کہانی سنانے کا ہنر۔ پہلی قسط

بچّوں کو کہانی سنانے کے لئے مہارت درکار ہوتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کہانی سنانے کے فن میں کون کون سے پہلو قابل غور ہیں۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے ہماری پرائمری اسکولوں میں پہلی اور دوسری جماعت کے لئے کہانی سنانے کےلئے روزآنہ کوئی گھنٹہ مخصوص نہیں ہوتا۔ اگر ایسا کوئی نظام موجود ہوتا تو شاید بچوں کو اسکول سے جوڑے رکھنے کا مسئلہ کسی نہ کسی حد تک حل ہو جاتا۔ کئی لوگ یہ بول سکتے ہیں کہ میں اس مسئلہ کی اہمیت کو کم کر رہا ہوں۔ اس بات کا بہت قوی امکان ہے کہ میرے مشورے کو سننے کے بعد بہت سارے اعلی افسران حقارت سے مسکرا دیں۔ 

اسٹوری ٹیلنگ کے بابت اس اعتراف سے انکار کہ اس کا بچوں پر ایک سحر انگیز اثر ہوتا ہے، کی وجہ ضرور ان افسران کا وسیع تجربہ اور انتظامی امور کا علم ہوگا ۔ وہ خود انکی زندگیوں میں کسی موقع پر اسٹوری ٹیلنگ کی غیر معمولی اہمیت سے متفق ہونگے۔

یہ کافی دکھ کی بات ہے کہ ہمارے ٹیچر ،ٹریننگ ادارے بھی  اسٹوری ٹیلنگ  کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے چند ادارے اپنے نصاب میں  کہانی سنانے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہیں۔  

میں ایک ایسے دن کا تصور کرتا ہوں جب چھوٹے بچوں کو پڑھانے والے ہر استاذ سے کم از کم 30 روایتی کہانیوں پر عبور حاصل ہونے کی توقع ہوگی۔ عبور حاصل کرنے سے میری مراد یہ ہے کہ وہ ان کہانیوں کو اتنی اچھی طرح یاد رکھیں گے کہ انہیں آسانی اور اعتماد کے ساتھ بیان کرسکیں۔ایک ایسا معاشرہ جس کے پاس ہزاروں کہانیوں کو محفوظ رکھنے کی پرانی روایت موجود ہے، کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔30 ایسی کہانیاں جسے استاذ اپنی مرضی سے بیان کرسکتا ہے  اس سے پرائمری اسکول کے پہلے دو درجات کا ماحول بدل جائے گا۔  شرط صرف یہ ہے کہ کہانی سنانے کو روز مرہ کے نصاب میں اس یقین کے ساتھ ایک باعزت مقام دیا جائے کہ کہانی بیان کرنا اپنے آپ میں اہم ہے۔

کہانیاں کہاں سے لائیں

میں آگے بڑھنے سے پہلے ایک صفت کو واضح کرنا چاہتا ہوں جسے میں نے پچھلے پیراگراف میں استعمال کیا ہے۔ میں لکھ چکا ہوں کہ میں روایتی کہانیوں کے سنانے کے حق میں ہوں۔ میرا تجربہ بتاتا کہ نوجوان اساتذہ کو کہانی سنانے کی تربیت دیتے وقت جب ان سےکہانی سنانے کے لیے کہانی تلاش کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ اکثر بچوں کے رسائل سے کہانیاں لے آتے ہیں۔ اس میں سے کچھ کامکس کی کہانیاں ہوتی ہیں جب کہ کچھ طویل لطیفے اور حقیقی زندگیوں کے واقعات ہوتے ہیں۔  یہ سچ ہے کہ اس قسم کی کہانی مخصوص ہوسکتی ہے، لیکن ہم امید نہیں کرتے کہ پرائمری اسکول میں پڑھنے والے 7،6 سالہ بچوں کےلئے ہر کہانی جادوئی اثر رکھتی ہے۔

  روایتی طور پر وراثت میں ملنے والی کہانیوں میں ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو ضروری نہیں کہ موجودہ دورکی  کہانیوں میں پائی جائیں جو ہمیں مختلف شکل اور ذرائع ابلاغ میں ملتی ہیں۔  ہم مختصراً ان کی ہیئت پر گفتگو کریں گے، لیکن اس سے پہلے کچھ روایتی کہانیوں کا ماخذ پیش کرنا بہتر ہوگا۔ سب سے پہلے پنچ تنتر، جاتک، مہا بھارت، سہسرہ رجنی چرترا ،ویکرمہ آدتیہ کی کہانیاں اور مختلف علاقوں کی لوک کہانیوں کو سہل اور عمدہ ماخذ کے طور پر رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ہم کتھا سرات ساگر، گلستاں اور بوستاں کی کہانیاں اور دنیا بھر کی لوک کہانیوں کو رکھ سکتے ہیں۔  یہ مصادر آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے۔ اس لیے اگر کوئی نصاب میں اسٹوری ٹیلینگ کو باقاعدہ جگہ دینا چاہتا ہو تو اسےان تمام ذرائع سے منتخب کہانیوں کا ایک مجموعہ بنانا ہوگا۔

سنانے لائق کہانیاں

اچھی کہانی میں کیا خصوصیات ہیں یہ جاننے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کہانیوں کا جائزہ لیا جائے جسے بچے کئی نسلوں سے بڑی رغبت سے سماعت کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پنج تنتر کی ایک کہانی شیر اور خرگوش کی ہے۔ اس کا پلاٹ اتنا آسان نہیں جتنا ہم اس کہانی کی واقفیت سے فرض کر لیتے ہیں۔ ہم سب سے پہلے اس کہانی کے اہم نقاط کو کیوں یاد نہیں کرتے؟کہانی میں ایک دن ایسا آتا ہے جب چھوٹے خرگوش کو بوڑھے شیر کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ خرگوش نے شیر کے دروازے تک پہنچنے میں اتنی دیر کر دی کہ شیر بھوک سے پاگل ہو گیا۔  یہ اہم لمحہ غصے سے بھڑکنے والے شیر کے ساتھ کسی بھی قسم کی سودے بازی کا صحیح وقت نہیں ہے،پھر بھی خرگوش اس نامناسب لمحے میں مداخلت کرتا ہے کہ اسے اتنی دیر کیوں لگی۔ راستے میں ایک اور شیر سے سامنا ہونے کی بات سراسر جھوٹ ہے، لیکن یہ بات  ایک بھوکے، غصے سے بھرے شیر کے شاہی دماغ میں بس جاتی ہے۔ اب وہ پہلے اپنے مخالف سے نمٹنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ خرگوش کے ساتھ اس کنویں کی طرف چل پڑا جہاں اسے بتایا گیا تھا کہ دوسرا شیر رہتا ہے۔ اس دوسرے نازک موڑپر، خرگوش اپنے فریب سے غصے سے پاگل شیر کی ناراضگی اور حسد پر  مکمل بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے،جسے خرگوش نے ہی بھڑکایا ہے۔ کنویں میں اپنے ہی سایہ کو  دوسراشیر سمجھ کر شیر اپنا آپا کھو بیٹھتا ہے اور چھلانگ لگا کر فوت ہو جاتا ہے۔

آئیے اس پرانی جانی پہچانی کہانی کو قریب سے دیکھیں۔ سب سے پہلے، کہانی کے مواد میں کوئی تبلیغ نہیں ہے۔ اس کے برعکس، کہانی اس طرح کے سنجیدہ سوالات سے براہ راست جڑتی ہے جیسے کسی شیطانی قوت یا موت کے حقیقی خطرے کے سامنے اپنے آپ کو کیسے بچایا جائے۔عموماً ہم بچوں سے بات کرتے ہوئے ایسے سوال نہیں کرتے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ بچوں کو ایسے سوالات میں گہری دلچسپی ہوتی ہے۔ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ اس دلچسپی کی وجہ کیا ہے؟ لیکن میں کچھ پل میں اس سوال پر بات کروں گا۔ابھی کے لیے میں ایک اور پہلو پر زوردینا مناسب سمجھوں گا،  یہ ایک چھوٹی سی مخلوق کی کہانی ہے جو ایک بڑی اور طاقتور مخلوق کی پیدا کردہ مصیبت سے نبرد آزما ہے۔اس مصیبت سے نکلنے کے لیے چھوٹے سے جانور نے ایسی چال چلی ہے جسے ہم عموماً غیر اخلاقی کہتے ہیں۔ اس چال کو چلنے کے لیے خرگوش چند اعلی ترین شخصی خصوصیات کی نظیر پیش کرتا ہے۔ ان خصوصیات میں ہمت، خطرے کے وقت خود اعتمادی،مشکل صورتحال میں آخری لمحے تک دماغ کو ٹھنڈا رکھنے کی صلاحیت، زیادہ طاقت اورعمروالوں کے سامنے مناسب برتاؤ کرنے کی صلاحیت وغیرہ اہم ہیں ۔

ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کہانی کتنی تیزی سے آگے بڑھتی ہے۔ شروع میں ایک عجیب و غریب نظام قائم ہے جس کے تحت ہر روز ایک جانور رضاکارانہ طور پر بوڑھے بادشاہ کا شکار بنتا ہے۔ اس کے فوراً بعد چھوٹے خرگوش کی باری آتی ہے اور کہانی کا مرکزی پلاٹ سامنے آتا ہے۔ باقی واقعات بہت تیزی سے رونما ہوتے ہیں، کیونکہ خرگوش اپنی حفاظت کے لیے خطرناک حکمت عملی طے کرنے کے بعد ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کر سکتا۔ کہانی سننے والے کو مکالمے کے ذریعے ایک کے بعد دوسری صورت حال سے اس  کے ذہن کو موڑ دیا جاتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ سننے والے کے پاس صورت حال کو خرگوش کے نقطہ نظر سے دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

یہ مختصر تجزیہ ان وجوہات کی نشاندہی کے لیے کافی ہے جس کی وجہ سے اس کہانی نے بچوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ سب سے پہلے کہانی انہیں ایک کردار، ایک ہیرو کے روپ میں دیتی ہے، جس سے وہ پوری طرح واقف ہیں۔ یہ کردار ایک خرگوش کا ہے۔ کہانی میں اس کا کردار اسی طرح کی آزمائشوں اور مصیبتوں سے گزرتا ہے جن سے بچے اکثر اپنی روزمرہ کی زندگی میں گزرتے ہیں۔ وہ چھوٹا اور بے اختیار ہے، اسے وہ سب کچھ کرنا ہے جسے وہ نہیں کرنا چاہتا، وہ کسی ایسی مخلوق کے ہاتھوں مارے جانے سے ڈرتا ہے جو تمام طرح کی طاقت کے ساتھ ساتھ جسمانی طاقت بھی رکھتی ہے۔ خرگوش کے حالات سے ملتے جلتے پہلو ہر بچے کی زندگی میں ابھرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ ہم اکثر ان پر توجہ نہیں دیتے کیونکہ ہم والدین اور اساتذہ کا کردار ادا کرنے میں بہت مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر،ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بسا اوقات اچانک موت کا خوف بچپن میں پریشانی کی سب سے بڑی وجہ بنتا ہے۔ کسی بڑے اور طاقت ور شخص کے آمنے سامنے آنے کا خدشہ بھی اسی طرح کی پریشانی پیدا کرتا ہے۔

اس میں اگر کوئی اخلاقیات ہے تو وہ اپنے دفاع کی اخلاقیات ہے۔

کہانی شروع ہوتے ہی بچوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے کیونکہ بچے کہانی میں خود کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی کشش کو پھر کہانی کے واقعات سے تقویت ملتی ہے۔ چھوٹا خرگوش ایک حکمت عملی کا انتخاب کرتا ہے اور یہ کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف اس کے لیے کامیاب ہوتی ہے، بلکہ مسئلہ ایک بار اور ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔چھوٹے بچوں کو ایسا حل پسند ہے۔ خرگوش کی حکمت عملی سے رغبت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس کا انحصار بچوں میں ہمیشہ پائی جانے والی بہانا بنانے کی لغوخواہشات پر ہوتا ہے۔ خرگوش کے دیر ہونے کے بہانے میں ایک اور کشش یہ ہے کہ اس کا مقصد صرف اپنی جان بچانا نہیں، بلکہ شیر کو بھی مارنا ہے۔ درحقیقت خرگوش کا مخمصہ بہت مشکل ہے کیونکہ وہ ظالم (شیر) کو مارے بغیر اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا۔ اسی طرح کہانی بقا کا ایک خوفناک ڈرامہ پیش کرنے کے لیے بہادرانہ تباہی کا استعمال کرتی ہے۔ اس میں اگر کوئی اخلاقیات ہے تو وہ اپنے دفاع کی اخلاقیات ہے۔ ہم اس چیز کو ٹھیک سے تب ہی دیکھ سکتے ہیں جب ہم کہانی کو بچے کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ اگر ہم اس کہانی کو بڑوں کی نظروں سے دیکھنے پر اصرار کرتے ہیں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ ایک غیر اخلاقی کہانی ہے جو کہ واقعتاً ہے۔ 

 (جاری)

دوسری قسط کے لئے لنک پر کلک کریں۔

تیسری قسط کے لئے لنک پرکلک کریں۔

 

مصنف :  پروفیسر کرشنا کمار  اصل مضمون : ( The Skill of Storytelling)

 مترجم : ابوالفیض اعظمی

 

 

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے