ریاضی کی با معنیٰ تدریس!

مصنفیندیویکا ناگد اور وجے گپتا

ترجمہ – سید نثار احمد

 

ریاضی کی تدریس کا اہم مسئلہ یہ رہا ہے کہ طلباء اس میں طریقہ کار اور ضابطوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ جمع اور ضرب کے الگورتھم سے تو واقف ہیں لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی مسئلے ‌کو حل کرنے کے لئے انھیں جمع کرنا ہے یا ضرب دینا ہے۔ اسی لئے ہمارے سامنے چیلنج یہ ہے کہ ایک طالب علم کو محض طریقہ کار سے آگے بڑھا کر ” شعوری ادراک” تک لے جائیں۔ مؤخر الذکر کے معنی ہیں “طریقہ کار جمع تصور” جہاں تصور، تفہیم و اطلاق کو ظاہر کرتا ہے۔ شعوری ادراک والے طلباء میں یہ پانچ خصوصیات ظاہر ہوتی ہیں۔ چلئے ان میں سے ہر ایک پر نظر ڈالتے ہیں۔

اولاً تویہ کہ شعوری ادراک والے طلباء طریقہ کار اور تصور دونوں چیزوں کو سمجھتے ہیں۔ اس کو ضرب کے معروف طریقہ کار سے سمجھتے ہیں۔
25
x25
——
125
50x
—–
625
——
ہندوستان کے مختلف ریاستوں میں طلباء کو یہی کہا جاتا ہے کہ اکائی کی جگہ پر ایک کراس بنادیں یا صرف خالی جگہ چھوڑ دیں۔
بیشتر لوگ اس طریقہ کار کو میکانیکی انداز میں مانتے ہیں بنا یہ جانے کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ ہے وہ چیز جسے ہم تصور کی تفہیم کہتے ہیں۔
ثانیاً، شعوری ادراک والے طلباء مسئلہ کو حل کرنے کے لئے موثر ترین حکمت عملی کا استعمال کرتے ہیں۔
مندرجہ ذیل مسئلہ میں
299
+21
—-
320
—-
اگر طالب علم محسوس کرے کہ اصل میں 299+1, 300 ہوتے ہیں اور پھر 20 جمع کرنے پر یہ 320 بن جائے گا، تب وہ جانے گا کہ یہ باقاعدہ جمع کرنے کے طریقے کار سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
ثالثاً، طالب علم یہ جانچنے کے قابل ہو تا ہے کہ اس کا جواب معقول ہے۔ حسبِ ذیل تقسیم، 212 کو 2 سے تقسیم کر نے میں اگر طالب علم جواب 106 کے بجائے 16 حاصل کرتا ہے تو وہ یہ دیکھنے کے قابل ہو نا چاہیے کہ 16 کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ اور جواب 100 سے کچھ زائد ہونا چاہیے۔
رابعاً، شعوری ادراک والے طلباء کے پاس کچھ معلوم حقائق کا مجموعہ ہوتا ہے۔  پہلے دی گئی مثال میں
9+1 =10
اور
300+20=320
یہ معلوم حقائق ہیں۔ یہ ایک وجہ ہے کہ ہمیں کیوں ریاضی کے پہاڑوں کا علم ( صحیح تصور کی سمجھ کے ساتھ) ہونا چاہیے۔
آخرمیں یہ کہ شعوری ادراک والے طلباء معلوم حقائق کی مدد سے دوسرے حقائق اخذ کرتے ہیں۔ اسی مثال میں
299+1=300
ایک نئی دریافت ہے جو معلوم حقائق سے اخذ کی گئی ہے۔
شعوری ادراک والے طلباء کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے بعد اب چیلنج یہ ہے کہ ہم کس طرح پڑھائیں کہ ریاضی کے سارے طلباء شعوری ادراک والے بن جائیں۔ یہ پانچ حکمت عملیاں ہیں جو ہم نے اساتذہ کے ساتھ کام کرنے کے تجربہ کے دوران موثر پائی ہیں۔
اولاً، ہمیشہ ٹھوس تجربے کی بنیاد پر پڑھائیں۔ ریاضی فطری طور پر تجرید اور خلاصے پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم 5 آموں کی نشاندہی کے لئے 5 لکھتے ہیں، تو تجرید سیکھنے کا درجہ پار کرتے ہیں۔ اسی لئے پہلے زینے کے طور پر سیکھنے والوں کو بنیاد، تصورات سے پہلے سمجھ لینا چاہیے۔ ہر سیکھنے والے کو سیکھنے کے لئے اپنا ایک وقت درکار ہے اور ہم کو اس وقت کا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے۔
ثانیاً سیکھنے والے کو تصورات کا خاکہ بنانا آنا چاہیے۔ اس حکمت عملی کو ایک مثال کے ذریعے سمجھتے ہیں۔
ریاضی سیکھنے والوں کو کسر کا تصور پہلی مشکل لگتا ہے۔ یہ حکمت عملی اساتذہ سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ وہ طلباء کو کسر کا تصور نقشہ، شکل یا مختلف ذریعہ سے سمجھا سکیں۔ ہمارے اساتذہ کے ساتھ کام کے دوران ہم نے تین مختلف طریقے استعمال کئے۔ ایک یہ کہ ہم ‌نے کاغذ کی پٹی کو موڑ کر مختلف کسر کی قدر بتانے کے لئے استعمال کیا۔ دوم یہ کہ ہم نے دئے گئے مساوی خانوں میں مطلوبہ خانوں کو رنگ کرنے کے لئے کہا جس سے کسر کی قدر معلوم ہو سکے۔
سوم یہ کہ ہم ‌‌نے انھیں عددی قطار (number line) پر مطلوبہ کسر کی قدر کو نشان لگانے کے لئے کہا۔
حسبِ ذیل اشکال کسر 2/5 کی تفہیم کے تین طریقوں کی وضاحت کرتے ہیں۔
شکل1
شکل2
شکل3

“یہ ہمیشہ ہی ایک بہتر خیال ہے کہ ریاضی کے تصورات کو ایک سے زائد طریقوں سے بتایا جائے

تا  کہ اساتذہ قابلِ لحاظ حد تک مطمئن ہو سکیں کہ طلباء نے ان تصورات کو سمجھ لیا ہے۔”

ثالثاً ، اساتذہ کسی سوال کو حل کرتے ہوئے اسے زبانی دہراتے بھی رہیں۔ اس خیال کو سمجھنے کے لیے تقسیم کے مسئلے کو لیتے ہیں۔ 212 بٹے 2 لکھنے کے بعد معلم اپنے حل کو سطر بہ سطر یہ کہتے ہوئے وضاحت کر سکتے ہیں کہ “میں نے پہلے 212 کے بائیں جانب کے 2 کو 2 سے تقسیم کیا۔ حاصلِ تقسیم 1 ہے۔ میں نے 2 میں 2 تفریق کیا تو صفر حاصل ہوا۔ میں نے 212 کے اگلے عدد کو لکھا جو کہ 1 ہے۔ چونکہ 1، 2 سے کم‌ ہے ، 2 ، 1 کو ایک بار بھی تقسیم نہیں کر سکتا۔ اسی لئے میں نے حاصلِ تقسیم 0 لکھا۔ اس کے بعد میں نے سب سے دائیں جانب والے 2 کو ملا لیا تو اب تقسیم طلب عدد 12 ہو گیا۔ 2، 12 کو 6 حصوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔ اس لئے حاصل شدہ جواب ہے، 106۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر عدد 200 ہوتا تو ہمیں جواب 100 حاصل ہوگا۔ لیکن چونکہ عدد 212 ہے جو 200 سے کچھ زیادہ ہے، ہم‌ اندازہ کریں گے کہ جواب 100 سے کچھ زائد ہوگا۔ اور اسی لئے یہ جواب معقول معلوم ہوتا ہے”۔
اپنے طریقہ کار کو زبانی دہرانے سے اساتذہ طلباء کے اندازِ فکر کی ذہن سازی کرتے ہیں اور انھیں خود اپنے لائحہ عمل متعین کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
رابعاً، اساتذہ کسی مسئلے یا سوال کو حل کرنے کے لئے متبادل لائحہ عمل استعمال کرسکتے ہیں اور طلباء کو بھی ایسا کرنے کے لئے کہہ سکتے ہیں۔ مزید، طلباء کو یہ سوچنے دیجئے کہ کونسا لائحہ عمل زیادہ موثر ہے۔ چلئے ایک الفاظ پر مبنی آسان سوال دیکھتے ہیں۔
“50 زیرِ تربیت اساتذہ کی جماعت کو ایک عمل کے لئے 10 کاغذ کے چارٹس مطلوب ہیں۔ 50 کے بیاچ کے اعتبار سے 1500 زیرِ تربیت اساتذہ کو کتنے کاغذ کے چارٹس مطلوب ہوں گے۔”
اب یہ سوال مختلف طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک معلم کے لئے کتنے چارٹس مطلوب ہیں (1/5) معلوم کیا جا‏ئے اور پھر اس کو 1500 سے ضرب دے لیں جس کا جواب 300 آۓ گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ 1500 مدرسین مطلب 50 کے حساب سے 30 بیاچ ہوں گے۔ بھر ہر بیاچ کو 10 چارٹس درکار ہیں۔ اسی لئے 30 بیاچس کو 300 چارٹس درکار ہوں گے۔ تیسرا طریقہ تناسب کو استعمال کرنا ہوسکتا ہے۔ اگر 10 چارٹس 50 مدرسین کیلئے مطلوب ہیں تو 1500 مدرسین کے لئے کتنے چارٹس ہوں گے یہی تناسب بنائیں گے۔ یہ بھی ہم کو 300 کا جواب ہی دے گا۔ مختلف طریقے سکھانا اور ان کی افادیت کا موازنہ کرنے سے ہم طلباء کیلئے مختلف تصورات کو سمجھنا آسان بنا رہے ہیں۔
خامساً، مدرس اپنے طلباء کو مصروف رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً یہ دو سوال کرتے رہیں تاکہ وہ اپنے جواب پر سوچ بچار کر سکیں۔
1) یہ آپ نے کس طرح کیا؟
2) آپ کو کیسے پتہ کہ آپ صحیح ہیں ۔؟
پہلا سوال طلباء پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ کسی سوال کو حل کرنے کے لئے اپنا لائحہ عمل تشکیل دے سکیں اور دوسرا سوال انھیں معقول انداز میں اپنے جواب کا دفاع کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ سوالات ہر طالب علم سے کیا جانا چاہئے جب بھی جواب صحیح ہو۔
ہم ‌نے اساتذہ کے ساتھ کام کرنے کے دوران یہ پایا کہ ان میں سے اکثر متبادل جواب کے لائحہ عمل سے مطمئن نہیں ہیں۔ انھیں لگا کہ یہ طلباء میں الجھن پیدا کردے گا۔ اور اسی لئے ھم ‌کو ایک ہی طریقہ پر کاربند رہنا چاہئے۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ اس طرح کی سوچ ہی وہ چیز ہے جو طلباء کو جامد طریقہ کار سے سوچنے والا بناتی ہے کیونکہ انہوں نے جو سیکھا ہے وہ یہی ہے کہ اس کو حل کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے اور وہ ان کے لئے الگورتھم بن جاتا ہے۔
اسی لئے بنیادی چیلنج اساتذہ کو ریاضی میں باشعور مفکر بنانا ہے۔
ریاضی کی با معنی تدریس یہی ہے کہ ہر طالب علم کیلئے ہر تصور سمجھنے کو یقینی بنایا جائے۔ اور ایک مسئلہ کو حل کرتے ہوئے اساتذہ اپنے افکار پر تبادلۂ خیال کریں اور طلباء بھی ان کے افکار پر تبادلۂ خیال کرسکیں تا کہ ذہن میں ایسی وسعت پروان چڑھ سکے جس سے ایک مسئلہ کو متبادل لائحہ عمل سے حل کیا جاسکے۔

نوٹ:  دیویکا نادِگ اور وجے گپتا شِکشا آنگن فاؤنڈیشن کے بانی ہیں جو پونے میں واقع ہے۔ شِکشا آنگن سبھی تعلیمی میدان میں کام کرتا ہے جس میں تحتانوی ( primary) ، وسطانوی ( secondary) ، اور تیسرے درجے کی تعلیم ( tertiary education) ، خانگی اور سرکاری دونوں طرح کی انتظام دیکھے جاتے ہیں۔ اپنے قیام کے گذشتہ تین سالوں میں ، شِکشا آنگن نے مدارس کے صدور، اساتذہ ، کالج کے اساتذہ اور بالغ نوجوانوں کے ساتھ کام کیا ہے اور کئ ایک سماجی اقدامات کی جانچ کی ہے ۔ ان سے
[email protected],
[email protected]
پر ربط پیدا کیا جا سکتا ہے

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے