ریاضی سے لطف اٹھا نے کا کلچر

ہم چا ہیں یا نہ چاہیں ، مضمون ریاضی زندگی کے تمام پہلوؤں پر اثر انداز ہوتاہےکسان ہو یاانفارمیشن ٹکنالوجی کا ماہر، ہرشخص کا ریاضی سے ا ٹوٹ رشتہ اور مطلوبہ مہارت کسی بھی متوازن سماج کی ناگزیر ضرورت ہوتی ہے۔

یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ اگر کوئ طالب علم اسکول اور کالج میں سکھا ئےگئے ریاضی کے نکات بھول بھی جائے تب بھی اس میں شفا ف اور منطقی سوچ آجاتی ہےجو درحقیقت ریاضی میں استعمال کئے جانے والے استدلال کا نتیجہ ہوتا ہے۔گویا ریاضی نہ صرف روزمرہ زندگی میں ہماری مدد کرتا ہے بلکہ معیار زندگی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

.لیکن المیہ یہ ہیکہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اوپر بیان کیےگئے مفروضے سے مطابقت نہیں رکھتا …..!!!!

ریاضی کی حالت زار پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور “ریاضی فوبیا ” کی اصطلاح بھی استعمال ہونے لگی ہے. اسی ریاضی فوبیاکو اسکول “ڈراپ آوٹ “جیسے گمبھیر مسئلہ کی کئی وجوہات میں سے ایک مانا جارہا ہے. ایک عام احساس ہیکہ اسکول میں بچے ریاضی سے ڈرتے ہیں حتی کہ کئی لوگوں کے ساتھ یہ سلسلہ عمر بھر چلتا رہتا ہے……!!!

-تدریس ِریاضی کے تئیں بہت سے اصلاحات کی کو ششیں اور پیسہ خرچ ہواہے . بد قسمتی سے ان اصلاحات کے محرکات بجائے اس کے کہ مسائل کے حل کا مداوا بنیں خود مسائل کے موجب بن رہے ہیں …

ترقی یافتہ قومیں چا ہتی ہیں کہ علم و تحقیق میں بالا دستی کے ذریعہ اپنا دبدبہ باقی رکھیں اور ترقی پذیر قومیں چونکہ اس خواب میں مبتلا ہوتی ہیں کہ ایک علمی و تحقیقی سماج کا قیام عمل میں لا یا جائے ہر دو قسم کے معاشروں میں ان اشخا ص کی بڑی قدر کی جاتی ہے جو ریاضی میں اچھی استعداد رکھتے ہیں۔

 ان دونوں محرکات کی بنیاد پر ہونےوالے اصلاحات کے کوئی خا طر خواہ نتائج نہیں دیکھنے میں آئے ہیں ..!!

کمزور ریاضی استعداد اور ریاضی فوبیا کو حل کرنے کیلئے ہمیں پہلے کچھ بنیادی سوالات پر سر دھننے کی ضرورت ہے…

۱ ١. ریاضی کی فطرت کیا ہے اور ریاضی کو لیکر ہمارےمخصوص تعصبات اور تحفظات نصاب کی تیاری میں کیسے اثرانداز ہوتے ہیں؟

۲ طلباءاور اساتذہ ریاضی سے اپنی نسبت اور کیا رشتہ جوڑتے ہیں ؟

۳ریاضی کے تئیں طلباءاو ر اساتذہ کن دیو مالائی مفروضات کی جکڑبندی میں پڑے ہیں؟

۴اہم ترین یہ کہ کسی بھی انسان کو اکتساب او رسیکھنے کی جانب کیا کیا عوامل ابھا رتے ہیں ؟

یہ مضمون دراصل انہی سوالات پر بحث کرتا ہے ..پھر ان نظریات کی نشاندہی کی جائیگی جن کے ذریعہ ریاضی کو پرکھا اور دیکھا جاتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ دیکھنے پر نصاب  پر کیا اثرپڑتاہےپھر درس و نصاب کی تیاری  پر بات ہوگی کہ کیا ہم درحقیقت ایسےسماج  کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں جہاں ہر قسم کے انسان کو ریاضی سے لطف اندوز ہونے کا حامل بنایا جائے چہ جائے کہ چند مخصوص افراداس نعمت سے بہرہ مند ہوں !

:اندھے لوگ اور ہاتھی

مشہور  حکایت  ہیکہ چند نابینا حضرات سے یہ مشق کروائی گئی کہ ان میں سے ہر ایک ہاتھی کے الگ الگ  حصہ کو  چھوکر  بتائے  کہ یہ آخرکیا چیزہے.. حیرت انگیز نتیجہ سامنےآیا جب کچھ نے کہا یہ دیوار ہے اور کچھ نے کہا رسّی!!

                             ٹھیک اسی طرح کا حال ریاضی کا ہوا ہے !!!

     ریاضی کی پراسراریت ، گہرائی اور گیرائی  ہی کا مظہر ہیکہ اسے مختلف زاویوں سے دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہےآئیے ریاضی کے ان پراسرار وادیوں کی سیر کریں ..

:ریاضی بشکل اکائونٹس اور حساب و کتاب

کئی لوگ اکائو نٹس کو ہی ریاضی سمجھ بیٹھتے ہیں ویسے اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہیکہ انسانیت کا ایک بڑا حصہ  قیمتوں کے تقابل ، لین دین  میں دھوکہ دہی سے بچنے، سود کا حساب کتاب  کرنے، ڈسکائونٹ و چھوٹ اور رقبہ و حجم معلوم کرنے کیلئے ریاضی کا  استعمال کرتے ہیں ..نمبر و اعداد کی دریافتیں دراصل زمین و تجارت کی دستاویزات اور حساب و کتاب کی ضروریات کی وجہ سے پیش آئیں جیسے  علم مثلث اور مساحت دریائے نیل کے زمینی راستوں کے حساب کتاب کے دوران  پیش آئے …

ہند – عرب اعدادی نظام  درحقیقت  فلکیات کے حسا ب کتاب اور دستاویزاتکے نظم کی ضروریات کا ہی پیش خیمہ ہوا ہوگا . انسانیت  کے اب تک کے اہم ترین کارناموں میں سے ایک اعدادی نظام کی دریافت ہےاور یہ بھی کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ کئی  حضرات کیلئے حساب اور اعداد و شمار ہی گویا حساب ہے !!!

          بہر حال اگر کوئی ریاضی کے اسی رخ سے واقف ہو اور نصاب کی تیاری اورتدریس کرے کہ ریاضی کوئی الگورتھمس پر مبنی سائنس ہے  تو نصاب اس شکل میں ترتیب پائے گا کہ گویا  ریاضی حساب کتاب والا علم ہے اور اسی دھما چوکڑی میں کئی طلباء ریاضی سے اپنا رشتہ توڑ بیٹھتے ہیں !!

مشہور ریاضی داں صوفیا کو السکائیا کہتی ہیں کہ  “اکثر لوگ جو ریاضی سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے  اور جنہیں اس بات کا موقع نہ ملا ہو کہ ریاضی کی اصل دریافت کریں اسے خشک مضمون سمجھتے ہیں  جبکہ اس مضمون میں اعلی قسم کے تصورات و خیالات کا عمل دخل ہوتا ہے !!!”

:مسائل کے حل اور ذہنی ورزش میں ریاضی کا استعمال

ریاضی کے بہت سے استعمالات  میں سے ایک مسائل کا حل بھی ہے اور وہ حضرات جو ابتدائی عمر میں ہیمسائل کے حل کی جانب متوجہ رہتے ہیںبعد ازاں ریاضی داں بنتے ہیں – لیکن اگر یہی مسائل کے حل والے نقطہ نظرکو مکمل ریاضی پر انطباق کردیا جاۓاوراسے ہی ریاضی سمجھ لیا جائے نہ کہ ریاضی کا ایک استعمال ..تب ریاضی کے تئیں خوف اور نفرت کا ماحول پیدا ہوجاتاہے . چونکہ مسائل کے حل کی صلاحیت ابتدائی عمر سے ہی پیداہوجاتی ہے  طلباء کو صرف اس ایک صلاحیت کی بناء پر “ذہین”اور “کند” کے القاب کی قید میں دے دیا جاتا ہے !! اگر کسی تعلیمی نظام میں بچہ کی قابلیت کو حسابی مسائل کے حل کی بنیاد پر ہی جانچا جائے تو یہ دونوں قسم کے بچوں کیلئے خطرناک ثابت ہوتا ہے وہ لوگ جو اس صلاحیتکی عدم موجودگی کے باعث “کند” قرار دیے جاتے ہیں یا اپنے آپ کو “کند ” سمجھ لیتے ہیں  دراصل ریاضی سے ہی جنگ ہار بیٹھتے ہیں  اور یہ بھی بعید از امکان نہیں ہیکہ آدمی اسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنالےاور عدم تحفظ اور شرمسا ر بھی ہو جا ئے . رہے وہ لوگکی جو حسابی  مسائل کے جو حسابی مسائل کے حل کی صلاحیت رکھتے ہیں  چونکہ ذہین سمجھے جاتے ہیں یک رخی انسان بن سکتے ہیں اور کمزور سماجی  صلاحیتوں کے شکا ر ہو سکتے ہیں .کئی ریاضی دانوں کی مثالیں ہمارےسامنے ہیں جن کی سماجی زندگی بہت اجیرن گزری ہے.

  اس بات میںکوئی دو رائے نہیں ہیکہ ریاضیاتی نظریات کا ایک بڑا حصہ انہی مشکل مسائل کے حل میں گزرتا ہے بہر کیف تمام ریاضیاتی مسائل ایک ہی درجہ پر نہیں ہوتے کچھ بہت ہی گنجلک ہوتے ہیں جیسے برف کے عمیق تودے کا اوپری حصہ …جو درحقیقت ریاضی کی گہرائی و گیرائی کا ثبوت ہوتے ہیں ڈھیر سارے مسائل ذہنی جمناسٹک  چاہتے ہیں اور اکثر  عجیب و غریب تکنیک کے ذریعہ حل کئے جاتے ہیں- 

  اسی قسم کے مسائل دراصل “مسابقتی امتحانات” میں  پوچھے جاتے ہیں گویا درخواست گزاروں  کوچھلنی کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں !!!!

ایسا  نظام جولوگوں کی اچھے سے اچھے “ذہنی جمناسٹک” کرنے کی خوبی کو پیمانہ بناکر نوکری و تعلیمی وسائل کا سزاوار بنائے  کچھ نہیں بلکہ ایک غیر منظم اور بےسمت معا شرے  کی داغ بیل ڈالےگا!!

ایسے طلباء جنہیں چندسطحی دماغی ورزشوں کی عادت ہوجائے  کچھ نیا سیکھنے  کے  معاملہ میں  کو  ئی جذبہ نہیں رکھتے..اور ایسےطلباء ریاضی کا ایک محدود تصور  رکھنے کا جو کھم اٹھا تے ہیں نتیجتًہ  وہ ریاضی کو نہ ہی تحقیق کا میدان انتخاب کرتے ہیں اور نہ ہی تعلیمی میدان میں ریاضی کی خدمت کیلئے  ہی آمادہ ہوتے ہیں!

کئی اعلی و ارفع تعلیمی اداروں کے اساتذہ  و  منتظمین اس بات پر نالاں ہیں کہ ان اداروں میں ریاضی پڑھانے  کیلئے قابل اساتذہ دستیاب نہیں ہیں ..ذراان ان گنت طلباء کی حالت زار کا تصور کریں جو ان تھک محنت کے باوجود اس نام نہاد اعلی و ارفع تعلیمی اداروں میں داخلہ نہ لے پائے ہوں آخر پھر کیسے اعتماد جوڑ پائیں گے ؟؟

علاوہ اس کے اب جبکہ ہمارے معا شر ے نے  ذہانت کا پیمانہ بالکل غلط طریقہ سے ریاضیاتی صلاحیتوں پر بنا لیا ہے ،ان طلباء پر بہت برا اثر ڈالاہے جو سماجی سائنس میں کیریئر بنا نے کا ارادہ رکھتے ہوں اس پر طرہ یہ کہ سماجی و تکنیکی تعلیمی میدانوں میں غیر متناسب فنڈز کی اجرائی ہو تی ہے نتیجتًہ طلباء اپنی دلچسپی اور صلاحیت کے برعکس شتر بے مہار کی طرح سائنس کا انتخاب کررہے ہیں!!!

:ریاضی بحیثیت “کائناتی زبان ” اور جدید دور کا ایک اہم ہتھیار

گیلیلیو (مشہور ماہر فلکیات و ریاضی داں) کی مرہون منت ریاضی کائناتی زبان کی صورت اختیار کرنے میں کامیاب ہوگیا  وہ لوگ جو اس  کائنات کے از بستہ راز تہ کرنے کا قصد کرتےہوں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ریاضی اس چھٹی حس کا نام ہے جو کائنات کو سمجھنے کیلئے انتہائی ضروری ہے!

ہم انگشت بدندان ہیں مشہور ماہر طبیعات کے ان الفاظ پر جو انہوں نے  ١٩٥٩ کے اپنے لکچر بعنوان “قدرتی سائنس میں ریاضی کا ہمہ گیر (غیر منطقی )اثر ” کے آخر میں کہے تھے…

“یہ بات  ایک معجزہ سے کم نہیں ہے کہ طبیعاتی اصولوں کو بنیاد میں لانے کیلئے ریاضیاتی الفاظ و اصطلاحات کتنے موزوں ترین ثابت ہوئے ہیں اور اسحقیقت  کا ادراک ہم نے  نہ ہی کیا اور نہ ہی ادرک کے سزاوار ہیں- ہمیں شکر گزار رہنا  چاہئے اور کوشش بھی کرنا چاہئے کہ آگے بھی ریاضی کا یہ کردار باقی رہے اور اکتسابی عمل کے افق پر چھایا رہے”

وہ افراد جو  سائنس کے نظریاتی نقطہ نظر پر ملکہ رکھتے  ہیں  ریاضی کے اس معجزاتی رخ کے سب سے زیادہ دلدادہ ہوتے ہیں…:)

 ریاضی کی یہ خصوصیت کہ وہ تجربات کے اظہار کو آسان بنا دیتی ہےجسکی بناءپر اس کا اثر زندگی کے مختلف شعبہ جات مثلا بیالوجی سے لیکر معاشیات تک  ہمہ گیر ہوجاتاہے اور اسی خصوصیت کا نتیجہ ہے کہ تاجر ہویا انجینئر ریاضی دونوں کے  روزمرہ کاموں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے-  ہم میں سے اکثر “کمپیوٹر” کاروزانہ استعمال کرتے ہیں بغیر یہ جانے اور سمجھے کہ آخر کیوں اور کیسے کام کرتا ہے!

یہ کوشش بھی کہ ہر موقع و محل پر ریاضی کے استعمالاتی عنصر کی کھوج کی جائےنصاب اور تدریس  ریاضی کیلئے ارزاں ثابت ہوتی ہے– بہرحال ہم اس خطرے کا شکار ہیں کہ ہمارے اسکولوں میں رائج  ریاضی کا کم ہی حصہ ایک طالب علم کی حقیقی زندگی سے مطابقت رکھتا ہے…اکثر مثالیں جو سمجھائی جاتی ہیں یا تو غیر عقلی ہوتی ہیں یا  غلط منطبق کی جاتی ہیں !

انسان کا وہ رجحان جو یہ کہے کہ میں تبھی کو ئی چیز سیکھوں گا جب اسکی اہمیت مجھے معلوم ہو درحقیقت  سیکھنے کے عمل میں بہت بڑی رکاوٹ بنتا ہےاسی طرح یہ خیال کہ ریاضی کے غیر عقلی و میکانیکی حسابات کواسلئے سیکھا جائے تاکہ مستقبل میں اسکے فوائد سمیٹے جائیں ، کسی صورت طلباءکے جذبہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا . اسیدوران ریاضی بوریت کا دوسرا نام بن جاتی ہےجسکا راست اثر اس کے دلچسپ اور مزیدار رخپر پڑتاہے…

جیسا کہ جولین ولیمس نےکہا-“ایک اوسط طالب علم نہ صرف ابتدائی عمر بلکہ بڑا ہونے تک جذباتی اور عقلی اطمینان چاہتا ہے”

:ریاضی سچائی اور خوبصورتی کی تصویر

اب ہم ریاضی کی اصلیت اور پراسراریت پر کچھ نظر ڈالینگے. بہت سے حقیقی ریاضی داں  یہ اقرار کرتے نظر آئیں گے  کہ انہوں نے اس مضمون کو اسکی خوبصورتی کی وجہ سے انتخاب کیا اور اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہ وہ درحقیقت ریاضیاتی سچائی کی تلَاش میں سرگرداں ہیں  یعنی کسی چیز کی دریافت میں محو ہیں نہ کہ ایجاد میں !پروفیسر جی .ایچ. ہارڈی سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اس حقیقت پر روشنی ڈالے…

“ایک ریاضی داں گویا مصور یا شاعرکی مانند ہوتا ہے جو  مختلف  خاکوں کو تشکِیل  دیتاہےجواگر ان حضرات کے بنائے گئےخاکوں سے زیادہ وقت تک قائم دائم رہیں تو یہ دراصل اسکے پیچھے کام کرنے والے  خیال کی وجہ سے….ایک ریاضی داں کا خاکہ خوبصورت ہواور اسکے خیالات ،رنگ اور الفاظ کی طرح ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہوں بد صورت ریاضی کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں “

میری دانست میں سب سے مضبوط محرک جو ریاضی سیکھنے کی طرف آمادہ کرتا ہےوہ  جذباتی سطح پر وجود میں آتا ہے..مختلف النوع ریاضی داں اس پر اتفاق کرینگےکہ ریاضی کی تشیکِل کے دوران اندرون ذہن وہ ایک الہامی کیفیت سےگزرتےہیں. ایلین کونس، فیلڈس میڈل یافتہ(ریاضی کا اعلی ترین ایوارڈ) اسکا منظر کچھ یوں کھینچتے ہیں…”جب ذہن پر تجلی کی کیفیت طاری ہوتو ناممکن ہوجاتاہےکہ انسان خاموش رہےیا دوسروں سے الگ نہ رہےایسے اوقات جب میں خود اس کیفیت سے گزرا ہوں توزار و قطار آنسو نکل پڑے”

وہ لوگ جو ریاضی کوتخلیقی فن کے دائرے میں دیکھتےہوں اور جنہوں نےاسکی دریافتوں کا مزہ اٹھاکر اسکی حقیقت سے نبرد آرزماہوئے ہوں دراصل اسکے سیکھنے کا اٹوٹ جذبہ رکھتے ہیں اور اسے پڑھنے کی خاطر پڑھتے ہوں نہ صرف اس وجہ سے کہ اسکا کیسے کہاںاستعمال کیاجائے- ریاضی داں اس بات پر اصرار کرتےہیں کہ اس مضمون کی اوپر بیان کی گئی فطرت سے نہ ہی اساتذہ واقف ہیں اور نہ ہی طلباء جسکا بدیہی نتیجہ نکلا کہ ہم نے نصاب اور تدریس کی صورت ہی مسخ کردی..

بہرکیف یہ نظریہ بھی کہ ریاضی کے تمام تجربات آرٹ اور میوزک کی طرح ہوں اپنے آپ میں کچھ حدود کا پابند ہے آرٹ اور میوزک کی خوبصورتی عام انسانیادراک کے قریب تر ہوتی ہے جبکہ ریاضیاتی خوبصورتی ،خاص تربیت اور نسبت چاہتاہے- اسکول میں رائج نصاب کا بہت بڑا حصہ ریاضی کی خوبصورتی کو اجاگرنہیں کررہاہے درحقیقت یہ وہی مسائل کے حل کا محرک ہی ہے جوطلباءکو ریاضی کو طرف آمادہ کرتاہے اب جب اس بات پر کوئی دورائے نہیں کہ ریاضی آرٹ کا ایک حصہ ہے تب کیوں ہر بچہ کیلئے اسکاسیکھنالازمی کردیاجاتاہے؟

بچوں کو ابتدائی رجحان کو نظر میں رکھتےہوئے ریاضی کو اگر اختیاری مضمون بنادیا جائے تو کیا ہم  اپنی ذمہ داری صحیح ادا کرینگے؟کیا ہمیں اس بات پر غور نہیں کرناچاہئیے کہ ہر استاد کو اپنے اپنے مذاق کے مطابق نصاب کی تکمیل کا اختیار دے دیا جائے تو اس کا لازمی اثر ان بچوں پر ہوگا جو مختلف انداز کا میلان رکھتے ہوں !

اب سوال یہ پیدا ہوتاہیکہآخرمعاشرہ ریاضیاتی کاوشوں کی کیوں کر ہمنوائی کرے اکثر فنکار اپنے قدرداںیا خریدارکے بل بوتے آگےبڑھتےہیں جبکہ ریاضی داں اپنےنظریات  (تھیورمس) کو بیچ نہیں سکتے..!! خوش آئندصورت حالیہ ہیکہ ہمارے پالیسی ساز حضرات ریاضی کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر جانتےہیں  جسکی مرہون منت ریاضی سے جڑے لوگ با عزت زندگی گزار رہے ہیں  جو یا تو ریاضی پڑھاتےہیں یا ریاضی کا استنباط کرتےہیں جبکہ ایک قلیل تعداد ایسی ہےجو ریاضی کو صرف ریاضی کی خاطر کرتے ہیں.

ریاضی سب کیلئے؟

جب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ریاضی کو ہر قسم کے طالب علم کی خاطر نصاب کو اہم حصہ بنایا جائے تبھی طلباءکے اس بنیادی حق کی طرف بھی توجہ دینی چاہئیے کہ وہ ریاضی سے مساویانہ طورپر  لطف اندوز ہوں- الغرض کیا ہم ایسےکلچرکی تخلیق  کرسکتے ہیں ؟ بلا شک یہی وہ طریقہ ہے جسکے ذریعہ ہم اب تک بیان کئے گئے تمام مسائل کے حل کی جانب بڑھ سکتےہیں..اور یہ کام اسوقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ریاضی سے جڑےتمام لوگ اس کا احساس کریں ریاضی کو استعمال کرنے اور سیکھنے  کی جاذبیت کا ادراک کریں …درآںحالانکہ موجودہ غیر تخلیقی نصاب ، خراب انفراسٹرکچر، غلط تربیت  یافتہ اساتذہ(ریاضی داں پڑھانے کیلئے آمادہ نہیں ہیں اور اساتذہ ریاضی کو حقیقت سے استنباط میں دلچسپی نہیں رکھتے- پال لوک ہارٹ) کی صورت حال کو مدنظر رکھا جائے تو یہ خیال حقیقت سے پرے لگتاہے….

اس پر طرہ یہ کہ ریاضی سے خوف و ہراس کا ماحول جلے پہ نمک چھڑکنےکا کام کررہاہے..بہر کیف ہر انقلاب کی طرح اس معاملہ میں بھی تبدیلی انفرادی اور نظام کی سطح پر لانے کی ضرورت ہے-

اولین سطح پر ہمیں ریاضی اور ذہانت  کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی ضرورت ہےہمیں ہر بچہ کو اس کے حقیقی میلان کی دریافت میں مدد دینی چاہئےاس کے ساتھ ساتھ جو بھی کرے اس میں جاذبیت پیداکریں۔

ہمیں چند غیر واضح حسابی مسائل کے حل کی بنیاد پر تعلیم اور نوکری جیسے وسائل تک رسائی کا پیمانہ بدل کر فوری طورپر نوجوانوں کی صلاحیتوں و ذہانتوں کو جانچنے کا پیمانہ بناناچاہئے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ موجودہ نظام کی بیخ کنی کردی جائےبلکہ اس میں ایسی تبدیلی لائی جائےجو انسانی  ذہانت کے مختلف رجحانات کو سمیٹ سکے اور ساتھ ہی سماج کے اٹوٹ حصہ ہونیکاشعوردلائے جوطالب علم کو احساس ذمہ داری بھی دلائےاور ماحول کے تئیں حساس بھی بنائے ،اس سمت میں کوئی بھی بنیادی تبدیلی ہمارے کلچر میں موجود ریاضی سے خوف کو دور کرنے میں مدد کر سکتی ہے–

جہاں تک نصاب کا معاملہ ہےہمیں ریاضی کی تعلیم کے سلسلہ میں اپنے اہداف کی ٹھیک ٹھیک آگہی  ہونی چاہئے کم از کم بچوں کو اعدادی نظام کی صحیح تصویر سمجھادی جائےاور انہیں اس قابل بنادیا جائے کہ کسی بھی مواد کو جمع کرتے ہو ئےاسکی عملی تطبیق و نیز اسے سمجھا سکیں اور انہیں کسی بھی غلط دلیل کی چھانٹ پکٹ کرنے کا ملکہ بھی حاصل ہوجائے..

کم ہی لوگ ایسےہوتےہیں جنکا مقصد ریاضی کا استعمال کرناہوتاہےاور ان سے بھی کم حضرات ایسےہوتے ہیں جوریاضی کی دریافت کرتے ہیں (چونکہ بہت کم تخلیقی ریاضی داں کسی نظام کا ثمر ہوتےہیں کیونکہ انہیں ریاضی کے علاوہ کوئی اور چیزنہیں کرناہوتا جس کے لئے کسی نظام کی پشت پناہی  ضروری نہیں ہوتی)

 فریم ورک برائےقومی نصاب  ٢٠٠٥(National Curriculum Framework)

  نے ریاضی نصاب کے لئے بڑے صاف و شفاف رہنما یانہ خطوط مرتب کئےہیں  الغرض اب فوری طور پر سوچ کو رخ دینے والے( تھنک ٹینک)گروپ کی ضرورت ہےجو ریاضی دانوں سے لیکر  اساتذہ  اور تعلیمی نفسیات کے ماہرین پر مشتمل ہوجو اس فریم ورک کو ذہن میں رکھتےہوئے موادکی تخلیق کرے اعدادی نظام کو نئے اور تخلیقی انداز میں سکھانے کی ضرورت ہےچونکہ یہ ہماری روزمرہ زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں پھر اکتساب شدہ چیزوں کی تحلیل و جائزے کیلئےمختلف کھیلوں اور پراجکٹس کی مدد لینی چاہئےجن میں حقیقی مثالوں کو استعمال کیا جائےچہ جائے کہ ایسی مثالیں لی جائیں جو بوریت اور شکن ذہن کا سبب بنیں !

ریاضی کی فطرت ہی ہیکہ یہ اپنے آپ ذہنی افق پر چھاتی ہے ہمیں کوشش کرناچاہئے کہ کسی بھی نکتہ کو دہرانے کے بجائے تخلیقی انداز میں الگ الگ جہتوں سے دیکھا پرکھااور سمجھاجا ئے.

نصاب کو اس  نکتہ کا محور بنایاجائے کہ ریاضی دراصل “تمثیل یا نمونہ پہچاننے کا علم ہے” بعدازاں اس نکتہ کو جانچنے کےپیمانہ بھی تشکیل دئے جائیں  میں نے کئی ایسے طلباءکو دیکھا ہےجو مروجہ نصابی ریاضی کو سمجھنے میں تو  کند ہیں  لیکن تماثل کو پہچاننےمیں اور منطقی معموں کو حل کرنےمیں شانداررہےہیں بچوں کو معنی خیز مسائل کے حل کا اچھا تجربہ کروایاجانا چاہئے فی الحال  ان نکات پر مشتمل کو ئی مواد موجود نہیں ہےلہذا جیسا ہم نے پہلے بھی کیا تھا کہ ایسےمواد کی تیاری کرنیوالے لوگوں کی ضرورت ہےیا کم از کم موجودہ مواد کو منطقی انداز میں ترتیب دینے والوں کو ہی جمع کردیاجائے تاکہ اساتذہ تربیت حاصل کر موثر انداز میں سکھاسکیں۔

رہی بات تدریسی جگہوں  کی تو سب سے اہم جماعت کو حقیقت میں سیکھنے کی جگہ بنایاجائےیہ کام استاد پر منحصرہے  اوریہ تبھی ہوسکتاہےجب استاد اور بچوں کے درمیان بھروسہ اور کشش ہوجو سیکھنے اور سیکھانے کے جذبات کو ہمیشہ تازہ رکھ سکیں

استاد کو ریاضی سیکھانے کےدوران خوش ہوناچاہئےتاکہ طلباء موثر ہوں اس سے آگےبڑھ کر وہ طلباء کو ڈرو خوف کی نفسیات سے نکلنے میں مدد دےاور اس قابل بنائے کہ طلباء آپ خود ہی سیکھنے لگیں. مرکز اکتسابی عمل میں٢سال کا تجربہ ہمیں یہ درس دیتاہےکہ یہ ساری باتیں کسی دیوانے کی بڑنہیں بلکہ عین ممکنات کی دنیا سے ماخوز چند حقیقتیں ہیں !

تحریر: ڈاکٹر جے ششی دھر، پی ایچ ڈی  (ریاضی) جامعہ سیراکوز ١٩٩٤

مترجم:عبد المومن

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے