اس سلسلے کا پچھلا مضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
باب 8 – بچّہ اور اس کی فطرت
بچوں کو بڑوں پر ہرگز قیاس نہ کرنا چا ہئے۔ان کی دنیاہی الگ اور نرالی ہو تی ہے۔ہماراآئے دن کامشاہدہ ہے کہ بڑے سے بڑے واقعات وحوادث جن کے اثرات خودان بچّوں کی زندگی پر نہایت دُوررس اور گہر ے پڑنے والے ہو تے ہیں، ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ اُلٹاان کی تفریح اور مسرت کا سامان بن جاتے ہیں۔گھر میں آگ لگ جائے،چوری ہوجائے یا گھر کے کسی ذمہ دار فردکاانتقال ہوجائے۔ہوسکتا ہے بچےدوسردں کو دیکھ کرو قتی طورپر کچھ متاثر ہو کر دوچار قطرے آنسو بھی ٹپکادیں لیکن اصل د لچسپی انہیں اس ہنگامے سے ہو تی ہے جوایسے مواقع پراعزہ واقارب یادوست و احباب اور پڑ وسیوں نیزان کے بچّوں کے جمع ہو جانے سے گھر میں برپاہوتا ہے۔ان حادثات کے مواقع پربچّوں کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیجئے، صاف محسوس ہو گا کہ ان کے دل پر دراصل ان حادثات کا کوئی خاص اثر نہیں ہے۔ موقع ملے تودہ پُوری دل جمعی سے اُچھل کُوداور شور وشغب میں حصّہ لیں گے۔دراصل وہ اپنی فطرت سے مجبور ہیں۔
بچّہ ایک زندہ جادید ہستی ہے۔اس کے اندر مختلف قسم کی قوتیں وصلاحیتیں ہوتی ہیں۔دہ کچھ بنیادی خواہشات وجذبات رکھتا ہے۔اس کی اپنی پسند وناپسند اور اپنی دلچسپیاں اور ارادے ہوتے ہیں،اس کے سو چنے سمجھنے،محسوس کرنے اور متا ثرہونے،سیکھنے اور عادی بننے،متو جہ و منہمک ہو نے ،حفظ واعادہ کرنے کے مخصوص ڈھنگ ہوتے ہیں۔بلوغ تک پہنچنے اور بڑوں کی دنیا میں داخل ہو نے تک اسے متعددمر احل سے گزرناپڑتا ہے،ہر مرحلے کی کچھ اہم خصو صیات ہو تی ہیں اوران خصوصیات کے کچھ بنیادی تقاضے، تعلیم و تربیت کے سلسلے کی کو ششیں اس وقت بارآور ہو سکتی ہیں جب ان سب کے بارے میں معلومات حاصل کر کے ان کا پُورا لحاظ رکھا جا ئے۔
بچّوں کو متعد دقوّ تیں وصلا حیتیں پیدا ئشی طور پر ملتی ہیں اور متعد دو ہ انہی کی اساس پر خود یادوسر وں کی کوششوں سے حاصل کر تے ہیں۔ پید ائش کےسا تھ ملنے والی قوتوں اور صلاحیتیوں کو پید ائشی قوتیں ،فطری صلا حیتیں یا فطرت کہاجا تاہے۔یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہو تی ہیں،ان کے حصول میں کسی فردکی اپنی یادوسروں کی کوششوں کو بالکل د خل نہیں ہوتا اور نہ ان میں کسی طرح کی کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔انسانی کو ششوں سے صرف ان کو پروان چڑھایااور کسی خاص رُخ پر ڈالاجا سکتا ہے۔
تعلیم و تر بیت کا مقصود درا صل فطر ی قوتوں کو اُجاگر کرنا،انہیں سنوارنا سدھارنا اور صحیح رُخ پرڈ النا ہے اور اگر خدا نخواستہ وہ غلط رُخ پرپڑ گئی ہوں تو اُن کی اصلاح کرنا ہے۔
اللہ تعالٰی کے عطیات یُوں توبے شمار ہیں لیکن تعلیم و تر بیت کی غرض سے بچوں کی مندرہ ذیل فطری قوتوں اورصلاحیتوں کے بارے میں صحیح معلومات اور ان کو صحیح رُخ پر ڈالنے کے طر یقے جان لینا ضروری ہیں۔
۱۔اضطراری قو تیں۔
۲۔جبلتیں و جذبات۔
۳۔استعد ادیں۔
ا۔اضطر اری قوتیں (Reflexes)
اللہ تعالٰی نے ہمارے جسم میں کم و بیش پچاس ایسی قو تیں رکھ دی ہیں جوجسم کے مختلف اعضاء کو ہنگا می حادثات یااچانک پہنچ جانے والے نقصانات سے بچا نے میں بے حد معاون ثابت ہو تی ہیں۔ان کی دجہ سے اضطر اری طورپر متعدد ایسے مفید کام انجام پاجا تے ہیں جن میں ہمارے شعور اور ارادے کو قطعاً کو ئی دخل نہیں ہو تا۔مثلاً چھینکنا،کھانا،بلغم اور تھوک خارج کرنا،پلک جھپکنا،چیخنا چلانا،ہانپنا،جمائی لینا،مسکرانا،قئےکرنا،ناک بھُوں چڑھانا،جھرجھری لینا اور مختلف غدودوں سے رطوبت خارج کرناوغیرہ۔
اضطراری افعال کی خصو صیات۔ان فطری قوتوں کی وجہ سے جوا ضطراری افعال سرزدہوتے ہیں ان میں مندرجہ ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
- تیزی سے رونما ہو نا۔
- ہمیشہ ایک متعین اندازسے ہونا۔
- غیرارادی طور پر ہوجانا۔
- شعور کودخل نہ ہو نا۔
- وقوع پذیر ہو نے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہنا۔
- مقامی ہونا یعنی جسم کےایک مخصوص حصّےتک محدود ہونا۔
- ناقابلِ تغیر ہونا۔
۲۔جبلّتیں (Instincts)
یہ وہ فطری قو تیں یا طبعی رجحانات ہیں جن کی بدولت پہلے سے سیکھے یا ٹر یننگ یاعمل کیے بغیر ہم متعدد کام سر انجام دےلیتے ہیں۔ یہ رجحانات کسی وقتی تحریک کی و جہ سے جسم میں خاص کیفیت پید اکر د یتے ہیں اور پُور اجسم مخصوص اور متعین طور پر کام کر نے لگتا ہے۔ مثلاً بھوک لگنے پر غذاتلاش کرنا۔ خطر ناک چیز سے ڈرکر بھا گنا۔و شمن سے لڑنا۔ نئی چیز سامنے آئے تو معلومات حاصل کر نے کے لیے متجسس ہو نا وغیرہ۔کسی جبلت کااظہا رکس طر یقے سے ہوگا اس کاانحصار ماحول پر ہے۔ہر بچہ بولنا چاہتا ہے لیکن کو نسی بولی اپنا ئےگا۔ظاہر ہے کہ یہ اس کے ماحول پر ہے۔جو کچھ وہ گردو پیش بو لتے سنے گااس کی وہ بھی تقلید کر ے گا۔اضطر اری کے مقا بلے جبلی افعال،
- زیادہ پیچیدہ ہو تے ہیں۔
- ان میں شعور کو بھی کسی حدتک دخل ہو تا ہے۔
- پورا جسم منہمک ہو جاتاہے۔
- متعددطر لقیوں سے رو بہ عمل ہو سکتے ہیں۔
- تربیت سے ان میں کسی حدتک تغیّر وتبدل ہو سکتا ہے۔
۳۔استعداد ( Capacity)
وہ فطری صلاحیتیں جن کے بر وئے کارآ نے میں عقل وذہانت اور شعوروارادے کو غیرمعمولی دخل ہوتاہے ۔مثلاً انتظامی صلاحیت،کسی خاص مضمون کی طرف خصوصی میلان،قیادت اور رہنمائی کی قابلیت وغیرہ۔چونکہ ان کا تعلق ذہانت سے بھی ہو تا ہے اور تجربہ و تربیت سے اس میں کافی تغیر وتبدّل کا بھی امکان ہو تا ہے۔اس لیے مختلف افراد میں ان صلا حیتوں کی نوعیت مختلف ہو تی ہے۔
اضطراری قوتیں اور تربیت
چو نکہ اضطراری افعال متعین طر یقے سے رو بہ عمل ہو تے ہیں اور ان میں کسی طرح کا تغیّروتبدل ممکن ہی نہیں ہے۔نیز ان کے سرزد ہو نے میں شعور اور ارادے کو بھی کوئی دخل نہیں ہوتااس لیے اس پہلو سے اس ضمن میں تربیت کا تو سوال ہی نہیں ہو تا۔ البتہ اضطراری افعال کے ضمن میں دو پہلوؤں سے تو جّہ دینے کی ضرورت ہے۔
الف:۔متعد داضطر اری افعال ایسے ہیں جو جب رو بہ عمل ہو نے لگتے ہیں تو عمو مًا شعور میں آجاتے ہیں۔ مثلاً کھانسنا،جمائی لینا،چھینکنا،تھوک یا بلغم خارج ہونا وغیرہ۔ ان کے ضمن میں بچپن ہی سے مندرجہ ذیل باتوں کا عادی بناناچاہئے۔
- کھا نسی،جمائی یا چھینک آنے لگے تومنہ پر ہا تھ یارومال رکھ لیا کریں۔
- بلغم یا تھوک نگلنے سے پر ہیز کریں۔یہ گندی بات ہے۔
- ایک طرف جاکر تھوکیں یاناک صاف کریں۔ہر جگہ گند گی نہ پھیلا ئیں۔
- نماز یا مجلس میں ہوں تو حتی الا مکان کھا نسی اور جمائی کودبا ئیں یعنی بار بار بہت بلند آواز سے نہ کھا نسیں اور نہ جمائی لینے میں بہت زیادہ مُنہ کھولیں۔
- چھینکنے کے بعد الحمد للہ،جمائی لینے کے بعد لَا حَولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِا للہ کہا کریں۔ دوسر ے کی چھینک کے جواب میں یر حمک اللہ کہیں۔
ب:۔دوسر اقابلِ لحاظ پہلو اضطرارکامشر وط ومر بوط کرلینا یاہو جانا یعنی (conditioning of reflexes) ہے۔بسا اوقات جبلی حرکات یااضطراری افعال اصل محرک کے بغیر بھی کسی مصنو عی محرک کی دجہ سے سرزدہو نے لگتے ہیں۔انہیں مشر وط یامر بوط اضطراری افعال کہتے ہیں۔
ایسا کیوں ہو تا ہے؟
پید ائش کے بعد ہی ہر فردکو آئے دن متعددتجربات ومشاہدات سے دوچارہوناپڑتاہے۔ان میں کچھ تلخ ہو تے ہیں کچھ خوشگوار،بعض نفع بخش ہو تے ہیں بعض مضرت رساں۔ظاہر ہے تجر بات ہی کی مناسبت سے جبلی یااضطراری حرکات سرزد ہوتی ہیں۔اب جن افراد،حالات یااشیاءسے جیسے کچھ تجر بات وابستہ ہو جائیں گےان سے دوچار ہوتے ہی ویسی ہی حرکات سرزد ہو نے لگیں گی خواہ عملاً اس طرح کے تجر بات کی نوبت نہ آ ئے۔ مثلاً اندھیرابذاتِ خود کو ئی ڈرنے کی چیز نہیں۔لیکن ایک بچے کو اند ھیر ے میں کسی موذی جانور یا کیڑے مکوڑے سے ضرر پہنچ جاتاہےکسی چیز سے ٹکراکر چوٹ لگ جاتی ہے۔تووہ اندھیرے سے ڈرنے لگتا ہے خواہ و ہاں گزند پہنچا نے والی کو ئی چیز نہ بھی ہو۔
ایک شیرخوار بچّے کو ماں کی چھاتی سے زیادہ مرغوب چیز اور کیاہو سکتی ہے؟
جب دُودھ چھڑ انے کے لیے رسوت،کونین کاست یا کو ئی اور کڑوی چیز لگادی جاتی ہے اور منہ مارتے ہی بچے کوباربار کڑواہٹ کا تلخ تجربہ ہوتاہے تو پھروہ نہ صرف منہ مارنا بندکر دیتا ہے بلکہ چھاتی د یکھتے ہی منہ بنا نے لگتا ہے۔ننھے بچے گھر میں پلے ہو ئے یاآس پاس پائے جانے والے جانوروں اور پرندوں وغیرہ کو بہت پسندکرتے ہیں۔ان کے ساتھ کھیلنا چا ہتے ہیں۔رورہے ہوں توانہیں دیکھ کر بہل جا تے ہیں،لیکن ایک ننّھا بچہ جس کی اُ نگلی طوطے نےکاٹ لی ہو یا بھوں بھوں کرکے کُتّےنےجسے دوڑ ایا ہو یا جس کی نیند دو بلیوں کی لڑائی میں خوف ناک آوازوں سے ڈرکر اچاٹ ہو گئی ہو وہ ان کےنام سے ڈرنے لگتا ہے اور ان کی صورت دیکھ کر اس کے رو نگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
مقابلوں میں ناکام رہنے والے کو میدان میں اُتر تے ہی پسینہ چھُو ٹنے لگتا ہے۔فیل ہوجانے والا بچہ امتحان کے نام سے گھبر اتاہے۔اس کے بر عکس جیت جانے والے بچے مقابلوں کا،اور اچھے نمبر لانے والے امتحانات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
ایک ننھے بچےکےسا منے خوش رنگ کھلو نا پیش کیاجاتاہے جب وہ لینےکے لئے ہاتھ لپکاتاہے تو پیچھے سے خوفناک آوازیں نکالی جاتی ہیں جس سےدہ ڈرجاتاہے۔یہ عمل باربار کیا جاتاہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کھلو نےجیسی مر غوب چیز جب سامنے لائی جاتی ہے تووہ خوف کا مظاہرہ کر نے لگتا ہے چاہے ڈراؤنی آوازنہ بھی نکالی جائے۔لیکن جب ڈراؤ نی آوازیں با لکل بند کردی جاتی ہیں اوروہی کھلو نا پیش کر نے کےساتھ ہر بارمٹھا ئی بھی دی جاتی ہے توپھر کھلونے سے جووحشت ہوتی تھی وہ ر فتہ ر فتہ دُور ہو جاتی ہے۔
ایک بچّے کونہایت شفقت و محبت سے کلام پاک پڑھایا جاتا ہے۔اس کے ہا تھ میں جو قرآن حکیم دیاجاتا ہے وہ اچھے کا غذ پر بہت خوبصورت چھپاہے ۔جلد نفیس اور جز دان خوش رنگ ہے۔جب بھی وہ قرآن شریف لے کر بیٹھتا ہے شا با شی پاتااور بہت اچھی نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ان مسلسل خو شگو ار تجربات کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ قرآن حکیم سے اس کا لگا ؤ پید اہو جاتاہے اور وہ اسے د یکھ کر لپکتا ہے لیکن اگر رو یّہ اس کے بر عکس ہو تو صورت سے گھبرانے لگتا ہے اور اپنے شوق سے تلاوت بھی گوارا نہیں کر تا۔
ایک بچہ ریا ضی کے گھنٹے میں اکثر ڈانٹا اور پھٹکا رااور ماراپیٹا جا تا ہے۔رفتہ رفتہ اسے اس مضمون ہی سے نفرت پید اہو جاتی ہے کیونکہ اس مضمون کے ساتھ نہایت تلخ تجر بات وابستہ ہوجا تے ہیں۔یہی کچھ افراد کے سلسلے میں بھی ہوتاہے۔ایک معلّم بچّوں کے ساتھ نہایت شفقت و محبّت سے پیش آتا ہے محنت سے پڑھا نے کے ساتھ ان کو کھیلنے اور خوش و خرم رہنے کے بھی مواقع بہم پہنچا تا ہے۔نا گز یر صورت میں کبھی سختی کر تا ہے تو شفیق و الدین کی طرح محبت و شفقت اور حسن سلوک سے جلدہی تلافی کردیتا ہے،وہ بیمار پڑ تا ہے تو سات آٹھ برس کے بچّے عیادت کے لیے جا تے ہیں،صحت کی دُعا ئیں کرتے ہیں۔تعطیلات کے بعد معلم کو گھر سے آنے میں تا خیر ہو تی ہے تو بچے بے چین ہو جا تے ہیں اور جلد آنے کے لیے آپس میں چندہ کر کے تاردیتے ہیں۔اس کے بر عکس ایک دوسرامعلم اکثر ڈانٹ پھٹکاراور مارپیٹ سے کام لیتا ہے۔جائزحدود میں بھی بچوں کی د لچسپیوں کی رعایت نہیں کرتا۔بچّےاس کی صورت سے گھبرانے لگتے ہیں اس کو بددُ عا ئیں دیتے ہیں اور جب علیل ہو تا ہے تو بچوں میں مشہور ہو جاتاہے کہ انتقال ہو گیا یہاں تک کہ ایک بچے کے سرپرست تعزیت کے لیے آجاتے ہیں۔یہ دراصل اس نفرت کااظہار ہے جو معلّم کے ناروا سلوک کی وجہ سے پید اہوگئی تھی۔خودا ندازہ لگا ئیے ایسے استادکا بچے کیااثر قبول کریں گے جس کی صورت د یکھتے ہی ان پر عجب کیفیت طاری ہو جا تی ہو۔
جھوٹ،چوری،خوش اخلاقی و ملنساری۔بدمزاجی و چڑچڑاپن۔ تحمل و بر دباری یا چھچھوراپن ،کسی مضمون سے لگاؤ یا نفرت ، کسی فردسے محبت یا بغض و عناد، کُتے بلی یااند ھیرے سے خوف، جانوروں کو ستانایاان پررحم کرنا،پڑھنے میں محبت یا بھگوڑاپن وغیرہ دراصل مشروط واضطراری و جبلی حرکات ہیں جوسای زندگی سرزد ہو تی رہتی ہیں۔
قابلِ لحاظ اُمور
اضطراری قوتوں کا ما حول اور اس کے تجربات ومشاہدات سے اس طرح مشر وط ومر بوط ہو جانا افراد کی سیرت وکردار پر دراصل بہت دُوررس اثرات ڈالتاہے،اوائل عمر کے بعض تلخ تجربات دل ودماغ پرایسے گہرے نقوش ثبت کردیتے ہیں کہ زندگی بھر نہیں مٹتے اور جن افراد، حالات یا مشاغل وغیرہ سے وہ مر بوط ہو جاتے ہیں ان سے دوچار ہو تےہی اضطراری طور پر وہی کیفیّت طاری ہوجایاکر تی ہے۔مثلاً اشتعال،غصّہ،خوف،بےر غبتی،خوش،رنج ،محبّت،ہمدردی وغیرہ کی کیفیت خواہ درست مفید اور ضروری ہو یا غلط غیرضروری اور مضر۔بنابریں اضطراری قوتوں کے مشروط یامربوط ہو نے کے ضمن میں مندرجہ ذیل امورقابلِ لحاظ ہیں۔
- والدین کو چاہئے کہ پسند یدہ عادات واطواراور اعمال واخلاق پر وان چڑھانے کے ضمن میں ہو نے والی تمام کو ششوں کےسا تھ اوائل عمری ہی سے خوشگوار تجربات وابستہ کر دیاکریں تاکہ بچّے ایساکر نے میں مسرت محسوس کریں اوران کا باربار اعادہ کرکے پسندیدہ عادات واطواراور اچھی سیرت وکردارکے مالک بنیں۔
- اگر گھر پر معقول بند وبست نہ ہو سکے تو بچّوں کو جلد ہی کسی اچھے مدرسے میں داخل کردیں۔
- بچّوں کی ابتد ائی تعلیم انتہائی خوشگو ار فضا میں اور بہت پیارسے ہو۔نیز ایسے مشاغل ومصر وفیات کے ذر یعے ہو جن میں بچے فطری دلچسپی لیتے ہوں تاکہ پڑ ھنے لکھنے اور مختلف مضامین ومشاغل سے بچّوں کوانس اور لگا ؤ پیداہو۔
- پڑ ھنے کے دوران اگر کو ئی بات بچّوں کی سمجھ میں بآ سانی نہ آئے تواس پر مشتعل نہ ہوں اور نہ سزادیں ورنہ اس مضمون سے نفرت پیداہو جانے کااندیشہ ہے۔مستقل مزاجی سے سمجھا نے کی فکر کریں۔
- اگر بےتدبیری یا غفلت سے بچوں میں ناپسندیدہ مشروط اضطرار قرارپاجائے مثلاً والدین یا اساتذہ کے نارواسلو ک کے باعث ان سے نفرت،کُتّے بِلّی یااندھیر ے کا خوف ،مختلف مضامین و مشاغل سے بیزاری و غیرہ توان سے خوشگوار تجربات وابستہ کرکے جلد از جلد اصلاح کی کو شش کی جا ئے۔نفرت و بغاوت کو دُور کرنے لیے اساتذہ اور والدین بچّوں کے سا تھ مسلسل شفقت و محبت کا مظاہرہ کریں اور حسن سلوک سے سا بقہ کو تا ہیوں کی پوری تلا فی کر دیں۔جن مضامین و مشاغل سے بیزاری کا ظہارکریں ان کی تدریس کو آسان اور دلحپسپ بنا نے کے لیے ماڈل،تصاویر ، چارٹ وغیرہ کااستعمال کریں۔اوراگر بچے کسی درجے میں بھی تر قی کررہے ہوں تو ہمّت بندھا کر اور شاباشی دے کرمزید جدوجہد پر اُکسائیں ۔اندھیرے میں کھیلنے کھانے کی چیزیں رکھ کرلانے کے لیے آمادہ کریں۔غرض بچّوں کے تلخ تجربات کو دھونے کے لیے ان چیزوں سے خوش گوار تجربات وا بستہ کر نے کی پُوری فکر کریں۔امید ہے بچپن میں انشاء اللہ جلد اصلاح ہو جائے گی۔ ورنہ یہی مستحکم ہوکر زندگی بھر شخصیت کو کمزوربنائے رکھیں گی اور نازیبا حرکات اور ناپسندیدہ کردار کا مظاہرہ کرائیں گی۔
ماخوذ: فن تعلیم وتربیت (مصنف : افضل حسین )
باب 8کتابت: سیدہ سارہ نوشین