آرٹ، سیاست، اِدراک

آرٹ کے سکھانے والوں سے اکثر پوچھا جاتا ہےکہ “آخر کسی بھی آرٹ کو سیکھنے کا مقصد کیا ہے؟”۔ اِس سوال کے پیچھے بہت سے اَن کہے سوالات چھُپے ہوتے ہیں۔ مثلاً “کیا آرٹ محض عیش و عشرت کا نام نہیں ہے؟”، “آرٹ کو صرف اُن کے لیے کیوں نہ چھوڑ دیں جنہیں آرٹ کا واقعی شوق ہے؟”، “آرٹ سیکھنے کا کوئی فائدہ بھی ہے؟”, “کیا ڈیجیٹل پروڈکشن (پیداوار)اور ریپروڈکشن کی و جہ سے آرٹ سیکھنا بیکار نہیں ہو گیا ہے؟”، وغیرہ۔ میرے خیال سے ایسے سوال پوچھنا بالکل جائز ہے اور میں جواب میں یہ نہیں کہتا کہ “اگر بچوں کے دماغو ں پر جبراً ریاضی کا اثر ڈالا جا سکتا ہے تو آرٹ کا کیو ں نہیں؟” بلکہ میں اِن سوالات کو بڑے تحمل سے سنتا ہوں۔ بہرحال، کیونکہ ہر سو ال کے پیچھے کوئی نہ کوئی گمان ضرور ہوتا ہے، اِن سوالوں کا سرسری جواب دینے کے لیے بھی پہلے اُس تصوّر پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے اجتمائی ذہن میں آرٹ کے بارے میں تشکیل شدہ ہے۔

جب ہم آرٹ کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ‘کینوس’، ‘واٹرکلر’، ‘مجسموں ‘اور دیگر مصنوعات کا خیال آتا ہے۔ یعنی چہ جائے کہ آرٹسٹک جدوجہد کا خیال ذہن میں آئے اس کے برخلاف تکمیل شدہ آرٹسٹک کام کا خیال آتا ہے۔ اب ریاضی کی طرف توجہ کریں جس میں ہمیں “ریاضی استدلال “اور “ریاضی فکر “حتٰی کہ “میتھمیٹائزیشن” یا “ریاضیاتی “استدلال و فکرکے بارے میں بھی سننے کو ملتا ہے۔ مطلب کہ ریاضی میں منطقی اور منظم سوچ بچار کی قدر کی جاتی ہے، مگر آرٹ کی قدر عموماً تکمیل شدہ آرٹسٹک کاموں سے ہی ناپی جاتی ہے اور اُن کاموں سے جُڑے خیال يا استدلال پر کوئی نظر نہیں ڈالی جاتی۔ اِس لیے حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایسے سوال پوچھے جاتے ہیں جن کا اِس مقالے کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے۔ اگر آرٹ کی اہمیت کا اندازہ صرف آرٹسٹک مصنوعات سے لگا یا جائے، اور “تعلیم اور اجتماعی سوچ “پر اس کا کوئی اثر نہ ہو، تو شاید آرٹ واقعی اُن ہی لوگوں کے لیے چھوڑ دیا جانا چاہیے جو اُس کے ذریعے قابلِ قدر مصنوعات بنا سکیں۔ پر آئیں سوچتے ہیں کہ آرٹ میں اور کچھ بھی ہے کہ نہیں!۔لہٰذا ہمیں یہ پوچھنا چاہیے کہ “آیا آرٹ سیکھنے اور سکھانے کے کوئی ایسے فوائد ہیں جو ہمیں دکھتے نہ ہوں،اور ہوسکتا ہے جن کا آرٹسٹک مصنوعات سے کوئی تعلق نہ ہو؟”۔ اور اگر ایسے فوائد ہیں تو اُن کی خیالی بنیادیں کیا ہیں، ہم اُن کی خوبیوں کو کس طرح پہچان سکتے ہیں اور اُن سے جُڑے اصول کیا ہیں؟

آرٹ کی سیاست

ریاضی کی طرح آرٹ اطراف و اکناف کو سمجھنے کا ایک منفرد طریقہ ہے، لہٰذا آرٹ دنیا کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور کیوں کہ کرنے کے کسی بھی عمل میں فیصلہ اور انتخاب ضروری ہے، آرٹ کی زبان بھی کسی حد تک سیاسی ہو جاتی ہے۔ اور جب آرٹ خود شناسی میں میں حصہ لیتا ہے( جو کہ آرٹ اکثر کرتا ہے) وہ انسانی نفسیات کی کھوج کرنے لگتا ہے جس وجہ سے آرٹ ذاتی تعلقات کی سطح پربھی اثر انداز ہونے لگتا ہے۔ مثلاً ہمیں معلوم ہے کہ کلاسیکی پینٹنگ قدیم زمانے میں اس وقت مروج اصولوں کی پاسداری کرتی تھی ، اور جدید دور میں کیوبِزم (cubism) نے سِنگل پرسپیکٹو (single perspective) یا یک رخی مطمحِ نظر کو ختم کر کے دنیا کو سمجھنے کا نیا طریقہ پیش کیا اور ایک عہد کا خاتمہ کیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کلاسیکی پینٹنگ اور کیوبِزم کے متعلق پیش کیے گئے خیالات سیاسی بن جاتے ہیں۔ لہٰذا میرا ماننا ہے کہ آرٹ ،دنیا کو بیان کرتے ہوئے “آرٹ کے کینوس “کو تبدیل کرتا ہے چاہے وہ تفریق یا تکرار کے اظہار کے ذریعے ہو یا محض تصوراتی سطح پر ۔ الغرض اگر آرٹ ،مروجہ سیاسی و سماجی روایات (status quo) کو برقرار رکھنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے تو کیا اسی “اسٹیٹس کو “کو اس کی مختلف سطحوں اور شکلوں میں توڑنے اور اس کے اثر کو کم کرنے کا سزاوار نہیں ہو سکتا؟ ان سطور میں اسی سوال کا اجمالی طور پر احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔اگر اِس سوال کا جواب مثبت ہے، تو آرٹسٹک فکر اتنی ہی اہم ہے جتنی ریاضیاتی سوچ ہے جب کہ آرٹسٹک آلات کی اہمیت اپنی جگہ مُسلّم ہے۔ اور اگر تعلیم ،آزادی اور خود آگہی حاصل کرنے کی کوشش ہے تو آرٹ انسان کی تقدیر میں اُتنی مدد کر سکتا ہے جتنی ریاضی اور سائنس کرتے ہیں۔

کیوبِزم اور سریلزم (آرٹ میں مکعب نمائی اور حقیقت پسندی): تبدیلی کی سطحیں

اوپر بتائے گئے خیالات کوسمجھانے کے لیے میں دو طریقہ ہائے آرٹ کا سہارا لوں گا جن کی ابتداء بیسوی صدی میں ہوئی تھی۔ اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ دو انداز ہمیں آرٹسٹک فکر و استدلال اور سیاسی و سماجی شعبہ ہائے جات میں ان کے اثرات کے بارے میں کیا بتا سکتے ہیں۔ میں سب سے پہلے اُس انداز کی تفصیل میں جاتا ہوں جس کا نام کیوبِزم (مکعب نمائی )ہے۔ نیو یارک کے میوزم آف ماڈرن آرٹ (Museum of Modern Art) کے پہلے کیوریٹر الفریڈ بار نے لکھا تھا کہ “کیوبِزم” پکاسو (Picasso) اور براق (Braque) کی ایجاد ہے، لیکن اِس کی ایجاد میں سیزان (Cezanne) کا اہم کردار ہے جنہوں نے اس اَمر کی جانب سب کی توجہ مبذول کروائی تھی کہ تمام قدرتی اشکال کو اگر آسان فہم انداز میں ترتیب دی جائے تو بنیادی طور پر مکعب (cubes) اور اسطوانہ (cylinder) بنتی ہیں۔ سيزان کا یہ بیان کیوبِزم کی ابتداء تھی۔ اگر قدرتی اشکال کو مکعب ،اسطوانہ اور کرّہ جات میں محدود کردیا جاسکتا ہوتو پھر اُن کو دوبارہ اِس طرح سے بنانا کہ اُن اشکال کے رخ اور پشت ایک ہی تصویر میں ظاہر ہوجائیں ، محدب کے لئے مقعر کا استعمال کرنا اور یہ سب آرٹسٹ کی جمالیاتی حِسّ کے مطابق کرناکوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔”

Jean Metzinger, Woman with a horse, 1911

کیوبسٹ (آرٹ کو مکعب نما انداز میں ظاہر کرنے یا کیوبزم کی پیروی کرنے والا /والی)کی کوشش کیا ہوتی ہے؟ وہ لکیروں ،سطحوں اور تصور کو سمجھتے ہیں، اور ہم عصریت اور مختلف نظریوں کی قدر کرتے ہیں۔ یک نظریاتی اِدراک میں بنیادی بدلاؤ لا کر کیوبزم دراصل آرٹ کے کینوس میں موجود اشیاء کے درمیاں موجود خلا ء سے جُڑے خیالوں کو تبدیل کر کے تخلیق و نمو کی ابتداء کے نفسیاتی پہلوؤں سے متعلق نئے خیالات اور تصورات پیدا کرتا ہے۔ یہ ہمیشہ پدريت اور سیاسی لحاظ سے جمود پذیر خیالات کی بقاء کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ خود انسان کو ایک رسمی پیش رفت کردہ جیومٹری کی طرح سمجھا جائے تو اس کے بہیترے فائدے ہوسکتے ہیں۔ یعنی جب خیال کی شکل اس طرح متصور کی جائے کہ کسی بھی شئے کو اس کی تکمیلی شکل کے بجا ئے اُس کے اقلیدسی اشکال (جیومٹری )پر ہو، تو لچکداریت Plasticity پیدا ہوتی ہے جس سے سوچنے کے کئی نئے طریقے نکلتے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب دیگر الفاظ میں یہ ہے کہ خطوط، سطحیں، اور مماس (tangents) نہ صرف ایک دوسرے سے ملتے ہیں بلکہ اس شئے یا شخص جس کا آرٹ کے ذریعے اظہار ہورہا ہے، اس کی اصلی حالت سے تقسیم ، تبدیل اور بڑھاتے بھی ہیں۔
ایک تنگ نظر ، نازک مدام خود کے بجائے ایک ایسا ایک تصور خود سامنے آتا ہے جو زیادہ کھلے ذہن ،سیال اور تخلیقی ہوتا ہے اور اپنے اطراف کی دنیا میں زیادہ منہمک رہتا ہے،۔ ہر سنجیدہ تحریک کو چاہیے کہ وہ اجسام کی جیو-پالیٹکس (geo-politics) یا جغرافیائی سیاست کے بارے میں نئے زاویوں سے سوچیں۔

Pablo Picasso Three Musicians, 1921

اب ہم آرٹ کی اُس تحریک پر نظر ڈالتے ہیں جو کیوبِزم کے ردِ عمل میں پیش آئی جس کا نام سريلزم (surrealism) یا سپرریلزم (superrrealism) “حقیقت پسندی”ہے۔ اس کے بارے میں الفریڈ بار خود کہتے ہیں، “۱۹۰۸ کے کیوبسٹس نے آرٹ سے ہر انسانی جذبے کو نکالا، جِس کے ردِ عمل میں سريلزم کا آغاز ہوا جِس کی پینٹنگز غیر معمولی طور پر جدید ،منفرد اور اصلی تھیں”۔ دونوں جنگِ عظیم کے درمیان کام کرنے والے دو مفکران ایسے تھے جن کا اور جن کے کام کا سريلزم پر بہت گہرا اثر پڑا۔ ان میں ایک تو سگمنڈ فرائیڈ تھے اور جن کی کتاب تھی “خوابوں کی تعبیر” (The Interpretation of Dreams)۔ دوسرے مفکر آنڈرے بریٹن تھے اور جن کی کتاب کا نام ہے”مینفیسٹو آف سريلزم” (Manifesto of Surrealism)۔

سریلسٹوں (حقیقت پسندوں)کا خیال تھا کہ فرائڈین لاشعور (unconscious) تخلیق کا مصدر یا مبداء ہوتاہے، اوروہ خیالی دنیا کو حقیقی دنیا سے ملانے کی کوشش کرتے تھے۔ اِس ملاپ کو ممکن بنانے کے لیے کئی سریلسٹ حضرات نے فرائڈ کی تکنیک “فری اسوسی ایشن” (free association) کا استعمال کیا کیونکہ اس تکنیک کے بارے میں یہ خیال تھا کہ اُس کے ذریعے دماغ کی لاشعور تہوں کے بارے میں اور اس کے کام کرنے کے انداز کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ لہٰذا سریلسٹوں کے آرٹ میں “خوابی رنگی ” (dreamlike) کیفیت ہوتی ہے۔ سریلسٹ سماجی اور سیاسی انقلاب پر یقین رکھتے: کہ اگر لاشعور (جو انسانی خواہشوں اور جبلتوں کی بنیاد ہے)کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکتی ہیں اور اس کو محصور کیا جاسکتا ہے تو انسانی تقدیر بھی تبدیل کی جا سکتی ہے ۔ لاشعور والی اس کیفیت کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ، انسان اظہار کے بہیترے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک نئے رخ پر ڈال سکتا ہے ۔

حالانکہ کیوبزم اور سریلزم بالکل مختلف خیالات پر مبنی ہیں، یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ اُن کے سیاسی اثرات ملتے جلتے ہیں۔ دونوں کی بنیاد”پیشِ فرد ” pre-individualہے ، ایک اقلیدس کے لحاظ سے (جیومٹری پر مبنی)اور دوسرا مطلق انسانی نظریے کے لحاظ سے؛اور دونوں انسان کو تبدیلی کا موقع دیتے ہیں۔

پریکٹس پر اثرات:

اب تک تو اِس مضمون میں ہم نے یہ دیکھا ہے کہ آرٹ ، براہ راست سیاست کو مخاطب نہ کرتے ہوئے بھی سیاسی ہو سکتا ہے۔ یعنی آرٹسٹک فکرایسی چیز ہوتی ہے جس کے سماج اور لہٰذا تعلیم پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن ایک سوال ہے جس کا جواب ابھی تک نہیں دیا گیا وہ یہ کہ : اس سب کا اسکول کی تعلیم پر کیا اثر ہوتاہے؟ یقیناً ہم بچوں سے یہ توقع تو نہیں رکھ سکتے کہ وہ انفرادی اور سیاسی تبدیلیوں کو سمجھیں چاہے وہ آرٹ کی جانب کتنے ہی مائل کیوں نہ ہوں، اور اگر یہ سب چیزیں صرف سماج کے روشن خیال يا پھر آرٹ کے طرفدار ہی سمجھ سکتے ہیں تو اِس بحث میں پڑنے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ سو اگر ہم چاہتے ہیں کہ اِس بحث پر معلمین کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ ہو تو ہمیں اِس سوال کا اطمینان بخش جواب دینا ہوگا۔ میں چند پریکٹسوں (مشقوں) اور نقاط نظر کا ذکر کرنے جا رہا ہوں کہ اُن کا آرٹسٹک فکر اور خودہماری روزمرہ زندگیوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔ آرٹ کے علمِ علامات (Semiotics) کو بنیادی سطح پر خیال و تصور کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے لئے ہمیں تدریس کے نئے طریقوں کی داغ بیل ڈالنی پڑے گی جو سیکھنے سکھانے کے لئے ممد و معاون ہوسکتے ہیں۔

Albert Tucker The Metamorphosis of Ned Kelly 1970

آرٹ کے کلاس روموں میں عموماً طلباء سے تصویروں کی نقل کروائی جاتی ہے۔ اِس نقل کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے کیونکہ آرٹ کو پریکٹس کرنے کا مقصد اشیاء کے درمیان موجود خلا ءکو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے، اور نقل کرنے سے یہ صلاحیت نہیں پیدا ہوتی۔ نقل مطابقت پیدا کرتی ہے اور خود ساختہ بندشوں سے آزادنہیں کرتی ہے۔ لہٰذا آرٹ سکھانے کا پہلا قانون یہ ہونا چاہیے کہ بچوں سے نقل نہ کروائی جائے۔ نقل کرواکرہم آرٹ کا مقصد ہی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ نقل کرنا مطابقت کرنا ہے، مگر ہمارا مقصد یہ ہے کہ بچے شروع دن سے ادراک سیکھیں۔ غور کرنا، خاموشی سے اور با مقصد طریقے سے دیکھنا، یہ سب ماحول کی طرف حساسیت ظاہر کرتا ہے اور ایک سیاسی وجود بننے کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔
دوسری بات ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہےکہ بچوں کا آرٹسٹک کام حقیقت کے کتنے نزدیک ہے بلکہ اُن کے کام میں زاویوں ،انفرادیت اور باریکیوں کی تلاش کرنی چاہیے جن سے حقیقت ایسی ہی بیان ہو جیسی کہ وہ ہے ۔ ہر آرٹسٹ کچھ چیزوں کی وضاحت کرتا ہے اور کچھ چیزوں کو نظر انداز۔ بچے بھی یہی کرتے ہیں اور اِس بات کو بڑے دھیان سے ماننا ہوگا۔ استاد کو کوشش کرنی ہوگی کہ کسی بھی آرٹسٹک کام پر رائے دیتے ہوئے “خوبصورت” اور “بدصورت” جیسے الفاظ سے گریز کرے۔ اِس کی جگہ استاد بچوں سے پوچھے کہ اُنہوں نے کیا دیکھا اور کیا دکھانے کی کوشش کی۔ بچوں سے اِس طرح کی گفتگو کرنے سے بچوں کی لسانی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا۔ اِس صلاحیت کی تشکیل سیاسی وجود کی طرف دوسرا اِقدام ہے۔

تیسری بات ، اور یقیناً یہ عجیب اور عمومی سمجھ سے بھی پَرے لگے گی، مگر میرا نقطہ نظر ہے کہ بچوں کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ اپنے تصور سے اتاریں(draw) کریں۔ پہلے بچوں کو صرف یہ سیکھنا چاہیے کہ اُن چیزوں کی کس طرح ڈرائنگ ہوتی ہے جو اُن کو واقعی طور پر نظر آ رہی ہوں۔ آرٹ “سرابِ خیال “نہیں ہوتاہے۔ آرٹ ایک منظم زبان ہے اور اِس زبان کے کچھ قوائد ہوتے ہیں۔ کوئی بھی چیز ڈرائنگ کے ذریعے دیکھے جانے کے قابل ہوتی ہے اگر اُس پر غور کیا جائے اور اُس کے اندر موجود خاکے کو سمجھا جائے۔ بعد میں کچھ آرٹسٹک مقاصد پورے کرنے لیے ڈرائنگ کے دوران بنائی جانے والی چیز کی صورت يا خاکے میں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں ۔ کسی چیز کی ڈرائنگ کرنا نقل کرنا نہیں بلکہ غور سے دیکھنے کا عمل ہے۔ دیکھی گئی چیز کو سچائی سے بیان کرنا اور خود سے سچ بولنا سیاسی وجود کی ترقی کی طرف کا تیسرا اِقدام ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ بچوں کو اپنی مخصوص زندگی کے واقعات کو بیان کرنے کے لیے حوصلہ بڑھانا چاہیے ، گویا بچوں کے آرٹ ورک میں ایک بڑا حصہ سوانح عمری کے عنصر کا ہونا چاہئے(مگر اگر کسی بچے کی زندگی میں ذاتی مسائل ہوں، تو اِس طرح کی کسی چیز کرنے سے پہلے بچوں کے ماہر ین سے مشورہ لینا چاہیے)۔ دنیا کو اپنے تجربے کی نظر سے دیکھنا سیاسی وجود کی ترقی کا چوتھا عمل ہے۔

بالآخر، کوشش کی جانی چاہیے کہ بچوں کو خود ان کے اپنے خوابوں سے آگاہ کروایا جائے اور اگر ممکن ہو تو آرٹسٹک کام میں ان خوابوں کو شامل کرنے پر ابھارا جائے ۔ یہ دراصل خود کا بیان (سوانح عمری)کا ہی ایک حصہ ہے۔ اِس کے ذریعے ہم بچوں کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے خوابوں کو سنجیدگی سے لیں اور کم عُمر سے ہی خوابوں کو سمجھنے کا ہنر سیکھ لیں۔ اپنے نفس کو اُس کی پوری ساخت و پرداخت کے ساتھ سمجھنا دراصل سیاسی وجود کی ترقی کے لیے انتہائی اہم عمل ہے، کیونکہ اس کے ذریعے ہم دنیا میں رہن سہن کے طور طریقے سیکھتے ہیں۔ اور کیونکہ ہماری لاشعور خواہشات ہمارے نفس سے جُڑی ہیں نفس کو سمجھنے سے ہم خود کو بھی بہتر سمجھ پاتے ہیں۔

ان تدابیر کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے مگر شروعات ان ہی سے کر لیتے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اوپر بیان کئے گئے پیراگرافوں میں خود کو آرٹسٹک طریقے سے کھوجنے کے لیے ایک پلیٹ فورم تیار کیا جارہا ہے۔ یہ طریقہ ابتداء میں انسان کی خودی کو سمجھنے کی جانب ابھارتا ہے اور پھر خودی اور دنیا کے درمیان کی سرحدوں کو کمزور بناتا ہے تاکہ ان کے درمیان حرکت آسان ہوجائے۔ اور یقیناً یہ سب کرنے کے لئے ایک زبان کی ایجاد بھی کر رہا ہے؛ اِس زبان کو بیان کہتے ہیں۔ بیان کے ذریعے انسان کا دنیا سے تعلق مضبوط تر ہو تا ہے۔ آرٹسٹک فکر ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم کون ہیں اور کیا ہیں، جو ترقی پسند تعلیم کا ایک اہم ہدف ہے۔ جس طرح ریاضی کے فارمولوں اور اس کے کرنے میں استعمال ہونے والی اشیاء کے ساتھ ساتھ ریاضیاتی فکر بھی اہم ہے، ٹھیک اسی طرح آرٹسٹک مصنوعات کے ساتھ ساتھ اُن مصنوعات کو تیار کرنے کے وہ اعمال ، مشقیں اور اصول و طریقہ ہائے کار بھی اہم ہیں جن کے مصنوعات بنانے کے علاوہ بھی ایسے بیشتر فوائد ہیں جو ضروری نہیں کہ صرف آرٹسٹ حضرات کے ہی کام آئیں۔

—————————————-

مصنف: کاستو رؤے عظیم پریمجی یونیور سٹی میں فیکلٹی ہیں اور آرٹ، سوشیولوجی آف ایجوکیشن، ٹیچر اور کریکولم، کریکولم اسٹڈیز پے کام کرتے ہیں۔

مترجم: علی حسن لاہور پاکستان سے ہیں اور نیو یارک یونیور سٹی میں ڈیٹا انئلسٹ کا کام کرتے ہیں اور خالی وقتوں میں اردو شاعری، کتابت اور اردو کے لفظوں کے ایٹیمولوجیکل اصل کی تحقیق کرتے ہیں۔

یہ مضمون لرننگ کرو (عظیم پریمجی یونیورسٹی) کے آرٹ کے خصوصی شمارے سے لیا گیا ہے۔ 

Author: Ali Hassan

علی حسن لاہور پاکستان سے ہیں اور امریکہ میں ڈیٹا انئلسٹ کا کام کرتے ہیں۔ خالی وقتوں میں اردو شاعری، کتابت اور اردو کے لفظوں کے ایٹیمولوجیکل اصل کی تحقیق کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے