سماجی علوم اور قومی درسیاتی خاکہ (NCF)

تصنیف : اندو پرساد

ترجمہ : عبدالقوی عادل

سماجی علوم اعلیٰ تعلیم کے وہ شعبے ہیں جو  انسانی معاشرے اور انسانی باہمی تعلقات کے موضوع پر بحث کرتے ہیں ،سماجی علوم کے نظریات اور اس کا  مطالعہ ایک پر امن معاشرے کی علمی اساس کی کے لیے ناگزیر ہے،سماجی علوم معاشرے کے مختلف اہم موضوعات کا احاطہ کرتےہیں اور یہ علم تاریخ ،جغرافیہ ،سیاسیات ،معاشیات اور انسانیات جیسے اہم ترین موضوعات کے وسیع تر مواد             پرمشتمل      ہے ۔

   قومی درسیاتی خاکہ    National Curriculum Frame Work (NCF 2005)          کا کہنا ہے کہ سماجی علوم کا مطالعہ اس باہمی وابستہ دنیا میں طلبا میں معاشرتی ،ثقافتی اور تجزیاتی مہارتیں پیدا کرتا ہے ۔

          انسانی اقدار -آزادی ،اعتماد ،باہمی احترام اور اختلاف و تنوع کے احترام کا احساس پیدا کرنا بھی سماجی علوم کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ،اور اس علم کی تعلیم کا مقصد طلبا میں اخلاقی و ذہنی توانائی پیدا کرنا اور ان معاشرتی اقدار کے منافی قوتوں سے آگاہ کرنا بھی ہے ،یہ ایسے مضامین ہیں  جو سماجی علوم میں حدود برقرار رکھنے کے مختلف طریقہ کار کے ذریعہ تو جیہات پیش کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ متعدد تخصصات تک راسائی کے ممکنہ راستوں کی نشاندہی بھی کرنی چاہیے نیز  بہتر نصاب کی ترتیب کے لیے کثیر التخصصات نظریے کو شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔

 NCF کے مطابق سماجی علوم کے مواد کا مقصد خودطلبا کے اپنے سماجی حقیقتوں سے انھیں تجزیاتی انداز میں واقف کروانا ہے، اور جدید موضوعات اور جہتوں کی شمولیت کے امکانات بطور خاص طلبا کے اپنے ذاتی تجربات کی رو سے کافی ہیں ، ایک بامقصد نصاب میں ایسے موادکا انتخاب اور ترتیب جو طلبا میں معاشرے کا تنقیدی فہم پیدا کرے بہر حال ایک مشکل کام ہے ۔

این سی ایف نے اس کا شناخت کیا ہے کہ عوام سماجی علوم کو غیر مفید مضمون کی حیثیت دیتی ہے جو کہ ایک عام خیال ہے۔ خود اعتمادی کی کمی کمرۂ جماعت کے تعلیمی عمل پر اثر انداز ہوتی ہےاور طلبا و اساتذہ دونوں ہی موادکے سمجھنے اور سمجھانے میں عدم دلچسپی کا شکار ہو جاتےہیں ، اسکول کے ابتدائی مراحل ہی میں طلبا کو عام طور پر اس بات کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ  قدرتی علوم ٗ سماجی علوم سے بھی اہم ہیں اور یہی ذہین طلبا کا میدان ہے ، یہ خیال کیا جاتا ہے سماجی علوم محض معلومات کی منتقلی اور متن کو مرکزی توجہ دیتی ہے ۔

          صرف امتحان  کی تیاری اور امتحان کے لیے یاد کرنے کی بجائے مواد میں بنیادی طور پر موضوع کی تفہیم پر اصل توجہ ہونی چاہیے ، معلومات کو سمجھے بغیر یاد کرلینا اس کے بجائے ترقی پذیر تصورات اور معاشرتی سیاسی حقائق کی تجزیاتی صلاحیت پر زور دینا چاہیے ، یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ سماجی علوم بھی اتنی ہی سائنسی جانچ کا موقع فراہم کرتے ہیں جتنا قدرتی و طبعی علوم فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کی بھی نشاندہی کرنا کہ سماجی علوم میں استعمال کیے جانے والے طریقے اگرچہ قدرتی و طبعی علوم سے مختلف ضرور ہیں لیکن ان سے کمتر نہیں ۔

NCF نے ایک بنیادی تعلیمی تبدیلی کی تجوز پیش کی ہے ۔

  • ایسی درسی کتابوں سےتبدیلی جو محض معلومات کا ماخذ ہوں ان درسی کتابوں کی جانب جو مسائل کو سمجھنے کا ایک خاص راستہ فراہم کرتے ہوں ۔
  • ماضی اور ماضی پر اصل توجہ سے اس جگہ تک جہاں اور زیادہ جماعتوں اور خطوں کو مد نظر رکھا گیا ہو۔
  • مفاد پرستی سے مساوات پسندی کی تبدیلی ۔
  • ایسی درسی کتابوں سے تبدیلی جو محض ایک بند خانہ کہلاتی ہوں ان درسی کتابوں کی جانب جو ایک مکمل متحرک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہوں ۔

ہندوستانی قوم کے قومی نظریے اور مقامی تناظر کے حوالے سے ان میں توازن باقی رکھتے ہوئے اس تبدیلی  کے مختلف طریقوں کو اختیار کرنے کی تجویز دی گئی ہے ، اسی کے ساتھ محض ہندوستانی تاریخ کو ہی نہیں پڑھایا جانا چاہیے بلکہ اس  کے ساتھ دنیا میں ہونے والی پیشرفت کے حوالے سے بھی اس کا ذکر ہونا چاہیے،شہریات کے بجائے سیاسیات کی اصطلاح استعمال کرنے کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے ،اس لیے کہ نوآبادیاتی دور میں جب ہندوستانیوں نے اپنی حکومت سے بددیانتی کی  ؛ اس موقع پر ہندوستانی اسکولوں کے نصاب میں  شہریات کا ظہور ہوا  ، حکومت سے وفاداری اور اطاعت شہریات کی اہم خصوصیات ہیں ، سیاسیات کا عام معاشرے کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ یہ حساس ، تفتیشی، مفکر اور تبدیلی لانے والے شہری پیدا کرتی ہے ۔

خواتین کے نظریات کو کسی بھی تاریخی واقعہ اور عصری موضوعات  کی لازمی بحث بنا نے کے تناظر میں صنفی موضوعات کو پیش کرنا چاہیے ، اس کے لیے ان پرانے نظریات میں ایک علمی تبدیلی کی ضرورت ہے جو سماجی علوم کے متعلق حالیہ معلومات فراہم کریں ، بچوں کی صحت اور جوانی کے دوران سماجی پہلؤوں کی تبدیلی سے متعلقہ موضوعات (جیسے؛ والدین ،ہم جنس و ہم عمر ، مخالف جنس اور عمومی طور پر بالغ دنیا کے ساتھ تعلقات  ) پر  مناسب طریقے سے بحث کرنے اور انھیں حل کرنے کی ضرورت ہے ۔انسانی حقوق کے تصور کا دائرۂ کار آفاقی ہے اورNCF نے بچوں کو ان کی عمر کے مطابق مناسب انداز میں عالمی اقدار سے متعارف کروانے کی تجویز پیش کی ہے ۔

     NCFنے بچوں کو قابل بنانےکے لیے سماجی علوم کے مطالعے کا تصور پیش کیا ہے تاکہ

  • بچے جس معاشرے میں رہتے ہیں اسے بہتر طور پر سمجھ سکیں ۔
  • معاشرے کی ساخت اور اس کے انتظامی و حکومتی طریقہ کار کو سمجھ سکیں ۔
  • معاشرے کو تبدیل کرنے اور نئی جہتوں کی جانب موڑنے والی قوتوں کو پہچان سکیں ۔
  • ہندوستانی آئین میں شامل اقدار کا حترام کریں ۔
  • معاشرے کے ذمہ دار ، متحرک اور مفکر فرد کی طرح ابھریں ۔
  • عقائد ، معاشرت اور ثقافت کے تنوع کا احترام کرنا سیکھیں۔
  • موصولہ نظریا ت اور ادارہ جات کی تحقیق و تفتیش کرسکیں۔
  • مطالعے کے لیے خوش گوار مواد کی فراہمی کے ذریعے طلبا کو خوش کیا جائے ۔
  • ایسی سرگرمیاں انجام دیں جن کے ذریعے سماجی و حقیقی زندگی کی مہارتیں حاصل کرسکیں ۔

NCF کی تفصیل کے مطابق سماجی علوم کی تعلیم کے مقاصد یہ ہیں ؛

  1. بنیادی مرحلہ (پرائمری اسٹیج):
  • مشاہدے ،تشخیص اور درجہ بندی کی صلاحیت کو فروغ دیں ۔
  • قدرتی اور سماجی ماحول کے باہمی تعلقات پر زور دینے کے ساتھ ساتھ بچے میں ماحول کی ایک جامع تفہیم کو فروغ دیں۔
  • بچے کو سماجی مسائل کے تئیں حساس بنائیں اور اس میں فرق اور تنوع کا احترام پیدا کریں۔
  1. اَپر پرائمری اسٹیج:
  • زمین کا انسانوں کا اور دیگر حیوانات کا مسکن ہونے کی حیثیت سے تعارف پیش کریں۔
  • طلبا کو اپنے علاقائی اور ریاستی مطالعے کو عالمی سیاق و سباق کے تناظر میں کرنے کا موقع فراہم کریں ۔
  • دنیا کے دیگر خطوں کی پیشرفتوں کےحوالے سے طلبا کو ہندوستانی تاریخ کا مطالعہ کرنے کا موقع فراہم کریں ۔
  • سماجی و سیاسی اداروں اور ملک کی کارروائی کے تحرک سے طلبا کو آگاہ کرانا ۔

اس مرحلے میں تاریخ ، جغرافیہ ، سیاسیات اور معاشیات سے تیارکردہ سماجی علوم کے مضامین طلبا کے درمیان متعارف کروائے جائیں گے ۔

  1. ثانوی مرحلہ :
  • تجزیاتی ور نظریاتی مہارتوں کو فروغ دینا۔
  • معاشی و سماجی تبدیلیوں اور ترقی کی تفہیم ۔
  • غربت ، بچہ مزدوری ، محرومی اور ناخواندگی جیسے سماجی و معاشی مسائل کی جانچ پڑتال کرنا ۔
  • جمہوری اور سیکولر معاشرے میں شہریوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھانا۔
  • آئینی ذمہ داریوں کی تکمیل میں ریاست کے کردار اور ذمہ داریوں کو سمجھانا۔
  • عالمی معیشت اور طریقہ کار کے سلسلے میں ہندوستان میں تبدیلیوں اور ترقی کے عمل کو سمجھنا ۔
  • مقامیعوام کے اپنے ماحول و وسائل کے منصفانہ استعمال  اور قدرتی ماحول کے تحفظ کی ضرورت کے سلسلے میں ان کے حقوق کی قدر کرنا۔

ثانوی مرحلے میں سماجی علوم ٗ تاریخ ،جغرافیہ ، سیاسیات اور معاشیات کے عناصر پر مشتمل ہوں گے اور اصل توجہ ہندوستان کی موجودہ حالت پر ہوگی ۔

  1. اعلی ثانوی مرحلہ :
  • طلبا کی دلچسپی اور صلاحیت کے مطابق مناسب جامعات (یونیورسٹیز) ، کورسز اور کیرئیر کاانتخاب کرنے میں ان کی مدد کرنا ۔
  • مختلف موضوعات کے اعلی شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے طلبا کی حوصلہ افزائی کرنا ۔
  • تخلیقی سوچ اور در پیش مسائل حل کرنے کی صلاحیتوں کو فروغ دینا ۔
  • مخصوص مضامین کی معلومات جمع کرنے اور اس پر تحقیقی کارروائی کرنے کے مختلف طریقوں کو متعارف کروانا اور نتائج تک پہنچنے میں طلبا کی مدد کرنا ۔
  • اس عمل میں نئے تصورات اور علم کی راہیں ہموار کرنا ۔

NCFکے مطابق ، سماجی  علوم کی تعلیم کو ایسے طریقے اختیار کرنا چاہیے  جو تخلیقی صلاحیتوں ، جمالیات اور تنقیدی نقطہ نظر کو فروغ دیں۔ اور معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے بچوں کو ماضی اور حال کے مابین تعلقات استوار کرنے کے قابل بنائیں۔مسائل کو حل کرنا ،ڈراما سازی اور کردار ادا کرنے کی مشق یہ   ایسے فن ہیں جنھیں استعمال کرنا چاہیے ،درس و تدریس میں صوتی بصری ( آڈیو ویوژول) مواد کا استعمال ہونا چاہیے  جن میں تصاویر ، چارٹ ،نقشہ جات ، آثار قدیمہ اور مادی ثقافتوں کی نقلیں شامل ہوں۔

سیکھنے کے عمل کو حصہ لینے والا بنانے کے لیے محض معلومات فراہم کرنے کے بجائے بحث و مباحثہ کی طرف رخ کرنے کی ضرورت ہے،سیکھنے کا یہ طریقہ  طلبا اور اساتذہ دونوں کو سماجی حقائق سے جوڑے رکھے گا ،طلباء کے درمیان  انفرادی  اور معاشرے کے رواں تجربات کے ذریعے تصورات کو واضح کرنا چاہیے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ ثقافتی ، سماجی اور طبقاتی اختلاف  کمرۂ جماعت میں بچوں کےدرمیا ن تعصب پیدا کرتا ہے ،لہذا درس وتدریس کسی خاص  طریقہ کار تک محدود نہ ہو ، اساتذہ کو چاہیے کہ وہ جماعت میں سماج کے مختلف پہلؤوں پر گفتگو کریں، اساتذہ خود اپنے آپ میں اورطلبا  میں خود آگہی پیدا کرنے کی جانب توجہ دیں۔

درسی کتب اور کمرہ جماعت میں مواد،  زبان اور تصاویر کو قابل فہم ، صنف سے متعلق حساس ہونا چاہیے اور ہر طرح کے سماجی  عدم مساوات پرتنقیدیں بھی ہونا چاہیے،درسی کتب خود نئی تحقیق کے راستے کھولنے والی ہوں اور مزید مطالعہ اور تحقیقی مشاہدے کے لیے طلبا کی حوصلہ افزائی بھی  کی جانی چاہیے ۔

نوٹ : اندو تعلیم و تدریس کے ماہر ہیں اور بنگلور میں رہتے ہیں، اس سے پہلے وہ کرناٹک اور تامل ناڈو کی مخصوص قسم کی اسکول میں پندرہ سال تک اعصابی مسائل سے درپیش بچوں کے درمیان کام کرتی رہی ہیں۔ ان سے اس پتہ پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ 

[email protected]

بشکریہ: لرننگ کرو عظیم پریم جی یونیورسٹی

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے