کچھوا اور ہنس

پرانے زمانے کی بات ہے کسی گاؤں میں ایک بڑا تالاب تھا، جس میں ڈھیر ساری مچھلیوں کے ساتھ ایک کچھوا بھی رہتا تھا۔ تالاب کے کنارے سرکنڈوں کی ایک جھاڑی تھی جس میں ہنس کا ایک جوڑا بھی رہا کرتا تھا۔کچھوا اور ہنس میں بڑی گہری دوستی تھی۔ ایک مرتبہ گاؤں میں قحط پڑا ۔ ندی نالے سب سوکھ گئے۔ کسانوں کی کھیتاں تباہ ہوگئیں، تالاب میں موجود تمام مچھلیاں آہستہ آہستہ مرنے لگیں۔ہنس کے جوڑے نے جب  گاؤں اور تالاب کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے کہیں دور جاکر رہنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ بات جب کچھوے کو معلوم ہوئی تو اس نے کہا کہ مجھے کیوں اکیلا چھوڑ کر جارہے ہو،میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔ لیکن کچھوا جائے گا کیسے یہ ایک بڑا مسئلہ تھا ۔بہت سوچ وچار کے بعد آخر میں ایک ترکیب سمجھ میں آئی ۔ ہنس کے جوڑے نے کہا ہم دونوں ایک چھڑی کو اپنی چونچ سے پکڑیں گے اور بیچ میں  تم پکڑ لینا اس طرح اڑ کر ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ چلےجائیں گے۔

اس بات  کابھی خیال رہے کہ تمہیں کچھ بولنا نہیں ہے۔کچھوے نے حامی بھرلی اور سب ایک ساتھ اڑنے لگے۔جب یہ تینوں اڑ رہے تھے تو ان کا گذر ہرے بھرے جنگلات ، دریا، پہاڑ، اور بہت سی چھوٹی بڑی بستیوں سے بھی ہورہاتھاجسے دیکھ کر کچھوا حیرت ذدہ رہ جاتا وہ بولنا چاہتا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔اتفاقاً ان کا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا جہاں لوگ انہیں دیکھ کر مذاق اڑ رہے تھے۔ کچھوے سے رہا نہیں گیا جیسے ہی ان نے کچھ بولنے کے لئے اپنا منھ کھولا ڈھڑا م سے نیچے زمین پر آگیا۔

 

کیوریٹر: ابوالفیض اعظمیؔ

مکمل کہانی پڑھنے کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کریں۔

کتاب ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے