اس مضمون کا حصہ اول یہاں پڑھیں
میرے بڑھتے سوالات نے سائنس کے تئیں شوق میں مزید اضافہ کیا۔ اس چیز نے اکثر میرے اسکول اساتذہ کو چیلنج کیا، کیونکہ میرے پیچیدہ سوالات کی وجہ سے وہ مجھ سے گھبرانے لگے تھے۔ ایک مرتبہ کیمسٹری کلاس میں مجھ سے ایک کیمیائی مساوات(chemical equation) کو متوازن (balance) کرنےکیلئے کہا گیا۔ جسکا مطلب ہوتا ہے مساوات کے کیمکلس کے آگے متناسب نمبر جوڑنا تاکہ مساوات کے دونوں جانب کل جواہرات (atoms)کی تعداد برابر رہے۔ قدرے پیچیدہ کیمکل عمل (reaction)کیلئےمیں دو مختلف جوابات پر پہنچا[جو لوگ اس عمل کے متعلق جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ عملKClO4 اور HClکےدرمیان تھا]۔ دراصل مشکل یہ تھی کہ ہمیں سکھایا گیا تھا کہ کیمیائی عمل کو بیلنس کرنے کا بس ایک منفرد حل ہوتا ہے، ورنہ عناصر صحیح تناسب میں تعمل پذیر نہیں ہو سکتے۔لحاظہ ، ٹیچر سے میرا سوال یہ تھا کہ، ان دو جوابات میں سے کونسا صحیح ہے؟ وہ مبہوت رہ گئے اور کوئی تسلّی بخش جواب نہ دے سکے۔ لیکن میری تلاش جاری رہی۔جب میں برلاانسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ سائنس، پلانی(BITS, Pilani) گیا تو میں نے اپنے کیمسٹری اساتذہ سے یہی سوال پوچھا، لیکن کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔ یہاں تک کہ میں نے آگے چل کر linear algebra اور matrix theoryکا کورس پڑھا تب مجھے کیمیائی مساوات کے توازن کے متعلق میری تلاش کاخاطر خواہ حل ملا۔لینئر الجبرا کے rank-nullity theorem سے میں واقعتاًیہ ثابت کر سکا کہ KClO4 + HClکے ردعمل میں صرف دو نہیں بلکہ لا محدود جوابات ہو سکتے ہیں۔ یہ ظاہر ہواکہ کیمیائی مساوات کے صحیح حل کی شناخت یا رد عمل کی تقسیم کیلئےمزید کیمیائی تفصیلات جیسے کیمکل تھرموڈائنامکس کی ضرورت پڑتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے نظامِ تعلیم کا المیہ ہے کہ اساتذہ علم و دانش کو مضامین کی حدود میں تقسیم کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے مسائل کی اکثریت بین المضامین (inter-disciplinary) ہوتی ہے۔کائنات سے متعلق سوالات یہ جاننے کی قوت نہیں رکھتے کہ وہ علم ریاضی سے ہیں کہ کیمیا یا حیاتیات سے!مثلاً پھول کی پنکھڑیاں اور کیکٹس کے کانٹےریاضی کے فیبو نیکی اعداد (Fibonnacci numbers) کے مطابق ترتیب پاتے ہیں۔ یہاں ہم علم ریاضی، حیاتیات اورجگہ کے استعمال کی قدرتی ترکیب کو ہم آہنگ پاتے ہیں۔ جسکے نتیجہ میں فیبو نیکی انداز ترتیب ظہور پذیرہوتا ہے۔ چنانچہ ، بحیثیت استاد،علم کو مضامین اور شعبوں میں الگ تھلگ کرنے کے بجائے ہمیں اکثر نظریات کی کثیر الشعبہ جاتی سمجھ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
جب میں بِٹس پلانی میں طالب علم تھا ، ادارہ کے ڈائرکٹر ، ڈاکٹر سی۔آر۔مِترا نے مجھے اور میرےایک کلاس میٹ ، سبھاش گپتا سے کہا کہ ہم تمام نئے آنے والے طلبہ کیلئے “سائنسی نظریات” (Concepts in Science) پر ایک کورس ترتیب دے کر پڑھائیں۔یقیناً طرز تعلیم کا یہ ایک نہایت ہی انوکھا تجربہ تھا ، خصوصاً میرے لئے پڑھانے کی مسرت کو محسوس کرنے کا موقعہ تھا جبکہ میں ابھی بِٹس میں تیسرے سال کا طالب علم تھا۔ ہم نے سوالات پوچھنے اور پھر انکے جوابات تلاش کرنے پر مبنی تصور ات کو سیکھنے کے نہایت اختراعی(innovative) طرز تعلیم پر مبنی کورس کو ترتیب دیا ۔ حالانکہ یہ انداز اساتذہ کیلئے چیلنج کا باعث بنا، لیکن یہ کئی خصوصیات کا حامل تھا۔ کورس میں ہر ایک طالب علم سے کہا گیا کہ وہ ایک سائنس پروجیکٹ بنائیں کہ جو کہ صرف آس پاس کی کسی بھی چیز کو “رُکو اور دیکھو” (stop and stare) اور اس مشاہدہ کو سائنسی نظریات کی مدد سے سمجھانے پر مشتمل تھا۔ ایک نہایت دلچسپ پروجیکٹ ویاس بھون ہاسٹل کے راستے کے کنارے لگے درختوں سے متعلق تھا۔ اس میں سمجھا یا گیا کہ کیونکر راستے کے کنارےقطارسے لگے درخت ، وقتاً فوقتاًدبا و کی زیادتی سے رطوبت خارج کرتے ہے۔اسکی تشریح کیلئےکیپیلری عمل (capillary action) سے لے کر ہائیڈروڈائنامکس تک کے نظریات سے مدد لی گئی تھی، لیکن پھر سے یہاں بھی سوال بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔چنانچہ سوال انسان کو کسی بھی راہ پر لے جا سکتا ہے؛ وہ چاہے معمولی کیپیلاری عمل ہو یا پیچیدہ ہا ئیڈروڈائنامک مساوات ،سوال ہی علم اور جستجو کی جانب لے جاتا ہے۔سنجیب مشرا، میری کلاس کے ایک طالب علم نے سوال اٹھایا کہ: کیونکر واش بیسن کی نالی سے بہتا پانی ایک طرح کا مدّوجذر(turbulent current) پیدا کرتا ہے، خصوصاً جب پانی کے آخری خطرے نالی سے گذر تے ہیں۔ اس سوال نے سنجیب کو بالکل ابتدائی دور طالب علمی سے فلئیوڈڈائنامکس(fluid dynamics) اور نیویئر-اسٹوکس مساوات(Navier-Stokes)کی جانب بڑھنے میں مدد دی۔ سب سے زیادہ اہمیت کی حامل یہ چیز ہے کہ ، اس کورس اور تجربہ نے سنجیب کے اندر سائنس کے تئیں شوق کی ایک چنگاری پھونک دی جو کہ کولمبیاء یونیورسٹی سے پی۔ایچ ۔ڈی اور پھر ہارورڈ یونیورسٹی میں ہائی اینرجی فزکس پر ریسرچ اور پروفیسر شپ پر منتج ہوئی۔ بنیادی سائنس کے اس کورس نے سنجیب کے ساتھ ایک اور طالب علم رتن ناتھ کو اتنا زیادہ متاثر کیا کی ہم نے مشترکہ طور پر جب میں چوتھے سال میں تھا پھر سے ایک بار پڑھایا۔ جس کے نتیجہ کے طور پر ہم نے 700 صفحات کی ایک کتاب “سائنس کے بنیادی تصورات ” کے نام سے شائع کی۔ ایک طرح سے ہمارا شوق کبھی ختم نہ ہونے والا تھا۔ ہم نے بغیر کسی تکلیف دہ احساس کے بے انتہا وقت اور محنت کتاب کے لکھنے میں لگائی۔ جب میں نیشنل سائنس ٹیلنٹ سمر اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے انڈین انسٹیٹیوٹ آف کیمیکلٹیکنالوجی،حیدرآباد(IICT) میں پڑھ رہا تھا ایک مرتبہ ہم دوست عثمانیہ یونیورسٹی کے احاطہ میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ہم درختوں سے گرنے والے بیجوں کو دیکھ کر حیران رہ گے۔ بیج ایک سخت خول میں بند تھا جو کہ بادام کے بیج سے مناسبت رکھتا تھا۔ لیکن مقامی لوگوں نے متنبہ کیا تھا کہ بیج کھانے کے لائق نہیں ہے۔ بیج کے متعلق اپنے سوالات سے مہمیز پا کرIICT میں میرا سمر پروجیکٹ اس بیج سے درآمد کردہ تیل کے تجزیہ پر مشتمل تھا ۔مجھے پتہ چلا کہ دراصل وہ بیج ‘پونگا میاپناٹا’ (PongammiaPinata) تھا جسے عام طور پر ‘پونگو ‘ کہا جاتا ہے۔ پھر سے، بیج سے متعلق اس سوال نے مجھے تحقیق کے ایک نئے میدان کی جانب لے گیا جسمیں مختلف ترکیبوں سے قدرتی کیمیائی پیداوار ، کیمیائی کشیداور تیل کی سپیکٹرو سکو پک تجزیہ کرنا شامل ہے۔نتیجتاً، یہ آشکار ہوا کہ یہ تیل کئی طبیّ خصوصیات کا حامل ہے اور ہربل میڈیسن میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس طرح کسی ایک سوال کے جواب کی تلاش نے مجھے کسی ایک میدان تک محدود رکھنے کے بجائےعلم کے مختلف میدانوں : ریاضی سےطبعیات اورعلم کیمیا سے حیاتیات کی جانب لے گئی ۔ علم ریاضی اور کیمیائی آئسومیرزم(chemical isomerism) کے درمیان تعلق کی کھوج کے نتیجہ میں میرا ماسٹر تھیسس پروفیسر وی۔کرشنمورتی کے ساتھ ہوا جو کہ بنیادی طور پر ایک ریاضی دان تھے لیکن کیمسٹری ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے تھے۔
کئی مشہور سائنس دانوں کی زندگیاں اس عنوان مشترک کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ سوالات پوچھنے اور ان کے جوابات کے تلاش کی دھن سے ہی سائنس کا ارتقاء ہوتا ہے۔ اساتذہ کو چاہئے کہ اس کلچر کو اپنے تدریسی انداز اور درسیات (curriculum) میں ڈھالیں اور طلباء کو متحرک انداز میں نا معلوم جوابات کی کھوج میں شامل ہونے پر ابھاریں۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ طریق تدریس میں سائنسی تصورات کے کئی ایک دلچسپ اور عملی مظاہرہ کو شامل کیا جائے۔بجائے اسکے کہ ٹیکسٹ بک کی چیزوں کو بغیر کسی حوصلہ افزائی کے تعارف کرایا جائے، یہ چیز کئی درجہ بہتر ہے کہ کسی چیز کو سیکھنے کے عملی انطباق ، درمیانی تعلق اور وجوہات کی ،ابتداء ہی سے نشاندہی کی جائے ۔ مثال کے طور پر اعداد کی ترتیب جیسے ارتھ میٹک پروگریشن(arithmetic progression) ، جیو مٹرک پروگریشن(geometric progression) یا فی بو نیکی نمبرس(Fibonacci sequence) کو حوصلہ افزاء تمثیلات کی مدد سے متعارف کرایا جاسکتا ہے، جیسے گواس(Gauss)نے کس طرح قدرتی اعداد کے جمع کی ترکیب دریافت کی جبکہ وہ ابھی ابتدائی اسکول میں تھا۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن اسکول ٹیچر نے یہ سوچ کر کہ طلباء کچھ دیر مصروف رہینگے ، 1سے100تک اعداد کا حاصل جمع معلوم کرنے کیلئے کہا۔ لیکن گواس نے بالکل جلدی ہی جواب دریافت کر لیا ۔ اسنے دیکھا کہ جب اعداد کی ترتیب کو سیدھی اور الٹی ترتیب میں لکھ کر جمع کیا جائے تو ہر ستونی فہرست کا حاصل جمع ایک سا آتا ہے [مندرجہ ذیل جدول ملاحظہ کریں]۔اس طرح اس نے فوراً جواب دریافت کرلیا[Sn = n(n+1)/2] ۔
100 99 … 11 10 9 8 7 6 5 4 3 2 1
1 2 … 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100
101 101 101 101 101 101 101 101 101 101 101 101 101 101 Sum
ہم تصویری مشاہد ات(visual demonstrations) ، تمثیلات(anecdotes) ، تاریخی تناظر، عملی انطباق(applications) اور بس سوال پوچھنے اور جوابات کی جستجو کے ذریعہ سائنس کو نہایت دلچسپ بنا سکتے ہیں۔ در حقیقت سوال کا پوچھنا جواب کی دریافت سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ معمہ کے حل کی تلاش کا راستہ طلبہ کو سائنسی تجربات کے لطف سے آشنا کراتا ہے۔
ختم شد۔
متذکرہ بالا مضمون کا پہلا حصہ ملاحظہ ہو۔
مصنف: کرشنن بالا سبرمنین
ترجمہ: صداقت فقیہ ملا
بشکریہ لرننگ کروسائنس اشو12،عظیم پریمجی فائونڈیشن، بنگلورو
(Learning Curve Issue 12, April 2009)
1 thought on “سلگتے سوالات سے چراغ جلائیں – حصہ دوم”