کھیل کے ذریعے احساس و جذبات کی نشوونما۔ قسط اول

ہم جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں کام اتنازیادہ ہوتا جاتا ہے اور کھیلنا کم ۔ جب کہ کام کی خوب بڑائی اور مدح سرائی کی جاتی ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ کھیل بہت معمولی، بہت بچکانہ، بہت احمقانہ، اور غیر اہم ہونے کے ساتھ  ناقابل قبول ہے۔ بچوں کوحسب معمول کہا جاتا ہے کہ وہ کھیلنا بند کر دیں اور اپنا ہوم ورک مکمل کریں، یہاں تک کہ اپنا کھانا، یا آس پاس جو کچھ بھی ہے بڑے حضرات ان سے اسی وقت کروانا چاہتے ہیں۔ البرٹ آئن سٹائن جیسے عظیم شخص نے کہا تھا،”کھیل تحقیق کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ تمام تخلیقی صلاحیتیں خالص کھیل سے پیدا ہوتی ہیں۔”

مختصراً، کھیل سے ایسی مہارتیں پیدا ہوتی ہیں جو ایک جذباتی طور پر مستحکم، ہمدرد، خود اعتماد نوجوان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس سے محروم نہ رکھیں۔ اس شعور کے ساتھ کہ ایک بچے کے گھریلو ماحول میں کھیل کود کی کوئی خاص جگہ نہیں ہو سکتی ہے، ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہم اسکول میں بچوں کو کھیلنے کے لیے وقت فراہم کریں۔

 بہتیرے تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دوران  کمسنی  غیر منظم اوقات  میں کھیل کود بچوں کی سماجی، جذباتی، علمی، جسمانی بہبود اور نشوونما کے لیے بہت ضروری ہیں۔ کھیل ان کے لیے خود اعتمادی، لچک، ہمدردی، سوشل اسکلس اور مسائل کو حل کرنے کی مہارتوں کے ارتقاء کا ایک قدرتی ذریعہ ہے، جیسا کہ وہ ایک دوسرے کا تعاون کرنا، چیلنجز پر قابو پانا اور معاملات طے کرنا سیکھتے ہیں۔ مختصراً، کھیل سے ایسی مہارتیں پیدا ہوتی ہیں جو ایک جذباتی طور پر مستحکم، ہمدرد، خود اعتماد نوجوان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس سے محروم نہ رکھیں۔ اس شعور کے ساتھ کہ ایک بچے کے گھریلو ماحول میں کھیل کود کی کوئی خاص جگہ نہیں ہو سکتی ہے، ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہم اسکول میں بچوں کو کھیلنے کے لیے وقت فراہم کریں۔

آخر ایسا کیوں ہے کہ بچے کے روزآنہ کے معمول میں کھیل کے لیے وقت متعین نہیں کیا جاتا ؟ اساتذہ کے لیے ‘پلےشاپ’ منعقد کرتے ہوئے میرا تجربہ ہے کہ سب سے بڑی رکاوٹ اساتذہ کا خود ہی کھیلنا بھلا دینا ہے۔ اساتذہ اور متعلمین پڑھانے کو لےکر اتنے زیادہ فکرمند ہیں کہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کھیل کود بچوں کے اکتسابی عمل کے لیے انتہائی ضروری غذاہے۔ یہاں پر کھیل سے مراد آوٹ ڈور کھیل نہیں ہیں، جو کہ مختلف بنا پراہم ہیں۔ 

کہانیوں کے ارد گرد کھیل کا وقت

چاہے تعلیمی اہلیت کچھ بھی ہو، ہر استاد کو کہانیوں کا قاری ہونا چاہیے، اورمادری زبان میں بات چیت کرنے کے معیار کے مطابق کہانیوں کو بیان کرنے کا ماہر ہونا چاہیے۔ چونکہ بڑوں  کو یہ لگتا ہے کہ کہانیوں میں مشغول ہونا بچکانہ کام ہے اس لیے کہانیوں کےاکتسابی عمل کو آسان کرنےکا رول بند ہو گیا ہے۔ یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے جس سے باہر نکلنا بہت ضروری ہے۔

کہانیاں پڑھنے اور سنانے کے علاوہ، یہاں کچھ اور طریقے ہیں جن میں اساتذہ بچوں کو کہانیوں کے ساتھ کھیلنے اور تخلیق کرنے میں مشغول کر سکتے ہیں کیونکہ تخلیق، خواہ کسی بھی پیمانے پر ہو، ہماری روح کو خوشی دینے کے ساتھ ساتھ ہمارے عظیم انسانی ذہن کی تسکین کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔

 عمر کے کسی بھی پڑاو میں کہانیوں کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کے  فوائد کئی گنا ہوتے ہیں اور اس کے لیے ایک الگ مضمون کی ضرورت  ہے۔ کم ازکم اتنا کہنا کافی ہے کہ کہانیوں کو قلیل المدتی تفریحی سامان کے زمرے میں ڈال دینا ایک مجرمانہ امر ہے۔ کہانیاں پڑھنے اور سنانے کے علاوہ، یہاں کچھ اور طریقے ہیں جن میں اساتذہ بچوں کو کہانیوں کے ساتھ کھیلنے اور تخلیق کرنے میں مشغول کر سکتے ہیں کیونکہ تخلیق، خواہ کسی بھی پیمانے پر ہو، ہماری روح کو خوشی دینے کے ساتھ ساتھ ہمارے عظیم انسانی ذہن کی تسکین کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ خوشی ہمیں توقف کرنے، مشاہدہ کرنے، متحیر کرنے، کھیلنے، ایقان، ہمدردی، جذبات کا اظہار اور ساجھا کرنا سکھاتی ہے۔

باری باری کہانی کو آگے بڑھانا

ایک بچہ ایک کہانی شروع کرتا ہے اور پھر تمام بچے، باری باری، اس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، یعنی اپنے سے پہلے والے بچے کی سنائی ہوئی کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بچوں کی تعداد کے حساب سے، آپ ایک راؤنڈ سے شروع کر سکتے ہیں اور اگلی کہانی کے لیے دو سرےراؤنڈ میں جا سکتے ہیں۔ ہر بچہ صرف ایک جملہ جوڑتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی آسان تخلیقی مشق ہے جس میں بچے مل کر کچھ بنانے کا تجربہ کر سکتے ہیں کیونکہ ہر بچہ اپنے خیالات اور نظریات کی علاحدگی میں نہیں بلکہ پہلے کہی گئی باتوں پر ہی کہانی آگے بڑھاتا ہے۔ بعض اوقات اس سے بچے کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے کہ وہ  قواعد کے لحاظ سے ایک درست جملے میں جتنا  کہنا چاہتا ہے اتنا وہ بیان کرے۔

انتخاب کریں

تین طرح کی فہرست بنائیں: کردار (ہاتھی، ملکہ، چوہا وغیرہ) مقام (جنگل، دریا، شہر، اسکول، پہاڑ وغیرہ) اور اشیاء (جادو کی چھڑی، ایک پیالہ جو انسانی زبان بولتا ہے، ایک گھڑی جو آپ کو وقت پر سفر کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ایک چادر جو آپ کو چھپائے رکھتی ہے وغیرہ)۔ ہر بچے کو تینوں فہرست میں سے ایک ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے اور ایک کہانی بنانا ہے۔ دوسرے حصے میں، آپ بچوں کو جوڑوں میں ترتیب دے کر ان سے  چھ چیزوں کی مشترکہ فہرستوں میں سے تین یا چار چیز کے ساتھ ایک نئی کہانی بنانے کو کہہ سکتے ہیں۔ اس سرگرمی سے بچوں کو اپنے تخیل کو وسیع کرنے کا موقع ملتا ہے جس کا براہ راست تعلق مسئلہ حل کرنے کی مہارت کو بہتر بنانے سے ہے۔

نقطہائے نظر

ایک سے زیادہ کرداروں والی کہانی سنائیں (پنچ تنتر کی کچھ کہانیاں اس سرگرمی میں بہت کارآمد ہیں)۔ کہانی کے بعد، بچوں کو گروپس میں بانٹ دیں اور ہر گروپ کو کسی خاص کردار کے نقطہ نظر سے کہانی بنانے کو بولیں۔ یہ تکنیک بچوں کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ چیزوں کو سیاہ اور سفید کے طور پر دیکھنے سے آگے بڑھ کر کرداروں کے محرکات کو بھی سمجھیں جس سے وہ ایسا کردار نبھاتے ہیں جو کہ نا قابل قبول سمجھے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ کم عمراذہان کو اپنے نقطہ نظر کے علاوہ دوسرے نقطہ نظر کو قبول کرنے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔

کیا ہو اگر ؟

اس مرحلے میں کردار اور مقامات کو گڈ مڈ کر کے جانی پہچانی کہانیوں کے متبادل سین تیار کیے جاتے ہیں۔ کیا ہوگا اگر اس رحم دل انسان کا دل بدل جائے، چوہے کو جادوئی طاقتیں مل جائیں، بندر انسانوں کے دل کے حال جاننے لگیں، بادشاہ دراصل گلوکار بننا چاہتا ہو، یا کوا اڑنے کے بجائے چلنا چاہتا ہو؟ امکانات لامتناہی ہیں اور کم عمر ذہنوں کو پرواز کرنے، متبادل حل، انجام کار اور الگ الگ حالات کے بنیاد پر نئی کہانیاں تیار کرنے کے لیے ابھارتے ہیں۔

جدید شئے/مقام/فرد کا تعارف

یہ گزشتہ مرحلے سے مختلف ہے۔ گھوڑے کے پاس سیل فون ہے، چور کے پاس سکوٹر ہے، ڈاکیا شاہ رخ خان سے ملتا ہے، لڑکے کے پاس کھیل کا میدان ہے، ہاتھی کے پاس مائیکرو ویو اوون ہے وغیرہ۔ ایک بار پھر، لامتناہی امکانات ہیں ۔جب بچے اکیلے یا مل جل کر کہانیاں تخلیق کرتے ہیں، تو میں ہمیشہ ان سے کہتی ہوں کہ انھوں نے بالکل نئی تخلیق کی ہے، جو اس وقت تک دنیا میں موجود نہیں تھی ۔ یہ کہانیوں کے ساتھ مشغول ہونے کے چند طریقے ہیں۔ جب آپ یہ طریقے اپناتے ہیں پھر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح آسمان میں ستاروں کے مانند نئے خیالات ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔

(جاری)

دوسری قسط کے لئے لنک پرکلک کریں۔

 

 اصل مضمون (Emotional Development Through Play)

بہ شکریہ :   Learning Curve,( Magazine,Azim Premji University) August 2021

مصنّف : محترمہ ویلن ٹینا ترویدی

آپ   ایک مصنف، اداکار اور ماہر تعلیم ہیں۔ دون اسکول، دہرادون کے بورڈ آف گورنرز کی رکن بننے والی پہلی  طالبہ ہیں۔ آپ کے تخلیقی کاموں میں : پرفارم کرنا، اسکرپٹ لکھنا، مختصر فلموں کی ہدایت کاری، ایڈیٹنگ، ترجمہ نگاری، کہانیاں لکھنااور سنانا،  وغیرہ شامل ہے۔    [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

مترجم :    ابوالفیض اعظمیؔ

 

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے