بچوں کی کہانیوں میں بچوں کی آواز۔ پہلی قسط

مصنف :جیوتی دیشمکھ/ شیوانی تنیجا

مترجم :ابوالفیض اعظمیؔ

اسکول ایک ایسا ادارہ ہے جس پر ہمارا یقین ہے کہ بچوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بناتا ہے، پھر بھی  اسکولوں کے بارے میں تمام فیصلے بالغ افراد لیتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے بالغ افراد جو بچوں کی حقیقتوں سے واقف بھی نہیں ہوتے، اسکول کے طریقہ کار کو طے کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس عقیدہ کو پرکھنے کی ضرورت ہے کہ بڑوں کو بچوں سے زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ مضمون  اس امر پر بحث کرتا ہے کہ کس طرح بچوں کو کہانیوں کی کتابوں کے ذریعے اسکولی زندگی کے تئیں اپنے خیالات ساجھا کرنے کے لئے ابھارا جا سکتا ہے، علاوہ ازیں یہ مضمون بچوں کے ادب میں ان کے اختیار کوبڑھانے کی بھی وکالت کرتا ہے۔

‘اسکول میں سیکھا اور سکھایا (مسکان، 2022)’  بھوپال کی ایک جھگی بستی گنگا نگر کی رہنے والی گونڈ قبائلی، نکیتا دھروے کی لکھی ہوئی کہانی ہے۔ کہانی اپنے دوستوں کے ہمراہ اسکول میں داخلہ لیتے وقت اس کے جوش و خروش سے شروع ہوتی ہے جو جلد ہی ان کے کلاس روم کے تجربات کی وجہ سے مایوسی میں بدل جاتی ہے۔ وہ اسکول کے طریقہ کار کی وجہ سے وہاں خود کو کھوئے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ استاد ان کی گھریلو زبان ‘گونڈی’ سے مختلف زبان میں بات کرتے ہیں اور جب وہ کسی چیز کی وضاحت طلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ بچے، مروجہ تعلیم حاصل کرنے کا خواب ادھورا نہیں چھوڑنا چاہتے، اس لیے وہ اس صورت حال سے نکلنے کے طریقے ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس گفت و شنید کے ذریعے نوجوان مصنف فن تعلیم پر مناسب سوالات اٹھاتے ہیں۔

کلاس روم میں کہانی

اس کتاب کو ہمارے اسکول میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہے 10 سے 15 سال کی عمر کے 20 طلباء کے مخلوط گروپ سے متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ بالکل جادوئی لگ رہا تھا کہ بچے کہانی میں پیش آنے والے واقعات سے کتنی آسانی سے جڑ گئے تھے۔ کہانی میں گونڈی کے دو جملے ہیں، اور جب انہیں پڑھا جاتا ہے تو بچوں کی جانب سے فرمائش کی جاتی ہے کہ ‘اسے دوبارہ پڑھیں’۔ ’’اس میں کیا کہا گیا تھا؟‘‘وہ پوچھتے ہیں۔ گفتگو کے بہاؤ اور چند مانوس الفاظ کی بنیاد پر وہ اندازہ لگا رہے تھے کہ انہیں کیا سمجھایا جا رہا ہے۔ کلاس میں کوئی گونڈی بچہ نہیں تھا، لیکن بچوں کے گونڈی بولنے والے دوست تھے۔ بحیثیت مہتمم، کوئی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ جوش و خروش کی وجہ صرف یہ  نہیں تھی کہ یہ ایک ایسی زبان تھی جس سے وہ کسی حد تک واقف تھے، بلکہ اس کی بڑی وجہ کہانی کی اصل تھی۔ راگنی للت نے بھی ہماچل پردیش میں بچوں کے ایک گروپ کے سامنے اسی کہانی کو پڑھتے ہوئے یہ دیکھا کہ پہاڑی بچے نیکیتا اور اس کے دوستوں کے ساتھ فوراً جڑ گئے۔

تجربات ساجھا کرنا

کہانی سنانے کے بعد، بچوں سے چند سوالات پوچھ کراپنے تجربات ساجھا کرنے کا موقع فراہم کیا گیا، جیسے کہ ‘ان چار لڑکیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ’کیا آپ نے کبھی اسکول میں خود کو کھویا ہوا محسوس کیا ہے؟ ’اگر آپ کھوئے ہوئے محسوس کریں گے تو آپ کیا کریں گے؟ ’’کیا آپ نے کبھی کسی بڑے سے ان کے کام کرنے کے طریقہ کو بدلنے کو کہا ہے؟‘‘بچے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے پیش پیش تھے اور ہمیں ان سے دوسروں کی کہانیاں بھی سننے کے لیے کہنا پڑا تھا۔ یہ کہانیاں زبانی کہی گئی تھیں، اور کچھ بچوں نے انھیں لکھا بھی۔ تین قسم کی کہانیاں سامنے آئیں۔

اسکول کے تجربات

ایک 10 سالہ لڑکے نے بتایا کہ اس کے گاؤں کے اسکول میں ٹیچر بورڈ پر کچھ لکھتے اور بچوں سے نقل کرنے کو کہتے۔ اگر بچے لکھ نہیں پاتے یا غلطیاں کرتے تو انہیں ‘درخت سے توڑی گئی تازہ ہری چھڑی’ سے مارا جاتا۔  ‘ہم کمرے سے باہر نکلنے کے بہانے سوچتے رہتے۔ مجھے اسکول جانا بالکل اچھا نہیں لگتا تھا لیکن گھر والے ہمیں زبردستی جانے پر مجبور کرتے’۔ اسی طرح کا تجربہ ایک 11 سالہ لڑکی کے ذریعہ ساجھا کیا گیا جس نے لکھا، ‘سر ہمیں یاد کرنے کو کہتے، لیکن میں ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ میں پوری کوشش کرتی لیکن میں یاد  نہیں کر پاتی۔ تو جب وہ ہمیں چھڑی سے مارتے تو میں بہت مایوس ہوجاتی تھی’۔ ایک لڑکی ایسی بھی تھی جس نے لکھا تھا کہ ’’سر ہمیں گھورتے رہتے تھے، اوپر سے نیچے کی طرف اپنی نظریں گھماتے تھے۔‘‘ وہ اپنی ماں کو یہ بات نہیں بتا سکتی تھی لیکن اسے یہ بتلاتی تھی کہ وہ ٹیچرٹھیک سے نہیں پڑھاتے تھے۔ اس کی ماں نے اسے پڑھائی چھوڑنے کو کہا۔

ایک 14 سالہ لڑکی، جس نے صرف ایک سال قبل اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا تھا، اس نے اسکول کا حصہ بننے کی اپنی پہلی کوشش کے بارے میں لکھا۔ ‘جب ہم پہلی بار اسکول گئے تو وہاں صرف تین دنوں تک رکے۔ ہم وہاں پڑھائی نہیں کر سکتے تھے۔ شروع میں ہم نے سوچا کہ ایسا اس لیے ہو رہا ہو کہ شاید یہ نئی جگہ ہے۔ مجھے امید تھی کہ وہاں کا شخص (استاد) ہمیں نہیں مارے گا’ ۔  میرے دوست نے مجھے یقین دلایا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے اور ہمیں کتاب کھول کر بیٹھنا چاہیے۔ لیکن یہ ایک سادہ نوٹ بک تھی۔ استاد نے بڑے بڑے جملوں سے بورڈ بھر دیا۔ مجھے پڑھنا نہیں آتا تھا، لیکن استاد نے کہا کہ وہ  اور کچھ نہیں سکھائیں گے۔ تو، میرے دوست نے کہا، ‘ہم کسی اور اسکول میں پڑھیں گے۔’ استاد نے بے پرواہ ہوکرصرف اتنا کہا،’’ہاں چلے جاؤ‘‘۔  بطور مہتمم، ہم نے اسکول کے کم از کم چند مثبت تجربات حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ندارد تھے۔

ان کی زبان اور بیرونی دنیا سے وابستہ تجربات

ایک 18 سالہ نوجوان لڑکی نے بتایا کہ جب وہ دوستوں سے اپنی بولی(پردھی) میں بات کرتی تھی تو دوسرے بچے یہ سمجھتے  تھے کہ وہ ان کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور استاد سے ان کی شکایت کرتے تھے۔ ‘لنچ کے وقت بچے ہم سے یہ کہتے ہوئےدور بیٹھ جاتے کہ ہم پردھی ہیں۔’ ایسا ہی تجربہ کنجر برادری کی ایک بچی نے بھی کیا۔ اس نے لکھا، ‘جب میں پہلے اسکول جاتی تھی تو میرے اسکول میں بچے ہمارا اور ہماری بولی کا مذاق اڑاتے تھے۔ اگر کوئی ان کا مذاق اڑائے تو وہ کیسا محسوس کریں گے؟ کسی کو بھی ہمیں طعنہ نہیں دینا چاہئے کیونکہ ہم الگ زبان بولتے ہیں۔

بالغان کے سامنے ان کے خیالات پیش کرنے کے تجربات

ایک 14 سالہ لڑکی نے بتایا کہ اکثر اس کی ماں اسے بھیک مانگنے کے لیے باہر بھیجتی تھی، اسے یہ پسند نہیں تھا۔ اگر وہ کچرا چننے باہر نہیں جاتی تب بھی اس کی ماں اس سے ناراض ہو جاتی۔ وہ اپنی ماں سے بہت ڈرتی تھی (اور اب بھی ہے) اور اسے یہ  نہیں بتا سکتی تھی کہ وہ بھیک مانگنے باہر نہیں جانا چاہتی۔ ایک دن اس نے ہمت کی اور اپنی ماں سے کہا۔ اس کی ماں نے اسے بھیک مانگنے کے لیے باہر بھیجنا بند کر دیا اور اسے اسکول میں داخل کرا دیا۔

 مصنفین میں سے ایک نے اپنی اسکولی زندگی کا ایک ذاتی تجربہ بھی شیئر کیا، ‘جب میں دسویں جماعت میں تھی، ریاضی کے استاد تیواری سر، مجھے ہمیشہ بورڈ پر بلایا کرتے تھے اور مسئلہ کی وضاحت کیے بغیر، مجھے اسے حل کرنے کی ہدایت دیتے تھے۔ جب کہ میں یہ نہیں کر سکتی تھی، تو وہ میری چٹیا کھینچ لیتے تھے۔ ایسا کئی دنوں تک چلتا رہا۔ میں ان سے ڈرتی اور ان کی کلاس سے باہر رہنا چاہتی تھی۔ ایک دن جب وہ کلاس ختم کر کے چلے گئے تو میں نے اپنی ہمت دیکھائی اور ان کے پیچھے بھاگی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ انہوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔ سر نے ٹھنڈے انداز میں جواب دیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں بہتر کروں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جواب میں کیا کہوں۔ لیکن اس کے بعد اس نے میری چٹیا کھینچنا چھوڑ دیا۔ میں نے بھی اس سے ڈرنا بند کر دیا۔‘‘

(جاری )

 اصل مضمون (Children’s Voice in Children’ s Stories)

بہ شکریہ :   Learning Curve,( Magazine,Azim Premji University) April, 2023

جیوتی دیشمکھ : بھوپال میں قائم غیر منافع بخش ادارہ  مسکان، کے ساتھ کلاس روم کی سہولت کار کے طور پر پچھلے نو سال سے کام کر رہی ہیں۔ وہ بچوں کو پڑھانا پسند کرتی ہیں اور ہمیشہ نئے طریقوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ کلاس روم کو سب کے لیے فعال اور پرلطف بنانا ان کے مشن کا اہم حصہ ہے۔

 ان سے [email protected] پررابطہ کیا جا سکتا ہے۔

شیوانی تنیجا : بھوپال کے اطراف میں 25 سال سے  قبائلی لوگوں اور غریب برادریوں کے درمیان کام کر رہی ہیں۔وہ سمجھتی ہیں کہ تعلیم کو ایک الگ تھلگ تعلیمی رجحان کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔

ان سے [email protected] پررابطہ کیا جا سکتا ہے۔  

 

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے