کہانی سنانے کا ہنر۔ آخری قسط

کہانی سنانے کے فن میں مہارت کے خواہاں شخص کو یادداشت کے سلسلے میں سنجیدگی سے کام لینا چاہیے۔ اگر راوی کو کہانی ٹھیک طرح سے یاد نہ ہو تو وہ ایک اچھی بھلی کہانی کو بھی برباد کر سکتا ہے۔ یادداشت اعتماد پیدا کرتی ہے اور کہانی سنانے والے کو پرسکون رکھتی ہے۔ کہانی سننے والوں کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کے لیے سہولت اور سکون بہت ضروری ہے۔ مزید یہ کہ جب تک کہانی اچھی طرح یاد ہے، راوی اسے بلیو پرنٹ یا خالی نقشے کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

 یہ نقشہ آپ کی سہولت یا سننے والوں کے مزاج کے مطابق بھرا جا سکتا ہے۔ کہانی کو مختصر یا طویل کرنا بہت ضروری ہے۔ کسی دن آپ جلدی سے اس مقام پر پہنچنا چاہیں گے جہاں شیر کے سامنے خرگوش کھڑا ہے۔ کسی اور دن آپ کہانی کے پہلے حصے کو بڑھانا چاہیں گے، کھانے کے انتظار کے دوران شیر کے ذہن میں آنے والے خیالات، اور شیر کی ماند کی طرف جاتے ہوئے خرگوش کے ذہن میں ابھرنے والے خیالات اور حکمت عملیوں پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

 کہانی کے بارے میں بچوں سے بات چیت کے ذریعہ مختلف اختیارات پیش کیے جاسکتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو ڈرامائی انداز میں دو آوازوں میں بات کریں، اشاروں یا کن انکھیوں کا بھی استعمال کریں۔ آپ مکالمے کو زندہ کرنے کے لیے ہاتھ کی انگلیاں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چل کر دونوں کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ تمام امکانات دلچسپ ہیں اور وہ ہمیں چیلنج کرتے ہیں کہ ہم سال بہ سال  یا سال میں کئی بارایک ہی کہانی سنانے کے لیے اپنی صلاحیت کو استوار کریں۔

 کہانی کے بارے میں بچوں سے بات چیت کے ذریعہ مختلف اختیارات پیش کیے جاسکتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو ڈرامائی انداز میں دو آوازوں میں بات کریں، اشاروں یا کن انکھیوں کا بھی استعمال کریں۔ آپ مکالمے کو زندہ کرنے کے لیے ہاتھ کی انگلیاں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چل کر دونوں کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ تمام امکانات دلچسپ ہیں اور وہ ہمیں چیلنج کرتے ہیں کہ ہم سال بہ سال  یا سال میں کئی بارایک ہی کہانی سنانے کے لیے اپنی صلاحیت کو استوار کریں۔

 ایک استاد کی روزمرہ کی زندگی میں اگرکہانی سنانے کو شامل کیا جائے تو وہ کبھی بورنگ نہیں ہوتی۔ لیکن کہانی سنانے کو روزمرہ کا واقعہ بنانے کے لیے ہمیں پرائمری اسکول کے نصاب کے بارے میں اپنے تاثرات کو سنجیدگی سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

 ایک استاد کی روزمرہ کی زندگی میں اگرکہانی سنانے کو شامل کیا جائے تو وہ کبھی بورنگ نہیں ہوتی۔ لیکن کہانی سنانے کو روزمرہ کا واقعہ بنانے کے لیے ہمیں پرائمری اسکول کے نصاب کے بارے میں اپنے تاثرات کو سنجیدگی سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

 کہانی : خرگوش کو ذہین کیسے کہا جانے لگا؟

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے ایک دن جنگل کا بادشاہ شیر روزانہ شکار کی تلاش کرتے کرتے تھک گیا۔ اس نے سوچا، چونکہ تمام جانور بلا شبہ اسے اپنا بادشاہ مانتے ہیں، اس لیے وہ شکار کے پیچھے بھاگنے کے بجائے جانوروں کو حکم دے گا کہ ان میں سے ایک ہر روز اپنی بھوک مٹانے آئے۔ اس نے جنگل کے جانوروں کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میری رعایا، مجھے اپنے کھانے کے لیے روزانہ شکار کرنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے پورا جنگل مجھ سے ڈرتا ہے۔ میں روزانہ صرف ایک جانور کو مار کر کھاتا ہوں لیکن تم سب ڈرتے ہو۔ اب ہم ایک منطقی بندوبست کرتے ہیں۔ ہر صبح ایک جانور مجھے کھانے کے لیے اپنے آپ کو پیش کرے۔ اس کے لیے تم سب  آپس میں فیصلہ کر سکتے ہو کہ وہ کون سا جانور ہو گا۔ اس طرح میں شکار کی مصیبت سے بچ جاؤں گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ آپ سب جنگل میں بے خوف گھوم سکیں گے۔ جانوروں نے آپس میں بحث کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ طریقہ سب کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ انہوں نے یہ طے کیا کہ روزانہ شام کو قرعہ اندازی کی جائے گی۔ جس کا نام پرچی پر لکھا ہوگا وہ اگلے دن شیر کی خوراک بن جائے گا۔ اس نئی اسکیم کو فوری طور پر نافذ کیا گیا:  ہر شام  ایک پرچی نکالی جاتی اور اگلی صبح ایک غریب جانور شیر کے ناشتے کے لیے پیش  ہوتا ۔ بلاشبہ چنے ہوئے جانور کے لیے یہ بہت بری چیز تھی لیکن اس کی وجہ سے کم از کم باقی تمام جانوروں کو گھومتے ہوئے شیر کے گھات لگائے جانے کا خوف نہیں تھا اور وہ جنگل میں آزادی سے رہ سکتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ منصوبہ اچھا کام کر رہا ہے۔

 ایک شام جب خرگوش کے نام کی پرچی نکلی تو اس نے اعلان کیا کہ اس کا شیر کی خوراک بننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ 

اس پر لومڑی نے کہا کہ شیر اپنا وعدہ پورا کر رہا ہے اور اب ہم باہر بے خوف گھوم سکتے ہیں۔

 بندر نے کہا، “خرگوش! اگر تم نہیں گئے تو تم ہم سب کو خطرے میں ڈال دو گے۔ 

“میں اس وحشی درندے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دوں گا،” خرگوش نے ایک غیر محسوس  اعتماد کے ساتھ کہا ۔ ’’دیکھو، ایک دن تم سب میرا شکریہ ادا کرو گے۔‘‘

جنگلی مرغ نے کہا، ’’اگر ہمیں معلوم ہوا کہ شیر نے دوبارہ شکار شروع کر دیا ہے تو ہم آپ کا شکریہ ادا نہیں کریں گے۔

‘‘خرگوش نے کہا یہ سب مجھ پر چھوڑ دو اور آرام سے لیٹ گیا۔ لیکن خرگوش کو نیند نہیں آئی۔ وہ گھنٹوں لیٹا یہ سوچتا رہا کہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی مدد اور جنگل کو برے شیر سے نجات دلانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔

 صبح تک اس نے ایک حل نکال ہی لیا ۔ جب وہ سب کچھ سوچ چکا تھا اور مطمئن تھا کہ اس کا منصوبہ کام کرے گا تو اس نے خود کو تازہ دم کرنے کے لیے ایک جھپکی لی۔ سورج پوری طرح سے طلوع ہو  جانے کے  بعد وہ شیر کی ماند تک پہنچا۔ شیر بے صبری سے اس کا انتظار کر رہا تھا اور زور زور سے آوازیں نکال رہا تھا۔ وہ غصے میں تھا، کیونکہ ایک تو خرگوش کا دیر سے آنا بے عزتی کی علامت تھا، اور دوسرا وہ بھوکا بھی تھا۔ خرگوش کے آگے بڑھتے ہی شیر نے دھاڑتے ہوئے کہا کیا تم میرا ناشتہ ہو؟

“جی ، میرے آقا،” خرگوش نے احترام سے جواب دیا۔

 ’’تو پھر دیر سے کیوں آئے؟‘‘ شیر نے غصے سے پوچھا۔

“خرگوش نے کہا۔ میں آپ کو بتاؤں گا، میرے آقا! جب میں صبح سویرے یہاں آ رہا تھا تو مجھے ایک دوسرے شیر نے روک لیا ۔ اس نے کہا کہ میں کہیں نہیں جا سکتا کیونکہ وہ میرا ناشتہ کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اس سے التجا کی کہ میں نہیں رک سکتا، مجھے جنگل کے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچنا ہے۔ اس پر وہ بہت ناراض ہوا اور کہنے لگا کہ  دراصل جنگل کا بادشاہ وہ ہے ۔  پھر اس نے گرجتے ہوئے کہا، جاؤ اوراس شیر سے کہہ دو جس نے میرے اقتدار میں دراندازی کی ہے کہ میں ابھی موجود ہوں ، اور میں آکر اسے  مار ڈالوں گا۔ باقی تمام جانوروں کو بھی بتا دو کہ جنگل کا اصلی بادشاہ آ گیا ہے اور اس جھوٹے شیرکو  نکال باہر کردے گا۔ اسی لیے میرے آقا!اس سے پہلے کہ آپ مجھے اپنا ناشتہ بنائیں، میں آپ کو خبردار کررہا ہوں کیونکہ آپ کی زندگی بہت بڑے خطرے میں ہے۔

 اپنی بھوک اور اس بے عزتی سے غصے میں آکر شیر دھاڑ کر بولا، “جھوٹا کہیں کا! بالکل جھوٹا ہے وہ ۔  مجھے ابھی اس کے پاس لے چلو، میں اسے بتاوں گا کہ جنگل کا اصلی بادشاہ کون ہے۔”

 خرگوش کے  پیچھے پیچھے شیر نے  بھی  چلنا شروع کیا.  خرگوش نے سرگوشی کے انداز میں کہا اب آپ ذرا احتیاط سے چلیں، ہم اس باغی ڈاکو کے غار تک پہنچنے ہی والے ہیں۔

 در حقیقت خرگوش شیر کو ایک گہرے کنویں کی جانب لے جا رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے شیرسے ٹھہرنے کو کہا اور  خود آہستہ آہستہ کنویں کے قریب جا پہنچا۔ پھر وہ کنویں کی منڈیر سے نیچے کے پانی کو غور سے دیکھنے لگا۔ جب اسے اپنے ننھے سے چہرے کا واضح عکس  نظر آیا تو اس نے شیر کو آواز دی اور کہا کہ نیچے دیکھو یہ وہی ہے جو تمہاری حکومت چھیننا چاہتا ہے۔

 شیر بڑبڑاتا اور غصے سے چلاتا ہوا کنویں کی دیوار کے کنارے پہنچ گیا۔ جب اس نے نیچے کی جانب  نظر ڈالی تو اسے ایک شیر کا غصے سے آگ بگولہ چہرہ اسکی جانب گھورتا ہوا نظر آیا ۔ اس نے دشمن پر چھلانگ لگائی، تھوڑی دیر تک چھٹپٹاتا رہا اور پھر ڈوب گیا۔

 خرگوش تیزی سے دوسرے جانوروں کے پاس واپس آیا اور اعلان کیا کہ اس نے شیر کو مار ڈالا ہے اور ان کے خوف کے دن ختم ہو گئے ہیں۔ پھر اس نے سب کو اپنے کارناموں کی کہانی سنائی اور یہ بھی بتایا کہ اس نے یہ سارا معاملہ کیسے انجام دیا۔ تمام جانوروں نے اس کی ہوشیاری کی تعریف کی۔

 اس دن کے بعد سے، جنگل کے جانور ہمیشہ خرگوش کے پاس مشورے کے لیے جاتے اور اس سے اپنے مسائل حل کرنے اور تنازعات طے کرنے کی درخواست کرتے۔ اس طرح وہ ‘عقل مند خرگوش’ کے نام سے مشہور  ہو گیا ۔

پہلی قسط کے لئے لنک پر کلک کریں۔

دوسری قسط کے لئے لنک پر کلک کریں۔

 

مصنف :  پروفیسر کرشنا کمار  اصل مضمون : ( The Skill of Storytelling)

مترجم : ابوالفیض اعظمیؔ

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے