لاکڈاؤن کھلنے پر کاربن اخراج میں تیزی سے اضافہ

مترجم : زبیر صدیقی

حال ہی میں سائنسدانوں کے ایک جماعت گلوبل کاربن پروجیکٹ نے بتایا ہے کہ لاکڈاؤن کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں کمی اس سال کے آخر تک اپنی پرانی سطح پر پہنچ سکتی ہے- رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ حجریہ ایندھن (fossil fuel) کے جلنے سے کاربن اخراج بڑھ کر 36.4 عرب ٹن ہو جائیگا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 4.9 فیصد زیادہ ہے- چین اور ہندوستان میں کوئلے کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے محققین نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومتوں نے سخت اقدامات نہیں کیے تو اگلے سال اخراج دوبارہ بڑھنا شروع ہو جائے گا۔

لوک ڈاؤن سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوئی ہے!

رپورٹ میں زمین کے استعمال میں ہونے والی تبدیلیوں جیسے سڑکوں کے لئے جنگلات کی کٹائی یا چراگاہ میں جنگلوں کے تبدیل ہونے کی وجہ سے اخراجات کے نئے اندازے بھی پیش کئے گئے ہیں- اگرچہ، حجریہ ایندھن (fossil fuel)کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن گزشتہ دہائی کے دوران زمین کے استعمال کی تبدیلیوں سے اخراج میں کمی کی وجہ سے مجموعی طور پر اخراج رکا ہوا ہے- تاہم، ماہرین کے مطابق زمین کے استعمال کے رجحانات میں کافی غیر یقینی صورتحال ہے اور کچھ بھی فیصلہ کرنا جلدبازی ہوگی۔

گلوبل کاربن پروجیکٹ کے مطابق 2020 میں لاکدڈاؤن کی وجہ سے حجریہ ایندھن (fossil fuel)سے ہونے والے کاربن اخراجات میں 5.4 فیصد کی کمی آئی تھی- ایک اور تنظیم، کاربن مانیٹر، کا اندازہ اور مزید کمی کا تھا۔

سائنسدانوں کو کسی حد تک اخراج میں اضافے کی امید تو تھی لیکن یہ قیاس کی بات تھی کہ کتنے اور کس حد تک یہ اضافہ ہوگا- خاص طور سے سوال یہ تھا کہ کمزور معیشتیں سبز توانائی میں کتنی سرمایہ کاری کریں گی۔

اس حوالے سے کاربن مانیٹر کے مطابق لاکڈاؤن کھلنے کے بعد سے توانائی کی ضرورتوں میں اضافہ کو حجریہ ایندھن (fossil fuel)سے ہی پورا کیا جا رہا ہے- سائنسدانوں کا ایسا اندازہ ہے کہ آنے والے سال میں اخراج میں مزید اضافہ ہوگا- 

قومی، کارپوریٹ اور عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کمیٹی کی گلاسگو کانفرنس(COP26) میں حکومتوں کے ذریع پہلے ہی کئی اہم قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں- اس کانفرنس میں ہندوستان سمیت کئی ممالک نے ایک مدت کے دوران نیٹ زیرو اخراج کا وعدہ کیا ہے- کانفرنس میں 130 سے زائد ممالک نے 2030 تک جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جو گرین ہاؤس گیسوں کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

صنعت کاری نے موسم کو تباہ کرنا شروع کردیا ہے!

موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل کا اندازہ ہے کہ 2015 کے پیرس موسمیاتی معاہدے میں طے شدہ اہداف کو پورا کرنے کے لئے پوری دنیا کو 2030 تک اپنے اخراج کو نصف کرنا ہوگا تاکہ گلوبل وارمنگ کو صنعتی دور کے درجہ حرارت سے 1.5 ڈگری سیلسیس کی حد تک روکا جا سکے- لیکن یہ مقصد کافی مشکل لگتا ہے- اگرچہ قابل تجدید توانائی تکنیکوں کا استعمال تو بڑھ رہا ہے لیکن یہ توقع کی جاتی ہے کہ بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بنیادی طور پر  قابل تجدید توانائی کا استعمال ہونے میں کافی وقت لگے گا- 

رپورٹ میں گرین ہاؤس گیسوں کے سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ملک جیسے امریکا، یورپی یونین، ہندوستان اور چین کے رجحانات کا آزادانہ طور پر تجزیہ کیا گیا ہے کہ اخراج وبائی امراض سے پہلے کی سطح پر واپس آ رہا ہے- امریکا اور یوروپی یونین میں جہاں وبا سے پہلے حجریہ ایندھن (fossil fuel)کا استعمال کم ہونے لگا تھا وہاں 2021 میں کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج کے تیزی سے بڑھنے کا اندازہ ہے لیکن پھر بھی یہ 2019 سے 4 فیصد نیچے ہے- ہندوستان میں اس سال کاربن اخراج میں 12.6 فیصد اضافے کی امید ہے- دنیا میں سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ملک چین نے وبا کے دوران معیشت کو سہارا دینے کے لئے کوئلے کا دوبارہ استعمال شروع کر دیا ہے۔

رپورٹ میں آخر میں بتایا گیا ہے کہ اس سال چین کی طرف سے حجریہ ایندھن(fossil fuel) کا اخراج 4 فیصد بڑھ کر 11.1 عرب ٹن ہو جاےگا جو وبا کے پہلے کے مقابلے 5.5 فیصد زیادہ ہے۔

رپورٹ میں کچھ مثبت پہلوؤں کا بھی ذکر کیا گیا ہے- اس میں 23 ممالک کا ذکر ہے جن کا اخراج کل عالمی اخراج کا ایک چوتھائی ہے- یہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے وبا سے ایک دہائی پہلے سے زیادہ عرصے میں اپنی معیشتوں میں اضافہ کرتے ہوئے حجریہ ایندھن (fossil fuel)کے اخراج کو روکا ہے- اگر دیکھا جائے تو آج ہمارے پاس تکنیک بھی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے- مسئلہ فیصلہ سازی اور اس کے نفاز کا ہے۔

سورس : Srote Features

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے