علم کیمیاء میں نوبیل انعام کس کو ملا اور کیوں؟

مترجم : زبیر صدیقی

کیمیادانوں کا ایک کام یہ ہے کہ وہ مختلف مادوں کا استعمال کر کے نئے نئے مواد تیار کرتے ہیں- یہ نئے مواد کھاد ہو سکتے ہیں، شمسی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کرنے والے ہو سکتے ہیں، توانائی کا ذخیرہ کرنے والے ہو سکتے ہیں، تعمیرات یا پیکیجنگ میں استعمال ہونے والے پلاسٹک بھی ہو سکتے ہیں- انیسویں صدی میں کیمیادان جیکب برزیلیئس نے یہ پتا لگا لیا کہ چند مادے کیمیائی تعامل کو تیز کر سکتے ہیں جو نہ تو اس تعامل کا حصّہ ہوتے ہیں اور نہ اس کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں- انہیں حملان کہتے ہیں- ایک اندازے کے مطابق دنیا کا 35 فیصد جی.ڈی.پی حملان کے دم پر قائم ہے۔

اس سال کے نوبیل انعام یافتہ بینجامن لسٹ اور ڈیوڈ میکملن کے کام سے پہلے ہم صرف دو قسم کے حملان جانتے تھے- ان میں سے ایک کا استعمال قدرت (انزائمس) کے ذریعہ کیا جاتا ہے اور دوسرا دھات پر مبنی ہوتا ہے- لسٹ اور میکملن کے تحقیقی کام کے نتیجہ میں، ہمیں ایک نئے قسم کا حملان دریافت ہوا ہے جسے ارگینو حملان کہا جاتا ہے اور اس عمل کو ارگینو حملانگیزی کہتے ہیں۔

دونوں محققین نے قدرتی حملان یعنی انزائمس پر توجہ مرکوز کیا – انزائمس بڑے پروٹین مالیکیولز ہوتے ہیں اور کسی عمل کو انجام دینے میں مدد کرتے ہیں- محققین نے دیکھا کہ بڑے پروٹین کا صرف ایک حصّہ ہی اس عمل کو چلاتا ہے، باقی انزائم اس حصّے کو درست حالت میں رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے- پروٹین دراصل پولیمر ہوتے ہیں جو امینو ایسڈ کی اکائیوں سے بنتے ہیں- لہذا محققین کو کافی حیرت ہوئی کہ صرف ایک امینو ایسڈ وہی کام کر سکتا ہے جو پورا انزائم مالیکیول کرتا ہے۔

اس میں سے کاربنی حملانگیزی کا خیال سامنے آیا- تجرباتی طور پر، لسٹ نے یہ پتا لگایا کہ امینو ایسڈ حملانگیزی کا کام کر سکتے ہیں، چاہے وہ کسی انزائم کا حصّہ نہ ہوں- مزید اس کے، ایسے امینو ایسڈ غیر متناسب ترکیب سے بھی گزر سکتے ہیں- اہم بات یہ ہے کہ بہت سے کاربنی مالیکیول، اگرچہ کیمیائی ساخت میں ایک جیسے ہیں، دو شکلوں میں موجود ہو سکتے ہیں اور ایک دوسرے کا عکس بھی ہوتے ہیں- اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک کام آگے کے کاموں میں مفید ہوتا ہے- لسٹ نے یہ پایا کہ ارگینو حملان مطلوبہ شکل بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

اسی دوران یونیورسٹی آف کلیفورنیہ میں ڈیوڈ میکملن بھی غیر متناسب ترکیب کے لئے دھاتی حملان کے متبادل کی تلاش میں تھے- دھاتی حملان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کام کرنے کے لئے ماحول کو انتہائی قابو میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے- اور یہ کافی مہنگا بھی ہے- میکملن کا راستہ انزائم سے شروع نہیں ہوا تھا، انہونے تو ایسے کاربنی مالیکیولز سے شروعات کی تھی جو حملان کا کام کر سکیں- دیکھتے دیکھتے وہ بھی یہیں پہنچ گئے۔

چنانچہ مذکورہ محققین کی کاوشوں نے نہ صرف ہمیں حملان دیے، بلکہ حملانگیزی کے میدان کو بھی ایک نئی سمت دی- ان کے کام کے بعد اس شعبے میں کافی تیزی سے ترقی ہوئی- غیر متناسب ترکیب کے علاوہ انہونے ایک اور چیز کو ممکن بنایا- جب کوئی انزائم سیل میں کام کرتا ہے تو اگلا انزائمس اس کے اپنے مصنوعات کو محرک کے طور پر استعمال کرتا ہے- یعنی مصنوعات کو الگ کرکے نئے سرے سے استعمال نہیں کرنا پڑتا-  ارگینو حملانگیزی کی اس دریافت کے بعد تجربہ گاہوں اور کارخانوں میں مصنوعی طور پر اسمبلی لائن پروڈکشن ممکن ہو پایا ہے۔

سورس : Srote Features

 

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے