں ویالیس نے پہاڑوں کے سروے اور دقیق مطالعے کے ذریعے تخلیق کی ابتداء کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔انہوں نے “مالتھس” کی کتابوں کو دماغ میں اتار لیا تھااور برازیل کے گھنے جنگلات میں تقریباََچار سال تک تحقیقی نمونوں کی کھوج میں گزارے تھے۔
طلباء و اساتذہ کے لئے مشق:
محض مشاہدے کی بنیاد پر نتائج کیسے اخذ کئے جاسکتے ہیں؟-
کیا پتوں اور پھولوں کے درمیاں فرق اور انکے خواص کی مکمل آگہی کیلئے-
محض مشاہدہ ہی کافی ہے؟-
مشاہدے کے ساتھ مطالعہ اور نتائج کا تقابل کیا جائے؟ –
“لیامارک “سے لیکر “ڈاروِن” تک سائنسدان ارتقاء کے تئیں کیا رویہ رکھتے تھے اور موروثی طور پر حاصل شدہ خواص کے متعلق کیا سوچتے ہیں؟ –
ارسطو نے کہا تھا کہ سو پاؤنڈ وزنی بال،سو میٹر اونچائی سے زمین تک پہونچنے کیلئے جتنا وقت لیتا ہے وہ ایک دوسرے ایک پاؤنڈ وزنی بال کے ایک میٹر اونچائی سے زمین تک پہونچنے کیلئے درکار وقت سے کم ہوتا ہے۔گیلیلیو کا کہنا تھا کہ دونوں ایک ہی وقت میں پہونچیں گے۔
مذکورہ معاملے میں ارسطو اور گیلیلیو میں سے آپ کس کو صحیح مانیں گے؟ ایک کے صحیح ہونے اور دوسرے کے غلط ہونے کی وجوہات بھی بتائیں۔
محض غور و فکر اور سماج میں اُن کے رتبےکے چلتے ارسطو (چوتھی صدی قبل مسیح ) کے اِس دعوے کو صحیح مان لیا گیا تھا کہ زمین ، کائنات کا درمیانی نقطہ ہے اور سورج و دیگر سیارے ، زمین کے اِرد گِرد گھوم رہے ہیں۔ ہر ایک نے اس دعوے کو مان لیا ۔ اُس دَور میں یہ بات گویا “کامَن سینس – عُرفِ عام” تھی کہ “مادّہ” زمین ، حرکت نہیں کرسکتی ہے! سولہویں صدی میں “کوپر نیکس” نے کافی غور و فکر کے بعد اس مفروضے کے بالکل برعکس یہ دعویٰ/نظریہ پیش کیا کہ “مادّہ” زمین دراصل حرکت کرتی ہے اور کائنات(جو بعد ازاں “نظام شمسی” تک محدود ہوگیا) کا مرکز دراصل “سورج” ہے اور دیگر سیاروں کے ساتھ زمین بھی سورج کے اطراف چکر لگاتی رہتی ہے۔ واضح رہے کہ کوپرنیکس نے یہ نتائج مشاہدے سے نہیں بلکہ غور و فکر کے ذریعے اخذ کئے۔
طلباء و اساتذہ سے گزارش ہیکہ اس دو نوں واقعات سے اہم نکات نکالیں۔
سولہویں صدی ہی میں “گیلیلیو “نے “ٹیلی اسکوپ “کی مدد سےکوپرنیکس کے مفروضے کی تصدیق کی۔
یہاں ٹہر کر سوچنے کا مقام ہیکہ آخر “گیلیلیو” کو اس بات پر جیل میں کیوں بند کیا گیا تھا؟ وہ کیا ایقانات و مفروضات ہیں جو ہمیں عزیز از جان ہیں؟ اور جن سے روگردانی ہمیں بالکل برداشت نہیں بَجُز اسکے کہ اُن کے خلاف اچھا خاصا ثبوت موجود ہو!
“ویان لیو وین ہوک” نے پانی کے ننھے منھے خطرات میں مخلوق کی موجودگی کو دریافت کیا تھا۔ اُن سے پہلے لوگوں کا ایقان تھا کہ پانی میں کوئی زندہ وجود نہیں ہوتا۔
طلباء و اساتذہ سے گزارش ہیکہ اِس واقعہ سے مربوط اہم نکات نکالیں اور اپنے اطراف موجود (جن چیزوں کے بارے میں ہم مفروضات باندھے ہوئے ہیں) کی یا تو تصدیق کریں یا انکار کریں۔
اوپر بیان کی گئی مثالوں کے ذریعےاستاد، ایک حرکیاتی کلاس روم چلا سکتا ہے جس کا فائدہ ہر دو اساتذہ اور طلباء کو ہوگا۔
یہ کہا جاتا ہیکہ بَلب کے دھاگے(فِلامنٹ) کی جانچ کے دوران “تھامَس ایڈیسن” نے کئی ہزار بار مختلف قسم کے دھاگوں کی جانچ کی تاکہ روشن اور پائیدار بلب کی ایجاد ہوسکے۔(مترجم کی جانب سے تبصرہ: یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ سائنسی تاریخ نویس اس بات کو لیکر اختلاف میں مبتلا ہیں کہ “برقی” کی ایجاد کا سَہرا تھامس ایڈیسن کو جاتا ہے یا “نکولاس ٹیسلا” کو۔ ) ۔ بالآخر اُنہوں نے صحیح قسم کے “فِلامنٹ ” کی دریافت کر ہی لی۔ جب کسی صحافی نے اُن سے پوچھا کہ “کئی ہزار بار ناکام ہونے کے دوران انہیں کیسا محسوس ہوتا تھا” اُنہوں نے برجستہ کہا کہ“میں کئی ہزار بار ناکام نہیں ہوا بلکہ میرا تجربہ ہی دراصل ہزاروں مرحلوںپر مشتمل تھا“!۔
راقم تحریر:“نیرجا راگھون” (پی ایچ ڈی) اکیڈیمک اور تدریسی کنسلٹنٹ(تعلیمی و تدریسی مشیر) ہیں۔ عظیم پریم جی فاؤنڈیشن بنگلورو سے منسلک ہیں۔ اُن سےنیچے دئے گئے ای–میل پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔
مترجم: عبد المومن