بطور استاذ میرا یہ ماننا ہے کہ بچے اس مضمون کو زیادہ وقت تک یاد رکھتے ہیں جو روایتی طریقے سے پڑھانے کے بجائے کہانیوں کے ذریعہ سکھایا جاتا ہے۔ قصہ گوئی کی مہارت ، زبان کے معاملے میں خاص طور پر، بچوں کو اتنے مؤثر طریقے سے جوڑے رکھتی ہےکہ وہ لمبے وقت تک تصورات یا کرداروں کو یاد رکھتے ہیں۔
اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنی تدریسی منصوبہ بندی کرنے سے پہلے طلبہ سے کہانی سنانے کے بارے میں کچھ بات کروں اور ان کے خیالات بھی جان لوں۔ اگراساتذہ کلاس کی سرگرمیوں کوڈیزائن کرنے کے سلسلے میں بچوں سے صلاح لے لیں تو اس سے اساتذہ کو بچوں کی ضروریات اور دل چسپیوں کے مطابق منصوبہ بنانے اور کلاس کے کاموں میں ان کی حصہ داری بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
ہمیں کہانی کے ذریعہ نئے الفاظ اور جملوں کی ساخت کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ ہم سوال بنانا بھی سیکھتے ہیں۔ پڑھنا ، لکھنا اور الفاظ کا ہجے کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ کہانی بہت مزے دار ہوتی ہے۔ ہم نئے الفاظ کا درست تلفظ سیکھتے ہیں۔
اس لئے میں نے بچوں سے پوچھا کہ وہ قصہ گوئی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ انہوں نے میرے ساتھ کہانی کےبارے میں اپنی باتیں اس طرح رکھیں:
ہمیں کہانی کے ذریعہ نئے الفاظ اور جملوں کی ساخت کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ ہم سوال بنانا بھی سیکھتے ہیں۔ پڑھنا ، لکھنا اور الفاظ کا ہجے کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ کہانی بہت مزے دار ہوتی ہے۔ ہم نئے الفاظ کا درست تلفظ سیکھتے ہیں۔کہانی کے سلسلے میں بچوں کے خیالات جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی ۔ بچے ہماری طرح سوچتے ہیں ، لیکن ہم بالغ لوگ کبھی کبھی کلاس سرگرمیوں پر انہیں اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع نہیں دیتے ہیں۔
جب اساتذہ بچوں کے ساتھ گفتگو کرتے اور منصوبہ بندی کرتے ہیں، تو ہم ان سرگرمیوں کے دوران ان کی دل چسپی اور لگاؤ دیکھ سکتے ہیں جن کے لیے انہوں نے اپنی رائے دی تھی۔ اسکی ایک مثال یہاں پیش ہے:
استاذ : جو کہانی ہم آج یا کل پڑھنے والے ہیں ان کے بارے میں آپ نے جو رائے دی تھی ، کیا ان سب پر ہمیں توجہ دینی چاہیے؟
بچے : نہیں ! ہم تین طرح کی آرا پر توجہ مرکوز کریں گے۔
استاذ : تو ہمیں کن باتوں پر دھیان دینا چاہیے۔
بچے : ہم کہانی سے نئے الفاظ چھانٹ کر لکھیں گے۔ لغت میں ان کے معانی دیکھیں گے اور نئے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کچھ جملے بنائیں گے۔
استاذ : بہتر ہے۔ ہمیں اور کیا کرنا چاہیے؟
بچے : ہم پڑھنے اور لکھنے کی مشق کریں گے۔
استاذ : تو چلیں پہلے کہانی کا انتخاب کرلیں۔
کہانی سنانے کے لیے کہانی کے انتخاب کے لئے میں نے انہیں کچھ کتابیں دیں۔ انہوں نے ” ایلیس ان دی ونڈرلینڈ ” کا انتخاب کیا ۔
میں کہانی سنانے لگی ۔ سبھی بچے دھیان سے سن رہے تھے ، وہ کہانی کی تصاویر کی تعریف کررہے تھے کیوں کہ میں انہیں کہانی سناتے سناتے تصویریں بھی دکھا رہی تھی ۔ کہانی پڑھتے وقت کچھ بچے میری آواز میں ہونے والے اتار چھڑاؤ کو بغور سن رہے تھے۔ کہانی سے دو اقتباس پڑھنے کے بعد میں نے ان سے کچھ سوال پوچھے، جیسے – مجھے ، کہانی کے کچھ الفاظ بتاؤ۔ اب تک کہانی میں کون کون سے اہم کردار آئے ہیں؟ کہانی میں کس کے بارے میں بات کی جارہی ہے؟
کہانی میں سنے ہوئے چند الفاظ کی فہرست تیار کرنے کے بعد بچوں نے کہا کہ ان دو پیراگرافوں میں اہم کردار ایک چھوٹی لڑکی اور ایک سفید خرگوش تھا۔ کہانی ایک چھوٹی لڑکی کے بارے میں تھی جو ایک خرگوش کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ ہم بیچ بیچ میں کہانی کی تصوراتی دنیا میں آنے والی مختلف چیزوں اور کرداروں کے بارے میں بھی بات کررہے تھے۔ کہانی ختم ہونے کے بعد ہم نے ان مختلف الفاظ کے بارے میں بات کی جو انہوں نے پہلی بارے سنے تھے، انہیں لغت میں دیکھا اور ان الفاظ کے ساتھ جملے بنائے ۔ اس دن کی کلاس طلبا کے ساتھ انوکھے تجربے کے ساتھ ختم ہوئی۔
اگلے دن میں نے طلبا کو دو گروپس میں تقسیم کیا تاکہ وہ مل جل کر سیکھ سکیں۔ یہ بچوں کے پڑھنے کا دن تھا اور کچھ بچے چند الفاظ کے صحیح تلفظ کے بارے میں دریافت کر رہے تھے۔
اگلے دن کی شروعات ہم نے ایلیس ان دی ونڈرلینڈ کہانی پر بنے ایک ویڈو دیکھنے کے ساتھ کی۔ بچے لائبریری کے کمرے میں خاموش بیٹھے تھے جہاں میں نے ان کے لئے فلم بینی کا انتظام کیا تھا ۔ ہم نے فلم دیکھنے کے بعد اس پر گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا ۔ فلم دیکھنے کے بعد کچھ بچوں نے کہا کہ انہوں نے اس سے پہلے اتنی شاندار اور تصوراتی فلم نہیں دیکھی تھی۔ وہ فلم پر گفتگو کرکے کافی خوش تھے۔ وہ فلم سے لطف اندوز ہوئے اور ہم نے فلم اور کتاب کے درمیان فرق پر گفتگو کی۔ اگلے دن میں نے طلباء سے کہا کہ وہ ایلس اور سفید خرگوش کے بارے میں خود سے کہانی لکھیں ۔ میں بچوں کے ذریعہ لکھی گئی کچھ کہانیاں اور مختلف سوالات ساجھا کروں گی گی۔
آخرمیں میں نے کہانی سے متعلق چھ جملے لئے اور ان کی ترتیب بدل دی ، پھر میں نے بچوں سے کہا کہ وہ انہیں درست ترتیب میں لکھیں۔ طلبہ کی اکثریت نےکہانی کے جملوں کو درست ترتیب میں لکھا ۔ ہم نے کچھ اور سرگرمیاں انجام دیں، جیسے الفاظ اور ان کے حروف کی ترتیب بدلنا۔ خالی جگہ کو پر کرنا وغیرہ ۔ یہ ساری سرگرمیاں بچوں کے ذریعہ تیار کی گئیں تھیں ۔
کہانی سنانے کی یہ سرگرمی بہت مفید رہی کیوں کہ طلباء کے ذہن میں ان مختلف سرگرمیوں کے ذریعہ زبان سیکھنے کی دل چسپی پیدا ہوئی جس میں وہ منصوبہ بندی کے مرحلے سے ہی فعال طور پر شامل تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کچھ حکمت عملی کو تبدیل کرنے سے استاذ کے ساتھ ساتھ طلباء کو بھی سیکھنے میں مدد ملتی ہے۔
اصل مضمون: (कहानी के माध्यम से बच्चों को जोड़ना)
بہ شکریہ : Learning Curve,( Magazine,Azim Premji University) January 2021
مصنّف : محترمہ امرتا مسیح:
آپ عظیم پریم جی اسکو ل ۔چھتیس گڑھ میں ایک ٹیچرہیں ۔ آپ نے حیاتیات ،تعلیم اور کیمسٹری سے ایم۔ اے کے علاوہ حال ہی میں ڈی ایل ایڈ بھی کیا ہے۔ آپ نے اپنے تدریسی کیریئر کی شروعات ذاتی اسکول سے انگریزی اور سائنس پڑھا کر کی ۔آپ کو بچوں سے ساتھ کام کرنا بہت پسند ہے۔
[email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مترجم : ابوالفیض اعظمیؔ