سائنسی مزاج کا ارتقاء

تصنیف  :دلیپ رن جیکر

ترجمہ : زبیر صدیقی

تعلیم کے متعدد مقاصد میں سے مجھے ‘سائنسی مزاج کا ارتقا’ سب سے زیادہ متاثرکرتا ہے-         اس کے لئے میری پرورش، میرے ذریعہ حاصل کی گئی تعلیم، گھر کا ماحول اور میرے بھائی اور بہن دونوں کا نامور سائنسدان ہونے جیسی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں- یا پھر ایک وجہ اس ادارے میں کام کا ماحول ہو سکتا ہے جہاں میں ملازمت کرتا تھا-

میرے دس ماہ کے پوتے، انوراگ، کو بڑھتے ہوئے دیکھنا اور حال ہی میں کرناٹک کے شورپور بلاک میں منعقدہ “سائنس میلہ” ایسے دو تجربات ہیں جس نے مجھے اس موضوع پر زیادہ سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کیا ہے –

انوراگ کے لئے یہ ایک پوری نئی دنیا ہے – وہ تو ابھی آزادانہ طور پر چلنا، کھڑے ہونا، چیزوں تک پہنچنا، اسے چھونا، دباکر دیکھنا سیکھ رہا ہے اور اسے تو ابھی پوری طرح سے ایک نئی دنیا کی دریافت کرنی ہے- یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہے کہ وہ کیسے بغیر تھکے چیزوں کو دہراتا رہتا ہے، اپنی انگلیوں کو کچلنے سے بچاتا ہے، رونے میں وقت ضائع نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ بری طرح گر ہی کیوں نا گیا ہو، کنڈیوں کو گھمانا سیکھتا ہے، یہ سمجھتا ہے کہ کیا کرنے سے سنگیت شروع ہوگا اور کیسے رک جائیگا، دلچسپی کے ساتھ کچھ نہ کچھ نئی چیزوں میں اپنی توجہ مبذول کرتا ہے، لائٹ کو آن آف  کرنا یا پھر کسی نئی توجہ کا سامنا کرتا ہے تو اسکے چہرے پر بےحد خوشی دکھائی دیتی ہے-

نئے تجربات سے حاصل ہونے والے تازہ حقائق کو جذب کرنے کے لئے نہ تو پہلے سے کوئی حتمی تصورات  موجود ہوتے ہیں، نہ ہی کام کرنے کا کوئی ایک طریقہ، نہ ہی کوئی رکاوٹ-

شورپور کا “سائنس میلہ” ایک مختلف تجربہ تھا- اس “میلہ” میں ١٥٠٠ بچوں اور ان کے والدین نے حصّہ لیا- میں نے اس کی تیاری کے لئے ابتدائی درجے کے طالب علم اور ان کے اساتذہ  میں کافی ہنرمندی دیکھی-اس میلے نے متعدد عام مفروضوں کو توڑ کر موجودہ علم وفہم کے بارے میں تازہ واقفیت پیدا کی-ایک لحاظ سے میں یہ سمجھتا تھا کہ مجھ          میں وزن کے پیماِئش کی کافی  بہتر سمجھ ہے- ایک اسٹال میں مجھے ٣ پتھروں کو اٹھا کر ان کے وزن کا     اندازہ لگانا تھا-میں یہ جان کر کافی مایوس ہوا کہ میرے سارے اندازے پتھروں کے اصل وزن کے قریب بھی نہیں تھے-

بچوں اور اساتذہ کے ذریعہ سے منعقد کیا گیا یہ سائنس میلہ  اس امر کی ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح  آسان طریقوں سے بڑے پیمانے پر لوگوں میں واقفیت، دلچسپی اور علم پیدا کیاجا سکتا ہے-

مجھے سب سے زیادہ اس سائنس میلہ کو منعقد کرنے والے بچے اور انکے اساتذہ کی زندگی میں آنےوالی ممکنہ تبدیلی نے متاثر کیا-

سائنسی مزاج کے بارے میں           کئی ماہرین تعلیم، فلسفیوں اور سائنس دانوں نے وضاحت کی ہے- ہمارے ہندوستان کا آئین بھی ملک کے شہریوں میں سائنسی مزاج کو فروغ دینے کو بنیادی فرائض میں سے ایک مانتا ہے- سائنسی مزاج ایک انداز یا  ایک طریقہ ہے جس میں کسی طے شدہ تصورات کے بغیر نئےحقائق کو تسلیم کرنے کی آمادگی، ذہن اور معقول تجزیہ کا استعمال لازمی ہے- اس کے ساتھ ہی نئے ثبوتوں پر مبنی نتائج پر سوال کرنے کی آمادگی بھی شامل ہے-

اس کا کیا نتیجہ ہوگا ؟ یقینا    اس سےکھلا ذہن، حقائق کے وجود پر غور کرنے کی صلاحیت، بحث و مباحثہ، عقلی نشونما، اختلاف کرنا، کسی نتیجہ پر     پہنچنے سے پہلے تجزیہ کرنا اور متعدد حقائق کے ساتھ رہنے کی آمادگی جیسی صلاحیتیں نشونما پائينگی-

ایک غیر تربیت یافتہ ذہن کے لئے بھی سائنس کا مطلب علم، تجربہ، سوال کرنا، معلومات اکھٹا کرنا اور  وجہ کا پتا کرنا ہے،  یعنی کوئی ایسی چیزجو پر اسرارنہ ہو بلکہ جسےثابت کیا جا سکے، چھوا، محسوس کیا، سونگھا اور تجرباتی عمل میں لایا   جا سکے- سائنسی مزاج کا مطلب  یہ ہوا کہ انسانی ذہن اوپر بتائی گئی باتوں اور اس  سے مستزاد چیزوں سے مانوس ہو- دیکھا جائے تو “سائنس” اور”سائنسی مزاج” کے مابین معانی کے  فرق کو بیان کیا جاتا رہا  ہے-

چنانچہ سائنس سے ہمیں علم، استدلال، تجربات اور چیزوں کی موجودگی کا پتا چلتا ہے جبکہ”سائنسی مزاج” سےہمیں سائنس کے ذریعے حاصل کئے گئے علم، صلاحیتوں اور تجربات کے تعمیری استعمال کی رہنمائی ملتی ہے- علم کے استعمال میں حکمت اور اخلاقیات دونوں شامل ہیں-

اس لئے مثال کے طور پر سائنسی مزاج   سیکولر اقدار کی نشونما کرتا ہے جس سے آپ کسی ایک مذہبی طرز پر جامدعقیدہ  رکھنے اور صرف اسے ہی صحیح ماننے کے بجائے دوسرے مذاہب کا بھی احترام کرتے ہیں-

سائنس میلے کی ایک جھلک!

سائنسی مزاج کی دنیا میں “توہم پرستی” اور “دیومالائی افسانوں پر اندھے یقین” کی کوئی جگہ نہیں ہے- چنانچہ دیومالائی کہانیوں کو مضبوطی کے ساتھ استعمال کرکے نوجوان ذہنوں کو خیالی اکتساب کی طرف تو لے جایا جا سکتا ہے لیکن بغیر کسی ثبوت کے ایسی کہانیوں پر یقین کرنے کے لئے مجبور کرنے سے ایک معقول معاشرے کی تشکیل کو عمل میں لانے کے برخلاف نتائج ہو سکتے ہیں- سائنسی مزاج کا   استعمال  تاریخ کےاکتساب  کے لئے بھی  کیا جا سکتا ہے جہاں ایک خاص مدّت کے دوران کے حالات کی جانکاری کے لئے اپنے عقیدے پر مبنی مشکوک تعبیرات پر یقین کرنے کے بجائے ثبوتوں کو ڈھونڈھنے، اس کی جانچ پڑتال کرنے، مختلف ذرائع سے حاصل معلومات کو ایک ساتھ جوڑکر ایک قابل اعتماد نتیجہ پر انجام پذیر ہوا جا سکے –

میرا ایسا ماننا ہے کہ سائنسی مزاج کے اندر  خود سائنس کے علاوہ انسانی  معاشرے ، انسان کی سوچ، ردعمل اور خود کے طرز عمل کے وسیع تصوّرات مضمر  ہیں- مثال کے طور پر، ایک ڈاکٹر بہت بڑا سائنسدان تو ہو سکتا ہے لیکن وہ اگر وقت پر مریضوں سے ملاقات نہیں کرتا ہے اور پیش کردہ علاج کے لئے غیر مناسب رقم کو وصول کرتا ہے تو سائنسی مزاج کے لحاظ سے اسے ناقابل مانا جاےگا-

مجھے بہت مایوسی ہوتی ہے جب سائنس کی تعلیم دینے والے معروف تعلیمی اداروں میں ذات پات، جنس اور کئی غیر معقول مسائل پر سیاست ہوتی ہے- ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا ہے جب ہم نے دو بڑے تعلیمی اداروں میں خودکشی کے دو واقعات دیکھے ہیں- پہلا معاشرتی پسماندگی کی بنیاد پر پریشان کرنے کی وجہ سے اور دوسرا معاملہ ایک لیکچرر کے غیر شادی شدہ ہونے سے جہاں اس کے والدین اسے شادی کے لئے مجبور کر رہے تھے- یہ سارے معاملات بڑے پیمانے پر معاشرے میں “سائنسی مزاج” کے ارتقا کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں- اکیسویں صدی میں پہونچ کر ہم کسی شخص کی ذات، نظریات، مذہب، جنس، ازدواجی حیثیت اور معاشی حیثیت کی بنیاد پر کیسے تفریق کر سکتے ہیں؟ ہم یہ کیوں نہیں قبول کرتے کہ شادی ایک ذاتی پسند ہے اور موجودہ جدید معاشرے میں “شادی کے قابل عمر” جیسے اصولوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے ؟ موجودہ حالات پر سوال، دقیانوسی تصوّرات کو توڑنے اور معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے عملی طریقوں کے قیام میں سائنسی مزاج اہم کردار ادا کرتا ہے-

میرے لئے سائنسی مزاج کا مطلب سوچنے کے نئے طریقوں کو تسلیم کرنا، مسلسل سوال کرنا، اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار رہنا کہ اپنے تجربات، خیالات اور نتائج کو مستقل درست کرنے اور دقیانوسی تصورات کو توڑنے کی ضرورت ہے- یہ “مجھے نہیں معلوم” کہنے کی صلاحیت میں ہے- ایک منصفانہ سائنسی رویہ ہمیں متحمل بنانے کے ساتھ ذات پات، مذہب، سیاسی اور جغرا فیائی حدود کی بناوٹی رکاوٹوں کو توڑتا ہے- یہ ہمیں اس حد تک خود  اعتمادی  کے قابل بناتا ہے کہ ہم زندگی کے کسی بھی مرحلے میں خود کو بدلنے کی ہمّت رکھتے ہیں-

دلیپ رنجیکر عظیم پریم جی فاؤنڈیشن میں چیف ایگزیکٹو افسر ہیں-

سائنس علم کا ذخیرہ ہونے سے کہیں زیادہ سوچنے کا ایک طریقہ ہے –
کارل سیگن

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے