تاریخ نے ہماری دنیا کو کیسے بدل ڈالا

مصنفات : گورمیت کور اور مریم صاحبہ

مترجم : سلمان خان

بچپن میں ہماری دنیا ہمارے اطراف و اکناف کے ماحول پر محیط تھی۔ تاریخ کے مطالعہ سے ہی ہم لوگوں نے اُس دنیا کی پیچیدگیوں کو دریافت کرنا شروع کیا، جس سے ہم کبھی واقف ہی نہیں تھے۔ چھوٹی عمر سے ہی ہم اپنی مختلف ثقافتوں کے سلسلے میں، قدیم مصریوں سے لیکر بحری لٹیروں تک کے بارے میں سیکھنے کے قابل تھے۔ یہ گانوں اور ویڈیوز سے لے کر درسی کتابوں اور اسباق تک، سیکھنے کے کئی ذرائع پر مشتمل تھا جس نے تاریخ کو ایک متحرک اور مکمل سیکھنے کا تجربہ بنا دیا۔

اگر تعلیمی دنیا میں ہماری ملاقات ممتاز و ذہین اساتذہ سے نہ ہوتی، تو تاریخ کے مطالعہ کے لئے ہماری جستجو ہماری فکر کے لئے اتنی اہم نہ ہوتی۔ہم میں سے اکثر طلباء کے لیے تاریخ کے اسباق اکتادینے والے بے جان اور محض تھکا دینے والے ہوتے ہیں، ایک گھنٹہ جو یکساں باتوں کی تکرار پر مبنی ہوتا ہے۔ تاہم، اسکول میں تاریخ کا ہمارا تجربہ بالکل ہی مختلف تھا۔ ہمارے اساتذہ اس قابل تھے کہ وہ جذبےاور ولولے کے ساتھ اس مضمون میں جان ڈال دیتے اور وہی احساسات ہمارے اندر سرایت کردیتے۔

ہمارے کلاس روم کا ماحول نہ صرف ایک ایسی جگہ تھی جہاں ہم نے نہ صرف نئے مضامین سیکھے تھے، بلکہ کہیں نہ کہیں ہم نے سوالات بھی کھڑے کئے، انھیں چیلنج کیا اور اپنے افکار و خیالات کا دوبارہ جائزہ بھی لیا۔ ہمارے اساتذہ اور ہم جماعت طلباء کے ذریعے یکساں طور پر پیدا کردہ کھلی فضاء نے ہمیں موضوعات کے ساتھ آزادانہ طور پر منہمک ہونے کا حوصلہ بخشا۔ جس چیز کے ہم سب سے زیادہ منتظر رہتے تھے وہ تھا کلاس کے مباحثے میں شریک ہونا اور جس خیال  پر ہمارا یقین ہوتا تھااُس کو پرزور انداز میں پیش کرنا۔ دوران بحث ہمارے اساتذہ جس طرز سے ہمارے افکار کو چیلنج کیا کرتےاُس نے ہمیں ہمارے پیش کردہ نکات کی تائید کے لئے ثبوت و دلائل تلاش کرنے پر مجبور کیا۔ ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ ہمارے ساتھ ہماری تاریخ کے کلاسوں میں ایسے ہم عمر لوگ تھے جو ہماری ہی طرح تاریخ کے مطالعہ کا شوق رکھتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت سے ہم خوب لطف اندوز ہوتے تھے، اور ایک دوسرے کے ساتھ بحث کرنے کے تجربے نے ہمیں مضبوط بنادیا۔ ہمیں وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب ہم کسی مسئلہ پر بحث کے لیے کس قدر سنجیدہ ہوجایا کرتے تھے، بجائے دیگر مضامین کی کلاسیس کے جب ہم اپنے معمول کے مطابق پنسل کیس کے ساتھ اضطرابی کیفیت میں رہتے۔ اپنے آپ کو موثر طریقے سے اظہار کرنے کی خواہش و صلاحیت، ایسا سرمایہ تھا جو ہمارے ساتھ باقی رہ گیا۔ اب ہم اپنے سماجی اور سیاسی افکار کو  بہتر و مفصّل طریقے سے بیان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور اپنی بات کو دلائل کے ساتھ رکھنے کی صلاحیت میں بھی نکھار آچکا ہے۔

اکثر لوگوں کو یہ سمجھنے میں دشواری ہوگی کہ کیسے کسی  فردکا دنیا کو سمجھنے کا نقطہ نظر تاریخ جیسے سماجی علم کے مطالعہ سے متاثر کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ جیسے سماجی علم کا مطالعہ ہمیں کسی بھی ادارے کے ایجنڈے اور اُس کے نتیجے میں تقسیم کردہ منتخبہ معلومات پر سوالیہ نشان لگانے پر اُبھارتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہم نے دوسری عالمی جنگ کا مطالعہ کرتے ہوئے پایا کہ کیسے برطانوی حکومت نے عوام کے جوش و جذبہ کو بلند رکھنے کی خاطر دوسرے ذرائع کو سنسر کرتے ہوئے پروپیگنڈا مہمات جاری کیں۔ ہم آج بھی اپنے آس پاس پروپیگنڈا اور سنسرشپ کے نمونے دیکھتے ہیں – جو  کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ کسی نہ کسی طریقے سے ہم کو متاثر کرنے کے لئے ہی تیار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ، آج میڈیا کے صارف ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے یہ زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم کسی بھی ذریعے سے آنے والے ایجنڈے پر سوالات کھڑے کریں نہ کہ اس پر نادانی سے بھروسہ کر لیں۔ مثلاً، عام انتخابات کے دوران رائٹ ونگ اور لیفٹ ونگ کے اخبارات کو پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات کی نشان دہی کرنے کے قابل ہیں کہ کس طرح سے انتخابات کو رپورٹ کیا جارہا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ہم آزادانہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم کس کا  انتخاب کررہے ہیں اور کیوں؟

ابتدائی سالوں میں برطانیہ ہماری تاریخ کی تعلیم کی توجہ کا مرکز تھا، بعد کے سالوں میں ہم نے غیر یورپی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا جیسے ویتنام کی جنگ، ہندوستان کی تحریک آزادی اور جدید امریکہ۔ اِن عالمی حوادث یا واقعات کے بارے میں سیکھنے یا جاننے سے ہمیں سیاسی حالات اور تصادم و تنازعات کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد ملی جن کو آج ہم حال کی دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔ نمک آندولن اُن موضوعات میں سے ایک تھا جس نے ہمارے دلوں پر نقش چھوڑ دیا، جو 1930 میں گاندھی جی کے زیرِ سر پرستی ہوا تھا۔ جب گاندھی جی نے اسکی قیادت کی تو اسکی کامیابی اُن لوگوں کی وجہ سے تھی جنہوں نےاس کی بھر پور حمایت کی۔ اِس سے ہمیں یہ بات واضح ہوئی کہ تبدیلی صرف ایک اہم شخص کی وجہ سے نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی وجہ سے آتی ہے۔

نمک آندولن کے پیچھے موجود قوتوں سے لے کر، مارٹن لوتھر کنگ کے واشنگٹن مارچ کی حمایت کرنے والے لاکھوں لوگوں کی تعداد تک، ہم نے  تاریخ میں صرف قائدین کا رول ہی نہیں بلکہ ان عام لوگوں کے بارے میں بھی دیکھا کہ  انھوں نے تاریخ پر اپنا کردار کیسے ادا کیا۔

یہ بات ہم پر عیاں ہوگئی کہ تاریخ صرف کلاس کے اندر پڑھایا جانے والا مضمون نہیں بلکہ ہماری زندگیوں سے جڑی ایک واضح حقیقت ہے۔

ایک ایسے شہر میں رہتے ہوئے جہاں وسائل اتنی آسانی سے دستیاب ہوں،  تاریخ کا مطالعہ کرنے کے فوائد نے بھولے ہوئے ماضی میں جان ڈال دی۔ تاریخ کے ہمارے تجربے میں، حالات حاضرہ اور عوامی لائبریریوں     وعجائب گھروں میں موجود نوادرات کی جستجوسے مزید اضافہ ہوا۔ ہم اپنے اسکول کے دنوں میں کئی بار سیاحت کے لئے گئے۔ ہمیں ابھی بھی ہینری ہشتم کے ذریعہ استعمال شدہ سینکڑوں سال قدیم لکھنے والی میز یاد ہے۔  ہم نےدوران نمائش محسوس کیا وہ (ہنری) وہیں موجود ہے، اور اس ڈیسک پر لکھتے ہوئے ہم اس کی تصویر کشی کر رہے ہیں، جب کہ ہم شائقین نے تاریخ کی ڈور کو جوڑتے ہوئے اس کی کہانی تخلیق کرنے کی کوشش کی۔

سیکھنے کے تمام متلون ٹولز کی آمیزش نے ہمارے لیے تاریخ کومسحور کن کر دیا۔ دوران کلاس، اس مضمون میں ہماری دلچسپی کو بڑھانے میں اساتذہ نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ مزید گہرائی میں جانے اور مزید سیکھنے کی ترغیب دی۔ جب کہ کلاس روم کے  باہرموجود وسیع وسائل نے ہمیں موجودہ  زمانے کے واقعات کے متعلق ہمارے تصور کو تیار کرنے میں مدد دی۔ تاہم، ہم اب بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ تاریخ کے بارے میں ہمارا علم ہمیں اپنے اردگرد کی دنیا کے بارے میں ایک باخبر نظریہ فراہم کرنے کے لیے ابھی بھی بڑی حد تک ناکافی ہے۔ یہ علم بذات خود اہم ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہمیشہ مزید سیکھنے اور اپنے اردگرد کی دنیا  کاجامع تصورسمجھنے کی تلاش کرتے رہتے ہیں، چاہے وہ تاریخی لمحوں  کےتحت جی رہا ہو یا مستقبل میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور کر رہا ہو،موضوع کے ساتھ ہمارے تجربہ نے ہمارے فلسفے پر واضح نشان چھوڑ دیا۔ غووفکر کے بعد، سماجی سائنس کا یہ پیچیدہ مطالعہ ہمارے خیالات اور اعمال دونوں پر مسلسل  اثر انداز  ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔

گورمیت کور :   اپنی پوری تعلیمی سفر میں   تاریخ سے خوب استفادہ کیا  ہے، انہوں نے ابھی اپنی تاریخ کا نصاب اے لیول سے مکمل کیاہے۔ وہ ستمبر 2010 سے لندن سکول آف اکنامکس میں تاریخ  کی پڑھائی شروع کرنے کا ارادہ کر رہی ہیں۔ انہیں شاعری اور ادب پڑھنے کا شوق ہے۔ ان سے اس پتے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔[email protected]

مریم صاحبہ :جی سی ایس ای تک تاریخ کا مطالعہ کیا ہےلیکن سیاسی اور تاریخی مباحث میں شامل رہتی ہیں۔ وہ فی الحال ستمبر 2010 سے سٹی یونیورسٹی میں آپٹومیٹری کی تعلیم حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہیں۔عمومی طور پر وہ کھیل پسند کرتی ہیں اور کھیل میں  خاص طور پر فٹ بال کھیلنا پسند کرتی ہیں۔ ان سے اس پتے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:  [email protected]

بشکریہ لرننگ کرو : عظیم پریم جی یونیورسٹی

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے