بچپن میں میں ایک انوکھےاسکول میں پڑھا تھا۔ ویسی تعلیم میں آج اپنے بیٹے آنند کو نہیں دے سکتا۔ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ میرے بچپن کی بات ہی کچھ نرالی تھی۔ اب وہ بات کہاں رہی۔ اکثر بڑے بوڑھوں کو آپ نے اس طرح کی بات کرتے سنا ہو گا۔ پھر بھی میرے دل میں گہر ادکھ ہے۔ آخر میرے اسکول میں ایسی کیا بات تھی؟
نویں جماعت تک میری پڑھائی گاندھی جی کی نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق تھی۔ اس میں سے پورے چار سال تومیں نے سیوا گرام آگرم کے نئے تعلیمی ادارے میں گزارے۔ تعلیم کا مطلب یہ نہیں کہ ہم قدرت کو چھوڑ کر ، جماعت کی چار دیواری کے درمیان سے ہو کر کسی عام سبق کو رٹیں۔ اسکے دوسری طرف گاندھی جی کی نئی تعلیم کا یہ ماننا تھا کہ قدرت کے قریب رہ کر اور معاشرے کو فائدہ دینے والے کام کر کے ہی عقل کی ترقی ہوتی ہو گی اور ان کے مطابق بچے مختلف مہارتیں حاصل کریں گے۔ اس طریقے کی ترقی کے لیے گاندھی جی کے کہنے پر رویندر ناتھ ٹھاکر نے شانتی نکیتن سے جناب آریئے نایئکن اور محترمہ آشا دیوی کی سنگی بنگالی جوڑی کو سواگرام بھیجا تھا۔ اسی وجہ سے گاندھی جی کی تعلیمی کاوش کورویندر ناتھ کی فطرت اور فن کا پیار ملا تھا۔ اسکول کی شروعات سے ہی میرے ماں باپ اس عمل میں شامل تھے۔ اس اسکول کے پڑھائی کے طریقے ایک دم نایاب تھے۔ ان طریقوں کی کچھ مثالیں میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔