مادری زبان میں حصولِ تعلیم کی اہمیت

منصف : ڈاکٹر قاضی سراج اظہر

اسوسیٹ کلینکل پروفیسر

مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی۔ امریکہ

قاضی سراج اظہر صاحب مادری زبان میں حصول تعلیم کو فروغ دینے کے سلسلے میں پچھلے 30 سالوں سے انتھک کوشش کررہے ہیں۔ اسی کے چلتے گذشتہ مہینےمئی 2023 میں   ان کا دور ہ اپنے وطن ہندوستان کا تھا جس میں ملک کے مختلف صوبوں میں کئی طرح کے پروگرام اور اداروں کے ذمہ داران سے ملاقات شامل تھیں۔ آپ کی کوششوں سے ریاست آندھرا اور تلنگانہ کے مدارس میں سائنس  کو بطور نصاب میں شامل کیاگیا۔ اسی طرح طریقۂ تعلیم میں اعصابی سائنس (neuroscience) کی اہمیت،بچوں میں دماغی عمر اور ذہنی نشونما (Cognitive Development) کے لحاظ سے نصابِ تعلیم تیار کرنے کے سلسلے میں  NCERT، SCERT اور کئی تعلیمی اداروں میں سیمینار اور ورکشاپ کا انعقاد بھی کرتے رہتےہیں۔

 

تعلیم کا مقصد علم کو سمجھ کر حاصل کرنا ہے جس سے طالبِ علم کی ذہن سازی اور خودی کی پرورش ہو تاکہ علمِ نافع جس کو ہم حاصل کررہے ہیں، اپنے لئے اور تمام نوعِ انسانیت کیلئے فلاح و بہبود کا باعث بنے۔ فرنگیت کی اندھی تقلید ہمارا مقصدِ حیات نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج میں جو کچھ ہوں وہ میری مادری زبان اردو میں تعلیم کا نتیجہ ہے۔ میں نے اپنی مادری زبان میں بنیادی علم کو سیکھا و سمجھا ہے، جس سے مجھ میں تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں کا شعور جاگا۔ آج جو بھی میرا بین الاقوامی وقار و درجہ ہے اسی مادری زبان اردو کے بدولت ہے۔ میں نے عمر کے دس سال کسی غیر ملکی ( انگریزی) زبان سیکھنے اور اُس زبان میں سوالات جوابات رٹنے میں صرف نہیں کئے بلکہ بنیادی مضامین جیسے سائنس، ریاضی اور عمرانیات کو مکمل فہم و جستجو سے حاصل کرنے میں لگائے۔ تعلیم کا مقصد علم کو سمجھ کر حاصل کرنا ہے جس سے طالبِ علم کی ذہن سازی اور خودی کی پرورش ہو تاکہ علمِ نافع جس کو ہم حاصل کررہے ہیں، اپنے لئے اور تمام نوعِ انسانیت کیلئے فلاح و بہبود کا باعث بنے۔ فرنگیت کی اندھی تقلید ہمارا مقصدِ حیات نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

یورپ   کی  غلامی  پہ  رضامند ہوا تو


مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں

یادِ ماضی میں گُم ہو کر جب سوچتا ہوں، اگر میرے والدین مجھے یہ سوچ کر کہ انگریزی تعلیم سے روزگار کے ذرائع بہتر ہوں گے، کسی انگریزی میڈیم اسکول کے سپرد کردیتے تو کیا یہ مقام و درجہ مجھے مل سکتا تھا جو مجھے ملا ہے؟ جواب ہو گا”ہر گز نہیں”۔ دلچسپ بات جو میں نے محسوس کی، میری مادری زبان اردو نے میری انگریزی زبان دانی کو بھی اعلی و معیاری کردیا جس کی آج سائنس تصدیق کرتی ہے۔ 

جو علم جستجو اور سمجھ سے حاصل کیا جاتا ہے وہ علم انسان کو صاحبِ ایجادات بنا دیتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے، محقق و سائنسداں کی کوئی ایک سائنسی زبان نہیں ہوتی یا یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا سائنس کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ جس کسی زبان نے سائنس کو اپنا لیا وہ اُسکی ہوجاتی ہے۔

سائنس میں میری دلچسپی، سائنس کو مادری زبان اردو میں سمجھنا ہے۔ جو علم جستجو اور سمجھ سے حاصل کیا جاتا ہے وہ علم انسان کو صاحبِ ایجادات بنا دیتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے، محقق و سائنسداں کی کوئی ایک سائنسی زبان نہیں ہوتی یا یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا سائنس کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ جس کسی زبان نے سائنس کو اپنا لیا وہ اُسکی ہوجاتی ہے۔ سائنس مشاہدہ، جستجو، اور تجربے سے دلائل پیش کرنے کا نام ہے۔ اپنی مادری زبان سے تدبر اور حکمت کی منزلیں طئے ہوتی ہیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے جن قوموں نے اپنی مادری زبان کا خود ہی گلا گھونٹ دیا اُن کا نام و نشان مٹ گیا۔ یونان، مصر اور روم کا کیا حشر ہوا آپ کے سامنے ہے۔ اس کے برخلاف جو لوگ مادری زبان میں اپنی سوچ (خودی) کو پروان چڑھاتے ہیں عالمِ ایجاد میں وہ صاحبِ ایجاد بن جاتے ہیں۔ یہی وہ صلاحیت ہے جس سے غلامی و محکومی کی زنجیریں کٹ جاتی ہیں اور قومیں آزاد ہوکر دُنیا کی امامت کے قابِل ہوتی ہیں۔ 

اسی فکر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں ایک لائحہ عمل بناتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔

۱- عوام کو مادری زبان کی اہمیت کے تعلق سے تحقیقی سائنسی حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا۔ یونیسکو (UNESCO) کی 2008 عالمی تحقیق اور 2020 کی نئی تعلیمی پالیسی (NEP) اور کئی تحقیقی مقالے جو مادری زبان کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں عوام کو اُن سے واقف کرانا اور اُن میں بیداری کی تحریک شروع کرنا۔ 

۲- مساجد کے خطبوں، دینی اجتماعات و دروس سے یا پھر گھر گھر جاکر ہمارے معاشرے کو مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کو واضح کرنا۔ مادری زبان (اردو) میں تعلیم کے بابت والدین کی غلط فہمیوں کو دور کرنا۔ تمام ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے عوام تک مادری زبان کی اہمیت کے بارے میں معلومات فراہم کرنا۔ تعلیم کو جدید تحقیقی اُصولوں کے تحت طلبہ فہم اور طلبہ دوست بنانا اور نصابِ تعلیم کو طلبہ کی ذہنی نشونما کے مطابق ڈھالنا۔ 

۳- اردو میڈیم یا مادری زبان میں تعلیم پانے والے طلبہ کےلئے معیاری و مؤثرتعلیم کا انتظام کرنا۔ مادری زبان اردو  مدارس میں”جستجو سے کرکے سیکھنے” والے نصاب کو تیار کرنا اور رائج کرنا۔ منصوبہ بند اکتساب (Project-Based Learning) کو ہر جماعت کے نصابِ تعلیم میں شامل کرنا اور اساتذہ کےلئے تعلیمی و تربیتی اجلاس رکھنا۔ 

۴- کالجس اور یونیورسٹیز کے تعلیمی شعبوں کو جدید تعلیمی نصاب سے آراستہ کرنا  تاکہ اساتذہ کو ہر مضمونِ تعلیم (سائنس، ریاضی، اور سماجی سائنس) میں ماہرانہ تعلیم و تربیت حاصل ہو سکے۔ اس لئے ابتدائی بچپن کی تعلیم (Early Childhood Education), تحتانوی مدارس (Elementary Schools), وسطانوی اور فوقانوی مدارس (Middle and High School) کے ماہرِ تعلیم پیدا کرنا۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھنی ہوگی کہ طلبہ کا بہترین تعلیمی معیار اساتذہ کی تعلیم پر منحصر ہوتا ہے۔ 

۵۔ نئی نسل کو یوروپ کی نقّال نہیں بلکہ صاحبِ کتاب و صاحبِ ایجاد بنانا اُن کی خودی کو فروغ دینا۔ سائنس و ٹکنالوجی کو ارد و  ذریعۂ تعلیم سے ہم آہنگ کرنا۔ اُردوداں طبقے، اردو کونسلوں، اردو انجمنوں، اور اردو کی اساتذہ تنظیموں کو یہ باور کرانا کہ اگر اردو کو زندہ رکھنا ہے تو عصرِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ جن زبانوں نے سائنس و ٹکنالوجی کو اپنا لیا وہ امر ہوگئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس کا طالبِ علم شاعر و نثر نگار بھی ہو سکتا ہے۔ اس بات کا احساس دلانا کہ لسانی ادب کو سائنس سے جُدا کرنا اردو زبان دانی کی خودکشی ہوگا۔

۶- نئی نسل کو جدید علوم و فنون کے تقاضوں سے آگاہ کرنا۔ مادری زبان (اردو) کے مدارس کو اعلی معیاری بنانا۔ کمرۂ جماعت سے باہر بھی طلبہ بہت کچھ کر کے سیکھتے ہیں، اُن کو ایسے تحقیقی منصوبے دینا جو اسکول سے باہر بھی کئے جا سکتے ہیں اور وہ طلبہ کےلئے دلچسپی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ 

۷- انگریزی بحیثیتِ ایک مضمون میں طلبہ کو عبور حاصل کرانا۔ طلبہ کو اس قابل بنانا کہ وہ بہ آسانی  انگریزی میں نہ صرف لکھ پڑھ سکیں بلکہ صحیح لہجے میں بِلا جھجھک گفتگو بھی کرسکیں۔ 

۸- طریقۂ سائنس (Scientific Method) کو چوتھی جماعت سے لے کر کالج تک ہر سائنسی مضمون میں سائنسی نصاب کا حصہ بنانا۔ انجینئرنگ طریقۂ سائنس (Engineering Method) کو انجینئرنگ کالجس میں رائج کرنا۔ اردو ذریعۂ تعلیم سے علومِ سائنس میں فارغ التحصیل طلبہ کو سائنسی تحقیق کی طرف راغب کرانا۔ 

۹- سائنسی نمائش کے بجائے سائنس فیرس کو چوتھی جماعت سے بارہویں جماعت تک مدارس میں رائج کرنا۔ اساتذہ کےلئے طریقۂ سائنس یا سائنسی تحقیق کیسے کی جاتی ہے، تربیتی اجلاس منعقد کرنا۔ سالانہ سائنس فیرس کاانعقاد کرنا۔ مقامی، ریاستی، قومی، اور بین الاقوامی سائنس فیر مقابلوں میں طلبہ کو حصہ لینے کے قابل بنانا۔

۱۰-  منصوبہ بند اکتساب (PBL) صرف سائنس کےلئے نہیں ہے بلکہ یہ ہر نصابی مضمون میں بھی کرایا جاسکتا ہے۔ طلبہ کا منصوبہ بند تحقیق کےلئے الگ سے ایک بیاض یا نوٹ بُک کا رکھنا۔ اُس میں ہفتہ وار معہ تاریخ کے مشاہدات اور نتائج کا اندراج کرنا۔ جو بھی معلومات حاصل ہوں اپنی تحریر میں قلم بند کرنا۔ پیمائش کو سائنسی مستند اکائیوں میں رقم کرنا۔ سائنسی تحقیق طلبہ میں نہ صرف سائنسی ذہن سازی کرتی ہے بلکہ اُنکو اپنی مادری زبان اردو میں بہتر لکھنا پڑھنا اور ریاضی کا استعمال کرنا بھی سیکھاتی ہے۔ 

تعلیمی میدان میں ساری جدید تحقیق اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کی مادری زبان میں بنیادی تعلیم ہی اُن کو خوددار و خود گر بناتی ہے۔ غیرملکی زبان (انگریزی) میں تعلیم و تربیت وہ ابرِ نیساں ہے جو انسانی خودی کو علم کے موتیوں سے نہیں سنوار سکتی۔

ہم اس بات کو مطلق نظر انداز نہیں کر سکتے کہ انسان کی زندگی میں مادری زبان فہم و تفہیم کا اہم حصہ ہے۔ افہام و تفہیم کے بغیر کوئ علم حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ خودی کی پرورش میں اہم کردار مادری زبان کی ضرورت ہے جس سے انسان میں تحقیقی و تخلیقی شعور بیدار ہوتا ہے۔ میری تمام عمائدین و دانشورانِ اسلام سے پُر خلوص گذارش ہے کہ وہ اس تعلیمی مہم  کا حصہ بن جائیں تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں دین پر قائم رہتے ہوئے عصری تعلیم سے ہم رکاب ہوں۔ ان شاءاللہ، بہت جلد ہم اس کے اثرات و نتائج دیکھیں گے۔ تعلیمی میدان میں ساری جدید تحقیق اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کی مادری زبان میں بنیادی تعلیم ہی اُن کو خوددار و خود گر بناتی ہے۔ غیرملکی زبان (انگریزی) میں تعلیم و تربیت وہ ابرِ نیساں ہے جو انسانی خودی کو علم کے موتیوں سے نہیں سنوار سکتی۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

زندگانی ہے صدف، قطرۂ نیساں ہے خودی

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے

ہو سکتا ہے آپ اِس کو میرا جنون سمجھیں، لیکن اس جنونی کیفیت میں میرے آقائے دو جہاں سرورِ کائنات ﷺ کی مِلّت سے حد درجہ محبت شامل ہے۔ مجھے کسی سے کوئی اختلاف نہیں۔ میری مادری زبان و ملت سے اُلفت و محبت میری فطرت کا ایک اہم عنصر ہے۔ میرے لئے اپنے بھی اپنے ہیں بیگانے بھی اپنے ہیں۔ جب انسان عشقِ رسول سے سرشار ہوتا ہے تو پھر زخم دینے والوں کیلئے بھی دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ گو کہ حق بات کو لوگوں تک پہنچانا کوئی آسان مرحلہ نہیں۔ اندھی تقلید سے ملتِ مسلمہ کو نکال کر راہِ حق پر لانا جوئے شِیر لانے سے کم نہیں۔ جس مٹی کا خمیر ہوں اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کررہاہوں۔ میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں جو کچھ سیکھا ہے اور جو میرے لئے مفید ثابت ہوا ہے وہی میں نے اہلِ ایمان والوں کیلئے پسند کیا ہے۔ جیسا کہ متفق علیہ حدیث ہے۔ جس کو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لا يؤمنُ أحدُكم حتى يحبَّ لأخيه ما يحبُّ لنفسِه۔

“تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے”

 

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے