سوشل سائنس – حیات انسانی کا اسپرنگ بورڈ

مصنفہ : رچا بھوانم 

مترجم : سلمان وحید

سماجیات اور نفسیات، دونوں الفاظ سے میرا سحر انگیز رشتہ اس زمانے سے قائم ہے جب میں انکے اصل معانی سے بہت کم واقفیت رکھتی تھی.سماج، لوگ، اُنکے اذہان، جذبات اور ردِّ عمل، ان سب کو پڑھنے کا خیال ایک عجیب بات لگتی ہے۔  اپنی زندگی کے پہلے سولہ برسوں تک انگریزی اور ریاضی کا مطالعہ کرتے ہوئے  یہ موضوعات مجھے بکھرے ہوئے اور بے ربط لگتے تھے، یہاں تک کہ بحیثیت مجموعی انہیں ایک طے شدہ فریم ورک سے دیکھنا نا ممکن عمل لگتا تھا۔

آخر کس طرح ہمارے اعمال اور جذبات کو تھیوری اور ضوابط کے ایک سیٹ کے ذریعہ سمجھایا جا سکتا ہے؟ یہ نا ممکن ہے۔

مجھے بعد میں یہ علم ہوا کہ سماجی علوم میں کوئی یک سنگی موجود نہیں ہے۔ اِن میں کوئی ایک واحد تھیوری نہیں ہوتی جسے ہر کوئی قبول کرتے ہوئے اُسکی نہج پر چلے۔اُن میں سے ہر کوئی اپنا خود کا نقطہ نظر، خیال، سوالات و جوابات رکھتا ہے۔ شاید یہی ایک وجہ ہے کہ سماجیات اور نفسیات دونوں اپنے اندر کئی پہلو سمائے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ کثیر الجہتی کی صفت سماجی علوم کی بہت ساری صفات میں سے ایک ہے۔اِس میں ایک اور متاثر کن خصوصیت یہ ہے کہ ان مضامین کا ‘ہم سب کے ساتھ’ انسان ہونے کی حیثیت سے اور ‘مجھ سے’ اور ‘آپ سے’ بحیثیت فرد، ایک گہرا تعلق ہے۔میرے اندر اپنے اور انسانی نسل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا جنون موجود تھا. ممکن ہے کہ میں تھوڑا بہت ججمنٹل نظر آؤں مگر میرا خیال ہے کہ ہم سب کے اندر کسی نہ کسی حد تک یہ جنون پایا جاتا ہے چاہے وہ کیفیت اور کمیت میں مختلف ہی کیوں نہ ہو۔

انسانی نسل سے جڑی ایک انوکھی تصویر!

یہ دونوں مضامین اس جنون کی پرورش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے، اُن میں وہ ذاتی عنصر پایا جاتا ہے۔ اس سوال سے کہ ہم کون ہیں اور کیا ہیں؟ براہ راست مطابقت یا ربط نظر آتا ہے۔بالواسطہ یا بلا واسطہ ہم خود کا مطالعہ کررہے تھے۔ ایک مضمون کی حیثیت سے اپنے آپ کا مطالعہ اور ماضی کو سمجھنے کا عمل، یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے سماجی علوم کو پڑھنے کی طرف مائل کیا ہے۔پچھلے دو یا دو سے زیادہ سالوں میں سوشیالوجی اور علم نفسیات، میری زندگی کے بڑے حصے پر محیط تھے۔ اس سفر کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب میں سولہ سال کی تھی اور ان دو موضوعات میں گہری دلچسپی رکھتی تھی۔مجھے کچھ زیادہ اندازہ نہیں ہے کہ ان مضامین کے مطالعہ میں کیا چیزیں شامل یا درکار ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے،

ہم میں سے ہر کوئی غور و فکر کے ایک مخصوص طریقے سے بندھا ہوا ہے۔چاہے وہ شعوری اعتبار سے ہو یا لا شعوری، میرے تجربے میں سوچنے کا یہی زاویہ ان مضامین کو سمجھنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

اور پھر میرے خیالات کو اس بنیادی فہم سے آگے لے جانے میں، تاکہ میں مختلف موضوعات پر اپنی رائے اور نقطہ نظر بنا سکوں۔غور و فکر کا یہ عمل اُن کلاسوں میں شروع ہوا جہاں چیزیں مجھ پر واضح نہیں تھی۔ اس طرح کی سوچ جن کا آغاز کلاس میں ہوا تھا، ابتدائی ادوار میں مجھے مسائل کی باریکیوں کو مختلف نقطہ نگاہ سے دیکھنا تھا، لطافت اور باریکی کے ساتھ سوچنے، معاملات پر مختلف طریقوں سے دیکھنے، اور سب سے اہم اس بات کا لحاظ کہ  ہمیشہ کئی نقطہ ہائے نظر ہوتے ہیں، جن میں ہر ایک کی اپنی خوبی اور خامی بھی ہوتی ہے۔کسی ایک معاملے یا واقعہ کو سمجھایا نہیں جاسکتا اگر اُن کو صرف کسی ایک ہی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے ۔ اِسکے علاوہ بھی کئی نقطہ ہائے نظر ہوتے ہیں جن کے اپنے مثبت پہلو ہوتے ہیں اور وہ زیادہ متاثر کرنے والے ہوتے ہیں۔آخر کار یہ فریم ورک میری زندگی سے جڑے مختلف حصوں میں سرایت کر گیا۔ گرد وپیش کی زندگی کو میں نے اسی عینک سے دیکھنا شروع کیا۔ راستوں کے ایک حصے میں ٹوٹی ہوئی جھوپڑ پٹیاں، وہیں دوسری طرف ہمارے سروں کے اُوپر فلک بوس عمارتیں، ایک طرف سبزی فروش اپنے بچے کو لے کر ٹھیلے کو دھکّا دےرہا ہے اور وہیں شاپنگ مال، اپنے تمام تضادات کے ساتھ مجھے سمجھنے کے قابل بنا رہا تھا۔

امیر اور غریب – ایک سماج ایک تصویر

بہت جلد، اُن چیزوں کو بھی اسی نقطہ نگاہ سے دیکھنا شروع کیا جو میرے دل سے بہت قریب تھیں، اور گھر کے کچھ ایسے پہلو جنکو میں نے آنکھیں موند کر مان لیا تھا، جیسے پدری قوتیں جنکا آپ پر پہرہ رہتا ہے. نظامِ پدری اس کی ایک مثال ہے۔ایک گھریلو خاتون کا روایتی کردار (میری رائے میں جسکی مانگ بہت زیادہ ہے) ہمیشہ میری ماں نے ہی ادا کیا ہے۔ میرے ابّو، حسب روایت، پورے گھر کے لیے ایک معاشی ستون تھے جو پیسوں سے جڑے ہر معاملات کے ذمہ دار تھے۔یہاں تک کہ رشتے داریاں اور میری زندگی کے ذاتی مسائل، تبھی اُبھر کر سامنے آئے جب میں نے انکو اپنے نقطہ نظر سے دیکھا۔اِس نے یہ بات سمجھنے میں میری مدد کی کہ کسی بھی کہانی کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ مثال کہ طور پر،  نوعمری کی اتھل پتھل، اپنے تمام تر تنازعات اور عدم تحفظات کے ساتھ درست پس منظر میں تبھی سمجھی جا سکتی ہے جب آپ اسےکسی دوسرے شخص کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ بھی آپ ہی کے جیسے ہیں۔ بلکہ آپ کو اگر اسی صورت حال میں رکھا جائے تو آپ بھی ویسا ہی برتاؤ کرنے لگیں گے۔

بیرون اور اندرون کلاس کا میرا تجربہ اِس طرح کے نقطہ نظر کو فروغ دینے کے لئے ذمہ دار رہا ہے۔

کلاس میں میرا وقت بہت قیمتی رہا کیونکہ میرے علم کی بنیاد وہیں واقع ہے۔ اسی جگہ پر فکر و نظر کے مختلف بیج جو تناور درخت میں تبدیل ہو جائیں بویے جاسکتے ہیں۔ اور  سماجی علوم کی مٹی میں میری بنیادیں نمو پائی ہیں۔کوئی بھی حیران ہو سکتا ہے کہ کلاس کے دوران کیا ہوتا ہوگا جو اس طرح کے تبادلہ خیال کا موقع فراہم کرے۔ یقیناً، ہم وہاں اپنے مضامین کی بنیادی باتیں سیکھتے ہیں۔ سماجیات کے اندر مارکسزم، فیمنزم، فنکشنلزم، انٹرایکشنزم، مذہب، جرائم، میڈیا، خاندان وغیرہ شامل ہیں۔

علمِ نفسیات بالکل الگ کائنات ہے، جو اپنے مختلف عارضہ اور معالجہ کے ساتھ انتہائی دلچسپ میدان مطالعہ ہے۔ لیکِن ہماری کلاس سماجیات اور نفسیات کی درسی کتب سے بہت آگے چلی جاتی ہے۔ہماری گفتگو اور سنجیدہ مباحث، کلاس میں ایک الگ ہی روح پھونک دیتے تھے۔مثلاً، سوشیالوجی کی ایک کلاس میں ہم سماجی ڈھانچے پر بحث کررہے تھے۔ اگر آپ “سماجی ڈھانچے” کی اصطلاح سے ناواقف ہیں تو میں بتاؤں، یہ سماج کا وہ پہلو ہے جس کی تعمیر ایک حیاتیاتی یا فطری چیز کی پیداوار کے مقابلے میں ہم خود کرتے ہیں۔سوشیالوجی کے چند دلائل سے یہ پتا چلتا ہےکہ یہ ” سماجی ڈھانچہ “ سماج میں ایک ایسے ساخت کی بنا ڈالتے ہیں جو ہمارے رہنے اور سوچنے کے طریقے کو متاثر کرتا ہے۔محبت اسی کی ایک مثال ہے، کیا محبت ایک سماجی ڈھانچے کی پیداوار ہے؟ دلائل تو اسکو غیر حقیقی تسلیم کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم سب محبت کے احساس کو بہت مضبوطی سے محسوس کرتے ہیں۔ دل کا دھڑکنا، ایک خاص شخص کے بارے میں آپکے دل میں خیالات کا منڈلانا، اور کشش جو بہت ہی فطری اور حقیقی لگتی ہے۔ یہ نظریہ اشارہ کرتا ہے کہ صرف مخصوص کنڈیشننگ کی وجہ سے ہی ہم محبت جیسے جذبے کو محسوس کرتے ہیں۔ جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیوں ہم میں سے اکثر متوسط طبقہ کے اپنے ہی جیسے لوگوں سے عشق کرتے ہیں؟ جب ہم اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بہت ہی پریشان کن اور کبھی ڈراونا بھی بن جاتا ہے۔

ہماری نفسیات کی کلاس میں ایک اور انتہائی دلچسپ موضوع سامنے آیا جس میں ہم منقسم دماغ کے مریض سے جڑے ایک مقالے کا مطالعہ کر رہے تھے جس کے کورپس کالوسوم ( جو دماغ کے دو نصف حصوں کو جوڑتا ہے) پر اس طریقے سے سرجری کی گئی تھی کہ انکے درمیان اب کوئی تعلق موجود ہی نہیں رہا۔ اِس طرح کے طریقہ جراحت عام طور پر اُن لوگوں پر آزمائے جاتے ہیں جو شدید مرگی زدہ ہوجاتے ہیں جسکی وجہ سے اُنکا دماغ غیر فعال ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے تجربے سے حاصل مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک شخص میں دو مختلف شعوری حالتیں ہوتی ہیں۔دماغ کے دونوں ( دائیں اور بائیں) حصے اپنے اظہار کے طریقوں اور قوت حافظہ کے ساتھ اپنی زندگی کی سربراہی کرتے ہیں۔  اس معاملے کو مانتے ہوئے ہم خود سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ہمارے پاس دو مختلف شعوری درجات ہیں۔

منقسم دماغ کا مطالعہ ایک تصویری جھلک!

مجھ میں حقیقی شخص کون ہے؟ اس طرح کے سوالات ہماری کلاس کی بحثوں میں جان ڈال دیتے تھے اور تجسّس کا ماحول پیدا کرتے تھے۔ اس طرح کے محرکات آپ کو اپنے اور آپکے آس پاس موجود دنیا کے بارے میں سوچنے پر ابھارتے ہیں اور یہ اشارہ کرتے ہیں کہ یہ موضوعات ہمارے لیے کتنا با معنی ہیں۔پھر تنقیدی سوچ اور خود احتسابی ایک عام سرگرمی بن جاتی ہے، یہاں تک کہ یہ کلاس کا ایک معمول بن جاتا ہے۔اس طرح کا ماحول ایک اسپرنگ بورڈ کی طرح کام کرتا ہے جسکے ذریعے میں اپنی دلچسپی کے دیگر شعبوں میں کبھی بھی چھلانگیں لگا سکتی ہوں۔ سوشیالوجی اور علم نفسیات دونوں کو پڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ میں جب بھی کھڑکی سے باہر اپنی نگاہ دوڑاوں تو میری تجربہ گاہ وہیں پر موجود ہوتی ہے – کم از کم اس حد تک جہاں مشاہدے اور گفتگو کے ذریعے معلومات سے بہرہ مند ہوا جا سکے۔

جب ہم اسکول کی طرف سے بنگلور کے ایک جھگی بستی میں گئے اور وہاں کے رہنے والے مزدوروں سے گفتگو کی تو یہ تجربہ میرے لئے اتنا دلچسپ رہا کہ ” ہم ” اور ” وہ ” کے درمیان جو دیواریں تھی، وہ چائے کے ساتھ گفتگو میں بس کچھ منٹوں میں ٹوٹ گئی۔اُن سب کی زندگیاں، کہانیاں اور اُنکے مسائل کوئی اچانک سے پیدا نہیں ہوئے جو پوری طرح ہماری زندگیوں سے منقطع ہو، بلکہ میں چند مسائل سے خود کو جوڑ پا رہی تھی اور اُن سے اپنی ہمدردی کا اظہار کر پا رہی تھی۔ پھول بیچنے والی سے اُسکا نام پوچھنا یا اُسکے بچّوں کے بارے میں جاننا، یا رکشا ڈرائیور کو اُسکے ریڈیو سیٹ کے لئے تعریف کرنے میں کسی رشتے کی حاجت نہیں پڑتی۔ یہ بہت ہی شاندار تجربہ تھا کہ کسی سے گفتگو کا آغاز کرنے میں بہت ہی کم وقت لگتا ہے۔

سماجی علوم ہی سے سماج کا درد محسوس ہوگا!

سماجی علوم لوگوں کے افکار کو اسی طور سے وُسعت بخشتے ہیں اور ان علوم نے یقینی طور پر میرے اندر حساسیت کو تراشا اور نکھارا ہے۔جب میں اپنے گرد و پیش میں نظر دوڑاتی ہوں تو زندگی کے ہر شعبے کے لوگ نظر آتے ہیں، لیکِن ایسا لگتا ہے وہ ایک دوسرے سے قدرے جدا ہیں۔ اور شاید یہی حقیقت ہو۔لیکن، سماجی علوم نے اب اس دنیا کو دیکھنے کا میرا نظریہ ہی بدل دیا اور اس حقیقت کو تقویت بخشی کہ ہم سب انسان ہیں۔ آخر کار ہم سب ایک ہی ہیں۔ جب آپ اس ایسا نظریہ بناتے ہیں تو امیر غریب، ہندو مسلم، ہندوستانی پاکستانی، کالا گورا وغیرہ جیسے امتیازات اپنی معنویت کھو دیتے ہیں۔سوشیالوجی اور علم نفسیات کے مضامین کا اے – لیول نصاب کے اختتام پر، اپنے دو انوکھے سالوں پر غور کرنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان مضامین کو پڑھنا میرے لیے مسرّت کا باعث رہا۔

ہماری روزمرہ زندگی میں انکا اشتراک/حصہ، ہمارے شهروں کی بھاگ دوڑ میں انکی موجودگی، اور ان مضامین کے درمیان خود کو جوڑے رکھنے کے عمل نے میری زندگی کے تجربے کو اور رنگین کردیا ہے۔ان موضوعات سے جو انتہائی اہم سبق میں نے سیکھا ہے وہ یہ کہ، اس نے فطری طور پر مجھے حساس بنایا ہے، اور انسانی فطرت کی باریکیوں کو دیکھنے میں میری مدد کی ہے۔ میں آگے کالج میں سوشل سائنس پڑھنے کی منتظر ہوں۔

مصنفہ کے بارے میں

رچا بھوانم آلٹرنیٹو اسکول، سنٹر فار لرننگ بنگلور، میں بارہویں کی طالبہ ہیں۔ وہ سوشیالوجی اور علم نفسیات میں اے، لیول کا کورس کر رہی ہیں۔ انکی دلچسپی کے دیگر میدان تصویر نگاری، کوزہ گری، جنگلی حیاتیات، تصنیف اور سفر کرنا شامل ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انکی تصانیف میڈیا میں شائع ہوئی ہیں۔ اُن سے نیچے دیے گئے میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:  [email protected]

بشکریہ : لرننگ کرو-  عظیم پریم جی فاؤنڈیشن

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے