فن تعلیم و تربیت – افضل حسین – باب ششم– پہلا حصہ– اسوۂ حسؐنہ کی ر و شنی میں

اس سلسلے کا پچھلا مضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

کَمَااَرسَلنَا فِیکُم  رَسُولاً مِّنکُم یَتلُواعَلَیکُم اٰیٰتِنِاَ وَ یُزکِّیکُم وَیُعَلِمُکُمُ الکِتَابَ وَالحِکَمَۃَ وَیُعَلِمُکُم مَالَم تَکُو نُواتَعلَمُونَ۔(البقرہ:۱۵۱)

“جس طرح میں نے تمہارے درمیان خودتم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں میری آ یات سُنا تا ہے، تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے ۔تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم د یتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جوتم نہ جا نتے تھے۔”

بُعِثتُ مُعَلِّمَاً۔(مشکوٰۃ)

“مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے۔”

بُؑثتُ لِاُ تَمِم مَکَارِمَ الاَخلَاقِ۔(موطاامام ما لکؒ)

“مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ اخلاقی اچھا ئیوں کو تمام و کمال تک پہنچا ؤں۔”

اِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَۃُ الاَنبیَاءِ وَ اِنَّ الاَنبیَاءَ لَم تُورِثُوادِینَارََا وَلَا دِرھَماً وَاَنَّمَا وَرَثُو االعِلمِ۔(ترمذی۔ابُوداود)

“عالم نبیوں کے وارث ہیں اور انبیاء کا ورثہ دینار اور درہم نہیں ہیں بلکہ ان کا ورثہ علم ہے جس کا وارث انہوں نے عالم کو بنایا ہے۔”

مندرجہ بالاآیت اور ارشادات گرامی سے ثابت ہوتا ہے کہ صحیح تعلیم و تربیت کا رِنبٔوت کا ایک اہم جز وہے اور دیگر امورزندگی کی طرح اس معاملے میں بھی آپؐ ہی کااسوۂ حسنہ ہم سب کے لیے مستند اور قابلِ تقلید ہے۔آئیے جائزہ لے کر  دیکھیں کہ اس ضمن میں ہمیں کیارہنمائی ملتی ہے۔تاکہ آپؐ کی اتباع کر کے ہم تعلیم و تربیت کو مفید اور نتیجہ خیز بناسکیں۔

معلّم کی شخصیت اور اوصاف 

طلبہ کی تعلیم و تربیت میں معلّم کی اپنی شخصیت اور اس  کے ذاتی او صاف کارول سب سے اہم ہوتا ہے۔طلبہ شعوری یا غیر شعوری طورپر ان سے برابر متاثر ہو تے رہتے ہیں اور یہ تاثراتنا گہر اہوتا ہے کہ زندگی بھر نمایاں طورپر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

  • آپؐ کی شخصیت کے مندرجہ ذیل چند پہلوؤں کو خاص طور پر پیش  نظر رکھنا چا ہئیے تا کہ ہر معلّم ان کی رو شنی میں اپنی شخصیت  کو ڈھال سکے اور اپنا قابلِ تقلید اسوہ طلبہ کے سا منے پیش کر سکے۔  
  • آپؐ کی شخصیت بڑی دلکش،محبوب اور مؤثر تھی،جودیکھتا بے اختیار کھنچتا۔اپنی جان چھڑ کتا،اورآپؐ کے اشاروں پر اپناسب کچھ قربان کر دینے کی کو شش کرتا۔معلّم کو بھی اپنے اندران اوصاف کی جھلک لانی چاہئیے تا کہ طلبہ اس سے بِدکنے کے بجا ئے قریب آئیں۔توجہ اور دل چسپی سے بات سُنیں اور معلم کا اثرقبول کریں۔ان اوصاف کے بغیر معلم اپنا فرض بخوبی انجام دے ہی نہیں سکتا۔
  • زندگی کے ہر چھو ٹےبڑے معا ملے میں آپؐ کااسوہ قابلِ تقلید تھا۔پُوری زندگی ایک کُھلی ہو ئی کتاب تھی۔ظاہر یاباطن یکساں تھا۔جن باتوں کی تعلیم دی خوداس پر عامل رہے،زبان سے جو کچھ فرمایا اس پر عمل کر کے دکھا یا۔
  • طلبہ بھی معلّم کی باتوں سے زیادہ اس کے اسوہ کی تقلید کرتے ہیں،اس لیے معلّم کو بھی اپنی سیرت کے تمام پہلوؤں پر برابر نظر رکھنی چاہئیے تاکہ طلبہ کو تقلید کے لیے اچھا اسوہ ملےِ ورنہ اپنی کو تا ہیوں کاوبال توہو گا ہی،غلط اسو ےکا جو پرتو طلبہ پرپڑے گا اس کا وبال بھی معلم پر ہو گا۔
  • ذاتِ گرا می علم وحکمت کی حامل تھی۔معلم کو بھی صاحبِ علم و حکمت ہو نا چاہئیے۔حکمت کے بغیر سلیقے سے ان کی تربیت نہیں کی جا سکتی۔تربیت کاکام تو غیرمعمو لی حکمت ودانائی چاہتا ہے،معلم کواپنے علم میں اضافے اور پختگی نیز اپنی معلومات پر بھروسہ اور یقین  پیداکر نے کی برابر جدوجہد کرتے رہنا چا ہئیے۔علم کے معاملہ میں طلبہ اپنے معلمین ہی کو سند سمجھتے ہیں۔اگر معلّم کو خوداپنے علم پر بھروسہ اور یقین نہ ہو تو طلبہ کااعتمادمتز لزل ہوگا۔اگرکسی معاملے میں صحیح معلو مات نہ ہوں توغلط سلط باتیں بتا نے کے بجائے خندہ پیشا نی سے عدم وا قفیت کا اعتراف کر لینا  چا ہئیے اور معلو مات حاصل کر کے بعد میں بتادینا چاہئیے۔اس سے طلبہ کااعتماد بحال ر ہے  گا اور معلّم غلط  بیانی کے اس وبال سے بھی محفوظ رہے گا جس کی طرف ذیل کی حدیث  میں اشارہ کیا گیاہے۔

“اگر کسی نے بلا علم کے مسٔلہ بتادیا تو اس کا وبال بتا نے والے پر ہو گا۔”

آنحضرتؐ نے خود متعدو سوالات کے جواب میں لا علمی کا ا ظہار فرمایا۔اور جب وحی نازل ہو ئی اس وقت بتلایا۔

  • عفوودرگزراور تحمل وبردباری میں حضورؐ اپنی مثال آپ تھے۔معلم کو بھی نادان بچّوں سے سا بقہ پیش آتا ہے جن سے ہمہ وقت غلطیاں وکو تا ہیاں اور خلافِ طبع حرکات سرزدہو نے کاامکان ہوتا ہے اس لیے وہی معلم کا میاب ہوسکتا ہے جس میں یہ صفات پائی جاتی ہوں۔چڑچڑے اور غصّہ ور لوگ کبھی اچھے معلم نہیں ہو سکتے۔
  • حضوؐر کی خوش اخلاقی اور ملنساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے پرائے دوست وشمن یہاں تک کہ ان سے بھی جنہیں آپؐ نا پسند کرتے تھے نہایت نرمی،خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔دوسروں کی دلداری کاآپؐ کو بے حد خیال رہتا تھا۔ دل پر خواہ کچھ بیت رہی ہو،مسکر اتے ہوئے ملتے تبسم،مزاح اور خوش طبعی کااہتمام فرماتے۔معلم کو بھی بہت ہی خوش اخلاق،ملنسار اور خوش طبع ہو ناچاہئیے،اسے بھی طلبہ،ان کے سرپر ستوں،عام پبلک،مدرسے کے موافق مخالف،ہرطرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتاہے اور ہر ایک کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے بغیران صفات کے وہ اپنا فرض انجام نہیں دے سکتا۔
  • لباس میں سادگی،تواضع اور بے تکلّفی کے ساتھ آپؐ طہارت ونظافت کا حدورجہ خیال رکھتے تھے۔معلم کو بھی فیشن اور نقالی سے پر ہیز کرناچاہئیے۔سادگی اور صفائی ہی میں علم کی شان ہے۔ 
  • آپؐ کی شخصیت میں غیر معمولی نظم وانضباط اور برتاؤ میں حددرجہ کی یکسانی وہمواری تھی،جسے بھی واسطہ پڑتاوہ باسانی اندازہ لگالیتا کہ آپؐ کی پسند نا پسند کیا ہے؟ ہماری کن باتوں کاآپؐ پر کیاردّ عمل ہوگاَ؟معلم میں بھی یہ صفات ضروری ہیں تاکہ طلبہ اس کے جزبات کا پُورا احترام کر سکیں ورنہ باوجود خواہش وہ عجب کش مکش کا شکار ہو جاتے ہیں۔انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ معلم کس بات سے خوش ہوگااور کس سے ناخوش۔

معلم کو بھی تعلیم و تر بیت یااصلاح کی طرف سے نہ تو خود مایوس ہو نا چاہئیے اور نہ طلبہ یاان کے سرپر ستوں کومایوسی کا شکانہ ہو نے دینا چا ہئیے۔ہم معمر لوگ اپنی اصلاح کے ضمن میں اب بھی پُراُمّید رہتے ہیں۔توبچّوں کے سُدھر نے کے لیے توپوری عمر پڑی ہے اور نادانی میں تو بہر حال ان سے غلطیوں اور خامیوں کا کہیں زیادہ امکان ہوتاہی ہے۔

  • آپؐ کی سید ھی سچّی تعلیم کا جواب نادانوں نے اینٹ پتھر سے دیا مگر آخروقت تک آپؐ ان کی اصلاح کی طرف سے مایوس نہ ہوئے بلکہ پُراُمید ہی رہے بالاخرکامیابی نے آپؐ کے قدم چُومے۔معلم کو بھی تعلیم و تر بیت یااصلاح کی طرف سے نہ تو خود مایوس ہو نا چاہئیے اور نہ طلبہ یاان کے سرپر ستوں کومایوسی کا شکانہ ہو نے دینا چا ہئیے۔ہم معمر لوگ اپنی اصلاح کے ضمن میں اب بھی پُراُمّید رہتے ہیں۔توبچّوں کے سُدھر نے کے لیے توپوری عمر پڑی ہے اور نادانی میں تو بہر حال ان سے غلطیوں اور خامیوں کا کہیں زیادہ امکان ہوتاہی ہے۔
  • ایثار،قناعت اور توکل میں حضوؐراپنی نظیر آپ تھے۔ معلم کو بھی یوں توہردورمیں عمومًا لیکن آج کے حالات میں خصوصًاان صفات کاحامل ہوناچا ہئیے۔تعلیم و تربیت جیسے کارخیر میں برکت انہی صفات کے ذریعے ہوسکتی ہے،جسے صرف دنیا عزیزہواسے اس کُوچےمیں قدم نہ رکھناچا ہئیے۔
  • حضوؐر کے احساسِ ذمّہ داری،لگن اور انہماک کا یہ عالم تھاکہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاہ فرِماتاہے 

لَعَلَّکَ  بَاخِعُ نَّفسَکَ

“شایدآپ اپنے کوان کے پیچھے ہلاک کردیں گے۔”

تعلیم و تربیت انتہائی پتّہ ماری کاکام ہے۔معلم بھی اپنے فرائض کو ان صفات کے بغیر بخوبی انجام نہیں دے سکتا۔

  • صورتِ حال کیسی بھی  پیچیدہ ہومعاملات کو آپؐ بڑی دُوراندیشی  اور سہولت سے سُلجھادیتے،آپؐ کے چند جملے آگ پر پانی کاکام کرتے اور ہر فریق مطمئن ہو جاتا۔معلم کو بھی آئےدن درجات میں اور باہر بھی طرح طرح کے معاملات سے دوچار ہوناپڑتاہے اگر نمٹنے کی صلاحیت نہ ہوتومعلم کو بڑی دُشواری پیش آئےگی۔
  • بچّوں  سے آپؐ کو غیر معمولی انس اور طبعی مناسبت تھی،ان کی بچکانہ حرکات کی آپؐ بہت زیادہ رعایت کرتے تھے۔آپؐ نے کبھی کسی بچّے کو نہیں پٹیااور مار نے کے لیے کہا بھی ہے توآخری چارۂ کارکے طور پر۔معلم کوبھی اپنے اندران صفات کو پروان چڑھانا چاہئیے۔اگربچّوں سے انس اور لگاؤ نہ ہو تو انسان معلمی کا پیشہ اختیار نہ کر ے۔

معلم کی آواز

اسی طرح بہت زیادہ بولنا اور بغیر ضرورت بو لتے رہناتو جہ اور دل چسپی کو ختم کو کردیتا ہے۔بات خواہ کتنی زورداراورمؤثر کیوں نہ ہو بغیر اتار چڑ ھاؤ کے ایک ہی سُر میں پیش کی جائے تو وہ غیرمؤثر ہوجاتی ہے۔

سبق کے مؤثر اور کامیاب ہو نے کا بہت کچھ انحصار معلم کی آواز پر ہوتاہے۔آوازاگر جاذبِ توجہ،خوشگواراور میٹھی ہو تو طلبہ بآسانی متو جہ بھی ہوتےہیں اور درس میں دیرتک تکان یااکتا ہٹ محسوس نہیں کرتے،آواز اگرکر خت ہو یا معلم بہت زیادہ چیخ کر بولے توکا نوں کو برا  لگتا ہے۔طلبہ جلداکتا جاتے اور تکان محسوس کرنے لگتے ہیں۔ کرخت آواز سے ابتدائی درجات کے چھوٹے بچّوں پر تو مسلسل خوف کاجذبہ طاری رہتا ہے اور وہ معلم کی بات پر قطعًا توجہ نہیں دے پاتے اور نہ ان کی سمجھ میں پُوری بات آتی ہے۔خود معلم کی صحت کے لیے چیخنا، چلانابہت مضرہے۔گلا بھی خراب ہوجاتاہے اورپھیپھڑ ے بھی بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔اسی طرح بہت زیادہ بولنا اور بغیر ضرورت بو لتے رہناتو جہ اور دل چسپی کو ختم کو کردیتا ہے۔بات خواہ کتنی زورداراورمؤثر کیوں نہ ہو بغیر اتار چڑ ھاؤ کے ایک ہی سُر میں پیش کی جائے تو وہ غیرمؤثر ہوجاتی ہے۔آواز کے معاملے میں معلم کی رہنما ئی کے لیے حضوؐر کے اسو ئے سے مندرجہ ذیل باتیں پیش کی جاتی ہیں۔سبق کو مفید اورمؤثر بنانے کے لیے ان کی اتباع ضروری ہے۔

  • حضوؐر کی آواز نہ بہت بلند ہو تی نہ بہت پست بلکہ میا نہ ہو تی تھی جوکانوں کو بہت خوش گوار معلوم ہوتی۔ البتّہ حسبِ ضرورت  اتنی بلند آواز سے بولتے کہ مخاطب سُن سکے۔معلم کو بھی اپنی آواز نہ اتنی بلند رکھنی چاہئیے کہ کانوں کو بُری لگے نہ اتنی پست کہ سُنائی نہ دے اور درجے کا نظم وضبط متاثر ہو بلکہ اتنی ہو کہ پُورادرجہ بآسانی سُن سکے۔چیخنا چلانایا کرخت آواز سے بولنا تو کسی طرح درست نہیں۔گدھے کی آواز کی تو خودقرآن نے بھی مذمت کی ہے۔
  • اِنَّ اَنکَرَ الاَصوَاتِ لَصَوتُ الحَمِیرِ۔(لقمان:۱۹)

“بےشک گدھے کی آواز بہت کریہہ ہے۔ “

  • ابتدا سے انتہا تک آپؐ مُنہ بھر کر بولتے تھے(یہ نہیں کہ آدھی بات اندرہی رہ گئی)معلم کو بھی اس کا پُورا لحاظ رکھنا چاہئیے۔
  • آپؐ جب بولتے تو جملوں کےآخری الفاظ اور الفاظ کے آخری حروف تک وا ضح سُنائی دیتے۔معلم کو بھی اس کی خوب مشق کر نی چاہئیے۔تلفظ اور مخارج درست ہوں تو بات بھی بخو بی سمجھ میں آئے گی اور طلبہ کے تلفظ اور مخارج کی اصلاح بھی ہو جا ئے گی۔
  • حضوؐر کی آواز میں حسبِ ضرورت اتار چڑھاؤ ہو تا تھا۔چنانچہ کلام میں غیر معمو لی تاثیر پیدا ہو جاتی تھی۔ معلّم کو بھی ایک ہی سُر میں بولنے سے بچنا چا ہئیے اور آواز میں حسبِ ضرورت اتا ر چڑھاؤ پیداکر نے کی کو شش کرنی چاہئیے۔
  • دیگر تمام امور کی طرح حضوؐر کی آواز میں بھی تکلّف و تصنع(بناوٹ ) با لکل نہ تھا۔معلم کو بھی اپنی آواز میں بےسا ختہ پن اور بے تکلّفی بر قراررکھنی چا ہئیے۔انداز فطری ہو نا چا ہئیے۔بعض استامذہ منہ ٹیڑ ھا کر کے بو لتے اور آواز میں تصنع پیداکر نے میں اپنی شان سمجھتے ہیں۔حالانکہ اپنی ان حرکات سے وہ طلبہ کی نظروں میں مضحکہ خیزبن جا تے ہیں۔
  • حضوؐر ضرورت بھر بو لتے تھے۔زیادہ بو لنے اور فضول با تیں کر نے سے آپؐ منع فرمایا کر تے تھے۔معلم کو بھی روزانہ گھنٹوں اور زندگی بھر بو لناہی پڑ تاہے،اس لئے بو لنے میں بہت محتاط رہنا چا ہئیے۔بہتر یہ ہے کہ مختلف کا موں کے لیے اشارات مقررکرلے تا کہ کم بو لنا پڑ ے،بلاضرورت بولنے اور فضول با تیں کر نے سے  گریز کرے۔حتی الامکان طلبہ ہی کو بو لنے اور کام کرنے کے مواقع دے۔

معلم کی زبان

طلبہ کی تعلیم و تربیت میں معلم کی زبان کو بھی بہت زیادہ دخل ہوتاہے کیونکہ یہی تووہ اہم آلہ ہے جس کے ذر یعے طلبہ تک معلم اپنی بات پہنچا تااور اپنے خیالات وجذبات منتقل کر تا ہے۔دوسرے خود طلبہ ارادی اور غیرارادی طورپر معلم کی زبان کی تقلید کرنے لگتے ہیں۔اس لیے معلم کو زبان کے استعمال میں بہت محتاط ہوناچاہئیے۔اگر معلم کی زبان نا قص ہو گی تو طلبہ بھی نا قص زبان استعمال کر نے لگیں گے اور بات بھی پورے طور پر سمجھ میں نہ آئے گی۔اس ضمن میں حضوؐر کے اسو ئےسے ہمیں مندرجہ ذیل رہنمائی ملتی ہے۔

  • حضوؐر بہت ہی صاف ،سادہ،عام فہم اور سلیس زبان استعمال فرماتے،تصّع و مسجع (ایک خاص انداز )  عبارت بولنے اور پُر تکلّف زبان استعمال کر نے سے گریز کر تے،کو ئی بھی مسٔلہ ہو ایسی زبان میں بیان فرماتے کہ ان پڑ ھ اور معمولی صلا حّیت کے لوگ بھی بخوبی سمجھ لیتے۔معلم کو بھی چھوٹے بچّوں سے سابقہ پیش آتا ہے۔جن کا ذخیرۂ الفاظ بہت محدود ہوتاہے۔اگربو لنے میں اس کی رعایت نہ کی جائے تو بچے سمجھ ہی نہ سکیں گے۔
  • فصاحت و بلاغت کا بھی حضورؐ بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔کم سے کم الفاظ میں اپنا مافی الضمیر ادافر ما تے۔جملے مختصر اور الفاظ جا مع ہوتے اس کے باو جود مطلب پوری طرح واضح ہو جاتا۔معلم کو بھی چاہئیے کہ بہت ہی چھو ٹے چھو ٹے جملوں اور کم سے کم الفاظ میں اپنی بات واضح کرے۔جملے مر بوط اور مو ضوع سے متعلق اور حشووزوائد سے پاک ہوں۔
  • زبان نہایت ہی صحیح، شستہ اور شائستہ استعمال فر ما تے۔جس بات کا تفصیل سے ذکر کر ناشا ئشگی کے خلاف ہوتا،اسےاشاروں اور کنایوں میں بیان فرماتے،معلم کو بھی زبان کی صحت شستگی اور شائستگی کا پُورا لحاظ رکھنا چا ہئیے کہ طلبہ کی زبان بھی ان اوصاف کی حامل ہو۔غلط زبان اور نا شائستہ کلام سے معلم کو خود توبچنا ہی چاہئیے۔طلبہ سے بھی کو تا ہی ہو تو بروقت اصلاح کردینی چا ہئیے۔بچّوں کی زبان پر اکثر غیر شعوری طورپربعض نا شائستہ کلمات یابازاری الفاظ اور جملے چڑھ جاتے ہیں جنہیں وہ تحر یرو تقر یر میں بے تکلف استعمال کر نے لگتے ہیں۔بچوں کو ایساکر نے سے رو کنا چا ہئیے۔

 

اس سلسلے کا اگلا مضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

 

ماخوذ: فن تعلیم وتربیت (مصنف :  افضل حسین )  – باب  ششم

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے