بچوں کو سائنس پڑھانے کے دلچسپ طریقے!

مصنفہ : نوید انجم

دراصل سیکھنے اور سکھانے کا عمل ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ جب ہم کسی کو کچھ سکھا رہے ہوتے ہیں تو خود بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تدریس کے عمل میں ہر مرتبہ ہم کچھ منفرد طریقہء کار کا استعمال کرتے ہیں تو ہمارے لئے بھی سیکھنے کے عمل کی نئی راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں ،تو ظاہر ہے بچوں میں ہمیں اگر سائنس کے تئیں دلچسپی پیدا کرنی ہو تو بجائے روایتی طریقوں کے یقینًا ہمیں کچھ نت نئے طریقوں کا استعمال کرنا ہوگا۔

یہ ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ آج سائنس محض ایک مضمون کی حیثیت اختیار کر گیا ہے یعنی وہ صرف نصاب کا اک حصہ ہونے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ طلباء سائنس کو اک خشک مضمون کے طور پر دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کچھ موضوعات کا تو ہماری زندگی سے کچھ تعلق ہی نہیں ہے ظاہر ہے یہ کہیں ہماری ہی کوتاہی ہے جو انہیں اسطرح سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ چونکہ ہم نے سائنس کو صرف اسکول کی چہار دیواری تک ہی محدود کر رکھا ہے، اب یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اساتذہ مختلف طریقہء کار کا استعمال کر سائنس کو طلباء کے آگے ایک دلچسپ مضمون کے طور پر پیش کریں ،اسے بچے کی عام زندگی سے ،ماحول سے جوڑنے کی کوشش کریں’ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے، اطراف و اکناف کا ماحول اور سماج اس کے سیکھنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چونکہ بچہ سماجی ماحول میں پنپتا ہے اس پر سماجی ماحول کا اثر لازمی ہے اب یہ ہم اساتذہ اور والدین پر منحصر ہے کہ بچے کو آخر کس قسم کا ماحول مہیا کیا جائے کہ سائنس کے تئیں اس کی دلچسپی بڑھے اور سائنسی مزاج پروان چڑھے۔

‘بچہ سماجی ماحول میں پنپتا ہے اس پر سماجی ماحول کا اثر لازمی ہے’

ہمیں بچوں کو یہ بتلانا ہوگا کہ کلاس کی چہاردیواری سے پرے بھی ایک دنیا ہے، سائنس کی دنیا جو کافی دلچسپ اور دلکش ہے ،فطرت خود بھی ایک استاد ہے انہیں فطرت اور فطری ماحول سے سیکھنے کے مواقع فراہم کریں،  انہیں کسی پہاڑ، ندی یا جنگل کی سیر پر لے جائیں ، وہاں وہ مختلف جاندار چرندو پرنداور نباتات کو دیکھ کر ان میں تجسس، تفتیش و تحقیق کا مادہ تو پروان چڑھیگا ہی ساتھ ہی قدرتی مناظر و ماحول کے تئیں ان کی دلچسپی بھی بڑھے گی اور انہیں آس پاس کی دنیا میں ایک توازن دریافت کرنے میں مدد ملے گی۔

کائنات کو اپنے بچوں کی کلاس بنائیں!

انہیں مواقع فراہم کریں کہ وہ خوردبین کے استعمال سے مختلف خوردبینی جاندار وغیرہ کا مشاہدہ کریں اور اپنے مشاہدات کا اندراج بھی کرتے جائیں یا ڈرائنگ ہی بنا دیں اسطرح سے ان کے مشاہدہ کی صلاحیت کو جلا ملے گی۔

بچوں کو سائنس میوزیم یا سائنس سنٹر کی وقتًا فوقتًا سیر کرواتے رہیں۔  Planetarium وغیرہ کو صرف کتاب کا حصہ ہی نہ رہنے دیں بلکہ انہیں سائنس سنٹر لے جا کر ان چیزوں سے محظوظ ہونے کا موقع دیں تاکہ ان کے تخیل کی اڑان اپنی آخری حدوں کو چھو سکے …بچوں کے تخیل کی پرواز بہت اونچی ہوتی ہے تصور و تخیل کی صلاحیت انسانی ذہن میں جبلی طور پر پائی جانے والی صلاحتیں ہیں یہی وہ چیزیں ہیں جنہوں نے انسان کو نت نئ جہتوں میں سوچنا سکھایا اور نئی ایجادات کی موجب بنیں۔

بچوں کو سائنسی یا کسی سائنسداں کی ایجادات پر مبنی فلمیں دکھلائیں چونکہ یہ اقدام اسلئے بھی ضروری ہے ،جب بھی ہم کسی سائنسدان کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن کے پردے پر ایک خشک مزاج , غیر سماجی , عجیب وغریب مخلوق کی شبیہ ابھرتی ہے جسکو نہ ہی اپنے خاندان سے اور نہ ہی دنیا سے کوئی سروکار ہے جو دن رات صرف اپنی تجربہ گاہ میں اپنی دریافتوں و ایجادات میں مصروف رہتا ہے ظاہر ہے اسطرح سے بچوں میں اس مضمون کے تئیں ایک ڈر خوف پیدا ہوتا ہے ۔جب ہم انہیں سائنسی فلمیں اور سائنسدانوں کی زندگی پر ان کی ایجادات پر مبنی فلمیں دکھائیں گے تو وہ سمجھ جائیں گے کہ سائنسداں تو دراصل نہایت ہی دلچسپ اور انقلابی خیالات کے حامل شخصیات ہوتے ہیں جو اونچے خواب دیکھتے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیریں حاصل کرنے کا عزم رکھتے ہیں ،مزاحیہ حس و خوشگوار ذہن رکھتے ہیں اسی طرح سائنس کے تیئں دلچسپی بڑھے گی۔

عظیم تاریخی سائنسدان!

اساتذہ کو چاہئیے کہ وہ روزمرہ کے سامان کا استعمال کر چھوٹے چھوٹے دلچسپ سائنسی تجربات انجام دیں. آپ مشاہدہ کریں گے کہ اسطرح کی سرگرمیاں وہ پوری دلچسپی و جوش و خروش سے انجام دیں گے جب وہ اساتذہ کی رہنمائی میں کچھ سائنسی آلات یا چیزیں اپنے ہاتھوں سے تیار کرتے ہیں تو خود کو بااختیار، محسوس کرتے ہیں اس ضمن میں …میں سائنسی تحقیقی طریقہءکار کی حمایت کروں گی جو سائنس کے بنیادی تصورات کو آسان بنا کرانہیں عملی زندگی سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ سائنس ہماری زندگی کا اک اٹوٹ حصہ ہے اس سے ہمارا گہرا رشتہ ہے  چونکہ اس طریقہءکار میں بچہ  کسی سائنسدان کی طرح تحقیقی طریقہ استعمال کر اپنا مفروضہ اخذ کرتا ہے اسطرح وہ ننھا سائنسداں ہی کہلائیگا. اسی لئے شاید ماہر تعلیم طارق رمضان لکھتے ہیں کہ

” تعلیم دراصل فرد کے اندر موجود شخصیت کو نکھارنا اور اسے خود کے خول سے باہر نکال کر اپنے آپ سے ‘ اور اسکے اطراف موجود طبعی اور سماجی ماحول سے رشتہ استوار کرنے کا نام ہے”

بچے کے لئے تو یہ پوری دنیا ہی نئی ہے اسے تو پوری طرح سے اک نئی دنیا کی دریافت کرنی ہے، ضرورت ہے تو بس اس بات کی کہ ان کی صلاحیتوں کو پرکھا جائے، ان میں چھپے موتی کو نکھارا جائے۔

انہیں آسان آلات کے استعمال سے تجربات کے ذریعہ دلچسپی بڑھائیں . امریکی ماہر معاشیات رچرڈ گریگس لکھتے ہیں کہ ” سائنس کی عظیم شخصیات نے اپنا کام انتہائی آسان آلات کے ساتھ کیا ہے لہذٰا ان کے نقش قدم پر چلنا اور بغیر کسی مہنگے اور وسیع تر آلات کے سائنسی سمجھ بنانا عین ممکن ہےآخر کار طالب علم کا ذہن مطلوبہ آلات میں سب سے مہنگا اوزار ہے” جب ہم مانتے ہیں کہ ان کے اذہان قیمتی اوزار ہیں تو کیوں نہ ان کی فطری صلاحییتوں کو نکھارا جائے،جب بھی بچہ کوئی نیا تجربہ انجام دیتا ہے اسکے چہرے پر ہمیں بے انتہا خوشی دیکھنے کو ملتی ہے۔ سائنس کو اسطرح پیش کیا جائے، جو اس کو پراسرار نہ لگے بلکہ جسے ثابت کیا جا سکے ، دیکھا، چھوا ،سونگھا اورمحسوس کیا جاسکےاور تجرباتی عمل سے انجام دیا جا سکے ۔ یاد رکھیں سائنس علم کا ذخیرہ ہونے سے کہیں زیادہ سوچنے کا ایک طریقہ ہے۔

آسانی سے موجود چیزوں کے استعمال سے سائنس سیکھائیں!

آخر میں اک نہایت ہی اہم نکتہ کی جانب میں آپکی توجہ مبذول کرانا چاہوں گی ۔ اچھا!!! آپ ہی بتائیں ہم خواب کس زبان میں دیکھتے ہیں یقینًا اپنی مادری زبان میں ، اسی لئے بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں ہونی چاہئے تاکہ اسکی تصورات و تخیلات کو جلا بخشا جا سکے۔

 ” سائنس کی عظیم شخصیات نے اپنا کام انتہائی آسان آلات کے ساتھ کیا ہے لہذٰا ان کے نقش قدم پر چلنا اور بغیر کسی مہنگے اور وسیع تر آلات کے سائنسی سمجھ بنانا عین ممکن ہے آخر کار طالب علم کا ذہن مطلوبہ آلات میں سب سے مہنگا اوزار ہے”

سائنسداں ادیب و شاعر ڈاکٹر قاضی سراج اظہر لکھتے ہیں کہ ” آپ دوسرے کی زبان پڑھ تو سکتے ہیں لیکن کچھ تخلیق نہیں کر سکتے پر ہاں! ایک مرتبہ جب بچہ مادری زبان پر عبور حاصل کر لیتا ہے تو اسکو دوسری زبانوں پر بھی اچھی دسترس حاصل ہو جاتی ہے تعلیم کے حتمی نتیجہ میں ایک ایسا آزاد اور تخلیقی صلاحیتوں کا حامل فرد تیار ہو جو اپنے مادر وطن میں مادری زبان کا علم بردار ہو ‘ جو آزادی سے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر سکے اور اپنے اظہار خیال سے سائنس اور ٹکنالوجی کی مدد سے عالمی مشکلات اور مسائل کا حل نکال سکے۔ غربت ، لاچاری ، اور بیماری جیسی آفتوں کا چارہ گر ثابت ہو سکے۔

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے