کچھوا اور خرگوش کی کہانی میں اساتذہ کے لیے رہنما اصول

ڈاکٹر ذاکر حسین،عظیم دانشور، مجاہد آزادی، صاحب طرز ادیب، مترجم، خطیب، منتظم، مدبر سیاست داں ہونے کےساتھ ہمہ جہت شخصیت کےمالک تھے۔آپ نے ملک کی تعمیرو ترقی کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔

آپ کی مشہور کتابوں میں سے “اعلی تعلیم، قومی تعلیم، جامعہ کے پچیس سال، ہندوستان و ممالک غیر، انتخاب غالب، ہندوستان میں تعلیم کی ازسرنو تنظیم، تعلیمی خطبات، مولانا آزاد کی یاد میں.” وغیرہ اہم ہیں۔

زیر نظر کتاب (کچھوا اور خرگوش) کہانی کی ہیت میں اساتذہ کی رہنمائی کے لیے لکھی گئی کتاب ہے. اس میں مکالمہ در مکالمہ کہانی آگے بڑھتی ہے جس سے یہ سیکھ ملتی ہے کہ ایک استاذ کو کس طرح طلبہ کی رہنمائی کرنی چاہیےاور ان کے مشکل سے مشکل سوالات کو  آسان کرے کے بتانا  کیوں ضروری ہے۔

اچھا استاذ وہ ہوتا ہے جسے  نصاب پرمکمل عبور ہوتاہے ، ساتھ  ہی وہ ہمیشہ طلبہ کے بیچ  علم دوست بن کر رہنا پسند کرتا ہے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔

کتاب کا آغاز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ابتدائی دور سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس میں جامعہ کی تعمیر کے ساتھ  وہاں کے اساتذہ کی نیک نیتی کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد کہانی کا رخ کچھوا اور خرگوش کی اس کہانی کی طرف چلا جاتا ہے جسے ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کچھوا اور خرگوش کی دوڑ میں کچھوا جیت گیا تھا۔ کہانی کے مرکزی کردار کچھوا اور خرگوش کے علاوہ مولوی غفران، پروفیسر کچپاق ،ڈاکٹر فی الفور اور الفیلسوف الہندی کا کردار بطور اساتذہ پیش کیا گیا ہے۔ صاحب کتاب نے مولوی غفران کے کردار کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اچھا استاذ وہ ہوتا ہے جسے  نصاب پرمکمل عبور ہوتاہے ، ساتھ  ہی وہ ہمیشہ طلبہ کے بیچ  علم دوست بن کر رہنا پسند کرتا ہے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ پروفیسر کچپاق اور ڈاکٹر فی الفور کے ذریعہ ذاکر صاحب نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر کسی کو اپنے نصاب پر مکمل دسترس حاصل ہو لیکن طلبہ کو کوئی بات سمجھانے کی صلاحیت نہیں ہے تو اس کی قابلیت بے معنی  ہے۔ کتاب میں مولوی غفران کے علاوہ ایک اور دل چسپ کردار الفیلسوف الہندی کا ہے۔

اگر کسی استاذ کو اپنے سبجیکٹ پر عبور حاصل نہ ہولیکن طلبہ کے سوالات اور جو کچھ وہ پڑھا رہا ہے اسے طلبہ کے سامنے آسان بنا کر پیش کرنے کی مہارت ہے تو وہی ایک  بہترین اور کامیاب استاذ ہے۔  

الفیلسوف کے ذریعہ صاحب کتاب نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر کسی استاذ کو اپنے سبجیکٹ پر عبور حاصل نہ ہولیکن طلبہ کے سوالات اور جو کچھ وہ پڑھا رہا ہے اسے طلبہ کے سامنے آسان بنا کر پیش کرنے کی مہارت ہے تو وہی ایک  بہترین اور کامیاب استاذ ہے۔  درمیان میں یونانی، دیو مالائی اور لوک کہانیوں میں کچھوا کے تعلق سے جو متھ پیش کئے گئے ہیں ڈاکٹر صاحب نے اسے بھی ان کرداروں کے زبانی بیان کیا ہے۔

قصہ مختصر یہ ہےکہ یہ کتاب ایک تعلیمی ادارے کے قیام سے شروع ہوتی ہے اور تعلیمی ادارے کو مستحکم بنانے کے لیے ایک بہترین استاذ میں کون کون سی صلاحیت درکار ہونی چاہیے سب پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے.

اس کتاب کا نام  ” کچھوا اور خرگوش ” ہے جس  کے مصنف  ڈاكٹر ذاکر حسین صاحب ہیں۔ اس میں کل 71 صفحات ہیں۔ اسے نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا نے شائع کیا ہے۔

مبصر :      ا  بوالفیض اعظمی 

کتاب کے لئے اس لنک پر کلک کریں :

کچھوا اور خرگوش

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے