قوت فہم کی جستجو

تحریر: اوشا پونپپن

مترجم: زبیر صدیقی

جب میں نے خود سے یہ سوال کیا کہ میں نے سائنس کا انتخاب کیریئر کے طور پر کیوں کیا، تب یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے  اپنے ماضی کی چھان بین کرنے کی کوشش کی- میں نے اپنی یادداشت میں اس خاص لمحے کی تلاش کی جس نے میری زندگی کو ایک نیا رخ دیا تھا- چنانچہ جب یہ بات واضح ہو گئی کہ کسی بھی مخصوص واقعہ نے سائنس میں میرے مستقبل کی منزلیں طے نہیں کیں لیکن میرا خیال ہے کہ کچھ غیر متعلق واقعات کا سلسلہ جاری رہا جس نے میری سوچ کو اس طرح سے تیار کیا جس نے مجھے اس مہم جوئی کی راہ پر گامزن کر دیا جس کی میں آج بھی قدر کرتی ہوں-

 

ایک سائنسی مخطوطہ لکھنے کے برعکس، (جس میں تجرباتی خاکہ تیار کرتے ہوئے نتائج کے سلسلے کی بنیاد پر انجام تک پہونچا جاتا ہے)، “سائنس ایک کیریئر کے طور پر میرے انتخاب “کے بارے میں لکھنے کی مشق کافی حد تک میری یاداشت اور میری ابتدائی  زندگی کے کچھ خاص واقعات پر مبنی ہے۔میں یہ قطعی طور پر تو نہیں بتا سکتی کی لائف سائنسیس میں میری قدرتی صلاحیت تھی یا پھر مجھ پر میرے اساتذہ  کا اثر تھا جو میں نے اس مضمون کوبآسانی سر کر لیا، لیکن میرا جھکاؤ علم  حیاتیات کی طرف زیادہ رہا اور میں نے اس  میں اچھا کام بھی کیا۔

 

میرے لئے اہم موڑوہ تھا جب میں نے ہائی اسکول کی تکمیل کے وقت نیشنل سائنس ٹیلنٹ اسکالر شپ حاصل کی- حکومت ہند کے ذریعہ سے فراہم کردہ اس میریٹ اسکالر شپ نے مستقبل کے سائنسدانوں کو سائنس کی بنیادی راہ پر گامزن کرنے کی حوصلہ افزائی کی- نیشنل سائنس ٹیلنٹ اسکالر شپ کا ایک اہم پہلو جو میرے ذہن میں پیوست ہے وہ میر ا  پروجیکٹ رپورٹ ہے جو میں نے اس اسکالر شپ کی درخواست کے ساتھ پیش کی تھی جواعصابی نظام میں سیلولر ابلاغ (خلیوں کے آپسی اتصال)کے میدان سے جڑا تھا- اتفاق سے، جہاں میری دلچسپی اعصابی نظام میں ابلاغ اور ایکشن پوٹینشل میں عروج پر تھی، میری خاص توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ مدافعتی نظام میں سیلس(خلیے)کیسے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں- اپنے کیریئر اور اپنی پسند کی طرف توجہ دیتے ہوئے میں یہ کہوں گی کہ سائنس ٹیلنٹ اسکالر شپ حاصل کرنے پر میرے لئے ایسے دروازے کھل گئے جو بصورت دیگر آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے- 

 

ہندوستانی حکومت کے ذریعہ فراہم کردہ سائنس ٹیلنٹ اسکالر شپ کو ان طلبہ کو منتخب کرنے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے جو بنیادی سائنس میں صلاحیت اور استعداد رکھتے ہیں تاکہ ان  سائنس دانوں کی اگلی نسل کے طور پر حمایت کی جا سکے- میں واقعتا ایسا مانتی ہوں کہ اس موقع کی وجہ سے مجھے اپنے عزائم کی پیروی کرنے کی ایک مضبوط ترغیب اور حوصلہ ملا- اس طرح کے اقدامات سے سائنس کو فروغ دینے اور ہماری نوجوان نسل کو اس عالمی معیشت میں مسابقتی بنانے کے ہمارے آرزو مند مقصد کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔  مزیدبرآں، این سی ای آر ٹی اسکالر شپ کو اس طرح سے ترتیب دیا جاتا ہے جس سے انڈرگریجویٹ اور ماسٹرز پروگراموں کی گرمیوں کے وقفہ کے دوران تحقیق پر مبنی تربیت دی جا سکے تا کہ نوجوان ذہنوں کو تحقیقات کی سمت ڈھالنے اور تربیت دینے کے لئے تیار کیا جا سکے- مجھے لگتا ہے کہ، کم از کم میرے معاملے میں یہ پروگرام کامیاب رہا- کیونکہ مجھے تحقیق میں کافی دلچسپی تھی، لہذا حوصلہ افزائی اور مواقع فراہم کئے جانا میرے حساب سے تھے- اس اسکالر شپ نے میری گریجویٹ تعلیم کے لئے میرے پسند کے ادارے کا انتخاب کرنے اور ایک معروف سائنسداں کو اپنا سرپرست منتخب کرنے میں میری مدد کی- یہ میرے لئے ایک تحفہ تھا جس میں مجھے اپنی مرضی کی تجربہ گاہ کو چننے کا موقع ملا جب کہ میرے بیشتر ساتھیوں کو دستیاب تجربہ گاہ کو ہی چننا پڑا تھا۔

 

اب بڑے سوال کی طرف جاتے ہیں: میں سائنسداں کیوں بن گئی؟ سوالوں کو حل کرنے کا عظیم عمل بذات خود کافی محرک ہے- چنانچہ، میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ سائنسداں ہونے کے نا طےسب سے اچھی چیز کسی نمونے کے کام کو سمجھنے کی جستجو ہے پھر وہ چاہے حیاتیات ہو یہ پھر طب- اس کے ساتھ ہی یہ ایک فرد کی صحت کی بہتری کے لئے  افہام و تفہیم کو موثر علاج معالجے میں ترجمہ کرنے کی صلاحیت ہے- افہام و تفہیم کی جستجو نے  بالآخر مجھے وہاں پہنچایا جہاں میں آج ہوں- یہ چیلنج، جدّت اور مسائل کو حل کرنے کے مواقع تھے جو سائنس نے بہم عطا کئے- بحیثیت سائنسداں، ایک انسان بچوں کی طرح تجسّس کے ساتھ سوال پوچھ سکتا ہے۔

 

میرے گریجویشن کے دنوں میں، میرا مقصد ریپروڈکٹو امیو نولوجی کے نئے ترقی پذیر میدان میں طریق کار اور مترجم اقدامات پر کام کرنا تھا- اس میں میری منشاءمانع حمل کے لئے ویکسین تیار کرنی تھی- یہ ہندوستان میں آبادی پر قابو پانے کی بڑھتی ضرورت میں مدد کے ارادے سے کارفرما تھی- جلد ہی، ایک ابھرتے ہوئے گریجویٹ طالب علم کی حیثیت سے، میں نے محسوس کیا کہ اگرچہ میرے اہداف بلند تھے، ان کو تلاش کر پانا اتنا ہی چیلنجنگ تھا- بہر حال، میں بمبئی میں ایک آئ سی ایم آر کے ادارے، انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ ان ریپروڈکشن میں اپنی گریجویٹ تعلیم کو بڑےشوق سے یاد کرتی ہوں- یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے سائنسی تحقیق کا نچوڑ اور ساتھ ہی یہ بھی سیکھا کہ کوئی بھی تجربہ، خواہ اس سے متوقع نتائج برآمد ہوں یا نہ ہوں، آخر کار کچھ سکھاتے ضرور ہیں- یہیں سے میں نے تفتیش، سائنسی پیشکش اور مواصلات کی مہارتوں کو حاصل کیا ہے۔

 

اسکولوں میں سائنس کس طرح پڑھائی جاتی ہے اور کس طرح مختلف ہو سکتی ہے اس کے بارے میں میری یاداشت اور تجربات ایک طویل عرصے سےمجھ میں رچ بس گئے ہیں- اس کے پیچھے ایک وجہ یونیورسٹی میں گریجویٹ کی سطح پراور میڈیکل اسکول میں تدریس میں مشغول رہنا رہا ہے- ایک استاد کی حیثیت سے، مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب میں صرف حقائق بتانے یا بیان کرنے کے بجا ئے سوالات کے ذریعہ سے پڑھاتی ہوں- مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ

میرے طلباء اس وقت سب سے زیادہ سیکھتے ہیں جب وہ آپس میں گفتگو کرتے ہیں خاص طور پر جب وہ کسی تجربات کو تیار کرتے یا پھر کسی ماڈل کی جانچ کرتے ہیں۔

 اگر میری یاداشت درست ہے تو ہمارے اکثر اسکولوں میں سائنس کو براہ راست معلومات کو طلباء میں اس امید کے ساتھ منتقل کر دیا جاتا ہے کہ وہ اسے حفظ کریں گے اور جانکاری حاصل کرنے کے اس طریقہ کو صحیح طور پر جانچنے کے لئے تیار کئے گئے امتحان میں معلومات کو دوبارہ پیش کر دینگے- مفروضے کو پرکھنے کے لئے تیار کئے گئے سوالات کے ذریعہ، نظریاتی علم اور کسی میدان کی بنیادی معلومات کو شاید ہی کوئی اہمیت دی جاتی ہے- جب کہ سوالات کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اکثر طلباء کی طرف اسکی ہدایت کی جاتی ہے، پھر بھی گفتگو پر مبنی سوال-جواب کی نشستیں صرف جائزے کی حد تک محدود رہتی ہیں جنکو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے- میرا ذاتی طور پر سوچنا ہے کہ ہمارے ہائی اسکول کے نصاب میں ہاتھ سے کئے گئے تجربات یہ پھر تجربگاہ میں کئے گئے تجربہ بھلے ہی وہ کیمیا، طبیعیات یہ حیاتیات کے ہوں، شاید انھی نے تکنیکی اور مسئلوں کا حل کرنے کی مہارتوں کو نشونما دینے کا بنیادی کا انجام دیا ہے- تجربات کرنے کے  ایسے ٹھوس طریقوں پر جتنا زیادہ وقت صرف کیا جائے گا، کہ سائنس کس طرح کام کرتی ہے، سائنس میں زیادہ تر نوجوان افراد کا کیڈر تیار کرنے میں واضح طور پر مدد ملے گی- اب چونکہ ہم معلومات سے مالامال معاشرے میں رہ رہے ہیں اور بہترین نصابی کتاب/ دیگر وسائل دستیاب ہیں، طلباء کو کلاس میں آنے سے پہلے ایسے مواد کو پڑھنے کا مشورہ دیا جانا چاہئے- اس کے ساتھ ہی کلاس روم کی تدریس مباحثے اور فکری گفتگو پر مبنی ہونی چاہئے- نظریات کو جذب کرنے کے لئے وقت دینا چاہئے، اور توجہ دینے والے میدانوں میں بصیرت دی جانی چاہئے تاکی کلاس روم میں گزارا ہوا وقت علم کو جذب کرنے اور سوچنے کے لئے استعما ل کیا جا سکے-

 

مجھے یقین ہے کہ کلاس رومز میں اس طرح کے بدلاؤ کرنے سے تدریس میں ایک انقلاب آئے گا اور ہمارے طلباء کو عمر بھر سیکھنے اور پرجوش طریقہ سے مسئلوں کو حل کرنے کی قابلیت حاصل ہوگی- اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت ملک اپنے اساتذہ پر خرچ کرنا ہوگا- ایسے اساتذہ پر جو انتہائی ہنرمند ہوں- ایسے اساتذہ چراغ راہ ثابت ہو سکتے ہیں جو ہمارے ملک کے نوجوانوں کو روشن اور چیلنجنگ مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں جن میں قوت فہم کی فطری جستجو ہوگی-

نوٹ : اوشا پونپپن پی ایچ ڈی، ارکنساس یونیورسٹی میں جرثومے حیاتیات (مائکروبیولوجی) اور مَناعیات (امیونولوجی)، کی پروفیسر ہیں۔ جہاں وہ تعلیم و تدریس اور تحقیق کے میدان سے جڑ ي ہوئی ہیں۔ اُن سے اس پتےپر  رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

[email protected]

بہ شکریہ : لرننگ کرو

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے