کیا چیز ریاضی تدریس میں معاون ہوتی ہے

تصنیف: ڈی۔ڈی کاروپڈی 

ترجمہ: سید نثار احمد

اسکول کے بچوں سے پوچھیں کہ کونسا مضمون ہے جسے وہ‌ سب سے زیادہ نا پسند کرتے ہیں؟ امکانات ہیں کہ ۱۰ میں سے ۹ بچے کہیں گے کہ ریاضی۔ بلکہ اگر آپ کچھ اور گہرائی میں جاکر تحقیق کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ ۱۰ میں سے ۷ بچے کہیں گے کہ وہ اس مضمون سے ‘ دہشت زدہ’ یا ‘ جان پر بن آنے کی حد تک خوف زدہ’ ہیں۔  بچے ہی کیوں بڑے لوگوں سے  بھی اگر آپ پوچھیں تو اسی سے مشابہ صورت حال ہو گی۔میں نے عظیم پریم‌جی کے اندر اندر اور باہر کے چند متفرق ساتھیوں سے بات کی اور پوچھا کہ’ آپ کے ذہن میں کیا لفظ ابھرکر اتاہے جب میں’ ریاضی’ کہتا ہوں؟ بجز ایک خوردبینی اقلیت کہ‌ ‌سبھی کا جواب کافی منفی تھا۔“ناکامی‌‌کا‌ خوف ، بےحد مشکل ،  اسکول کی پٹائ،   نا قابلِ فہم ، زندگی سے لا تعلق، فارمولے، یاددہانی، میں بیوخوف ہوں کہ مجھے ریاضی نہیں آتی، یہ صرف دانشوروں کے لیئے ہے، روکھا ، بورنگ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ایک جواب نے سارے جوابات کو جمع کر دیا ،’  ہائےمیرے خدا’ ۔امتحانات کے بعد  بچوں کے انتہائی اقدام  کرلینے کے بہت سارے المناک واقعات کو ریاضی سے  جوڑا سکتا ہے۔ مسٔلہ  اکثر صرف‌مضمون‌ تک محدود نہیں رہتا بلکہ اکثر‌نتیجہ  یہ ہو تا ہے کہ  بچے ‘ اسکولنگ’ کے طریقہ کار سے ہی متنفر ہو جاتے ہیں۔

اس کے اسباب آگاہی  سے زیادہ دور نہیں۔ اس میں قابلِ لحاظ حصہ اس  طریقہ کار کا  ہے جس کے ذریعہ ہمارے اسکولوں میں  اساتذہ اس مضمون کو پڑھاتے ہیں  ۔پرائمری اسکول کے اساتذہ پر‌کی‌جانے والی ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ ان میں اکثر فنون سے تعلق رکھتے ہیں اور ریاضی ان کے کمزور ترین مضامین میں سے ایک تھا۔جب وہ خود ریاضی سے خوفزدہ ہوں تو یہ امر فطری ہیے کہ‌وہ یہی خوف بچوں میں منتقل کریں گے۔بدقسمتی سے ریاضی تدریس کا بیشتر حصّہ تعریف بتانے ، یاد کرنے، ذہن میں لانے،  اور حسابات کرنے پر مرکوز ہو تا ہے۔    اس کے علاوہ ‌بہت سی کوششیں ہیں جس سے مسائل کا ، ‘صحیح پس منظر ‘ مہیا کیا جاسکتا ہے اور اسے حقیقی دنیا میں ‘کارآمد’ بنایا جا سکتا ہے۔

کئی لوگوں کے تحتَ شّعور میں ، ریاضی کہیں کسیطرح سائنس سے مماثل اور قریبی طور پر منسلک ہوتی ہے۔  ریاضی ،سائنس‌ میں یقیناً استعمال ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود دونوں بین طور پر مختلف ہیں۔سائنس‌کا فی گہرائی سے تجربات و مشاہدات پر مبنی ہوتی ہے جبکہ ریاضی تجرید و تصور پر۔ آپ کو ریاضی کیلئے کسی خاص  سازوسامان یا تجربہ گاہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اگر اسے بہتر طریقہ سے کیا جائے تو یہ کافی پر لطف ہو سکتی ہے۔ پال لاک ہارٹ اپنے مضون ‘  Mathematician’s lament   (ریاضی دان کی فریاد | نوحہ)   میں لکھتے ہیں کہ “ریاضی ایک فن ہے ، بس یہ‌کہ‌ ہمارا تمدن اس کی اس‌طرح سے  شناخت ‌نہیں کرتا۔ حقیقت میں ریاضی کے جتنی‌ شاعرانہ ، تخیلاتی، انقلابی،  تصوراتی کوئ شئے نہیں۔ یہ طبیعیات اور کائناتیات کی طرح متحیر الخیال ہے ۔( ریاضی دانوں ‌نے سیاہ داغوں کا تصور  ، ماہرین فلکیات کے ‌اسے دریافت کرنے سے کافی قبل ہی اخذ کر لیا تھا)۔  ہم بحیثیت تمدن ، جانتے ہی نہیں کہ ریاضی کیا ہوتی ہے۔ ہمیں تاثر دیا گیا بے  کہ یہ   بےحد روکھا اور تکنیکی طور پر ایک نا قابلِ فہم چیز ہے ۔
ایک خودساختہ پیشنگوئی جو کبھی کی گئی۔

لاک ہارٹ کے مطابق ریاضی میں کوئ پس پردہ عملی مقصد نہیں ہے۔ یہ صرف کھیلنا، متحیر ہونا اور اپنے تخیل کے ساتھ متعجب ہونا ہے۔ وہ ایک شکل کے ذریعہ‌ ایک خوبصورت مثال دیتا ہے۔ وہ‌کہتا ہے کہ” ایک ڈبے میں مثلث تصور کیجئے۔
Figure 1:

Source: A Mathematical Lament, by Paul Lockhart.
پھر وہ‌سوال کرتا ہے کہ کیا مثلث اس ڈبے کے دو تہائی حصہ پر محیط ہے؟  حقیقت تک پہنچنے کے لئےتخیل واحد راستہ ہے۔اس صورت میں ایک راستہ یہ ہے کہ ڈبے کو دو حصوں‌میں کاٹ دیا جائے۔ جیسا کہ شکل نمبر ۲ میں بتایا گیا ہے۔
Figure 2

اب،  کوئ بھی  دیکھ سکتا ہے کہ ‌ہر ٹکڑا‌ایک مستطیل  ہےجو دو پہلو بہ پہلو مثلثوں میں  تقسیم ہے ۔ چناچہ مثلث کا اندرونی و بیرونی حصہ مساوی ہے۔ اس کا مطلب ہر مثلث ڈبے کا ٹھیک نصف ہے ۔ اب، خط کھینچنے کی ترکیب کس طرح آئی ہوگی؟ یہ ایک تحریک، تجربہ، سعی و خطا اور محض قسمت ہے۔ یہی اس کا فن ہے ۔ دو اشکال کے مابین کا تعلق ایک معمہ تھا جب‌تک کہ اس خط‌نے اسے واضح نہیں کر دیا۔ میں دیکھ نہیں سکتا تھا اور اچانک سے دیکھنے لگا۔ کسی طرح سے میں نے اس جگہ سے گہرائی کے ساتھ ایک حسن  تخلیق کر لیا  جہاں کچھ نہیں تھا۔

کیا یہ وہ نہیں ہے جس کے متعلق ہم فنکاری کہتے ہیں ۔” بچوں کو ذہننشین کرنے کے لئے کہنے سے کیا یہ کرنا زیادہ پر لطف نہیں ہے ۔ مثلث کا رقبہ اس کی چوڑائی اور اونچائی کے حاصل ضرب کا نصف ہوتا ہے۔ اور اس کا بار بار اطلاق کرتے جانا۔ لاکہارٹ فارمولے  یادلچسپ حقائق کے ذہن نشین کروانے کے مخالف نہیں ہیں ۔  وہ کہتے ہیں کہ ”  ضروری ہے طریقہ کار کہ کس طرح مختلف  اختیارات اور راستے  پیدا  کئے جائیں جو کئی دوسرے طریقوں  کو ابھارے اور مسائل کو حل کرنے کے تخلیقی مواقع پیدا کرے۔ ” پھر وہ اس سے آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں’ ” ریاضی تفہیم کا فن ہے۔ اگر آپ طلباء کو ان سرگرمیوں کے مواقع سے ،  اپنے خود ساختہ مسائل‌ تشکیل دینے سے ،   اپنے قیاسات اور دریافت سے ، چوک جانے  سے  ، تخلیقی طور پر ذہنی الجھنوں سے ، تحریک  حاصل کرنے سے،  اور اپنی  توجیہات اور ثوابت کی تصحیح و تجدید سے  ، روکیں گے تو گویا‌آپ انھیں ریاضی سے ہی روک دیں گے  ۔ طلباء کوئ اجنبی مخلوق نہیں ہیں ۔ وہ بھی  خوبصورتی اور خاکوں پر ردعمل‌ ظاہر کرتے ہیں‌ اور دوسروں کی طرح فطری طور پر متجسس ہو تے ہیں۔ بس ان سے بات تو کیجئے ‌اور زیادہ اہم‌کہ‌ان کی بات سنئیے۔”

تو کیا ہمارے ریاضی کے اساتذہ طلبہ کو اتنا وقت دیتے ہیں کہ وہ‌، دریافت ، قیاس کریں ،یا  انھیں  کسی عملی  مسائل میں مصروف رکھیں۔ کیا وہ (اساتذہ) گفتگو کے لئے سازگار ماحول پیدا کر رہے ہیں، مباحثہ،  یا تجسس کیلئے مواقع پیدا کر رہیں ہیں جسے مطمئن کیا جا سکے۔ لاک ہارٹ کہتے ہیں کہ ” مجھے شک ہے کہ  بہت سارے اساتذہ تو اس طرح کے تعلقات طلباء سے رکھنا ہی نہیں چاہتے۔ یہ بہت آسان ہے کہ کسی کتاب سے مواد حاصل کیا جائے اور پھر ‘ درس، امتحان ،  اور دہرانے کے طریقے پر چلا جائے۔ سہل پسندی کا راستہ۔

اگر  کسر کو جمع کرنا استاد کے لئے محض‌چند اصول و ضوابط  مجموعہ ہے نہ کہ ایک تخلیقی طریقہ کار کا ماحاصل تو یقیناً یہ بیچارے طلباء کے لئے بھی اسی طرح رہے گا۔ تدریس دراصل طلباء کے ساتھ ایک دیانتدارانہ اور دانشورانہ رشتہ رکھنا ہے۔ اس کے لیئے کسی طریقہ کار ، اوزار یا تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے”۔

اب ،‌ اوپر دی‌ گئ  ڈبے کے اندر  کے مثلث کی‌مثال کو لیجیے۔ کیا‌ہو گا اگر مثلث ترچھا ہو جائےتو  ؟ ‌اب‌کوئ اس میں خط‌کس‌طرح کھینچ سکتا ہے ۔ کیا کیا جائے؟

آگے بڑھئیے اور مختلف امکانات دریافت کیجیے۔ اسی کے متعلق ہے ریاضی ۔
ہمارے اسکولوں میں جیومیٹری ایک‌بے حد بور کرنے والا اور صرف نظریات ، ثبوت ، ‌سوال ، جواب پھر ایک اور سوال  کی قطارتک محدود بنا دیا گیا ہے۔لاک ہارٹ کے پاس‌  ہائ اسکول جیومیٹری کے متعلق ایک خوفناک تبصرہ ہے ۔ ” طالبِ علم –  اس مظلوم  کے پہلے تو بے نکتہ تعریف اور علاما ت سے مفلوج کر کے ہوش اڑا  دیئے جاتے ہیں پھر پوری لگن اور محنت کے ساتھ اشکال ، ان کے خاکوں  سے  کسی بھی طرح کے فطری تجسّس   اور ادراک کو ایک‌ مرحلہ وار مصنوعی ز با ن  و وضع جسے جیومیٹر ائ ثبوت کہتے ہیں،  میں  تلقین‌کے  ذریعہ دور کیا جاتا ہے۔
جیومیٹری کی کلاس، K-12 نصاب کا جذباتی اور ذہنی طور پر سب سے زیادہ تباہ کن عنصر ہے۔”
وہ ایک نصف دائرہ میں اتارے گئے مثلث کی خوبصورت مثال دیتا ہے اور اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے   کہ آپ مثلث کا ایک کونا کسی بھی جگہ‌رکھ دیجئے  ، قائم الزاویہ مثلث ہی ہو گا۔
Figure 4

پہلی نظر میں یہ غالباً ناممکن نظر آتا ہے۔  پھر سوال اٹھتا ہے کہ یہ صحیح ‌کیسے‌ہو سکتا ہے۔  یہاں یہ موقع ہے کہ طلباء تحقیق کریں اور کوشش کریں کہ یہ کس طرح ہوا جان سکیں۔  یا پھر کوشش کریں اور دیکھیں کہ کہیں یہ غلط تو نہیں؟
لیکن ہمیں تو صرف انھیں ایک ‘ثبوت’ دینا ہوتا ہے جسے انھیں زبانی یاد‌کرنا ہے‌ ۔

جیومیٹری میں یہ کیسا رہے گا کہ طلباء ‌سے‌پوچھا جائےکہ ایک نقشے میں رنگ بھرنے کے لئے کتنے رنگ درکار ہیں بشرطیکہ یہ کہ کوئ دو ریاستوں میں ایک رنگ نہ ہو۔؟ کیا آپ کچھ مخصوص اشکال  کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جس میں اس سے زیادہ کچھ ہو۔  کونسے مخصوص اشکال لئے جایئں تا کہ کم رنگ درکار ہوں؟

ایک اور مثال، مختلف جیومیٹریائی أشکال سے کئ ایک جِگسا پہیلیاں بنائیں جا سکتی  اور طلباء کیلئے   الگ الگ ٹکڑوں کو آگے پیچھے کر نا اور اس سے کھیلنا ایک  ایک پر لطف‌ شغل ہو گا  مختلف اشکال دریافت کرتے ہوئے۔   بچے ( اور یہ بڑوں سے بھی متعلق ہے)  نئی دریافتیں کرنے  میں بہت پرجوش ہوتے ہیں ۔ اور یہ دریافت ‌اور بھی زیادہ دلچسپ ہو جاتی ہیں جب غیر ارادی طور پر اچانک رونما ہو جائیں۔

ہم اپنے بچوں کو پہاڑے ذہن نشین کرواتے ہیں۔ ‌لیکن‌یہ اور کتنا دلچسپ ہو گا اگر بچہ ان اعداد میں کوئ خاکہ  ڈھونڈے۔  کتنا دلچسپ ہو گا اگر بچہ اپنے آپ اس کو کھوجے۔

۹ نمبر کاے معاملے پر غور فرمائیے۔
9*1=9.        0+9=9
9*2=18.      1+8=9
9*3=27.      2+7=9
9*4=36.     3+6=9
—–
وغیرہ۔

اب بچوں کو دوسرے اعداد جیسے
3,5,11,15 ___
کے‌متعلق  ایسے ہی دلچسپ حقائق معلوم کرنے کیلئے کہیں_

آپ نے  آج کل  بسوں اور ٹرینوں میں بہت سے لوگوں کو اخبار پر اعداد لکھتے، تصحیح کرتے،  دوبارہ لکھتے  اور سارا وقت پنسل چباتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ وہ‌جدید شوق  سوڈوکو ہے۔ اس کا‌پر لطف‌مشغلہ ہونے کے ‌سوا کوئی عملی مقصد یا تعلق نہیں ہے ۔ اس جادوئی مربع  کی آسان اور سادہ شکل بچوں کو  کھیلنے کیلئے دی جاتی ہے۔ سب سے ابتدائی ایک 3×3 جنگلہ| جدول ہوتا ہے جسے ۱ تا ۹ کے اعداد سے  اس طرح پر کرنا ہوتا ہے کہ صف ، قطار اور وتر  کے اعتبار سے حاصلِ جمع ۱۵ ہو۔ اس طرح بڑے پیمانے پر کئ جادوئی مربعے تشکیل دیئے جا سکتے ہیں۔ 

جادوئی مربعے (Magic Square)

جادوئی مربعے قدیم ادوار سے ہی ریاضی دانوں کو اپنی طرف متوجہ و مائل کرتے رہے ہیں۔ یہ تصور لگتا ہے کہ چین  میں2800 ق م میں  وقوع پذیر ہوا  ۔

ہندوستان میں اس خیال کے حوالاجات ۱۱ویں اور ۱۲ ویں صدی میں دیکھے گئے ہیں اور کچھ مثالیںکھاجو راہو کے قدیم شہر میں ملی ہیں۔

جادوئی مربعہ ایک جدول | جنگلہ میں  ترتیب واراعداد کا مجموعہ ہوتا ہے جس میں کوئ عدد ایک ہی بار استعمال ہو سکتا ہے اور ہر صف،  قطار اور وتر کا مجموعہ مساوی ہوتا ہے۔ بہت سے جادوئی مربعے ۱ سے شروع ہوتے ہیں  انھیں سہل جادوئی مربعے کہا جاتا ہے۔

اقل ترین( اور ادنیٰ ) جادوئی مربع 1×1 جدول ہے ۔

اس سے‌بڑا جادوئی مربعہ 3×3 جدول ہے جس میں ۱ تا ۹ اعداد ‌ہوتے ہیں۔  اس کے صف، قطار اور وتر کا حاصل جمع ۱۵ ہو تا ہے جیسے کہ ذیل میں دکھایا گیا ہے۔ (2×2 جادوئی مربعہ ‌ممکن نہیں ہے ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کیوں؟)

ایک جادوئی مربعے سے اس کے صف اور قطار کی منتقلی سے متعدد مربع جات تشکیل دیئے جاسکتے ہیں۔
جب ہم  اور بڑے مربع جات کی طرف جاتے ہیں تو دلچسپ امکانات اور تغیرات منکشف ہوتے ہیں۔ ایک 4×4 مربعے میں حاصل جمع ۳۴ ہوتا ہے  اور خصوصی طور پر اس طرح تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں چار کونے والے خانوں کے اعداد کا حاصل جمع بھی یہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مخصوص مربع ہے جس میں صف، قطار اور وتر کا حاصل جمع کے علاوہ حاصل ضرب بھی مساوی ہوتا ہے۔

ایک اور تغیر، غیر جادوئی مربع ہے ۔ یہ ایک جدول ہے جس کے خانوں میں  ۱ سے شروع ہو کر ترتیب واراعداد ہوتے ہیں جن کا صف ، قطار اور وتر کا حاصل جمع مختلف ہوتا ہے لیکن ترتیب وار ہوتا ہے۔ مندرجہ ذیل مربع ملاحظہ فرمائیں۔

کیا آپ  اس سکے لئے چانچ سکتے ہیں کہ ان کے حاصل جمع ترتیب وار ہیں؟

مندرجہ بالا تعریف کے اعتبار سے 4×4 سے کم غیر جادوئی مربعہ ‌ممکن نہیں ہے۔ کچھ لوگ  ذیلی مربعے کو غیر جادوئی مربعہ سمجھتے ہیں ۔ لیکن بہر حال یہ حاصل جمع کے ترتیب وار ہونے کی شرط کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مربع بائیں اقل ترین خانے سے شروع ہو کر متضاد ساعت وار | قوسی شکل میں  بڑھتا ہوا ایک سرپل ہے ۔
ایک اور جادوئی مربعے کی قسم لاطینی مربع ہے۔ اس میں اعداد مکرر ہوتے ہیں لیکن ایک ہی صف یا قطار میں نہیں۔ اس میں سہل ترین ، ظاہر ہے کہ 2×2 مربع ہے۔

کیا آپ کوشش کریں گے کہ اسکا اگلا سہل ترین مرحلہ 3×3 لاطینی مربع تشکیل دے سکیں۔
ایسے ہی بہت سارے دوسرے تعجب خیز اشکال، مکعب| شش پہلو ، دائرے ، ستاے اور کثیر التعداد تجدیدی تغیرات ہیں۔

 

 

دائیں جانب والے مربع کے اجزاء بائیں جانب والے مربع سے اخذ کئے گئے ہیں ۔ کیا آپ ان‌کی کے مابین تعلق کی شناخت کرسکتے ہیں۔
(اشارہ: بائیں جانب والے مربع کے اجزاء کو انگریزی میں لکھئیے)۔

  جادوئی مربع کی خوبصورتی ، مربعہ جات میں خاکے دریافت کرنے اور موجودہ حل کے علاوہ متبادل حل تلاش کرنے میں ہے ۔ اس دلچسپ مثال کو ملاحظہ فرمائیں جس میں 16 خانے ، 1 سے لے کر 16  تک کے اعداد کو لئے ہوئیے ہیں۔

اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر صف‌، قطار اور وتر کا حاصل جمع 34 ہے ۔کیا‌آپ کچھ اور بھی خاکوں کا سراغ لگا سکتے ہیں۔؟
آپ غور کریں گے کہ دائیں جانب والے بالائی چار خانوں ( 13, 12,7,12) کا حاصل جمع بھی 34 ہے۔ یہی معاملہ ہر کونے کے چار خانوں کا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی، جدول میں بہت سے خانے ہیں جس کا حاصل جمع 34 ہے ۔
کیا آپ انھیں ڈھونڈ سکتے ہیں۔ کیا ہر جفت تعداد کے خانوں والا جدول اسی خصوصیت کا‌حامل ہے؟
کیا یہ زیادہ دلچسپ اور تفریحی طریقہ نہیں ہے ریاضی کی تدریس کا ؟ اس کے علاوہ بھی اور بہت سے   طریقے ہیں جس سے ریاضی کو پر لطف بنا یا جا سکتا ہے۔
میری کوشش یہ کہنے کی‌ نہیں ہے کہ ریاضی  کی ہر چیز اسی طرح سکھائ جائے۔ منشأ یہ ہے کہ مضمون کو ایک پر  تجسّس،   پر ذوق ، ایک دریافت طلب بنایا جائے۔  یہ بس خاکوں کو دریافت کرنے اس کا‌جائزہ لینے ، غلطیاں کرنے ، اپنے آپ سے مزید سوالات و جوابات کرنے  اور اپنے ذہن کو غیر نامعلوم وادیوں کی سیر کرنے سے متعلق ہے۔ طریقہ کار نتائج سے زیادہ اہم ہونا چاہیے۔  مقصد ریاضی کے’خوف ‘ کو نکالنا ہے۔اس سے  بچے نہ صرف  اس مضمون سےبلکہ’ اسکولنگ’ کے سارے طریقۂ کار سے لطف اندوز ہونگے کیونکہ  ‘دہشتناک’ حصہ اب ناپید ہو چکا ہے۔ اس نصاب کے طریقہ کار کی ابتداء ہمارے اساتذہ سے ہونی چاہیے جنھیں خود ریاضی کی خوبصورتی کے مشاہدے کے ‘سہل اندازی’ کے فن کو دوبارہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ:  یہ مضمون بڑی حد تک پال لاک ہارٹ کے مضمون ‘ ایک ریاضی دان کی فریاد| نوحہ’ سے ماخوذ ہے ۔ حقیقی مضمون ویب سائٹ
” http: //www.maa. org/devlin/LockhartsLament.pdf” .
یہ مضمون ان سب کے مطالعہ کیلئے لازمی ہے جو ریاضی کو نا پسند کرتے ہیں اور ان سب سے چھوٹ نہیں سکتا جو مضمون کو پسند کرتے ہیں۔
حوالہ جات:
1. Weisstein , Eric W.” Magic square’. “From Mathworld — A Wolfram Web Resource.
http: //Mathworld.wolfram.com/MagicSquare.html
2. Weisstein,Eric W.”Antimagic Square.” “From Mathworld — A Wolfram Web Resource.
http: //Mathworld.wolfram.com/AntimagicSquare.html
3. Weisstein, Eric W. ” Alphamagic  Square” . ” From Mathworld– A Wolfram Web Resource.
http: //Mathworld.wolfram.com/Alphamagic Square.html

نوٹ: ڈی۔ڈی کاروپڈی عظیم پریم جی فاؤنڈیشن ، بنگلور میں  شعبہ تحقیق و دستاویزات کے صدر ہیں ۔
اس سے قبل وہ ہندوستان کی  ایک معروف مارکٹ ریسرچ کمپنی کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ اپنے ۲۵ سالہ کارپوریٹ تجربہ کے ذریعہ انھوں نے ڈیولپمنٹ سیکٹر  کی خدمات انجام دی ہیں ۔ان‌سے
karopady@azimpremjifoundation.org
پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

بشکریہ   لرننگ  کرو،عظیم پریم جی یونیورسٹی، بنگلور

Share:

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے