ریاضی کی تدریس کا مکالمہ: حقائق اور چیلنجز

مصنف : یکتا شرما

مترجم : نثار احمد

مسائل کو سمجھنا / مسائل کی تفہیم
ڈیوڈ وہیلر(لندن کے ایک کمپیوٹر سائنس دان) نے کہا تھا کہ “بہت زیادہ ریاضی جاننے سے بہتر یہ جاننا ہے کہ کس طرح ریاضیانہ قلب (Mathematise) میں ڈھالا جائے “۔ شاید یہ قول ریاضی کے سیکھنے اور سکھانے کے سارے مسئلہ کو اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ بہت زیادہ ریاضی جاننے کا تقاضا یہ ہے کہ مختلف اقسام کے حسابات کو ایک ضابطہ کے مجموعے کے تحت حل کرنے کے قابل ہوں۔ جبکہ دوسری جانب ریاضیانے(Mathematise) کا عمل ، موقع و محل کی مناسبت سے ریاضی کو استعمال/لاگو کرنے کی صلاحیت اور ریاضیانہ انداز میں سوچنے کے قابل ہو نا ہے ۔ ریاضی میں دئیے جانے والے وضاحتی سوالات ، اس طرح سے ریاضیانے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔

ریاضی سے پریشان بچی کی ایک جھلک!

چلئے اس مسئلہ کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہوئے اس گنجائش کو دیکھتے ہیں جو ریاضی باہمی گفتگو/مکالمہ کیلئے مہیا کرتی ہے اور غور کرتے ہیں کہ کس حد تک یہ موقع سیکھنے، سکھانے کے عمل میں استعمال ہوتے ہیں ۔
وضاحتی سوال:    ” سیما کچھ رقم لے کر بازار گئ ہے ۔ اس نے پھل خریدنے میں 150 روپے خرچ کئے۔ اب اس کے پاس 100 روپے بچے ہیں ۔ بازار جاتے وقت اس کے پاس کتنی رقم تھی ۔ “
اس طرح کے سوالات اکثر طلباء کو دئیے جاتے ہیں اور وہ الجھ جاتے ہیں کہ کونسے عوامل استعمال کرنے ہیں ۔ چنانچہ اگر ہم کوشش کریں اور سمجھیں کہ طلباء کیوں الجھ جاتے ہیں تو ہم ان چیلنجز کو جاننے کے موقف میں ہوں گے جو طلباء کو وضاحتی سوال کو حل کرنے میں درپیش ہیں۔

ہم بسا اوقات دیکھتے ہیں کہ طلباء کچھ جملے مثلاً ” کتنے /جملہ کتنا” یا پھر کتنے /کتنا باقی ہے” جیسے اشارہ جات دیکھ کر طے کر تے ہیں کہ انھیں کونسے عوامل مثلاً جمع ، تفریق وغیرہ استعمال کرنا ہے ۔ اب مندرجہ بالا سوال واضح طور پر یہ عبارت استعمال کرتا ہے جو طلباء کو تفریق کی جانب مائل کرتاہے۔ عبارت کے علاوہ، سیاق و سباق اور مسئلہ کا تعین طلباء کے لئے اگلا بڑا چیلنج ہے ۔ اور اگر کبھی سیاق و سباق طالب علم سے غیر متعلق ہو تو یہ وضاحتی سوال کو حل کرنے کا سارا مزا دور کردے گااور کل مشق محض میکانیکی انداز کی ہو کر رہ جائے گی۔
یہاں ایک مثال اور پیش ہے ۔

تیسری جماعت کی ریاضی کی نصابی کتاب میں 86 صفحات ہیں اور ہندی کی نصابی کتاب میں 75 صفحات ہیں۔ دونوں کتابوں میں کل ملا کر صفحات ہیں؟
کوئی معقول آدمی بھلا یہ کیوں جاننا چاہے گا کہ دونوں کتابوں میں منجملہ کتنے صفحات ہیں۔ بجائے اس کے اگر ایک اور زیادہ حقیقی تناظر پیش کیا جائے تو وہ طلباء کی توجہ مبذول کر سکتا ہے تا کہ وہ کوشش کر سکیں کہ اس سوال کو کون حل کر سکتا ہے۔

اب‌ ایک اور مثال پیش ہے ۔

” دیپا کو اپنے روزمرہ کے اخراجات کا حساب رکھنے کی عادت ہے۔ آج اس نے 86 روپے پھل اور 75 روپے ترکاری خریدنے کے لئے خرچ کئے۔ آج دیپا نے کل کتنے روپے خرچ کئے یہ جاننے میں اس کی مدد کیجئے۔
مندرجہ بالا مثال میں “زبان” کے تھوڑے سے اضافہ سے سوال کا مکمل پس منظر ایک زیادہ معنی خیز مشق میں تبدیل ہو گیاہے ۔ اس طرح کے واضح طور پر رقم کئے گئے سوالات اس نکتہ نظر کو تبدیل کرنے میں کافی معاون ہو سکتے ہیں جس سے تحتانوی سطح پر ریاضی دیکھی ، پڑھائ اور سیکھی جاتی ہے ۔

ذریعہ‌ تعلیم اور سیاق و سباق جس‌ میں سوال تیار کیا گیا ہے، شاید وہ بنیادی چیلنج ہے جو طلباء کو وضاحتی سوالات  حل کرنے میں در پیش ہیں۔
بارہا زبان سے بخوبی واقف طلباء بھی اس طرح کے سوالات کو حل کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ” مسئلہ ” محض ذریعہ تعلیم کی دشواری سے کہیں زیادہ ہے۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے لئے ہم الگورتھم(Algorithm) پر مبنی کچھ آسان سوالات کو بطورِ نمونہ پیش کرتے ہیں۔

24+32    (سوال 1)             32+24=_____(سوال2)             24 اور 32 جمع ہو کر ‌بنتے ہیں______ ( سوال 3)         

                    
یہاں پہلے دو سوال خالص ریاضی کے اشارہ جات اور علامات پر مبنی ہیں اور جبکہ تیسرا سوال پہلے دو کا زبانی اظہار ہے ۔
سوال 1 سب سے عام ترین ترتیب کی منظر کشی کرتا ہے جس کے سوالات طلباء کو ملک بھر میں پیش کئے جاتے ہیں۔ سوال 2 ، ترتیب میں ایک قلیل سا تغیر ہے جو ایک نئ علامت “مساوت” کا شمول ہے۔ اور جب کوئی اسے زبانی دہراتے ہیں تو سوال کو ، (سوال 1 کی بنسبت) ریاضی اصطلاحات میں زیادہ با قاعدگی سے پیش کرتا ہے۔

” چوبیس جمع بتیس مساوی ہوں گے ____” )
اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جو طلباء سوال 1 میں دئیے گئے جمع کے سوال سے خاصے مانوس ہیں ،انھیں سوال 2 کے محدود یا صفر معلومات پر بھی سمجھ جاتے ہیں کہ سوال 2 کس طرح حل کرنا ہے یا کونسا طریقہ کار اختیار کرنا ہے ۔ یعنی اکائی کو دہائی کے ساتھ جمع کرنا وغیرہ۔

یہ ظاہر کرتا ہے کہ

مسئلہ مکمل طور پر ذریعہ تعلیم کا نہیں ہے جس میں سوال پوچھا گیا ہے۔خالص ریاضی اصطلاحات کے معاملے میں بھی طلباء سمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اگر انھیں ترمیم شدہ انداز میں پیش کیا جائے۔

سوال 3 ایک مختلف طرح کی صورتحال ہے ۔یہاں بھی جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ زبان نہیں جو ہم روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی کچھ خلاصہ جات اور تجرید کو شامل کرتے ہیں جیسا کہ سوال 1 اور 2 میں ہوا ہے لیکن ساتھ ساتھ مسئلہ کو حل کرنے کے عوامل کو زبانی دہرایا بھی جاتا ہے۔ یہ ریاضی عبارت کو بھی شامل کرتا ہے جو ریاضی کے الفاظ مثلاً “جمع کرنا” یا بسا اوقات “2 اور 2 ، 4 ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے اصطلاحات زبان کا حصہ نہیں ہوتے ہیں جس میں ہدایات جاری کی جائے۔ یہ ریاضی اصطلاحات ہیں مگر ہم اکثر اس اہم حقیقت کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ یہ اصطلاحات ایک طرح سے ریاضی زبان کا لفظی اظہار ہے۔ ان اصطلاحات اور عبارات سے طلباء کو متعارف نہ کروایا گیا کہ یہ ریاضی کو بیان کرنے کا ایک طریقہ ہے تو ایسے سوالات جس میں یہ شامل ہیں ، طلباء کو مزید الجھانے والے ہوجاتے ہیں ۔
اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ

ریاضی اپنے آپ میں ایک زبان ہے جس کا اپنا ایک علامات کا مجموعہ ہے جیسا کہ دوسری زبانوں کا ہوتا ہے۔ اور یہ معنی خیز بنائ جانی چاہیے نہ کہ صرف اس کی ضابطہ کشائی کی جائے ۔

محض علامات اور ضوابط کا جاننا یقیناً حسابات کو سہل بناتا ہے لیکن یہ طلباء کو ریاضیانہ انداز میں غور و فکر کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوتا جب تک کہ معنوں کو جاننے کے مواقع فراہم نہ کئے جائیں۔

اہم‌ مسائل :
طلباء لفظی سوالات کو حل کرنے میں دقت کیوں محسوس کرتے ہیں؟
NCF( National Curriculum Frame Work) 2005 ،
سیکھنے کے عمل میں سمجھنے کی مرکزی حیثیت کی پر زور تائید کرتا ہے۔ یہ حتمی طور پر حجت پیش کرتا ہے کہ سیکھنے کیلئے معانی اخذ کرنا شرطِ اول ہے اور یہ بات اپنی نوعیت میں مستقل ہے۔
یہ باتیں بتانے کے بعد آئیے دیکھتے ہیں کہ جس طرح ریاضی طلباء کو پڑھائی اور سکھائی جارہی ہے، وہ کیا اس لازمی شرط کو پورا کر تی ہے ۔سرکاری تحتانوی مدارس میں زیرِ استعمال نصابی کتب سے لی گئی چند مثالیں دیکھنے کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ ،

1) ما قبل ریاضی تصورات جیسے صغیر/کبیر کی نشاندھی ، خاکوں کی شناخت ، مماثلت و مشابہت کی پہچان وغیرہ کو مطلوب و مناسب جگہ نہیں ملی۔

2) اور اگر کہیں ان کا استعمال ہوا بھی ہے تو اعداد کو سمجھنے میں ‌ ان کا کوئی حقیقی استعمال نہیں ہوا۔

3) اعداد اور ان کا تلفظ مثلاً ‘3’ اور ‘تین’ دونوں ایک وقت متعارف کروائے گئے۔

4) روز مرہ کی زندگی سے ان کے تعلق زیادہ مضبوط اور معقول نہیں ہیں۔

5) نصابی کتب میں مشق کی گنجائش قابلِ لحاظ حد تک کم‌کر دی گئی ہے کیونکہ زیادہ تر توجہ تصور (Concept) کے تعارف پر دی گئی ہے ۔ اگرچہ یہ ایک اچھی چیز ہے کہ تصوراتی تفہیم کو مرکوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن متبادل مشق کے مواد جیسے ورک بکس (Workbooks)وغیرہ کی عدم موجودگی میں یہ طلباء کے کو سیکھنے منفی طور پر متاثر کرتا ہے۔ ( یہاں میری تجویز یہ ہے کہ ریاضی کے سیکھنے میں مشق کی بھی اہمیت ہے)۔ واضح تصور کے ساتھ سوالات کو حل کرنے کی مشق کرنا یقیناً مضمون کو سیکھنے کیلئے لازمی ہے۔ کیونکہ ریاضی ایک خاص طرزِ فکر اور استدلال کو پروان چڑھانے کے لئے ہے ۔ اور یہ یقیناً مشق کی طالب ہے ۔
اس حقیقت کے پیشِ نظر نصابی کتب سیکھنے سکھانے کے لگ بھگ سارے عمل کی رہنمائی کرتی ہیں ، یہ کہنا معقول ہوگا کہ ریاضی تدریس کی مندرجہ بالا نکات کے تحت بھی توصیف کی گئی ہے۔

اس حقیقت کے علاوہ کہ طلباء الگورتھم (Algorithm)پر مبنی سوالات میں قدرے بہتر مظاہرہ کرتے ہیں جیسے سوال 1( جو گزشتہ صفحات پر دکھایا گیا ہے) بنسبت نہ صرف وضاحتی سوال کے بلکہ ترتیب کے خفیف سے تغیر کے ساتھ ( سوال 2) ، یہ آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اصل مشکل ریاضی کو بحیثیت ایک مضمون سمجھنے کی کمی میں پنہاں ہے ۔ مرکزی مدعا بظاھر یہی معلوم ہوتا ہے کہ صحیح جواب پر پہنچنے کیلئے ایک طریقہ کار کے مجموعے پر غلط طور سے زور دیا جانا ہے۔ طلباء کے سوال کے ساتھ مشغول ہونے پر ، ایک سوال کو حل کرنے کی مختلف طریقوں کو پہچاننے پر ، خواہ وہ سادہ سے الگورتھم (Algorithm)پر مبنی ہو، مستعملہ طریقہ کی تشکیل پر اور اس کے پیچھے کارفرما علت/ منطق پر کوئی زور نہیں دیا جا تا ہے۔
اس کے آگے دیکھیں:
سیدھی سی بات ہے کہ جس طرح ہر زبان کے سیاق و سباق بتانے کی ضرورت ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح ریاضی جب تحتانوی سطح پر متعارف کروائی جاۓ تو اس کیلیے بھی سیاق و سباق مرتب کرنا ضروری ہے ۔

سیکھنا -سیکھانا منظم ہونا چاہیئے تا کہ حقیقی مسائل کی صورتحال مہیا ہو سکے ۔
طلباء کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تا کہ وہ مختلف انداز میں مسائل کو حل کر سکیں بجائے اس کے انہیں صرف صحیح جواب تک رسائی کیلئے کہا جائے۔ یہ کام کرنے کیلئے ،وضاحتی سوال اس انداز میں پیش کئے جایئں جس پر گفتگو اور تبادلۂ خیال ہو سکے ۔
مثلاً طلباء کو محض جمع کرنے کو کہنے کے بجائے ان سے کہیں کہ دئیے گئے اعداد کو جمع کرنے کے تین مختلف طریقے دریافت کر یں ۔ یا انھیں جواب بتا دیں جس کیلئے انھیں سوال ترتیب دینا ہے۔
سیکھنے کو طلباء کے لئے مزید معنی خیز تجربہ بنانے کیلئے ضرورت ہے کہ اس طرح کی گفتگو اور تبادلۂ خیال کو ریاضی میں لایا جائے۔
یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ کیونکہ ریاضی کو سیکھنے کے ماحول میں ہمیشہ ایک امتیازی آلہ کی طرح استعمال کیا گیا ہے۔ اس نے طلباء میں خوف اضطراب کو پروان چڑھایا ہے یہاں تک کہ کئی نو خیز طلباء نے انتہائی اقدام بھی لیۓہیں۔
یہاں تک کہ اساتذہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ کچھ طلباء معیار کے اس چیلنج تک پہنچ ہی نہیں پاتے جو ریاضی میں درپیش ہے۔ لڑکیاں، لڑکوں کے بنسبت ریاضیانہ رحجان نہیں رکھتی ہیں ، یہ بھی ایک عام واہمہ ہے۔
یہ اعتقادات بے بنیاد ہیں اور ہم سب کے لئے یہ جاننا اہم ہے کہ ” ہر بچہ ریاضی سیکھ سکتا ہے اور سب بچوں کو ‌ریاضی سیکھنا چاہیے۔”
ضرورت اس بات کی ہے کہ مضمون اس انداز میں پڑھایا جائے کہ وہ طلباء میں دلچسپی پیدا کر سکے اور معنی و مطالب اخذ کروائیں, بجاۓ اس کے کہ انھیں صرف الجھا کر رکھ دیں ۔

یہ وقت ہے کہ ہم یاد کریں کہ برونر ( ایک امریکی ماہر نفسیات) نے سیکھنے کے کیلئے مضمون کے مواد کے تعلق سے کیا کہا تھا۔

کوئی بھی مضمون کسی بھی طالب علم کو ارتقاء کی کسی بھی منزل پر حقیقی شکل میں مؤثر انداز سے پڑھایا جا سکتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ریاضی اس سے مستثنیٰ نہیں۔

نوٹ:

یکتا شرما موجود ہ طور پر عظیم پریم جی فاؤنڈیشن اتراکھنڈ ٹیم کے ساتھ بطور ناظم تعلیمات اور درس و تدریس کے ناظم کے کام کر رہی ہیں۔
وہ 2005 میں مرکزی ادارہ برائے تعلیمات ، دہلی یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری کی تکمیل کے بعد سے فاؤنڈیشن سے منسلک ہیں۔
ان سے
[email protected]
پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

بشکریہ لرننگ کرو (Learning Curve)

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے