فن تعلیم و تربیت – افضل حسین – باب پنجم–مختلف تعلیمی نظریات

اس سلسلے کا پچھلا مضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

زندگی کے دوسر ے تمام شعبوں کی طرح تعلیم کے بارے میں بھی مختلف نظریات ہیں۔لیکن ہم یہاں صرف مندرجہ ذیل تین اہم نظریات سے بحث کریں گے:۔

 ۱۔ اشتراکی                  ۲۔ جمہوری                  ۳۔ اِسلامی

دنیا کی سربراہ کا ری آج امریکہ  اور روس کے ہاتھ میں ہے۔نظریات کے میدان میں بھی یہی دونوں پیش پیش ہیں۔امریکہ  جمہوریت کا علمبردارہے اور روس اشتراکیت کا۔ دنیا کے وہ تمام ممالک جوامر یکہ سے مر عوب ومتاثر ہیں وہ قوم پر ستانہ جمہوریت میں یقین ر کھتے ہیں اور اپنے یہاں کا تعلیمی ڈھا نچہ بھی اسی نظریہ کے تحت مرتب کر تے ہیں اور جو لوگ روس کے آ لہ کا ر ہیں وہ کلیت پسند انہ اشتراکیت کو اپنا تے ہیں اور ان کے نظامِ تعلیم  پر بھی اس کی گہری چھاپ ہو تی ہے اسی لیے تعلیم کے غیر اسلا می نظریات ہم نے صرف انہیں دوکو بحث کے لیے منتخب کیا ہے۔

۱۔اشتراکی نظر یۂ تعلیم:

 اشترا کیت ایک ما دہ پر ستانہ نظام ہے جو اپنی مذہب دشمنی اور اخلاقی و رُوحانی قدروں کی بیخ کنی کے لیے  مشہور ہے ۔طبقاتی کشمکش چھیڑ کروہ اپنا  اُلو  سیدھاکرتی ہیں۔افراداوران کی انفرادیت اس کے نزدیک نا قابل لحاظ ہیں ، شہر یوں کی جان و مال ان کی عزّت وآبرواور مملکت کے سارے وسائل وذرا ئع کی مالک اسٹیٹ ہو تی ہے۔چنا نچہ اشتراکی نظام خداسے مکمل بغاوت کر نے اور افراد کی انفرادیت کو کُچلنے کے درپے رہتا ہے ،اسے فطرت کے خلاف مسلسل جنگ کر نی پڑ تی ہے۔

اسے ہر آن جو ابی انقلاب کا خطرہ ر ہتا ہے، اسی لیے اپنی بقاءواستحکام کے لیے اسے جبرو استبداداور کلیت وآمریت کا سہارالینا پڑتاہے۔

تعلیم کا مقصد

اشتراکیت کے علمبرداردعوٰی تو یہ کر تے ہیں کہ تعلیم و تربیت کے ذر یعے ہم افراد کو سماج کابے نفس خادم بنانا چا ہتے ہیں ۔ لیکن وہ دراصل طلباءکی فطری صلا حیتوں اور انفرادی خصو صیات کو اس اندازسے موڑنے کی کوشش کر تے ہیں کہ وہ اپنی شخصیت کو اجتماعی مادّی مفاد پر قربان،اور اپنی انفراد یت کو اجتما عیت میں گم کر دیں،وہ طلبہ کو مادہ پر ست،مذہب دشمن اورخداکا باغی بناتے ہیں، ان کے اندرطبقا تی منافرت پیدا کرتے ہیں اور انہیں جانو روں سے بدتر بناکر رکھ د یتے ہیں۔اس طرح چند افرادیا ایک مختصر سی پا ر ٹی مملکت کے سارے وسائل و ذرائع اور سب کے جسم و جان پر قا بض ہو کر دووقت کی روٹی کے عوض ہرایک کو بے ضمیر اور اپنا آ لۂ کاربنا لیتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم نے انسان کا معاشی مسٔلہ حل کر دیا ہے۔ اگر یہ دعویٰ مان بھی لیا جا ۓ تو:۔

مراتب بندی کا رزق جس کی کُنجیاں دوسروں کے ہا تھوں میں ہوں اگرفراواں بھی ہوتو خو شگوار نہیں کیو نکہ اس سے  پر واز میں جو کو تا ہی آتی ہے محض جسم کی فربہی اس کی تلافی نہیں کر سکتی۔

اشتراکی نظامِ تعلیم کی خصوصیات

اشتراکی نظر یٔہ تعلیم کی اساس پر جو تعلیمی نظام تشکیل پا تا ہے اس میں مندرجہ ذیل خصو صیات پائی جا تی ہیں:۔

۱۔ تعلیم سب کے لیے عام اور لاز می ہو تی ہے تاکہ مملکت کے تمام افراد اشترا کیت سے متاثر اور اس نظام کے مو ید اور خادم بن سکیں۔

۲۔ تعلیم کا پورانظام اسٹیٹ کے کنٹر ول میں ہو تا ہے۔حکومت کے مرتب کر دہ ڈ ھانچے کے مطابق ہر ایک کو تعلیم دی جاتی ہے ۔پرائیویٹ اداروں کے قیام کی قطعا ًاجاز ت نہیں تا کہ طلبہ کے کانوں میں حکومت یااشتراکیت کے خلاف کو ئی بات نہ پڑنے پائے۔

۳۔تعلیم مفت دی جاتی ہے۔تعلیم خواہ عمو می نو عیت کی ہو یا پیشہ وار انہ، صنعتی ہو یا زرا عتی ،سارے مصارف اسٹیٹ خودبرداشت کر تی ہے۔طلبہ کو کھانا،کپڑااور تعلیم سامان بھی اسٹیٹ کی طرف سے مفت فراہم کیاجاتاہے۔

۴۔تمام بچوّں کے لیے اوائل عمر ہی سے تعلیم کابندو بست کر نے کی کوشش کی جاتی ہے تا  کہ بچّوں کے ذ ہن پر شروع ہی سے اشتراکیت کی گہری چھاپ پڑ سکے، اس کے لیے والدین کو خاص انداز کی ٹر نینگ دی جاتی ہے اور مدارس اطفال (نرسری اسکو لوں) کا وسیع  پیمانے پر انتظام کیا جاتاہے۔

۵۔بلا لحا ظ مذ ہب د ملت، رنگ ،نسل ، جنس وطبقہ ہر ایک کو ایک سی تعلیم حاصل کر نی پڑ تی ہے، ذہنی اور جسمانی کام کر نے والوں میں بھی تفر یق نہیں کی جاتی،سب کو ایک ہی ڈنڈ ےسے ہانکا جاتاہے۔

۶۔مذہب ، اخلاق،روحانیت یازندگی کی مستقل قدروں کو اس نظامِ تعلیم میں کو ئی جگہ نہیں دی جاتی،اس کے بر عکس مادہ پر ستی،الحاد، مذہب د شمنی اور طبقاتی منا فرت کُوٹ کُوٹ کر بھر نے کی کو شش کی جاتی ہے تاکہ سماج کے مو جودہ ڈھانچے کو بیخ و بُن سے ا کھا ڑ کر خالص ما دہ پر ستی اوردہر یت کی بنیا دوں پر سماج کی تشکیل کی جا سکے ۔

۷۔مدرسے کے تمام مضامین، مصروفیات ومشاغل میں افادی نقطہ نظر حاوی رہتا ہے۔و ہی کچھ سکھا یا پڑ ھا یا اور کر ایا جا تا ہے جس سے مادی فائدہ پہنچے اور ملکی  پیداوار نیزقومی دولت میں اضافہ ہو۔اسی لیے حرفہ جات ہی کو بنیادی اہمیت دی جا تی ہے،مدارس،مقامی صنعتوں مر بوط کرد ئیے جاتے ہیں اور طلبہ کو فارموں یا کارخانوں دغیرہ میں  عملی تعلیم حاصل کرنی ہوتی ہے۔

۸۔مملکت کے د یگر ادارے تعلیمی اداورں کے ساتھ پُورا تعاون کر تے ہیں چو نکہ اشتراکی نظام میں ساری صنعت و حرفت،تجارت وزراعت وغیر  ہ مملکت ہی کے ہا تھ میں ہو تی ہے اس لیے کار خانے،فارم اور ویگر سر کاری ادارے مدارس کی ہر ممکن مددکر تے ہیں۔

۹۔مملکت کو اپنے منصو بے کے مطا بق جس فنی مہارت کے جتنے کارکن مطلوب ہو تے ہیں سب کو اپنے کنٹرول اور نگرانی میں تیار کرا تی ہے تا کہ مملکت کی ضرورت اور افراد کی صلا صیتوں میں توازن ر ہے۔

۱۰۔نصاب تعلیم،درسی کتب و طریقِ تعلیم سب اسٹیٹ کا تجو یز کردہ ہوتا ہے،طلبہ کو مضامین کے انتخاب اور اساتذہ طر یقِ تعلیم وغیرہ کے ضمن میں قطعا ًکوئی آزادی نہیں دی جاتی۔اسی لیے پُورا نظام تعلیم جامد اور بے لچک ہو تاہے اور اس میں غیر معمولی یکسا نیت پائی جاتی ہے۔

اس نظام کی خو بیاں اور خامیاں

اس نظام میں اگر چہ بعض خوبیاں بھی پا ئی جاتی ہیں مثلاً

خوبیاں

  • افراد میں اجتما عی مفاد کی خاطر ذاتی مفاد کو قربان کر نے کی غیر معمو لی اسپرٹ پیدا کر نے کی کو شش کی جاتی ہے۔
  • طلبہ کو جسمانی محنت و مشقت کا عادی بنایاجاتاہے اوروہ ہاتھ سے کام کر نے کو عار نہیں سمجھتے۔
  • نظری کے بجا ئے عملی تعلیم پر زورد ینے کی وجہ سے طلبہ اپنے علم کو عمل میں لا نے کے طریقوں سے بخوبی واقف ہو تے ہیں اور نظری کے بجا ئے عملی انسان بنتے ہیں۔
  • معاشی ومعاشرتی مساوات اور دولت کی مساوی تقسیم پر ابتداہی سے غیر معمولی زورد ینے کے باعث طلبہ میں اُو نچ نیچ،امیرغریب وغیرہ کافرق وامتیاز نہیں ہو تا۔
  • مفت عمومی اور جزی تعلیم کی وجہ سے ہر فرد تعلیم یا فتہ ہو جاتا ہے۔
  • تعلیم میں یکسانیت کے باعث افراد میں وحدتِ فکر کازیادہ امکان رہتا ہے اورفکری وعملی انتشار کازیادہ اندیشہ نہیں ہوتا۔
  • سب کچھ اسٹیٹ کے کنٹرول میں ہو نے کے باعث گھر،مدرسے،سماج اوراسٹیٹ کے مختلف اداروں میں مکمل تعاون اورہم آہنگی ہو تی ہے جس سے بچوں کی تعلیم میں بہت سہولت ہوجاتی ہے۔
  • تعلیم پراسٹیٹ کا مکمل کنٹرول ہو نے کےباعث مملکت کی ضرورت کی مناسبت سے تعلیم دی جاتی ہے اس لیےتعلیم یافتہ بے کاروں کا مسئلہ نہیں اُٹھتا۔ لیکن ان خو بیوں کے ساتھ بعض ایسی بنیادی خامیاں پائی جاتی ہیں جواس نظر یئے کی ساری افاریت پر پانی پھیردیتی ہیں اور اسے ناقابل قبول ٹھیراتی ہیں مثلاً،

خامیاں

  • خداسے بغاوت،مذہب دشمنی اوراخلاقی قدروں کی پامالی کادرس لےکر پر وان چڑھنے والے افرادانسانیت کے حق میں درندے ہی ہو سکتے ہیں،ان سےکسی خیرکی تو قع نہیں کی جا سکتی۔وہ نہ صرف دوسروں کے حق میں ظالم ہو تے ہیں بلکہ اپنے آپ پر بھی ظلم کرتے ہیں اورمو قع ملے تواسٹیٹ کو بھی نہیں بخشتے۔
  • افرادکی انفرادیت کچل کررکھ دی جاتی ہے۔
  • جبراور بیرونی د باؤکے باعث طلبہ کو اپنی خواہش،رائے اور ضمیر سے مسلسل جنگ کرنی پڑتی ہے۔وہ ذہنی کشمکش کے شکارہو جاتے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسے طلبہ کبھی ٹھوس سیرت وکردارکےمالک نہیں بن سکتے۔
  • مادہ پر ستی اور افادی نقطہ نظر غالب ہو نے کی وجہ سے خودغرضی عام ہوجاتی ہے۔
  • ہرچیزاُوپرسے تھوپنے کا نتیجہ یہ ہوتاہےکہ اساتذہ اور طلبہ سب کام کو بیگار سمجھنے لگتے ہیں اور عام طورپر کام چوری کی عادت پڑ جاتی ہےاور پوری قوم ڈنڈے کے زورسے پھلنےکی عادی ہو جاتی ہے۔
  • افرادکی شخصیت کے متعدو پہلونظراندازکردیئے جاتے ہیں اورہم آہنگ نشوونمانہ ہو نے کی وجہ سے بہت نا قص شخصیت پروان چڑھتی ہے۔
  • پیداواراور قومی دولت میں اضافے کو غیرمعمولی اہمیت دے کر تعلیم و تربیت کے ذریعہ افراد کو معاشی حیوان کی سطح پر اُتار لایاجاتاہے۔کھانے کمانے کے سوازندگی میں اور کسی چیز کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہنےدی جاتی۔ مملکت کے چند ذمہ دار افرادکے سواباقی تمام افراد کوذہنی جمودوتعطل کاشکاربنادیاجاتاہے۔
  • افراد کودنیاکے سکون اور آخرت کی فلاح دونوں سے محروم کردیاجاتاہے۔

۲      ۔جمہوری نظریہ تعلیم

آمریت یا ملوکیت کے بر عکس جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ کے مالک تمام باشندگان  ملک ہو تے ہیں، انہیں کی مرضی سے حکو متیں قائم ہو تی اور قوانین بنتے ہیں مملکت پر کسی فرد، خامذان یاگروہ کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔عوام کے منتخب نمائندے حکومت چلاتے ہیں۔انتخابات عموماً چار پانچ سال میں منعقد ہو تے ہیں کثرتِ رائےسے جولوگ بھی منتخب ہو جائیں متعین مدت تک وہی حکومت کے ذمہ دار ہو تے ہیں، انتخابات کی بنیاد عموماًبا لغ ر ائے د ہند گی ہو تی ہے۔سب کو ووٹ د ینے اورامید وار بننے کا حق حاصل ہو تا ہے۔ہر ایک کا دوٹ برابر شمار کیا جاتاہے۔کثرت رائے سے حکومت بدلی جا سکتی ہے۔اس طرح جمہوریت مندرجہ ذیل چیزوں پر یقین ر کھنے کا دعوی کرتی ہے۔

۱۔ افراد کی آزادی پر یقین

یعنی مملکت کے ہر شہری کو ز ندہ ر ہنے،گھو منے،پھرنے ، جما عت بنانے،اجتما عات کر نے کی آزادی ہے۔تحریر ،تقریر،عقیدہ و مسلک،رائے،ضمیر وغیرہ کی آزادی اور تعلیم و تبلیغ کا حق حاصل ہے،بشرطیکہ اس سے ملک و قوم یا دوسرے شہر یوں کو نقصان نہ پہنچا یا جائے ، یا دوسروں کے حقوق پر دست درازی نہ کی جا ئے۔

۲۔مساوات پر یقین

یعنی تمام شہری برابر ہیں،ذات پات،رنگ ونسل،عقیدہ ومسلک یا جنس و دولت کی بناپر شہر یوں ک ما ہین فرق وا متیاز نہ بر تا جا ئے۔ ہر ایک کو آگے بڑ ھنے کے مسادی مو اقع حاصل ہو ں،جوبھی جس مقام و منصب کے لیے ضروری صفات و صلا حیتیں بہم پہنچائے وہ اس پر فا ئز ہو سکے۔

۳۔ اجتما عیت اور ہم و جودیت پر یقین

مملکت کے تمام شہری مل جل کرر ہیں ایک دوسرے کی شخصیت و انفرادیت کا لحاظ ر کھیں اور ملک و قوم کے مفاد کے لیے با ہم تعاون کریں۔

۴۔تبد یلی میں یقین

تبد یلی فطری ہے یہی ز ندگی اور تر قی کی علامت ہے۔ زمانہ ہر گھڑی بد لتا رہتا ہے،مملکت کے حالات دضروریات میں بھی تبد یلی ہو تی رہتی ہے۔نئے حالات ، نئے مسائل کھڑے کر تے ہیں۔اس لیے مملکت کی بقاء،استحکام اور تر قی کے لیے اس کے نظام ،پا لیسی اور پردگر ام میں بھی حسبِ ضرورت تبدیلی ہو نی چا ہیے۔لیکن یہ تبد یلی اسی وقت مفید اور نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جب اس کے لانے میں شہر یوں کی رائے اور مر ضی کردخل ہو کوئی چیز اوپر سے نہ تھو پی جا ئے۔

تعلیم کا مقصد
چونکہ جمہوری نظام کی کا میابی یا نا کامی کا دار ومدارمملکت کے شہر یوں کی صلا حیت پر ہوتا ہے۔اس لیے جمہوریت کے علمبر واردں کے نزدیک تعلیم کا مقصد افرادکو 

” مملکت کا اچھاشہری بنانا   ”

ہے،لیکن  قومی جمہوریتوں میں بھی چونکہ۔

  • مادی ترقی اور معاشی خوش حالی ہی کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے اور اس کےلیے شہریوں میں باہم اور دوسری مملکتوں سے برابر دوڑلگی رہتی ہے۔
  • شہریوں کو مسلسل و طن پرستی اور قومی عصبیت کا نشہ پلا یاجاتارہتا ہے۔

اس لیے یہاں بھی اخلاقی قدریں عملاً اضافی ہو جا تی ہیں اور ان کی کوئی مستقل حیثیت باقی نہیں رہتی مملکت کے مفاواوراخلاقی اصولوں میں باہم ٹکراؤ نظرآتا ہے وہاں ایک اچھے شہری سے اصولوں کو خیر باد کہہ دینے اور اخلاقی وروحانی قدروں کو قربان کر دینے کی تو قع کی جاتی ہے جب کہ ایک اچھے آدمی سے ایساہر گز متوقع نہیں۔اس لیے لفظ ”اچھے”سے غلط فہمی نہ ہو نی چا ہئے،اچھے شہری اور اچھے آدمی کی صفات اکثر امور میں باہم متضاد شمار ہو تی ہیں۔

جمہوری نظامِ تعلیم کی خصوصیات

اس نظریہ پرمبنی تعلیم کا جو نظام تشکیل پاتاہے اس میں مندرجہ ذیل خصوصیات پا ئی جاتی ہیں۔

۱۔ ابتدائی تعلیم عمومی اور لازمی ہوتی ہے۔کو شش کی جاتی ہے کی تمام شہری بنیادی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو جا ئیں۔

۲۔ عام ابتدائی تعلیم مفت دنیے کی کو شش کی جاتی ہے تاکہ کوئی شہری وسائل کی کمی کے باعث بنیادی تعلیم سے محروم نہ رہ جا ئے۔

۳۔ بلا لحاظ مذہب وملت، رنگ ونسل یا فر قہ وطبقہ وغیرہ ہر ایک کو اپنی صلاحیتوں کو برو ئے کارلا نے کے یکساں مواقع حاصل ہو تے ہیں۔کسی کے سا تھ فرق و امتیاز نہیں برتاجاتا۔

۴۔ طلبہ کی انفرادی خصو صیات اور ان کے ما بین صلا حیتوں کے فرق کا لحاظ رکھ کران پر انفرادی توجہ دی جاتی ہے تاکہ ہر فرداپنی صلاحیت کے مطابق آگے بڑھ سکے۔

۵۔فرد اور سماج دونوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔کسی ایک کو دوسر ے پر قربان نہیں کیا جاتا بلکہ جہاں فرد کوزیادہ سے زیادہ ترقی کے مواقع دیے جاتے ہیں وہیں اس کو اجتماعی ذ مٔہ داریوں کی انجام دہی کے لیے بھی تیار کیاجاتاہے۔

۶۔معلّم اور متعلم دونوں کی آزادی کا احترام کیا جاتاہے۔ معلّم ڈکٹیٹر کے بجائے شفیق رہنماکی حیثیت سے کام کر تاہے۔جبراور خارجی دباؤ سے کام نہیں لیتا بلکہ آزادی کی فضامیں تعلیم دیتا ہے۔ معلم کو بھی طر یقِ تعلیم اور انتظام مدرسہ وغیرہ کے معا ملے میں زیادہ سے زیادہ آزادی جاتی ہے۔

۷۔مادی اور افادی نقطہ نظرکو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے لیکن زندگی کی اعلیٰ قدروں کو بالکل نظرانداز نہیں کرد یاجاتا۔کم ازکم قومی و ملکی سطح پراس کوبھی اہمیت دی جاتی ہے۔

۸۔مذہب کو افراد کا پر ائیویٹ معاملہ سمجھاجاتاہے اور اسے پو جاپاٹ تک محدودرکھنے کی کو شش کی جاتی ہے۔اجتماعی معاملات میں اس کی مداخلت کو صحیح نہیں سمجھاجاتا۔اس لیے مذہبی تعلیم کو افراداور نجی اد اروں کی صوابدید پر چھوڑدیا جاتاہے۔حکومت اپنے اداروں میں اس کا انتظام نہیں کرتی۔

۹۔مملکت کے مختلف مذہبی،لسانی،تہذیبی یا طبقاتی گرو ہوں کے مابین زیادہ سے زیادہ مشترک د لحپسپیاں پیداکر انے کی کو شش کی جاتی ہے اوران کی انفرادیت کو بتدر یج محدود سے محدود تر کر کےسب کو بالاخرایک قوم اور ایک کلچرتک لانےکی فکر کی جاتی ہے۔

۱۰۔پرائیویٹ اداورں کے قیام کی ہمت افزائی کی جاتی ہے۔افراداورگردہوں کا یہ حق تسلیم کیا جاتاہے کہ وہ اپنے ادارے چلا سکیں اور اپنے بچّوں کو اپنی مر ضی کی تعلیم دے سکیں۔

۱۱۔تعلیم کے نظام میں مر کز کم سے کم مداخلت کر تا ہے،لوکل باڈ یز اور صوبائی حکو متوں کوزیادہ سے زیادہ اختیا رات دئے جا تے ہیں تاکہ جمہوریت کی رنگا رنگی بر قرارر ہے،لو گ زیادہ سے زیادہ آزادی کی فضا محسوس کریں اورآزادی سے تجربات کر سکیں۔

۲۱۔تمام با شندگانِ ملک کو متحدر کھنے اور ان میں یک جہتی پیداکر نے کے لیے قوم پرستی اور وطنیت کے جذ بے کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیاجاتاہے۔

تبصرہ

قوم پر ستانہ جمہوری نظام تعلیم  میں جہاں متعددخو بیاں ہیں مثلاً،

  • افرادکی آزادی کااحترام اور شخصیت پر وان چڑ ھنے کے لیے آزادی کی فضاء۔
  • ہمہ گیر لازمی اور مفت ابتد ائی تعلیم کا بندو بست۔
  • مساوات اور آگے بڑ ھنے کے لیے یکساں مواقع۔
  • صلاحیت اور محنت کے لحاظ سے ترقی کرنے کی پوُری گنجائش۔
  • تہذیب وتمدن اور مذہب واخلاق کا کسی در جہ میں پاس ولحاظہ وغیرہ وہیں بعض بنیادی خامیاں بھی ہیں مثلاً،
  • ابتداہی سے قوم پر ستی اور وطنیت کا نشہ پلا کر شہر یوں کو تعصب وتنگ نظری اور قومی خردغر ضی کا شکاربنادیاجاتاہے۔ملکی حدود کے باہر بسنے والوں کے لیےان کے دلوں میں عموماً گنجائش باقی نہیں رہتی بلکہ ان کے خلاف معاندانہ جذبات پروان چڑ ھتے ہیں۔ظاہر ہے ایسے لوگوں سے انسانیت کے حق میں کسی خیرکی توقع کم ہی کی جا سکتی ہے۔
  • مذہبی تعلیم کو نظرانداز کرکے یا سر پرستوں اور پرائیویٹ اداروں کی صوابدیدپرچھوڑکر عملاً بہت بڑی تعدادکارشتہ مذہب واخلاق سے کاٹ دیاجاتا ہے کیونکہ لوگ اپنے طور پربہت محدوداور نا قص انتظام کرپاتے ہیں۔
  • زندگی کے تمام شعبوں خصوصاً اجتماعی امورمیں خداکی ہدایت سے بے نیاز بناکر شہریوں کو فلاح دارین سے محردم کردیاجاتاہے۔
  • اپنے اور پرایوں کے لیے الگ الگ پیمانےدے کر اخلاقی قدروں کو اضافی حیثیت دےجاتی ہے۔ چنا نچہ لوگوں میں اصول پسندی با قی نہیں رہتی اوروہ ر فتہ رفتہ اپنوں کے ساتھ بھی دھاندلی کرنےلگتے ہیں۔
  • حق و انصاف اور زندگی کے مستقل اصولوں کے بجائےکثرت رائے کو فیصلہ کی اساس قرارد ینے کی وجہ سے اقلیتوں کے ساتھ عموماً کم ہی انصاف کیاجاتاہے۔

چنا نچو قوم پر ستانہ جمہوری نقطہ نظر سے تعلیم دینے کے نتیجے میں عموماً،بے اصول مفسدہی پیدا ہوتےہیں۔

۳۔اِسلامی نظریہ  تعلیم

اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔اللہ کے نزدیک ساری انسانیت کے لیے واحد مستند دین یہی ہے۔صرف اسی کو پناکر انسان فلاح دارین حاصل کر سکتا ہے۔

اِسلامی نظام کی اساس

۱۔ توحید:ساری کا ئنات کاخالق،رازق،مالک اور فرمانروا اللہ ہے۔سارے انسان اس کے بندے اور غلام ہیں،سرداری اور فرمانروائی صرف اس کے لیے مخصوص ہے ہر ایک کو اس کاتابع فرمان بن کرر ہناچا ہیئے اور اسی کےآ گے سر جُھکانا چا ہیئے۔

۲۔رسالت:اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے رسولؐ بھیجے ۔اپنے ساتھ اللہ کے فرمان لائے ۔ حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ اللہ  کے آخری رسولؐ ہیں۔آنحضرتؐ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ۔آپؐ اللہ کا فرمان، قرآن لائے اور اللہ کی مر ضی پر چل کردکھایا۔

اللہ کی کتاب (قرآن)اور رسولؐ کی سنّت کی اتباع ہی میں سارے انسانوں کی نجات ہے۔

۳۔آخرت:سارے انسانوں کومرمٹ کرایک روز اللہ کے حضور کھڑاہو نا اور اپنے سارے کاموں کا حساب دنیا ہے۔کوئی بھی اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا ہر ایک کوا پنے کیے کا بُرایا بھلابدلہ پاناہے۔

۴۔خلافت:ہماری یہ زمین اللہ کی بے پایاں مملکت کاایک چھوٹاسا حصہ ہے۔انسان اس زمین پر اللہ کے نا ئب یاخلیفہ ہیں۔اس کے لیے صحیح رویہ یہی ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کی مر ضی کے مطابق زندگی گزاریں،خداترسی، پر ہیز گاری،انتظامی صلا حیت اور جمہور کااعتماد سر براہی وسرداری کے لیے ضروری صفات ہیں۔ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہ اجتماعی نظام،عدل وانصاف پرقا ئم کریں،برائیاں مٹا ئیں،بھلا ئیوں کو فروغ دیں اور جمہور کو اللہ کی مرضی کے مطابق چلا ئیں۔

۵۔وحدت بنی آدم،مساوات اور اخوّت:سارے انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ اس لیے آپس میں برابراور بھا ئی ہیں۔رنگ ونسل کا فرق وامتیاز۔ذات پات۔چھوت چھات یہ سب غلط اور من گھڑت باتیں ہیں۔عربی کو عجمی پرگورے کو کالے پر۔امیر کوغریب پر،بر ہمن کو اچھوت پر کوئی فضیلت نہیں۔سب سے شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پر ہیز گار اور خداترس ہو۔

۶۔آزادی : چھوٹے بڑے امیرغریب،مرد عورت،مالک نوکر،سب اللہ کے بندے اور اس کے تابع فر مان ہیں۔مطلق آزادکو ئی بھی نہیں۔البتہ انسانوں کے تعلق سے ہر ایک آزادہے،ہرفرد کو اللہ نے اس کی ماں کے  پیٹ سے آزاد پیداکیا ہے۔کسی انسان کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ  دوسردں کی آزادی سلب کر لے یا اللہ کے بندوں کواپنابندہ بنا ئے اور انہیں اپنی مر ضی پر چلا ئے۔

۷۔عقیدہ:مسلک، ضمیر اور رائے کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔جس عقیدہ مسلک یارائے پر جس کو اعتماد ہو وہ اسے اختیار کر سکتا ہے۔گر چہ سارے انسانوں کے لیے صحیح رویہ یہی کہ وہ اسلام کو اپنا کر فلاح دارین حاصل کریں۔

۸۔ساری مخلوق اللہ کی عیال ہے۔سب کی بُنیادی ضرور یات لازماًپوری ہو نی چا ہئیں۔ہر بھوکا کھانے کا،ننگاکپڑے کا ،مریض دواورعلاج کا مستحق ہے۔اس کا یہ حق بہر حال اسے مِلنا چاہیئے۔

۹۔ہرانسان کی جان ومال،عزّت آبرو محترم ہے۔اس پر دست درازی نہیں کی جا سکتی۔

۱۰۔ہرایک دوسر ے کے لیے وہی پسند کر ے جو وہ اپنے لیے پسند کر تا ہے۔

۱۱۔نیک کام میں تعاون کیا جا ئے۔بُرے کام میں کسی سے تعاون نہ کیا ئے۔

۱۲ زندگی بسر کر نے کے سیدھے سچے طر یقے سے جو واقف ہیں وہ انہیں بتائیں جو ناواقف ہیں۔

تعلیم کا مقصد

ان اساسی تصوّرات سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے تعلیم و تر بیت کا مقصد فردکو

” اللہ کا صالح بندہ بنانا”

       ہے۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو صفحا ت ۱۲ تا ۶۴

اِسلامی نظامِ تعلیم کی خصو صیات

اِسلامی نظامِ تعلیم مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہو تا ہے:

۱۔ بنیادی دینی تعلیم ہر مسلمان  مرد عورت کے لیے لازمی ہو تی ہے کیو نکہ

طلب العلم فريضة على كل مسلم ومسلمة (ابن ماجہ)

”(دین کا ضروری ) علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔”

اس فرض کی ادا ئیگی کے لیے ہر فرد کو پُوری سہولت بہم پہنچا ئی جاتی ہے۔متعلم خود بھی فکر مند ہو تا ہے اور معلم ،سرپرست،مسلم معاشرہ اور اسلامی نظام سب اس کارِخیر میں پُوراتعاون کرتے ہیں۔

تَعَلَمُواالعِلمَ وَعَلِّمُوہُ النَّاسَ۔(بیہقی)

 “علم سیکھواور لوگوں کو سکھاؤ۔”

۳۔مفید اور نفع بخش علوم کا پڑ ھنا پڑ ھاناکارِثواب شمار ہو تا ہے اور پورے خلوص اور انہماک سے پڑ ھا،پڑھایاجاتاہے۔

اَلعَالِمُ وَالمُتعَلِّمُ شَرِیکَانِ فیِ الاجر (اجن ما جہ)

“عالم اور متعلم اجر میں دونوں شر  یک ہیں۔”

مَن دَ لَّ عَلیٰ خیرِِ فَلَہُ مِثلُ اَجر فَاعِلِہ (مسلم)

“جو شخص کسی بھلا ئی طرف رہنما ئی کر ے اس کو بھی اتناہی ثواب مِلے گا جتنا کہ اس نیکی کرنے والے کو۔”

مِن سِلِکَُ طِرِیُقََا یَلتَمِسُ فِیہِ عِلمََا سَھَّلَ اللہ لَہُ بِہ طَریقََا اِلیَ الجَنَۃِ (مسلم)

“جو شخص ایسی راہ ختیار کرے جس میں اسے علم حاصل ہو تو اس کی بدولت اللہ  اس کے لیے جنّت کی راہ آسان کردے گا۔ “

مُعَلِّمُ الخَیرِ یَستَغُفِرُ لِہُ کُلُ شیی (ترمذی)

“معلم کی خیر کے لیے تمام چیز یں دعائے مغفرت کر تی ہیں۔ “

مَن خَرجَ فیِ طَلَبِ العِلمِ فِھُوَ فیِ سَبِیلِ اللہ حَتّٰی یَر جِعَ (ترمذی)

”جو علم حاصل کرنے کے لیے گھرسےنکلے وہ اللہ کی راہ (جہاد)میں ہے جب تک واپس نہ آجائے۔ “

اِنَّ المَلٰیُکَۃَ لَتَضَعُ اجنِحَتَھَا رِضََا لِطَالِبِ االعِلمِ۔(ابُوداؤد)

“طالب علم کی خوشی کے لیے فرشتے اس کے روبرواپنے پر بچھا تے ہیں۔”

۴۔ غیرمفید اور ضرررساں علو م کے پیچھے  پڑنے سے رک جا تا ہے۔

تَعَوَّ ذُوا بِاللہ مِن عِلمِ لَاَیَنفَعُ۔(ابن ماجہ)

“اس علم سے اللہ کی پناہ ما نگوجو نفع نہ دے”

۵۔ حسبِ ضرورت تعلیم مفت دی جاتی ہے۔ غیر مستطیع اور نادار طلبہ کی تمام ضروریات کی کفالت کا بندو بست کیا جاتاہے۔ہر مستطیع اس کام میں تعاون کو کارِ خیر  اور زکوٰۃوصدقات کا بہترین مصرف سمجھتاہے۔

۶۔ہر متعلم کو علم پر عمل کر نے اور دوسروں تک علم پہنچانے کی تر غیب و تربیت دی جاتی ہے۔

اَلعِلمُ عِلمَان : عِلمُ فیِ القَلبِ فَذَاک العِلمُ النَّافِعُ وَعِلمُ علی اللِسَانِ فَذَاکَ حُجَّۃُ اللہ عَلیٰ ابنِ اٰدَمَ( دارمی)

“علم دو طرح کا ہو تاہے  ایک تو وہ جو زبان سے گزر کردل میں گھر کر لیتا ہے۔یہی نفع بخش علم ہے۔دوسر اوہ جو زبان ہی پر رہتا ہے وہ اللّہ کی عدالت میں ابن آدم کے خلاف حجت بنے گا۔”

بَلِّغُوّا عَنِّی وَلَو آیَۃََ۔ (بخاری)

میری تعلیم لوگوں تک پہنچا ؤ خواہ ایک ہی آیت ہو ۔

مَن سُئلَ عَن عِلمِِ عَلِمَہُ ثُمَ کَتَمَہُ اُلجِمَ یَو مَ القِیٰمَۃ بِلَجَامِِ مِنَ النَّارِ (ترمذ ی ابو داؤد وغیرہ)

“جس شخص سے علم کی کوئی ایسی بات پو چھی جس کو دہ جانتا ہے اور وہ اس کو چُھپا ئے(یعنی نہ بتائے )تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جا ئے گی۔ “

لَیُعَمُن قَو مُُ جیرَا نَھُم وَلَعِظَنَھُم وَلَیَا مُرنھُم وَلَیَنھُوُ نَّھمُ وَلَیَتَعَلَّمَنَ قَومُُ مِن جِیراَ نِھِم وَیَتَعِظُونَ وَیَتَفَقَّھُونَ اَو لَاُعَا جِلَنَّھُم العقو بَۃَ فیِ الدُّنیاَ۔(طبرافی)

“لوگ اپنے پڑو سیوں کو لاز ماً تعلیم ویں،انہیں و عظ دنصیحت کریں،اچھی باتوں کی تلقین کر یں۔برُی باتوں سے رو کیں،اسی طرح لو گوں اپنے پڑوسیوں سے علم حاصل کرناہوگا۔وعظ و نصیحت قبول کرناہوگا اور اپنے اندر سمجھ پیداکر نی ہوگی ورنہ میں ان لوگوں کو بہت جلد دنیا میں سزادوں گا۔”

۷ ۔معلم اور متعلم دونوں کی شخصیت کا احترام اور دونوں کی عزتِ نفس کا لحاظ رکھاجاتاہے۔اساتذہ، شفیق مربی اور روحانی باپ اور طلبہ فرض شناس اور مطیع بیٹے کی طرح ہوتے ہیں۔

عَلِّمُو اوَلَا تَعَنَّفو افَاِنَّ المُعَلِمَ خَیرُُ مِنَ المُعَنِف (بیھقی)

“علم سکھاؤ اور سختی نہ کرو۔معلم سختی کرنی نیو الے سے بہتر ہے۔”

“جس سے علم سیکھو اس کی عزت کرو۔”(حدیث)

امام شافعیؒ تو اپنے استاد کے گھر کی طرف پیر کرکے سونےسے بھی گریز کر تے تھے مبادا سوء ادبی نہ ہو۔

۸۔پاکیزہ فضامیں تعلیم دی جاتی ہے ۔گھر،محلہ،ماحول،مملکت اور مدرسہ ہر ایک فضا کو پاکیزہ بنائےر کھنے اور اپناتعادن پیش کر نے کے لیے تیاررہتاہے اور بڑوں خصوصا ًمعلّمین کا حسنِ سلوک،ہمدردی ودِل سوزی اور اچھا اسوہ متعلمین کی مناسب تربیت اور مثالی نظم و ضبط کے قیام میں معاون ہوتا ہے۔

۹۔انفرادی،عائلی ا  ور اجتماعی ذمہ دا ریوں کا صحیح علم بہم پہنچایاجاتاہےاور ان کو اللہ ورسول کے احکام کے مطابق سر انجا دینے کی بتدر یج عملی تربیت کی جاتی ہے۔

۱۰۔غیر مسلموں کو اپنے عقیدہ و مسلک اور اپنی مر ضی کے مطابق تعلیمی اداروں کے قیام کی سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں اور ان کے مسلک یامرضی کے خلاف کو ئی بات انہیں بہ جبر  نہیں پڑھائی جاتی۔

لَا اِکرَاہَ فیِ الدِینِ۔(البقرہ۔۲۵۶)

“دینی دا خلاقی قدروں کو مستقل حیثیت اور غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ان کے تقاضوں کوہر حال میں پُورا کیا جاتا ہے کسی حال میں بھی ان قدروں کی بے قدری نہیں ہو نے ہونےدی جاتی۔

بُعِثتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الَ خلَاقَ(موطاامام ما لکؒ)

“مجھے اس لیے بھیجا گیاہے تاکہ اخلاقی اچھا ئیوں کو تمام وکمال تک پہنچاؤں۔”

قُل اٰمنتُ باللہ ثمَّ استَقِم۔(حدیث)

“کہو میں اللہ پرایمان لایااور پھر اس پرجمے رہو۔”

اِنَ رِجَا لََا یَاتُو نَکُم مِن اَقطَارالاَرَضِ یَتَفَقَّھُونَ فیِ الدِّینِ فَاِذَاأتَو کُم فَاستَو صُو ابِھِم۔(ترمذی)

“اطراف زمین سے لو گ تمہارے علم دین سمجھنے آئیں گے تم ان کو بھلائی کی تلقین کرنا۔”

۱۲۔ متعلم کی عمر،ضروریات،مزاج،انفرادی خصوصیات اور نفسی کیفیات کالحا ظ کر کے تعلیم دی جاتی ہے۔تعلیم و تربیت میں آسانیاں بہم پہنچائی جاتی ہیں ۔شدائدو مشکلات میں مبتلاکر کے انہیں بددل ومایوس نہیں ہونے دیاجاتااور نہ تعلیم کوان پر باربننے دیاجاتاہے۔مشہور مقولہ ہے۔

کَلِمُواالنَاسَ عَلیٰ قِدرِ عُقُو لِھِم۔

“لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرو۔”

یسُرواولَا تُعَسِّرُوا ابشُرواوَلَاتُنَفرُوا (حدیث)

“آسانیاں بہم پہنچاؤ،شدائد میں مبتلا نہ کرو، خو شخبری دو،متنفر نہ کرو۔”

اَنیِّ  اَتَخَوَّلَکُم بِالمو عِظَۃِ کَمَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَتَخَوَّ لُنَا بِھَا مَخَا فَۃَ السَّامَۃِ عَلَینَا۔(عبداللہ ابن مسعود بخاری و مسلم)

“میں نا غے دے   کروعظ و تلقین کرتا ہوں جیسے کہ نبی صلی اللہ  علیہ وسلم ناغے دے کر وعظ فرماتے اور آپ ایسا اس لیے کرتے کہ ہم لوگ کہیں اُکتانہ جائیں۔”

اسلام میں مایو سی کُفر ہے اصلاح و تر بیت کی طرف سے نہ متعلمین ما یوس ہو تے اور نہ ان کے استاتذہ سرپرست یادو سرے ذمہ دار،بلکہ ہرایک مایوسی سے خود بچتا ہے اور متعلمین کو بچاتا ہے۔

وَلَاتَا یُٗسُوامِن رَّوحِ اللّٰہ ، اِنَّہٗ لَاَیَا یَُسُ مِن رَّوحِ اللہ اِلَّا القَومُ الکٰفِرُونَ۔(یوسف ۸۷۱)

“اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔اس کی رحمت توبس کافرہی مایوس ہواکر تے ہیں۔”

اِنَّ لقُلُوبِ شَھوَاتِِ وَ اِقبَالَا وَاِد بَارا فَأ نُو ھَا مِن قِبٔلِ شَھوَ اتِھَا وَ اِقبَا لِھَا،فَاِنِّ القَلبَ اِذَااُکدِہَ عُمَی (حضرت علیؒ،ازکتاب الخراج ابو یوسف)

“دلوں کی کچھ خوا ہشیں اور میلانات ہو تے ہیں اور کسی وقت وہ بات سننے کے لیے تیاررہتے اور کسی وقت اس کے لیے تیار نہیں رہتے تو لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے اندر سے داخل ہو اور اس وقت اپنی بات کہو جب وہ سُننے کے لیے تیار ہوں اس لیے کہ دل کاحال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیا جاتاہے تو دہ اندھاہو جاتاہے (اور بات کو قبول کرنے سے انکار کر د یتاہے)”۔

۱۳۔طلبہ کی شخصیت کے تمام پہلو ؤں کو ہم آہنگی سے پروان چڑھانےکی فکر کی جاتی ہے ۔ فطری صلاحیتوں کو نشوونما دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کو برو ئے کارلانے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔کیو نکہ بچوں کو خداکی امانت،ان کے جسم اور جسم کی تمام قؤتوں اور صلا حیتوں کوخدا کاربر دست عطیہ اور انسان کے لیے جاتاہے بلکہ صحیح رُخ پر ڈالنے کا اہتمام ہو تاہے۔

۱۴۔طلبہ کو سادہ زندگی،محنت مشقت،اپناکام آپ کرلینے اور خلقِ خدا کی خدمت کر نے کا عادی بنایاجاتاہے تاکہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کوعارنہ سمجھیں۔حضور خودسار ے کام اپنے ہاتھ سے کر لیتے اور خلفائےرا شدین و  بزرگانِ  دین کا بھی یہی اسوہ رہاہے۔

۱۵۔ خداکی خوشنودی حاصل کرنااور خلقِ خداکو نفع پہنچانا یہی حصولِ علم کی غرض غایت ہو تی ہے نہ کہ آج کل کی طرح ڈگریوں کارُعب ،دبدبہ و مرتبہ۔جاہ و جلال،ولت دثروت اور علمی لیاقت پر فخروغردر یا حصول دُنیاکے لیے۔

مَن تَعَلَّمَ عِلمََا مِمَّا یَبتَغِی بِہ وَجہَ اللہ ،لَا یَتَعَلَّمَہٗ اِلَّالِیُصِیبَ بِہِ عَرَضََا مِنَ الدُّنیَا لَم یَجِد عَرَفَ الجَنَّۃِ یَومَ القِیٰمَۃِ یَعنِی رِیحَھَا(ابودود۔ابن ماجہ احمد)

“جس شخص نے وہ علم سیکھا جس سے خداکی خوشنودی طلب کی جاتی ہے لیکن اس غرض سے سیکھا کہ وہ اس سے دنیاکی متاع حاصل کرے تو قیامت کےدن اس کو جنّت کی خوشبو میسر نہ ہو گی۔”

مَن طَلَبَ العِلمَ لِیُجَارِیَ بِہِ العُلَمَآ ءَ اَو لِیُمادِیَ بِہِ السَّفَھَآءَ   اَویَصرِفَ بِہِ دُجُوہَ النَّاسِ اِلَیہِ اَد خَلَہٗ اللہ  النارَ(ترمذی۔ابن ماجہ)

“جس شخص نے علم کو اس غرض سے حاصل کیا کہ وہ اس سے علماء سے مناظرہ کرے یا سبک سروں سے جھگڑے یالوگوں کو اپنی طرف ۔”

عَمَرُبنِ الخَطَّاب قَالَ لِکَعبِِ مَن َار بَابُ العِلمِ قَالَ اَلّذِی یَعمَلّونَ بِھَا یَعلَمُونَ قال  فَما اَخرَ جَ العِلمَ مِن قُلُوبِ العُلَمَاءِ قَالَ الطَّمَعُ (دارمی)

“حضرت عمربن الخطاب نے حضرت کعب سے وریافت کیا تمہارے نزویک اہل علم کون ہے۔حضرت کعب بو لے۔۔۔” وہ لوگ جواپنے علم کے موافق علم کریں ،ـ” پھر حضرت عمر نے پوچھا۔”عالموں کے دلوں سے کون سی چیز علم کو نکالی لیتی ہے۔”حضرت کعب نے جواب دیا”لالچ۔ “

۱۴۔چھوٹے بڑے پڑھے لکھے اور اَن پڑھ سب علم کے حریص بنادیئے جاتے ہیں اور لائبر یریوں اور دارالمطالعوں اور مذاکراتی مجالس وغیرہ کے ذریعے ایسی سہو لتیں بہم پہنچا ئی جاتی ہیں کہ ہر شخص گودسے گورتک علم حاصل کر سکے۔

لَن یَّشبَعَ المُنَّوؐا مِنُ مِن خَیرِِ یَسّمَعُہٗ حَتّٰی یَکُونَ مَنھٰہُ الجَنَّۃ۔(ترمذی)

“مومن کا  پیٹ بھلی با تو ں (علم) سے نہیں بھر تا۔دُہ سنتارہتاہے یہاں تک کہ جنّت میں پہنچ جا تا ہے۔ “

یہی وہ نظامِ تعلیم ہے جوہر حیثیّت سے مکمل،مفید اور اللہ کی نظر میں مستند ہے۔ باقی جتنے نظامِ تعلیم رائج ہیں وہ سب انسانوں کے گھڑے ہو ئے،ایک رُخے،ناقص اور بحیثیّت مجموعی، انسانیت کے لیے مضر ہیں۔یہی واحد نظام تعلیم ہے جس انسانیت کی فلاح ہے اسی کو اپنا کر مو جودہ تعلیمی مسائل کا حل نکالاجا سکتا ہے اور آئندہ نسلوں کا مستقبل تا بناک بنا یا جا سکتا ہے۔ ورنہ انسانیت کا انجام انتہا ئی دردناک ہوگا۔

یہ ہیں اسلامی نظام تعلیم کی بنیادی خصوصیات۔ ان سے بخوبی اندازہ لگا یاجا سکتا ہے کہ اِسلامی نظامِ تعلیم ہی وہ جامع الصفات نظام ہے جس میں انسان کی شخصیّت کے ہر پہلو اور اس کی تمام فطری قوتوں اور صلاحیتوں اور اس کی ساری ضروریات کی پوری رعائیت ر کھی گئی ہے۔ یہی وہ نظامِ تعلیم ہے جوہر حیثیّت سے مکمل،مفید اور اللہ کی نظر میں مستند ہے۔ باقی جتنے نظامِ تعلیم رائج ہیں وہ سب انسانوں کے گھڑے ہو ئے،ایک رُخے،ناقص اور بحیثیّت مجموعی، انسانیت کے لیے مضر ہیں۔یہی واحد نظام تعلیم ہے جس انسانیت کی فلاح ہے اسی کو اپنا کر مو جودہ تعلیمی مسائل کا حل نکالاجا سکتا ہے اور آئندہ نسلوں کا مستقبل تا بناک بنا یا جا سکتا ہے۔ ورنہ انسانیت کا انجام انتہا ئی دردناک ہوگا۔ مروجہ نظام ہائے تعلیم آئندہ نسلوں میں جس تیزی سے بگاڑ پیداکررہے ہیں اس کا ہر ایک کو علم ہے،اللہ تعالٰی اِسلامی نظام کو اختیار کرنے توفیق دے اور انجام برے  بچائے جس کے تصّور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

 

 

ماخوذ: فن تعلیم وتربیت (مصنف :  افضل حسین )  – باب  پنجم

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے