طلبہ کی تربیت میں اسکول انتظامیہ کا کردار

مصنف:محمدعبد اللہ جاوید

طلبہ کی تربیت میں اسکول انتظامیہ کاراست اور بالراست کردار ہوتا ہے۔ طریقۂ تربیت میں چونکہ کئی داخلی اور خارجی امور شامل رہتے ہیں ،اس لئے اسکولی تناظر میں انتظامیہ کا تعلق لازمی طور پر ان امور سے ہوتا ہے۔انتظامیہ کا تربیتی کردار، راست کی بہ نسبت بالراست زیادہ ہوتا ہے۔ راست تربیت سے مراد، وہ خود منتخب طلبہ سے وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال کے ذریعہ ،ان کی خوبیوں کو پروان چڑھانے کا اہم ترین کام انجام دے سکتے ہیں۔اپنے مشاہدہ میں آنے والے قابل اصلاح پہلوؤں پر وہ خود بھی یا اپنے دیگر ذمہ داران کے ذریعہ توجہ دے سکتے ہیں۔ تربیتی نظم کے موثر اوردوررس اثرات کا حامل ہونا اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ یہ کس حد تک فطری اور بروقت ہے؟لہذا اس پہلو سے انتظامیہ کی وقتی مداخلت مفید ہوسکتی ہے،البتہ اس راست کردار میں احتیاط ضروری ہے ۔توازن کے ساتھ طلبہ کی اصلاح وتربیت کا کام قابل قدر ہے جبکہ عدم توازن اور ضرورت سے زیادہ مداخلت ، اساتذہ کے کردار کو متاثر کرتی ہے،اس کا بہرحال لحاظ رکھنا چاہئے۔

طلبہ کی تربیت ورہنمائی میں اسکول انتظامیہ کا بالراست کردار، زیادہ وسیع اور نہایت ہی کارگر ہوتا ہے۔ چونکہ وہ اسکول کے قیام کے ذریعہ ، مثالی تعلیمی وتربیتی نظام یقینی بنانے کا وعدہ کئے ہوتے ہیں، اس لئے ان کا اخلاص وللہیت کے ساتھ اس وعدہ سے وفاء کرنے کی کوشش میں لگ جانا،انہیں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کا مستحق بناتا ہے۔ اور وہ اپنے اسکول میں نمایاں تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

(انتظامیہ کے بالراست کردار میں سب سے پہلے اسکول کے مجموعی حالات سے ان کا پوری طرح واقف ہونا ہے۔انہیں طلبہ کی علمی واخلاقی صورت حال سے اور اساتذہ کی تدریسی اور اخلاقی صورت حال سے مکمل واقفیت ہو۔اس غرض کے لئے انتظامیہ کے بعض افراد کی جانب سے اساتذہ اور طلبہ کی مجموعی صورت حال کا معروضی جائزہ لیتے ہوئے تفصیلات مرتب کرنے کا اہتمام ہو تا کہ دیگر ممبران کو ان سے واقف کرایا جاسکے اور حسب ضرورت بہتری کے لئے اقدام بھی کیا جاسکے۔

طلبہ کی علمی و اخلاقی صورت حال جانچنے کے لیے ان کے ہر درجے کے پیش نظر یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے سیکھنے سمجھنے‘ بہتر نتائج لانے کے علاوہ ان کا اسکول اور گھر میں اخلاقی برتاؤ کیسا ہے؟جب کہ اساتذہ کی تدریسی اور اخلاقی صورت حال کی جانچ کے لئے ان کا انداز تدریس، نئی تکنیک کا استعمال، مختلف النوع طریقوں کے ذریعہ طلبہ کی رہنمائی‘تدریسی تجربہ میں اضافہ کی کیفیت وغیرہ جیسے معاملات پیش نظر ہوں۔

جہاں تک اساتذہ کی اخلاقی صورت حال کی جانچ کا تعلق ہے‘ا س ضمن میں ان کی عبادات‘ ذاتی معاملات‘ نظم و ڈسپلن‘ وقت کی پابندی‘ طلبہ اور والدین سے تعلقات کی نوعیت‘احساس ذمہ داری‘مطالعہ او رحالات سے واقفیت کی کیفیت کے علاوہ دیگر اساتذہ کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا ملکہ اور اسکول کے تئیں جذبہ خیر خواہی جیسے امور پیش نظرہوں۔

۲۔اساتذہ کی عزت کرنا اور ان سے احترام سے پیش آنا‘ نہ صرف ایک دینی اور اخلاقی تقاضہ ہے بلکہ یہ عین تعلیمی ضرورتوں میں سے ہے۔ یہ طرز عمل اساتذہ کے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے اور ان کے اندر اسکول سے اپنائیت کا احساس اجاگر کرتا ہے۔ یہی وہ پہلی سیڑھی ہےجہاں سے اساتذہ اپنے بے مثال کردار کی بلندیوں کو چھونے کے لئے بتدریج آگے بڑھتے رہتے ہیں۔لہذا انتظامیہ‘ اساتذہ کو محض ملازم نہ سمجھیں بلکہ انہیں ایسا ذریعہ سمجھیں جن کے توسط سے وہ اپنے اسکول کو مثالی بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں۔ظاہر ہے خواب جتنے اہم ہوتےہیں‘ خواب کی تکمیل کے واسطے یعنی اساتذہ بھی اتنے ہی اہم ہوں۔بہرحال ‘اساتذہ کی عزت وتکریم اسکول کی منفرد پہچان ہو۔

۳۔اس جانب خصوصی توجہ ہو کہ ہر استاد کے پاس اپنے طلبہ کی دینی‘اخلاقی‘ تعلیمی اور فکری صلاحیتوں کو نشوونما دینے کے باضابطہ اہداف طےہوں۔اس ضمن میں ان کی کوششوں کا جائزہ لینا،اچھے پہلوئوں کو سراہنا، قابل اصلاح پہلوئوں کی جانب ان کی توجہ مبذول کروانا ، اساتذہ میں بہتر سے بہترکارکردگی اور خوب سے خوب تر کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

اگر اسکول سے وابستہ طلبہ کہیں اورپڑھنے جاتے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہاں کا تعلیمی نظام اثرا انداز نہیں ہورہا ہے۔ کسی اسکول کے طلبہ کا کہیں ٹیوشن جانا ایساہی سمجھنا چاہئے جیسا گھر کے بچوں کا ہوٹل کی جانب مستقل رخ کرنا ۔جب کوئی گھر کھانے پینے کی کفالت پوری طرح کررہا ہو تو بچے ہوٹل کا رخ نہیں کرتے۔یہی حال اسکول کا بھی ہو،وہ ضروریات کی تکمیل کا مسکن ہو، ہر سطح کے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا موثر نظم ہو۔

۴۔ طلبہ کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے اسکول ہر لحاظ سے کفایت کرتا ہو۔اگر اسکول سے وابستہ طلبہ کہیں اورپڑھنے جاتے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہاں کا تعلیمی نظام اثرا انداز نہیں ہورہا ہے۔ کسی اسکول کے طلبہ کا کہیں ٹیوشن جانا ایساہی سمجھنا چاہئے جیسا گھر کے بچوں کا ہوٹل کی جانب مستقل رخ کرنا ۔جب کوئی گھر کھانے پینے کی کفالت پوری طرح کررہا ہو تو بچے ہوٹل کا رخ نہیں کرتے۔یہی حال اسکول کا بھی ہو،وہ ضروریات کی تکمیل کا مسکن ہو، ہر سطح کے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا موثر نظم ہو۔جن طلبہ کو پڑھنے لکھنے میں دشواری ہو‘ ان کے لئے اسکول کے مقررہ اوقات کے علاوہ مزید وقت کا تعین ہو۔اس ضمن میں انتظامیہ کی جانب سے اصول طے ہوں اور اساتذہ پر یہ واضح ہو کہ اسکول کا قیام ‘طلبہ کے لئے ہے اور ان کی تمام تر تعلیمی ضرورتیں یہیں پوری ہوں گی۔

اگر طلبہ پر اسکول کے علاوہ کہیں اور تعلیم حاصل نہ کرنے کی پابندی عائد کردی جائے تو اساتذہ کی قوت استعداد‘ ان کے طریقہ تدریس اور احساس ذمہ داری میں بتدریج اضافہ ہوگا۔ نیز والدین کے ذریعہ گھروں میں تعلیمی و تربیتی ماحول کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔

جب اسکول میں زیر تعلیم طلبہ کی تمام ضرورتیں پوری ہونے لگیں تو یہ اس کے اندرونی نظام کے مثالی ہونے کا برملا اعلان ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوگا کہ انتظامیہ اور اساتذہ سے لے کر طلبہ کے والدین و سرپرست تک تعلیمی وتربیتی نظام کا حصہ              ہیں اور سب مل کر شہر میں صرف اسکول نہیں بلکہ ایک اصلاحی وانقلابی تحریک چلارہے ہیں۔

۵۔ اسکول انتظامیہ اس بات کی خاص کوشش کرے کہ طلبہ پر اثر انداز ہونے والوں میں اساتذہ اور کچھ حد تک اس کے ذمہ داران کےعلاوہ اور کوئی نہ ہو۔ ضرورتاً کسی اور فرد یا افراد سے متعینہ موضوع پر طلبہ کو استفادہ کا موقع دیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان پر اثر انداز ہونے والے افراد بس اسکول کی حد تک ہی محدود ہوں۔ والدین کو اسکول کی اس حکمت عملی سے واقف کرانا اور انہیں اپنے گھر میں بچوں کی تربیت کے بہتر ماحول کوفروغ دینے پر متوجہ کرنا ‘اساتذہ اور انتظامیہ کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔طلبہ پر اثر انداز ہونے والے ان امور کا لحاظ رکھنا ‘ تربیت کا ایک صحت مند رخ متعین کرتاہے اور طے شدہ مقاصد کے تحت طلبہ کی مطلوبہ تیاری ہونے لگتی ہے۔

۶۔طلبہ کی تربیت کا آغاز ان کے اسکول میں قدم رکھتے ہی ہو۔ اس لئے اسکول کی عمارت سے لے کر اس کے اندر انجام پانے والی تمام سرگرمیاں تعلیمی وتربیتی نوعیت کی ہوں۔ اسکول میں داخل ہونے کے آداب، بامعنی صبح کی اسمبلی، در و دیوار پر خوبصورت پیغامات، دیوار پر آویزاں طلبہ کی جانب سے جاری کردہ ہفت روزہ یا روزنامہ، وقفہ کا موثر استعمال، کلاسس میں بیٹھنے ،کھانے پینے ، آیا سے گفتگو اور مدد لینے اور گھر واپس جانے کے آداب‘ مختلف اوقات کی دعاؤں کی تلقین وغیرہ جیسے امور پر بھر پور توجہ ہو۔اور ان سے متعلق ایک موثر لائحہ عمل مرتب ہو۔ انتظامیہ اس کی برابر نگرانی کرتا رہے اور اساتذہ بڑی دیانت داری کے ساتھ اس کے نفاذ کی کوشش میں لگے رہیں۔

۷۔ جن خصوصی پروگراموں سے طلبہ کی تربیت مطلوب ہو ان کو ہرگز کسی ایونٹ کی شکل نہ دی جائے۔ کسی مہمان کی آمد سے استفادہ حدود میں رہتے ہوئے‘ اسلامی آداب کے پیش نظر ہو۔غیر ضروری اخراجات اور بے جا نمود و نمائش سے بچنا، تربیت کے لئے راہیں ہموار کرتا ہے۔ جہاں اصراف اور نمود و نمائش ہو وہاں سیکھنے سمجھنے کے لیے پردے حائل ہوجاتے ہیں۔ لہذا کوشش ہو کہ روزانہ کی کلاسس سے ہٹ کر اگر کسی مہمان کی آمد یا تربیت کا خصوصی پروگرام ہو تو وہ اسی تک محدود رہے۔

لہذا ہر ایونٹ کے کچھ تربیتی مقاصد طے ہوں اور انہیں حاصل کرنے کی منظم کوشش ہو۔ جیسے یوم آزادی… اس سے متعلق سرگرمیوں کے تربیتی مقاصد طے ہوں۔ جیسے طلبہ میں آزادی کا صحیح تصور واضح کرنا، انہیں آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں سے واقف کرنا، ان کے اندر وطن کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا، ملک کی بہتری کے لئے دیگر اقوام کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا جذبہ فروغ دینا وغیرہ۔

۸۔ہر چھوٹے بڑے ایونٹ سے تربیتی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں بھی انتظامیہ کی خصوصی دلچسپی درکار ہوتی ہے۔ ہر سال مختلف موقعوں پر ایسے کئی سرکاری،نیم سرکاری اور غیر سرکاری ایونٹس ہیں جن کا اسکولی سطح پر اہتمام ضروری ہوتا ہے۔ لہذا ہر ایونٹ کے کچھ تربیتی مقاصد طے ہوں اور انہیں حاصل کرنے کی منظم کوشش ہو۔ جیسے یوم آزادی… اس سے متعلق سرگرمیوں کے تربیتی مقاصد طے ہوں۔ جیسے طلبہ میں آزادی کا صحیح تصور واضح کرنا، انہیں آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں سے واقف کرنا، ان کے اندر وطن کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا، ملک کی بہتری کے لئے دیگر اقوام کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا جذبہ فروغ دینا وغیرہ۔ اسی طرح ہر چھوٹے بڑے ایونٹ کے مقاصد طے ہوں۔ اس بات کی پوری کوشش ہو کہ اسکول کا سرمایہ‘اسکے وسائل‘ اساتذہ کا وقت اور صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ،متعینہ تربیتی مقاصد کے حصول کے لئے ہو، ایونٹ برائے نام ایونٹ نہ ہو۔

انتظامیہ کے اس بالراست کردار میں بھی توازن ضروری ہے۔ کسی بھی تعلیمی و تربیتی معاملہ میں پالیسی امور اور اصولوں کے تعین کے لیے وہ باہم مشورے سے اقدام کرنے کے مجاز ہوں گے۔ لیکن جہاں تک پالیسی کے تحت پروگرام اور اصولوں کے نفاذ کا تعلق ہے‘ اساتذہ کو مکمل آزادی دینی چاہیے۔ لہٰذا انتظامیہ کے حوالے سے اوپر جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان پر عمل درآمد اساتذہ کے ذریعہ یا انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے ان کے اشتراک سے ہو۔ اس حکمت عملی سے ممکن ہے انتظامیہ اپنی مفوضہ ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرسکیں گے اور اساتذہ بھی اپنا تعلیمی و تربیتی کردار بخوبی نبھاسکیں گے۔ نہ ایسا لگے کہ انتظامیہ ہی سب کچھ ہے اور نہ ہی یوں محسوس ہوگا کہ اساتذہ کے کردار میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔

غرض اور بھی امور ہوسکتے ہیں جن پر انتظامیہ توجہ دیتے ہوئے اپنے اسکول میں تعلیم و تربیت کا ایک مثالی ماحول فروغ دے سکتے ہیں۔ اس اہم ترین ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے انتظامیہ کی پوری توجہ اپنے علمی و فکری معیار کو بلند کرنے پر ہو۔ بطور خاص اسلام کا نظام تعلیم ، رسول اللہ ﷺ  کا طریقہ تربیت ، اساتذہ کی ذمہ داریاں اور مطلوبہ کردار،  دورحاضر کے طلبہ ونوجوانوں کے مسائل، دنیا بھر میں ہورہی تعلیمی و تربیتی کوششیں، شورائیت کی اہمیت اور طریقہ کار، نظم و انصرام کے آداب، ادارہ کا تنظیمی ڈھانچہ اور تقسیم کار وغیرہ جیسے امور سے مستقل واقفیت حاصل کرتے رہیں۔بلکہ انتظامیہ کی جانب سے اپنی علمی و فکری تربیت کے لئے وقتاً فوقتاً خصوصی اجلاسوں کا اہتمام ہو۔

محض اسکول سے وابستگی اور کسی پوسٹ کا حاصل ہوجانا، دنیا و آخرت میں کامیابی کی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کسی اسکول کا بھلا ہوسکتا ہے۔ بلکہ مفوضہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے مستقل کوشش کرتے رہنا اور اپنے علم و تجربات اور بے لوث تعاون سے اسکول کی مثالی ترقی یقینی بنانا، ہرفرد کواللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا مستحق بناسکتا ہے۔ ان امور پر انتظامیہ کی بھرپور توجہ ہو۔ اس کی اہمیت اور شدت واضح کرنے کے لئے بس یہ کہنا کافی ہوگا کہ وہ اپنے اسکول کے قیام کے ذریعہ، ہر ایک طالب علم کے مستقبل کو سنوارنے کے ذمہ دار بنے ہیں۔جیسے ان کی اولاد کی ذمہ داری ان پر ہے بالکل ویسے ہی اسکول میں پڑھنے والے تمام طلبہ کی ان پر ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں ذرا سی بھی تساہلی، اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل گرفت ہوگی۔اگر کسی فرد کا یہ غالب احساس ہو کہ وہ انتظامیہ کی ذمہ داری ادا نہیں کرسکتا تو اس کو اپنی جگہ بخوشی کسی قابل شخص کے حوالے کردینی چاہئے۔کیونکہ عقل مندی یہ ہے کہ ذمہ داری کے ذریعہ‘دنیا وآخرت سنورے‘یہ نہیں کہ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب حصہ میں آجائے۔

 

محمد عبداللہ جاوید  کا تعلق رائچور، کرناٹک سے ہے۔ انہوں نے اپنی اسکولی تعلیم شہر کے ممتاز ادارے ‘نیا مدرسہ’ سے مکمل کی ہے۔ پھر الیکٹرانکس میں گریجویشن کیا اور نیوکلیئر اور انرجی فزکس اور سوشیالوجی میں دو ماسٹر ڈگریاں حاصل کیں۔ اردو اور انگریزی میں 300 سے زائد مضامین لکھے ہیں جو قومی اور بین الاقوامی رسالوں اور فورمز میں شائع ہو چکے ہیں۔آپ نے کرناٹک، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر کے مختلف حصوں میں IV تا X گریڈ کے طلباء کے لیے ٹیچرز سائنٹفک اورینٹیشن پروگرامز کے ساتھ ساتھ طلباء کے ریسرچ پر مبنی پروگرامز کا انعقاد کیا ہے۔

ان سے اس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے  [email protected] ,ajacademyindia.com

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے