مصنفہ : انجلی نورونہا
مترجم : سلمان وحید
ہمارے یہاں ایک موضوع ہے جسے سماجی علوم کہا جاتا ہے، اور دنیا بھر کے اسکولوں میں کسی نہ کسی شکل میں پڑھایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار یہ ماحولیاتی تعلیم سے موسوم کیا جاتا ہے (جیسے،انڈیا کے موجودہ پرائمری اسکولوں میں) مڈل اسکول تک علیحدہ مضمون کے طورپر۔ جیسے، تاریخ، جغرافیہ، شہریت ( یا جو مختلف ملکوں میں آج معاصر شہریت تعلیم کی شکل میں اور ہندوستان میں سماجی اور سیاسی زندگی کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے) اور ہائی اسکولز میں تاریخ، جغرافیہ، معاشیات، سیاسیات اور عمرانیات کے طور پرپڑھایا جاتا ہے۔ کچھ ملکوں میں اکثر ایک مضمون نصاب میں شامل رہا ہے جسے سوشل اسٹڈیز کے نام سے موسوم کیا گیا، اور لوگوں نے تاریخ اور جغرافیہ کو اس سے الگ تصور کرتے ہوئے معاشیات، سیاسیات، اور عمرانیات کو سوشل اسٹڈیز میں شامل کیا ہے۔ اس بحث کی اہمیت کے باوجود میں اس مقالے کے مقصد کے تحت اس موضوع سے کنارہ کشی اختیار کروں گی۔
سماجی علوم سے میری مراد وہ تمام موضوعات ہیں جو سماج اور سماجی زندگی کے چند یا تمام پہلوؤں کا کسی نا کسی زاویہ نگاہ سے احاطہ اور تجزیہ کرتے ہیں۔ گویا کہ تاریخ بھی سماجی علوم کا ایک حصہ ہے کیوں کہ یہ سماج کے مختلف پہلوؤں کے تسلسل, تبدیلی، گزرے ہوئے وقت اور اُس کے باہمی ربط کا تجزیہ کرتا ہے، جغرافیہ جو کہ یہی کام زمین کے تمام خطّوں کے حوالے سے کرتا ہے، معاشیات اپنے تحت مختلف معاشی پہلوؤں کے تجزیہ کرنے کے طریق کار اور تصورات کو تیار کرتا ہے اور ان کی تطبیق کرتا ہے ۔ اسی نہج پر سماجیات اپنے سماجی پہلوؤں کا تجزیہ کرتا ہے اور سیاسیات اپنے سیاسی عناصر کا جائزہ لیتا ہے۔ ابتدائی تعلیم تک موخر الذکر تینوں موضوعات کو جداگانہ طریقے سے نا پڑھا کرعلم شہریت، تعلیمِ شہریت یا سماجی اور سیاسی زندگی کی حیثیت سے کسی نا کسی طرح مربوط ہوتے ہیں۔
“کسی خاص قسم ( تعلیم جس میں سے ایک ہے) کی شعوری کوشش اپنا کر ہی رویوں، اقدار، اور قابلیت جیسے اوصاف جن کی ضرورت جمہوریت کو محض ایک اصولی قائدہ کے بجائے قابل عمل بنانے میں ہوتی ہے، کو پیدا کیا اور برتا جا سکتا ہے ۔”
اس بات سے قطع نظر کہ ہم سماجی علوم کو کیسے سمجھتے ہیں، اکثر ایک سوال والدین اور سماج کے ذہن میں عمومی طور سے رہتا ہے کہ، کیا آج کی اس تکنیکی دنیا میں سماجی علوم ہماری زندگی میں کوئی معنویت رکھتے ہیں؟ سب سے پہلا سوال یہ کہ اگر ہمارا بچہ بارہویں یا کالج میں سماجی علوم میں سے کوئی بھی موضوع لیتا ہے تووہ کیا کرے گا؟ اُس کے لیے کس طرح کی نوکری کے امکانات ہیں؟
کیا وہ اسکول یا کالج میں ایک ٹیچر بنےگا یا اس کی حیثیت کسی محقق یا اکیڈمک کی ہوگی یا کسی مسابقتی امتحان پاس کرکے کسی سروس کمیشن میں نوکری حاصل کر لے گا؟ یا مینیجمنٹ کے میدان خصوصی طور پر ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ (فروغ انسانی وسائل) میں قسمت آزمائی کر لے گا۔ یہ تمام دروازے تو انجینئرنگ اور میڈیکل کے گریجویٹ طالب علم کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں. تو آخر کوئی سماجی علوم کو کیوں اختیار کرے اگر نام نہاد تکنیکی فیلڈ کا آپشن موجود ہو تو؟
ابتدائی درجات میں بھی یہی رویہ موجود ہوتا ہے جہاں طلباء اور والین کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ سوشل سائنس میں بچے صرف پاس ہو جائیں یہی کافی ہے ۔ شاذ و نادر ہی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیسے سماجی علوم طالبِ علم کو بہتر انسان بناتے ہیں، یا کیسے اُنہیں اس قابل بناتے ہیں کہ وہ ایک خوبصورت سماج کے لیے کارآمد ثابت ہوں یا في الواقع اسکول کی سطح پر کیسے سماجی علوم کی تعلیم و تدریس جمہوریت کو ترقی و نمو دے۔ کالج کی سطح پر سماجی علوم میں مہارت کو ان علوم کی اسکولی سطح پر دی گئی بنیادی تعلیم کے مقابلے میں مختلف نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس مضمون میں میری توجّہ اسکول میں تعلیمِ شہریت اور سماجی و سیاسی زندگی کے حوالے سے سماجی علوم کی تعلیم سے جڑے ہوئے مواد اور طریقہ کار کی معنویت پر ہوگی۔ میری خاص توجہ جمہوریت کی تعمیر، بقاء اور ترقی میں سوشیل سائنس کی تعلیم کی معنویت پررہے گی۔ میں اُن چیلنجز کا خاکہ پیش کروں گی جو سماجی علوم کی تعلیم کو درپیش ہیں جو کہ موجودہ سماج کی طاقتور ساخت اور اس کے مراتب اخلاقیات، جاگیردارانہ اور مخصوص طرز عمل ہیں جن کو خود والدین اور اساتذہ نے جائز قرار دے رکھا ہے۔
سماجی علوم بطور تعلیم برائے جمہوریت:
جمہوری معاشرہ اس حوالے سے ایک ترقی یافتہ سماج ہے کہ وہ فرد سے عملی سطح پر کچھ رویوں کا مطالبہ کرتا ہے، جیسے اخلاقیات، اہلیت اور قابلیت وغیرہ، جو انسان سے اس کے فطری میلان، جو کہ مذکورہ بالا صفات کے برخلاف ہے، سے اوپر اٹھنے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ جمہوریت کا اصول واقعی جمہوریت کی مشق بن سکے۔ کسی خاص قسم ( تعلیم جس میں سے ایک ہے) کی شعوری کوشش اپنا کر ہی رویوں، اقدار، اور قابلیت جیسے اوصاف جن کی ضرورت جمہوریت کو محض ایک اصولی قائدہ کے بجائے قابل عمل بنانے میں ہوتی ہے، کو پیدا کیا اور برتا جا سکتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے جدید جمہوریت، جاگیردارانہ و آمرانہ نظام کو چیلنج کرتے ہوئے غیر مساوی نظامِ اقتدار اور شخصیت پر مرکوز طاقت کے خلاف ابھری ہے۔ جمہوریت کو ان لوگوں سے اکثر چیلنج کا سامنہ کرنا پڑتا ہے جن کے درمیان مروّجہ مراتبی اقدار، اخلاق اور مزاج پائے جاتے ہیں جو بنیادی طور سے جمہوری بنانے کی مانگ میں سب سے پہلے شریک ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ ہمارا خود کا سماجی کرن ایک وسیع تاریخی عمل کا نتیجہ ہے جو عدم مساوات، درجہ بندی، صلاحیتوں میں اختلاف یا تقدیر جیسی چیزوں کو جائز قرار دیتا ہے۔ شاید خود پسندی اور دوسروں پر قابو پانے والی کیفیت بھی ہر فرد کی فطرت میں موجود ہے۔ اسی لیے سماجی محاذ کی طرح انفرادی سطح پر بھی جمہوریت کو عملی شکل دینا ایک مشکل ترین عمل ہے۔ اِس جدوجہد کو تعلیمی تجربات اور کلاس میں زیادہ جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بحث کرنے سے پہلے کہ یہ کیسے ممکن ہے آئیے ہم جمہوریت کے بنیادی تصورات کو سمجھتے ہیں۔
مساوات
یہ جمہوریت کا سب سے اہم اور کلیدی آئیڈیا(تصور) ہے۔ جمہوریت ہر فرد کے ساتھ برابر کا سلوک کرتی ہے۔ “ایک شخص ایک ووٹ” کا اصول بھی اسی کلیدی تصّور سے جنم لیتا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ جدید جمہوریت میں سیاسی برابری کی بناء پرسماجی اور معاشی برابری کا خواب ابھی ادھورا ہے۔ حقیقت میں معاشی اور سماجی نا برابری کی وجہ سے اس نام نہاد “سیاسی مساوات” (جو کہ ایک دستوری اصول پر مبنی ہے) پر منفی اثرات مرتب ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسے شہری (جو مثبت و تعمیری تنقیدی رویوں کے حامل ہوں) بنانے کے لیے سماجی علوم کی ایسی تعلیم کو ترقی دینے کی ضرورت ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں مساوات کیلئے جدوجہد کرے اور ایسے مزاج کو پروان چڑھائے جو تفریق اور تعصب پیدا کرنے والی پالیسیز کو چیلنج کرے۔ ہر شخص سے برابری کا سلوک کرنے کا اصول جمہوریت کا جزء لا ینفک ہے۔
انصاف
مساوات کے اصول سے ہی بلا لحاظ سماجی حیثیت “سب کو برابر انصاف” کا اصول بھی جنم لیتا ہے۔ یہ بالکل بھی مناسب بات نہیں ہوگی کہ چند افراد کو ان کے حصے سے کہیں زیادہ وسائل میسرہوں۔
آزادی
جمہوریت کا ایک اور اہم اصول ہر شخص کو آزادی کا حق دیتا ہے۔ اسی لیے ہر جمہوری دستور جیسے دستور ہند، اظہارِ رائے کی آزادی، ترقی کی آزادی، اور مختلف عقیدوں پر عمل کرنے کی آزادی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ یہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ہر شخص اپنی خود مختاری کی پیداوار ہے۔ حالانکہ سماج میں امن کے ساتھ رہنے کے لیے فرد کی آزادی کو محدود کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ دوسرے فرد کی آزادی میں رکاوٹ نہ بننے پائے۔ حالانکہ یہ کسی ایک فرد اور دوسرے کے درمیان کا معاملہ نہیں ہے کہ کس حد تک آزادی کو محدود کیا جائے، بلکہ مختلف آزادیوں کا ایک اجتماعی تصّور ہے جو سب کو میسر ہو۔
” اسی لیے عملی سطح پر جمہوریت کا نفاذ اجتماعی دائرے کار میں جتنا اہم ہے اتنا ہی انفرادی سطح پر اس کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ اور اس جدوجہد کو کلاس روم اور دیگر تعلیمی تجربات میں جگہ دینے کی ضرورت ہے”
شمولیت
جمہوریت کے حوالے سے سب سے زیادہ ذکر کیا جانے والا قول ابراہم لنکن کے گیٹیس برگ میں دی جانے والی تقریر کا ہے۔ ” حکومت لوگوں کی، لوگوں کے ذریعہ، لوگوں کے لیے”۔
اسی لیے جمہوریت میں پالیسیز اور قوانین کی ترمیم، تبدیلی اور تشکیل جیسے سارے عمل شہریوں کی شمولیت کے ساتھ مکمل کیے جاتے ہیں۔ اگر لوگ اپنے رویوں کو نہیں بدلیں گے اوراحساس ذمہ داری کے ساتھ خود کو نئی پالیسیوں اور قوانین کی ترمیم میں شریک نہیں کریں گے تو صرف چند لوگ جو قانون سازی میں پہلے سے شامل ہیں وہ اپنا فائدہ اٹھائیں گے۔
لوگوں کی نمائندگی اور ذمہ داری:
جدید سیاسی نظام میں جمہوریت راست ہونے کے بجائے نمائندہ بردار ہوتی ہے کیونکہ بڑے ممالک میں راست جمہوریت کی عمل آوری ممکن نہیں ہوتی۔ اسی لیے لوگوں کو نمائندہ قیادت کے معنی کو سمجھنا ضروری ہے، ووٹ کے ذریعے نمائندگی حاصل کرکے صرف ایک شخص کی حکمرانی نہ ہو بلکہ اُن لوگوں کے سامنے پوری جوابدہی اور ذمہ داری طئے ہو جنہوں نے اپنے قائد کو چنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیادت من مانی نہیں ہوگی اور جو چاہے وہ نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ قیادت دستور، پالیسی اور باشعور شہریوں کی شمولیت کے دائرے سے بندھی ہوئی ہوگی۔
اگر یہی مضبوط اور صحت مند جمہوریت کی بنیاد ہے تو اس کے شہریوں کو مندرجہ ذیل چیزوں پر عمل کرنا لازمی ہے:
1۔ ہر شخص کو برابر سمجھیں۔
2۔ جہاں لوگ عدم مساوات سے دوچار ہیں وہاں آواز اٹھانے کی قابلیت پیدا کریں۔
3۔ ایسا رویہ پروان چڑھانے کی کوشش کریں کہ جہاں بھی غلطی ہو اسکو صحیح کیا جائے نا کہ اس سے لاتعلقی برتا جائے اور نہ ہی طعنہ زنی کی جائے۔
4۔ پالیسیوں، قوانین و ضوابط پر تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کی جائے کیوں کہ وہ اپنا گہرا اثر رکھتی ہیں۔
5۔ ایسے راستے تلاش کرنے کی کوشش کی جائے جس سے مسائل کا حل سامنے آئے، باہمی تعاون اور ایک ساتھ کام کرنے کے طریقوں کو فروغ دیں۔
6۔ بحث و مباحثہ، دوسروں کی رائے کو سننے اور اتفاق رائے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے۔
سماجی علوم کے نصاب اور کلاس روم سے اس کا کیا تعلق یا معنویت ہے؟!
کلاس روم میں تدریس اور نصاب دونوں پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اوپر ذکر کی گئی صفات کو سماجی علوم کی تعلیم کے ذریعے حاصل کرنے کے لیے، بچے ضرور بہ ضرور اجتماعی مجلسوں میں متنازع امور پر تنقیدی جائزے کے تجربے سے گزریں، جس کے ذریعے بچّے مختلف آراؤں کا احترام کرنا اور دوسروں کی آزادی کا خیال رکھنا سيکھيں گے۔ اور انہیں باہمی تعاون سے کام کرنے کے مواقع بھی دیے جانے چاہیے۔ اس طرح کے تجربات سے بچے مساوات کی اقدار، سب کے احترام کا احساس، اور جمہوری انصاف سیکھیں گے اور انہیں اس بات کا احساس ہوگا کہ چیزیں جمہوری کارروائی سے ہی بدلی جاسکتی ہیں۔
تاریخ و جغرافیہ کے تنقیدی جائزے اور معاصر سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی سے پوری مضبوطی کے ساتھ جڑ کر اس عمل کو تقویت دی جاسکتی ہے۔ مطالعہ، احتساب، بحث و تمحیص کے تجربے سے اس ماحول کو ترتیب دیا جاسکتا ہے۔
ہندوستان میں روایتی سماجی علوم کا طریقہ کار، اسکول میں صرف معلومات کی منتقلی اور امتحان میں اس کو لکھ دینے پر اکتفا کرتا ہے۔ ہندوستان کا تعلیمی نظام اختلاف رائے اور تنقید سے پرہیز کرتا ہے۔ سماجی علوم کے ذریعے جمہوریت کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بحث اور اختلاف رائے کو کلاس روم میں ضرور لانا چاہیے تاکہ تنقیدی جائزے کے ساتھ ایک بہترین حل تک رسائی ہوسکے۔ اسی اہم نکتے کو پروفیسر کرشنا کمار اپنے کتاب ” تصادم سے تعلیم” میں مزید وضاحت کرتے ہوئے مثال دیتے ہیں۔ الیکشن درحقیقت کیسے منعقد ہوتے ہیں؟ کیسے ملک کے شہری مناسب یا فطری طریقے سے مسائل کے حل کے لیے جوجھتے رہیں؟ بڑے ڈیم کی تعمیر سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل، گاڑیوں سے بڑھتی ہوئی ٹریفک، یہاں تک کہ کامن ویلتھ گیمز کی ضیافت، بچّوں میں متنوع مزاج کی سمجھ، متضاد نقطہ نظر اور انکو مزید گہرائی اور اجتماعی سطح پر سمجھنے کے لیے بڑھاوا دیتے ہیں۔
جمہوری تعلیم، فیصلہ کرنے اور اُن فیصلوں کے ذریعے کامیابی کے احساس تک شرکاء یعنی طلباء کو لے جانے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ جو طلباء مستقبل میں ملک کے شہری ہوں گے اگر وہ کامیابی کے احساس سے خالی رہیں گے تو اُن کے اندر مایوسی گھر کر لے گی اور یہ جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوگا!
ترقی پذیر جمہوریت میں سوشیل سائنس کی معیاری تعلیم کے لئے، جمہوری طرز عمل اور اس کے بنیادی تصورات پر خود نظام ،اساتذہ اور والدین کو مکمل ایقان ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جمہوریت پے ایسا راسخ عقیدہ کہ تنازعہ یا کسی بھی قسم کی مشکل صرف جمہوریت کے ذریعہ ہی بغیر کسی فساد اور پر امن طریقہ کے ساتھ حل ہو سکتے ہیں اور یہ جمہوریت کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کے علاوہ ایک حقیقی جمہوریت اپنی فطرت میں ترقی کے عناصر رکھتی ہے۔ جمہوری ڈھنگ سے نظم میں سب کی شمولیت کے لئے سماجی علوم کے نصاب کو ایسے مواد پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو پوری کامیابی کے ساتھ جمہوری اقدار اور جمہوری رویوں کو جنم دینے میں مدد دے۔ بچوں کے درمیان باہمی تعاون، مشارکت اور اجتماعی کارروائی جیسی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جس سے بچّے عوامی مسائل پر آواز اٹھا سکیں۔
صرف مخصوص تعلیم گاہیں ہی نہیں بلکہ بڑے نصابی اسکولوں میں بھی اس طرز تعلیم کو اختیار کیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں سماجی علوم کے حوالے سے مڈل اسکول اور ہائی اسکول کے لئے این۔سی۔آر۔ٹی کے نصاب میں ترقی و ترمیم، اسی کی ایک مثال ہے۔ مڈل اسکول کے لئے تاریخ، سماجی و سیاسی زندگیوں کی کتابیں، اور تاریخ، سیاسی اور علومِ سماجیات پر مبنی کتابیں ہائی اسکول کی سطح پر، ایسی کوششیں ہیں جن کے ذریعے سے مباحث، مختلف آراؤں اور اجتماعی عملی کاروائی کے میدانوں میں بڑی حد تک کامیابی نصیب ہوئی ہے!
ملک بھر کے کئی اسکولوں میں ایسے تجربات کیے گئے ہیں جس میں سے کچھ تجربات کو اس جلد میں شامل کیا گیا ہے۔ جیسے، ششو وان (ممبئی)، نمّا شالے (بنگلور)، پور نودایا (بنگلور)، وکرمشیلا (کولکتہ)، شکشا مترا (کولکتہ) سینٹر فار لرننگ ( حیدرآباد، بنگلور)، آدھرشیلا (سیندھوا)، اور کئی دیگر اسکول ہیں جنہوں نے خود سے نصاب اور مواد تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو نصاب کے حصے کے طور پر کلاس میں مختلف مسائل پر بحث کرتے ہیں اور ان کلاسوں کو ایسے فورموں میں بھی شامل کرتے ہیں جہاں ماحولیاتی مسائل، بی ٹی برنجال، عام آدمی پر کامن ویلتھ گیمز کے ہونے والے اثرات جیسے مسائل پر بحث ہوتی ہے۔ تنقیدی اور محتسب جمہوریت کے لیے تیار کردہ سماجی علوم کے نصاب کے لئے ہم ایکلویا کی کتابوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
اساتذہ، والدین، اور سماج کے قائدین کو سماجی علوم کی تعلیم کو ترجیح دینی چاہیے جو عہدے یا اقتدار کی تعظیم کرنا بھی سکھاتی ہے نا کہ صرف سخت تنقید و تشنیع، اور بچّوں کے ذہن کو تنازعہ سے آزاد بھی کرتا ہے۔
نہ این۔سی۔آر۔ٹی۔ کی کتابیں اور نہ ہی اوپر ذکر کیے گئے اسکول یا تعلیمی گروہوں کا رُجحان تعصبانہ ہے۔ وہ اتنا ہی سیاسی رُجحان رکھتے ہیں جتنا کہ جمہوریت خود اپنی فطرت میں سیاسی خیال رکھتی ہے اور یہ رُجحان بھی ملک کے دستور کے اصولوں پر کھڑا ہے۔ ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے کیا ہم دستور کو نافذ کرنے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے ذمےدار نہیں ہیں؟ کیوں ہم کو اوپر ذکر کیے گئے اقدامات متعصب لگتے ہیں حالانکہ ایسے اقدامات جو دراصل جمہوری اصولوں کی بنیاد پر غیر اخلاقی ہیں انہیں مرکزی سطح پر پورے جواز کے ساتھ پذیرائی حاصل ہے؟
باشعور شہریت کے لئے سماجی علوم کی تعلیم کو درکار چیلنج!
خیالات کا تضاد اس حقیقت میں مضمر ہے کہ سماج، رسمی اور سیدھے طریقے سے نہیں بدلتا جس طرح چیزیں کتابوں میں بدلتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی اور ثقافتی لحاظ سے ہندوستان، بڑے سطح پر درجہ بندی، جاگیرداری اور ذات پات کی بنیادوں پر کھڑا ہے۔ ہر شخص معتدد شناختوں کا حامل ہے، جس میں خاندان، مذہب، سماجی گروہ، ریاست اور پیشہ وغیرہ شامل ہیں۔ حالانکہ ہندوستان ساٹھ سال پہلے ہی ایک جمہوری ملک بن گیا ہے لیکن اس کے باوجود عملی اور ثقافتی طور سے جاگیردارانہ اور ذات پات پر ہی مبنی ہے۔ سماجی اداروں کے عمل سے جمہوریت کو مضبوط کیا جاسکتا ہے لیکن وہ ادارے بھی اس کلچر کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
اساتذہ، والدین، اور سماج کے قائدین کو سماجی علوم کی تعلیم کو ترجیح دینی چاہیے۔ جو صرف سخت تنقید نہیں بلکہ عہدوں کی تعظیم کا ادب بھی سکھاتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ بچّوں کو ذہنی تنازعوں سے آزاد بھی کرتی ہے۔
یہی شخصیات جنہیں اپنے رویے میں جمہوری ہونا چاہیے اور جمہوری اقدار کو بچوں میں مضبوط کرنا چاہیے وہی لوگ فعال طریقے سے اس پورے عمل کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر اساتذہ کی ایک اقلیت کلاس میں تنقیدی مباحث کو لاتی ہے تو دوسرے اساتذہ، والدین اور سماج کے افراد اس کی ہمت بڑھانے کے بجائے اس کوشش کو کمزور کرنے لگتے ہیں۔ ذات پات پر مبنی گاؤں کے کسی بھی اسکول میں ایک استاد اسکول کی فیصلہ سازی میں بچّوں کی متناسب نمائندگی کرنے سے ڈرتا ہے کیوں کہ غلطی سے اگر اس نے کسی محروم طبقہ سے تعلق رکھنے والے طالبِ علم کو اس فیصلہ سازی کے عمل کے لیے منتخب کیا تو ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ اشرافیہ اسکول کی کلاس روم میں ترقی پذیر طریق کار تو ہوتے ہیں لیکن وہ سب ایک ہی سانچے میں ڈھال دیے جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ اس میں تنوع یا مختلف جہات پیدا ہوں! طبقات اور ذات میں یکسانیت کی وجہ سے کلاس میں ایک ہی طرح کی سرگرمی عمل میں آتی ہے جس سے بحث و تکرار جنم نہیں لیتی اور یہ چیز مروج (غیر صحت مند) صورتِ حال کو چیلنج بھی نہیں کرتی۔
خلاصہ:
میں جس نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہی ہوں وہ یہ ہے کہ وسیع پیمانے میں جمہوریت پر مبنی سوشیل سائنس نصاب اور تدریسی مواد کا نفاذ ہونا چاہیے جس کی وجہ سے معیاری اور مضبوط جمہوری سماج قائم رہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور مضمون اس رول کو ادا نہیں کر سکتا۔ یہی ایک بنیادی مطابقت ہے جو سماجی علوم اور تعلیم و تدریس میں موجود ہوتی ہے۔ میں اس مضمون میں جس قسم کے سماجی علوم کی توضیح کرنا چاہتی ہوں اسے عمل میں لانے کے لیے اس پيشے سے وابستہ افراد کو ایسے حمایتی نظام کی ضرورت ہے جس میں ہم عمر گروہ، اکیڈمک، دانشور، اور سماج کے دیگر افراد کی حمایت درکار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس جریدے کو پڑھنے والا اسی کی بنیاد پر آگے اقدامات کرے گا۔ اس مستقل بدلتی ہوئی دنیا میں سماجی علوم کی تعلیم صرف تنقیدی اور متفکر شہری نہیں بناتی بلکہ کسی بھی پیشے سے جڑا ہوا شخص ایک ساتھ کام کرنے کی صلاحیت اور تنقیدی مزاج سے بھی باخبر رہتا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی علوم و تدریس کی جو بھی قسم جس میں صرف معلومات کو منتقل کیا جاتا ہے، میرے خیال سے اس کا اسکول کی تعلیم سے کوئی تعلق یا معنویت نہیں ہے اور اسی لیے بچوں کو اس بوجھ سے بچانا چاہئے۔
مصنفہ کے بارے میں : انجلی نورونها نے دہلی یونیورسٹی سے علم معاشیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے اور ایکلویا میں 1982 سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ “سماجی علوم کی ترقی”، پرائمری اسکول کی تعلیمی اور زبان و ریاضی کے پروگراموں میں سرگرم عمل ہیں۔ این، سی، آر، ٹی کے سماجی اور سیاسی لائف کلاسوں (6-7) کی تربیتی گروپ کا حصہ رہی ہیں، سماجی علوم کی تعلیم اور اسکول کی تعلیمی نظام میں اختراعات پر کئی مقالے لکھی ہیں۔ فی الحال وہ ایم، اے میں تدریسی کورس، ریڈنگ، دو لسانی پروگرام، ٹس میں تعلیمی پروگرام، عوامی تعلیم، اسکول کی ترقی، اساتذہ کی تعلیمی ترقی سے جڑے کورس (جو این، سی، ٹی، ای سے منسلک ہے)، میں مصروف ہیں۔ ان کی ایمیل ائی، ڈی رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
بہ شکریہ لرننگ کرو (عظیم پریم جی یونیورسٹی)
اِس مضمون کو آپ پی، ڈی، ایف، فائل میں پڑھ سکتے ہیں۔ اسی لنک کو کلک کرکے ڈاؤنلوڈ کریں۔