کہانی سنانے کا ہنر۔قسط دوم

اب تک یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ بچوں کے لیے اچھی کہانی سننے کا اخلاقیات یا اخلاقی تعلیم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ گہرائی سے دیکھیں تو خرگوش اور شیر کی کہانی میں  متاثر کن پہلو یہ ہے کہ، یہ  کہانی خطرے کے وقت حاضر دماغ رہنے کے فوائد کو ضرور ظاہر کرتی ہے۔کہانی سے یہ بھی سیکھ ملتی ہے کہ عقل اور تخیل کا استعمال کتنا اہم ہے، لیکن ان چیزوں کو روایتی معنوں میں اخلاقی تعلیم نہیں کہا جا سکتا۔حقیقت میں عظیم روایتی کہانیاں شاذ و نادر ہی روایتی طور پر اخلاق سکھاتی ہیں۔ہمارے لیے  زیادہ اہم بات یہ ہے کہ  کہانی سنانے کا مقصد بچے کی اخلاقی نشوونما نہیں ہے۔کہانی سنانے کے فوائد بہت مختلف ہیں اور وہ درج ذیل ہیں۔

یہ بات بالکل بھی چونکانے والی نہیں ہونی چاہئے کہ سننا صرف ایک ہنر نہیں ہے بلکہ ایک طرز عمل ہے، جیسے سیکھنے کے آج کل مینیجمٹ اور امور انتظامی کے ایڈوانس کورسز چلائے جا رہے ہیں۔  کہانی سنانے سے ہماری زندگی کے ایک اہم وقت میں تحمل سے سننے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، جب کہ سننے کی عادت اور رویے زندگی بھر کے معمول بن سکتے ہیں۔

کہانیاں اچھی طرح سننے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں: اچھا سننے والا وہ ہے جو آخر تک سنتا ہے۔ہم سب کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے، لیکن عام بحث کے دوران بھی لوگ مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ یہ ان کی شیخی بگھارنے کی عادت کی وجہ سے ہے کہ وہ پہلے سے جانتے ہیں کہ بولنے والا کیا کہے گا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں سننے کا مادہ نہیں ہے۔ یہ بات بالکل بھی چونکانے والی نہیں ہونی چاہئے کہ سننا صرف ایک ہنر نہیں ہے بلکہ ایک طرز عمل ہے، جیسے سیکھنے کے آج کل مینیجمٹ اور امور انتظامی کے ایڈوانس کورسز چلائے جا رہے ہیں۔  کہانی سنانے سے ہماری زندگی کے ایک اہم وقت میں تحمل سے سننے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، جب کہ سننے کی عادت اور رویے زندگی بھر کے معمول بن سکتے ہیں۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں داستان گوئی کا قدیم اور مضبوط کلچر موجود ہے، اچھے سننے والے نایاب ہو گئے ہیں ۔میرا اندازہ یہ ہے کہ اس صورت حال کا تعلق بچپن میں اسٹوری ٹیلنگ کے تئیں برتی گئی کوتاہی سے ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس نئے ہندوستان میں بچوں کو باقاعدگی سے کہانیاں سنانے کے لیے وقت نہیں ہے۔اس کوتاہی کے نتائج اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔

اسٹوری ٹیلنگ سے پیشین گوئی کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے:بچے اپنی پسند کی کہانیاں بار بار سننا چاہتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار جب وہ کہانی سے متعارف ہو جاتے ہیں تو وہ اس شناسائی “کو استعمال” میں لاتے ہوئے توجہ سے سننے کی اپنی بڑھتی ہوئی صلاحیت کو جانچتے ہیں۔یہ فطری   امر ہے کہ یہ جانچ پرکھ لاشعوری ہوتی ہے۔بچے خوش ہوتے ہیں کہ جب وہ اسے دوسری یا تیسری بار سنیں گے تو صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کہانی میں آگے کیا ہوگا ۔پیشین گوئی کے درست ثابت ہونے کی خوشی وہ انعام ہے جو ایک تجربہ کار سامعین کو کہانی سن کر ملتا ہے،اور یہ صرف خوشی نہیں ہے، بلکہ اس سے کہانی سننے والے بچے کی پیشین گوئی کرنے کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوتا ہے،  ساتھ ہی ان کا اعتماد بھی بڑھتا ہے۔خاص طور پر پڑھنے کی صلاحیت کی نشوونما میں اس عقیدے کا ہمہ گیر ترقی میں گہرا کردار ہے۔ یہ قابلیت  اسکول کے پہلے دو درجات میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔میں نے اپنی کتاب The Child’s Language and the Teacherمیں خواندگی کی نشوونما اور سیکھنے کی صلاحیت میں پیشین گوئی کرنے کی صلاحیت کی اثر انگیزی پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

 پیشن گوئی کرنے کی صلاحیت دیگر مضامین، خاص طور پر ریاضی اور سائنس کے مطالعہ میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ریاضی کے مطالعہ میں مسائل کو حل کرنے کے لیے قواعد کا استعمال نظریاتی اہمیت رکھتا ہے۔ کہانیوں میں بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہ قواعد استعاروں کی صورت میں ہیں۔مثال کے طور پربہت سی کہانیاں اس اصول کی پیروی کرتی ہیں کہ چھوٹی مخلوقات بڑی عمر والوں کو دھوکہ دے کر فتح حاصل کرتی ہیں۔خرگوش اور شیر کی کہانی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔جیسے جیسے بچے کہانیاں سنتے ہیں، وہ اپنے اندر کے اصولوں کو پکڑ لیتے ہیں اور یہ گرفت ان کی پیشین گوئی کرنے کی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے۔

کہانیاں ان معنوں میں وسیع ہیں کہ ان کے ذریعے ہمیں ایسے لوگوں اور حالات سے واقفیت ہوتی ہے جن کا ہم نے اپنی زندگی میں کبھی سامنا نہیں کیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں یا حالات کو جاننے کا کیا فائدہ؟ فائدہ یہ ہے کہ وہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔

کہانیاں ہماری دنیا کو وسعت دیتی ہیں: میں اس دنیا کے بارے میں بات کر رہا ہوں جو ہمارے ذہن و دماغ میں بستی ہے۔کہانیاں ان معنوں میں وسیع ہیں کہ ان کے ذریعے ہمیں ایسے لوگوں اور حالات سے واقفیت ہوتی ہے جن کا ہم نے اپنی زندگی میں کبھی سامنا نہیں کیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں یا حالات کو جاننے کا کیا فائدہ؟ فائدہ یہ ہے کہ وہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔اگرچہ ہم انہیں ذاتی طور پر نہ جانتے ہوں، لیکن وہ ہمیں ذہنی طور پر پریشان کرتے ہیں، خاص طور پر بچپن میں، لیکن عام طور پر یہ پریشانی زندگی بھر رہتی ہے۔

کہانیاں سن کر ایک چھوٹا بچہ جو ابھی پڑھا لکھا نہیں ہے، اپنی حقیقی دنیا سے بہت بڑی  تصوراتی دنیا کا تجربہ کرتا ہے۔ایک بات اور بھی ہے کہ کہانیوں سے جو تجربہ ہوتا ہے وہ بے ربط نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر، چھوٹے بچے برے لوگوں کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں، حالانکہ ان کے ارد گرد کوئی برا آدمی نا بھی ہو۔ اسی طرح، وہ قوی امید رکھتے ہیں کہ انہیں کسی بہت ہوشیار، خوبصورت یا اچھے انسان سے ملنے کا موقع ملے گا۔مثالی شکل کا تصور اور سنگین آفت کا خوف، دونوں ہی بچوں کی نفسیات میں شامل ہیں۔روایتی کہانیاں اسی ذہنیت کا اظہار کرتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ بچوں کو آسانی سے پسند آتی ہیں۔کہانیاں سن کر ایک چھوٹا بچہ جو ابھی پڑھا لکھا نہیں ہے، اپنی حقیقی دنیا سے بہت بڑی  تصوراتی دنیا کا تجربہ کرتا ہے۔ایک بات اور بھی ہے کہ کہانیوں سے جو تجربہ ہوتا ہے وہ بے ربط نہیں ہوتا۔اس کے برعکس، یہ تجربہ ہماری افراط وتفریط والی دنیا کو ایک تسلی بخش ربط یا ساخت میں ڈھال دیتا ہے۔وسیع معنوں میں یہ ایک اخلاقی ساخت ہے  لیکن عام معنوں میں کچھ بھی نہیں۔ کمزوراکثر غلط ذرائع استعمال کرکے جیت جاتے ہیں ۔ اس کی ایک بڑی مثال خرگوش کا بھوکے شیر سے جھوٹ بولنا ہے۔

کہانیاں سننا اور پڑھنا

بالآخر ، ہم بچے کے لسانی ذرائع کی توسیع میں اسٹوری ٹیلنگ کی اہمیت کو دیکھ سکتے ہیں۔الفاظ ذاتی اثاثہ ہیں۔وہ ہمیں یہ صلاحیت دیتے ہیں کہ ہم دنیا کی چیزوں کو  ذاتی شعور کی بنیاد پر مختلف نام دے سکتے ہیں۔لیکن دوسری طرف یہی الفاظ  ایک سماجی اثاثہ بھی ہیں جو ہم اپنے تجربات کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔الفاظ کی یہی دو طرفہ خصوصیت ہے جو انہیں معنی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک بچہ ذاتی تجربے سے جانتا ہے کہ شیر کو بھوک کے وقت کیسا محسوس کرنا چاہیے۔کہانی بچے کو لفظ ’بھوک‘ کے معنی کو اس طرح وسعت دینے میں مددگار ہوتی ہےکہ اس میں شیر بھی شامل ہو جائے۔بچے جتنی زیادہ کہانیاں سنیں گے، اتنا ہی ان کا ذخیرہ الفاظ دوسروں کے تجربات کے معنی کو شامل کرنے کے قابل ہو گا۔ اس طرح دیکھا جائے تو بچپن میں سنی ہوئی کہانیاں بعد میں پڑھنے کی صلاحیت کی بنیاد بن جاتی ہیں۔

درحقیقت کہانی کے تناظر میں مذکورہ بالا چاروں باتوں کا اطلاق پڑھنے پر بھی ہوتا ہے۔پڑھنے کی صلاحیت بچوں کو زبان کے مقرر کردہ اصولوں اور ڈھانچوں سے متعارف کرواتی ہے۔اچھی طرح سے پڑھنے کی صلاحیت ذہین اندازے لگانے کی عادت پر منحصر ہے۔ زبان کے اصولوں سے واقف ہو کر بچے کسی جملے یا بیان میں اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔اس نقطہ نظر سے کہانی سنانا بچوں کو خواندہ بنانے کے لیے مفید ہے۔

(جاری )

پہلی قسط کے لئے لنک پر کلک کریں۔

 

تیسری قسط کے لئے لنک پرکلک کریں۔

 

مصنف :  پروفیسر کرشنا کمار  اصل مضمون : ( The Skill of Storytelling)

مترجم : ابوالفیض اعظمیؔ

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے