فن تعلیم و تربیت – افضل حسین – باب چہارم – تعلیم کا مقصد

اس سلسلے کا پچھلا مضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

تعلیم کےمفہوم کی طرح تعلیم کے مدعا میں بھی شدید اختلاف پایاجاتاہے۔

والدین اپنے بچوں کو عمو مَا اسی لیے تعلیم دلاتے ہیں کہ وہ پڑھ لکھ کر کمانے کھانے کے قابل ہو جائیں۔ تعلیم برائے معاش ہی ان کا بنیادی مقصد ہو تا ہے ۔ اگر چہ زبان سے اس کا اعتراف کم ہی لوگ کرتے ہیں ، بلاشُبہ کما نا انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور بہر حال اس بات کی کما حقہ، فکر ہو نی چاہیئے کہ بچّہ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔ لیکن انسانیت کا تقاضا صرف یہی تو  نہیں ہےتنہااسی کو تعلیم کا بنیادی مقصد قراردے دینے سے بچّہ معاشی حیوان تو ضروربن جائے گا انسان  ہر گز  نہیں بن سکتا۔اور مسلمان کے نزدیک تو جان سے بھی زیادہ ایمان عزیز ہو تا ہے ایسی صورت میں معاش ہی کو مقصود ز ندگی ٹھیراکر تعلیم و تر بیت  کے نظام کو اس کے گردگھما نا دراصل بچّے پر احسان نہیں صر یح ظلم ہے۔

اسی طرح بیشتراساتذہ بھی تعلیم کا مقصود زبا ن سے خواہ کچھ بیان کریں مگر عملاـ تعلیم  برا ئے علمیت ہی کے قابل نظر آتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ   طلبہ اپنی ساری توجہ لکھنے پڑھنے ، اپنی علمی لیاقت بڑ ھانے اور اچھے نمبروں سے امتحان پاس کر نے پر مرکو زرکھیں۔شخصیت کے دیگر پہلووجسمانی،عملی، اخلاقی وغیرہ ان کی نظروں سے عمو مَا اوجھل رہتے ہیں۔حالا نکہ متوازن اور کامیاب زندگی کے لیے یہ پہلو بھی اُتنی ہی نہیں بلکہ بسااوقات اس سے بھی زیادہ توجہ کے محتاج ہوتے ہیں ۔علمی لیاقت میں اضافہ بلاشبہ نہایت ضروری بھی ہے اور غیر معمولی تو جہ بھی چاہتا ہے۔لیکن شخصیت کے دوسرے پہلوؤں  کو نظرانداز یا علمیت پر قربان کر دینے کے  نتا ئج بھی بہت خطر ناک ہو تے ہیں ۔ ہماراآئےدن کا مشاہدہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور اعلیٰ علمی لیاقت رکھنے والے لوگ صحت ، اخلاق یا عمل کے اعتبار سے نا قص رہ کر اپنے اور دُوسروں کے لیے مفید ہو نےکے بجائے انتہائی  نکمے اور مضرثابت ہو تے ہیں۔

تعلیم کے متعدد اور مقاصد بھی پیش کیے جاتے ہیں جن میں خاص خاص یہ ہیں۔

۱۔ سماج کےبے نفس خادم بنانا۔

۲۔ مملکت کا اچھا شہری بنانا۔

۳۔ شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اہم آ ہنگی  کے ساتھ سنوارنا۔

۴۔ انفرادیت کی نشوونما اور خودی کی تکمیل کر نا۔

۵۔ زندگی بسر کر نے کے لیے پُورے طورسے تیار کر نا یعنی طلبہ کو اس لائق بنانا کہ وہ:۔

  • اپنی ذات کا  تحفظ کر سکیں۔
  • عام ضرور یاتِ زندگی  فر اہم کر سکیں۔
  • اولاد اور کنبے کی پرورش و نگہد اشت کر سکیں۔
  • سماجی تعلقات کو ا ستوار رکھ سکیں۔
  • فرصت کے اوقات کو اچھی طرح گزار سکیں۔
  •  ۶  ۔اخلاق اور سیر ت وکر دار کو سنوارنا۔

              ۷۔ صحت مندجسم میں صحت منددل و دماغ پر وان چڑھاناوغیرہ۔

تعلیم کے مذکورہ مقا صد کی اہمیت و ا فادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتالیکن ان میں سے ایک بھی تنہامقصد نہیں بن سکتا۔ کیونکہ ہر ایک الگ الگ نا قص ،  یک رُخ یامبہم ہے۔

تعلیم کا صحیح مقصد

  اللہ کا صالح بنده بنانا ہے۔

یعنی طلبہ کی فطری صلا حیتوں کو اُجا گرکر نا ، ان کے طبعی رُ جحانات کو صحیح رُخ پر ڈالنا اور انہیں ذ ہنی ،جسمانی، عملی،اور اخلاقی اعتبارسے بتدریج اس لائق بنانا کہ وہ اللہ کے شکر گزار بندے بن کرر ہیں ،کا ئنات میں اس کی مرضی کے مطابق صرف کریں۔ انفرادی ، عائلی اور اجتماعی حیثیت سے ان پر جو ذ مّہ داریاں ان کے خالق و مالک کی طرف سے عائد ہو تی ہیں ان سے وہ کما حقہ،عہدہ برآ ہو سکیں۔تعلیم کا یہی صحیح جامع اور بنیادی مقصد ہے ، کیو نکہ : 

اللہ نے سب کو پیداکیا  ہے وہی سب کو پالتا پو ستا اور سب کی ضرور تیں پوری کر تا ہے ۔وہی سب کا مالک معبود، حاکم اور بادشاہ ہے،اس کی سلطنت بےپایاں اور لا محدود ہے ، ہماری یہ لمبی چوڑی زمین اس کی بےپایاں مملکت کا ایک چھوٹاساحصّہ ہے۔ اللہ نے اس کو طرح طرح کی نعمتوں سے مالامال کیا ہے۔ ان نعمتوں کو ہمارے تصرف میں دےکر ہمیں یہاں آباد کیا ہے ۔ کا ئنات کی ساری چیزوں کا حقیقی مالک و ہی ہے ، ہم کو جو کچھ ملاہے اسی کی امانت ہے ،ہم اس کے بندے اور غلام ہیں ۔ اس نے  ہمیں زندگی گزارنے کا مفصَل طر یقہ بتادیا ہے۔ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کے شکر گزارہوں،اس کےبتائے ہو ئےراستے پر چلیں اور اس کی سلطنت میں اس کی مرضی پُوری کریں۔اس نے ہم پرطرح طرح کی ذ مٔہ داریاں ڈالی ہیں۔ ان ذمٔہ داریوں کو ا نجام دینے کے لیے اس نے ہمیں ایک سڈول جسم عطافر مایاہے۔جسم کے اندر مختلف قسم کی قو تیں اور صلا حیتیں ودیعت فرمائی ہیں گردوپیش طرح طرح کے وسائل وذرائع  مہیاکیے ہیں۔اس کی عطاکی ہوئی کوئی    چیز بے کار نہیں ہے۔ ہماری فلاح اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی بخشی ہو ئی   ، قوتوں ،صلاحیتوں اور سازوسامان کو اس کی مرضی کے مطابق صَرف کریں۔یعنی اس کے شکر گزار اور صالح بندےبن کر رہیں۔

ظاہر ہے یہ مقصداسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب تعلیم و تربیت میں مندرجہ ذیل باتیں ملحوظ ر ہیں۔

۱۔جسمانی صحت :۔اللّٰہ تعالی نے جو سڈول جسم عطافر مایاہے اس کی صحت و نشوونماکے لیے ضروری معلومات بہم پہنچانا۔

حفظانِ صحت اصو لوں کی پا بندی کر انا،جسمانی محنت،ورزش یا کھیل اور صفائی ستھرائی کا عادی بنانا اور احتیا طی تدابیر بتانا۔

۲۔فطری قوتوں اور صلا حیتوں کی نشوونما:۔اللّٰہ تعالیٰ نے  انسان کے اندر جو فطری قوتیں اورصلا حیتیں ودیعت فرمائی ہیں وہ سب اس کے لیےنہایت ضروری اور کارآمد میں ۔سب کو پروان پڑھا نے کی فکر کرنا ان کے مناسب استعمال کے ضمن میں مدداور ر ہنمائی کر نا ۔ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ تو دبانا اور کُچلنا اور نہ ان کو نظر اندازکرنا۔

۳۔فطری خواہشات ومیلانات کو صحیح رُخ پر ڈالنا اور پسندہ نیزمفید مشاغل میں دلچسپی  پیداکرنا۔ اسلا میات ، زبان وادب،معاشرتی علوم اور بیر ون نصاب مصروفیات وغیرہ کے ذریعے یہ کام کیاجائے تاکہ بچے اپنے فرصت کے اوقات پسندیدہ اور مفید مشاغل میں صَرف کرنے کے عادی بنیں۔

۴۔ صحیح انداز سے سو چنے اور بُرے بھلے حق وباطل میں تمیزکر نے کی کسوٹی فراہم کرنا۔تاکہ غلط ا فکار اور باطل نظر یات کا شکارنہ ہوں۔

۵۔انفرادی عا ئلی اور اجتماعی ذمّہ داریوں کا صحیح علم اور نہیں انجام دینے کی عملی تربیت کرنا ۔

۶۔ قدرت کے کارخانہ کا علم بہم پہنچانا اور اس کے پو شیدہ اور کُھلے ہوۓخزانے کا صحیح مصرف بتانا۔

۷۔ لکھناپڑھنا اور دیگر معلوت فراہم کرنا ۔

۸۔ٹھوس سیرت وکردار کا عامل بنانا۔

مستقبل کی فکرمیں لوگوں سے عمومَا ایسی چُوک ہو جاتی ہے چنانچہ بچّوں پراس کاشدیدرد عمل، ہوتاہے۔انکی شخصیت میں بغاوت یا منافقت کے جراثیم پلنے لگتے ہیں اور ان کی ذہنی وجسمانی صلاحیتیں ٹھٹھرنے لگتی ہیں اس لیے ان اعلیٰ مقاصد کو ہر وقت اپنے سامنے ضرور رکھاجا ئے۔

یہ ہیں وہ اعلی اور پاکیزہ مقاصد جو بچوں کی تعلیم و تربیت میں بڑوں کے پیش نظر  ہو نے چاہئیں لیکں اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ بچّوں کو قبل ازوقت با لغ بناے کی کوشش کی جائے، یاان کی بچپن کی خصوصیات، دلچسپیوں اور میلانات کو نظراندازکرکے تعلیم و تربیت کا پروگرام بنایاجائے۔ مستقبل کی فکرمیں لوگوں سے عمومَا ایسی چُوک ہو جاتی ہے چنانچہ بچّوں پراس کاشدیدرد عمل، ہوتاہے۔انکی شخصیت میں بغاوت یا منافقت کے جراثیم پلنے لگتے ہیں اور ان کی ذہنی وجسمانی صلاحیتیں ٹھٹھرنے لگتی ہیں اس لیے ان اعلیٰ مقاصد کو ہر وقت اپنے سامنے ضرور رکھاجا ئے۔لیکن بچّوں سے نہ تو بہت او نچی تو قعات وابستہ کی جا ئیں اور نہ کو ئی چیز  قبل از وقت ان پر تھوپی جائے بلکہ تعلیم و تربیت کا پروگرام مرتب کرتے وقت ان کی بچکانہ خصوصیات اور دلچسپیوں کا حتی الا مکان لحاظ رکھاجائے اور انہیں راستوں سے بتدر یج یہ مقاصد بروے کا رلائے جا ئیں۔

۱۔تعلیم کا مقصد پُر خلوص نیکی کے ذریعے شاد مانی کا حصول ہے۔(ارسطو) 

۲۔تعلیم کا مقصد مثالی  انسان کی تکمیل ہے۔(پین)

۳۔ تعلیم سے مرادہے مکمل انسان کی تربیت ۔(کا مینیس)

۴۔تعلیم سے مرادہے شعوری یاارادی ارتقاء(ڈیوڈسن)

۵۔تعلیم ایک ہنر ہے جس  سے ماہرین خصوصی نہیں بلکہ انسان بنا ئے جاتے ہیں۔(مانٹین)

۶۔سنگ مر مر کے ٹکڑ ے کے لیے جس طرح سنگ ترا شی ہے ویسے ہی اِنسانی رُوح کے لیے تعلیم ہے۔ (ایڈیسن)

۷۔تعلیم کا مقصد علم سے بھر دینا نہیں  ہے بلکہ قوت کی تربیت کرنا ہے۔(آرکٹ)

۸۔تعلیم کا مقصد کھری،پُرخلوص،بےعیب اور پاک صاف زندگی بسر کرنے کے قابل بناناہے۔(فردبل)

۹۔تعلیم سے مراد تجربہ کی ازسرنو تشکیل ہے جس میں فردکو اپنی قوتوں پرز یادہ تسلط پانے کے قابل بناتے ہوتے اس کے تجربے میں وسعت پیدا کی جاتی ہے اور اسے سماجی لحاظ سے زیادہ مفید بنایا جاتاہے۔(ڈیوی)

10۔ عام طورپر انسا نیت کااعلی ترین مقصد اخلاق تعلیم کیا جاتاہے۔ اور بنابریں تعلیم کا بھی ۔(ہربارٹ)       

 

اس سلسے کا اگلا مضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


ماخوذ: فن تعلیم وتربیت (مصنف :  افضل حسین )  –   باب  چہارم 

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے