زبان کیا ہے؟

ہم میں  سے اکثر لوگ زبان کو گفتگو کا ایک ذریعہ قرار دینے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں سوچ، احساس اور ردعمل میں اسکی اہمیت نظر نہیں آتی۔ زبان کا یہ وسیع استعمال ان لوگوں کے لئے بہت ہی زیادہ اہم ہے جو چھوٹے  بچوں کے ساتھ کام کرتے ہیں کیوںکہ بچپن میں زبان  بچے کی شخصیت اور قابلیت  کے ارتقاء میں معمار  کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ بچے اندر اسکے تصورات، دلچسپییوں، صلاحیتوں حتیٰ کہ اقدار اور رویوں کی تشکیل کرنیوالی ایک لطیف مگر مضبوط طاقت کی طرح کام کرتی ہے۔

دنیا کا ہر بچہ اسکی مادری زبان سے قطع نظر زبان کو چند فوری مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرتا ہے۔ ایک بڑا مقصد دنیا کو سمجھنا ہے اور اس مقصد کی تکمیل میں زبان ایک حیرت انگیز اوزار کا کام کرتی ہے۔ جب تک ہم بچے کے نظریہ اور اسکی زندگی میں زبان کے کردار و عمل کو نہیں سمجھتے تب تک ہم اسکے استاد یا والدین کی ذمہ داریوں کو طے نہیں کرسکتے۔

:زبان اور عمل

بچے زبان کا استعمال اپنے جسمانی اعمال اور ربط میں آنیوالی چیزوں سے متعلق کرتے ہیں۔ بچپن میں قول و عمل کی یکسانیت ہوتی ہے۔ عمل اور تجربہ الفاظ کی ضرورت کو پیداکرتے ہیں اور الفاظ تجربہ کی تکمیل کے بعد اس تک رسائی کا ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔ الفاظ کی مدد سے بچے چیزوں سے اپنے تعلق کو افزودگی عطا کرتے ہیں۔ دوسری جانب الفاظ عمل یا کسی چیز سے ربط کے بغیر بچے کیلئے بے معنی اور مردہ  ہو جاتے ہیں۔ بلّی، بھاگنا، گرنا، نیلا، ندی اور کھردرا وغیرہ الفاظ کا مطلب بچے کے لئے بہت محدود  ہے جب تک کہ یہ الفاظ کسی ایسے منظر میں استعمال نہ ہوئے ہوں جہاں بچہ ان چیزوں کے ساتھ ربط میں تھا۔  اس شمولیت کے بعد ہی یہ الفاظ ایک تصویر سے مل جاتے ہیں اور مستقبل میں  ایک بامعنی استعمال کییلئے موجود ہوتے ہیں۔

بچے کے طبعی تجربوں اور الفاظ کے مابین موجود تعلق بڑوں پر، خصوصیت سے استاد پر ایک انوکھی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ بحیثیت استاد آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ والدین نے بچہ کو آپکے ماتحت کرنے سے پہلے مختلف النوع تجربات سے گذارا ہوگا۔ والدین کی اکثریتی تعداد کیلئے یہ صحیح نہیں ہے۔ بہت سارے والدین ایسے ہوتے ہیں جو یا تو  اپنے اندر اتنی ہمت نہیں رکھتے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کے بچپن میں ایک وسیع پیمانے پر مختلف چیزوں سے تعلق پیدا کرنے کا موقعہ دیں یا تو ان کے پاس بچوں کے ساتھ آہستہ سے دیکھنے اور کچھ کرنے کا وقت نہیں رہتا۔ بسا اوقات بڑے لوگ اس چیز کو نقصاند ہ سمجھتے ہیں کہ بچہ پانی کے نل کے پاس کھڑا ہو کر آدھے گھنٹے تک اپنی انگلیاں پانی میں رکھے یا وہ سارے برتن نیچے رکھ دے یا وہ چھتری کو کئی بار کھولتا اور بند کرتا رہے۔ کبھی چیزوں کے خراب  ہوجانے کے ڈر سے یا کبھی چیزوں سے بچے کو نقصان پہنچنے کے ڈر سے بڑے لوگ بچوں کو محدود تجربات سے گذارتے ہیں۔

 والدین نے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہواستاد کی  ذمہ داری طے ہے۔ استاد ایک ایسا ماحول بنائے  جس میں بچوں کو اپنی زندگی کے تجربات اور ربط میں آنیوالی چیزوں کیساتھ زبان کو مربوط کرنے کی مسلسل کوشش کے مواقع موجود ہوں۔ یہ اسطرح کیا جاسکتا ہے:

  ۱۔  بچے اسکول کو مختلف چیزیں لے کر آئیں (جیسے پتے،  پتھر، پر، درخت کی کوئی شاخ اور ٹوٹی ہوئی چیزیں وغیرہ) اور ان کے بارے میں بات کریں، پڑھیں اور لکھیں۔

۲۔ بچوں سے اسکول کے باہر حاصل ہونے والے تجربوں کو کہنے، لکھنے اور پڑھنے کے لئے کہا جائے ۔

۳۔ بچوں کو کلاس روم سے باہر لے جایا جائے تاکہ بچے اسکول کے اطراف کی دنیا  میں  موجود معمولی چیزوں کا  غور سے معائنہ کریں  (چیزیں جیسے: ٹوٹی ہوئی پُل، مٹی کا گڑھا، مرا ہوا کیڑا اور گھونسلہ میں انڈے وغیرہ) اور ان کے بارے میں بتائیں۔ اسکول کے اطراف کے تعلیمی دورے  زبان سیکھنے کے قیمتی ذرائع فراہم کرتے ہیں جیسا کہ آگے بتایا گیا ہے۔

لہذا وہ اسکول جہاں بچے اپنے ہاتھوں سے کچھ نہیں کرتے، جہاں وہ اکثر بیٹھ کر  استاد کو صرف سنتے رہتے ہیں، جہاں پر چھونے ،سلیقے سے کام کرنے، توڑنے اور پھر بنانے کی کوئی چیز نہیں ہے، وہ زبان سیکھنے  کیلئے مناسب جگہ نہیں ہے۔

:وہ کام جو بچے زبان کے ساتھ کرتے ہیں

بچوں کے لسانی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ جب بچے گفتگو کی بنیادی صلاحیت پر عبور حاصل کرلیتے ہیں تو وہ زبان کو چونکا دینے والے مختلف النوع مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ذیل میں کچھ مقاصد پر بحث  کی جائے گی۔

:اپنی سرگرمیوں کی رہنمائی

بچے بسا اوقات کچھ کرتے ہوئے اپنے عمل سے متعلق بولتے ہیں۔ یہ انکے کاموں کی ذاتی تشریح ہے۔ اکثر ایسا محسوس ہوتا ہیکہ یہ تشریح انہیں اس سرگرمی میں زیادہ دیر تک مشغول رہنے میں مددگار ہوتی ہے۔ یہ انکی دلچسپی کو برقرار رکھتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ انہیں کوئی سن رہا ہے یا نہیں۔ مثال کے طور ریت میں سرنگ یا قلعہ بنانیوالے اس چھوٹے سے گروپ میں ہر بچہ اپنی سرگرمی کی مختلف تشریح کرتا ہے اور اکثر اوقات یہ ایک بڑبڑاہٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔

:دوسروں کی سرگرمیوں اور توجہ رہنمائی

بچے دلچسپ  اور پرکشش نظر آنیوالی چیزوں کی طرف متوجہ کرنے کیلئے  زبان کا استعمال  کرتے ہیں۔وہ سننے والوں سے امید رکھتے ہیں کہ انہیں دلچسپ نظر آنیوالی  چیز میں دلچسپی کا مظاہرہ کریں۔

اس پس منظر میں زبان  کے استعمال کی اہمیت  اس امید میں ہے جو ظاہر  کی گئی ہے۔ امید یہ ہے کہ ”دوسرے وہ دیکھیں جو میں نے دیکھا ہے“۔ یہ امید انسانی تعلقات اور ساتھ رہنے کی  خوشی سے متعلق ایک گہرے مفروضے پر مبنی ہے۔  اگر وہ انسان جسے متوجہ کیا جا رہا ہے امید پر پورا نہ اترے تو زبان کے ارتقاء کی ایک بنیادی وجہ پست ہمتی کا شکار ہو جاتی ہے۔

:کھیل

ڈھائی سال سے زیادہ عمر والے بچوں کیلئے الفاظ کھیل اور لطف اندوزی کا ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کو مختلف لب و لہجے میں دہراتے ہیں ، انہیں کبھی بگاڑ کر بولتے ہیں، انہیں عجیب و غریب طریقے سے جمع کرتے ہیں اور  یہ سب کرنے میں انہیں مزہ آتا ہے۔ انہیں غیر مناسب انداز میں الفاظ کا استعمال اچھا  لگتا ہے۔ وہ الفاظ کو اسطرح بگاڑنے والی نظموں کو آسانی سے سیکھ لیتے ہیں۔ قصہ مختصر، چھوٹے بچے الفاظ کو کھلونے کی طرح برتتے ہیں۔ الفاظ کے ساتھ کھیلنا ان کی تخلیقی صلاحیت اور قوت کے مفید استعمال کا ذریعہ ہے۔

:چیزوں کی تشریح

بچے اپنے علم کو بتانے کے لئے  واقعات پر تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔ زبان کے اس استعمال سے کہانیاں بنتی ہیں۔ اس نقطہ نظر سے ساری کہانیاں واقعات کی تشریح ہیں۔ چھوٹے بچوں میں اپنی زندگی میں ہونیوالے واقعات کو بیان  کرنے کی خواہش اتنی ہی شدت رکھتی جتنا بڑے لوگوں میں دنیا میں ہونیوالے واقعات کو بیان کرنے کی۔

:زندگی کا اظہار

بچے بڑوں کی طرح ہی اکثر ماضی کو دہرانے کے لئے زبان کا استعمال کرتے ہیں  جس سے وہ کسی واقعہ ، شخصیت یا کسی چھوٹی چیز کی یاد دہانی کرتے ہیں۔ الفاظ ایسی چیزیں کو دوبارہ بنانے میں  مدد کرتے ہیں جو ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں اور بسا اوقات دوبارہ بنائی گئی چیزیں حقیقی معلوم ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں ہم  بہت دیر تک بات کر سکتے ہیں۔ اکثر بچے واقعات اور تجربات کو اکثر دہراتے ہیں تاکہ وہ انکے ساتھ تال میل قائم کرلیں۔ ایک بچہ جو کسی چیز سے خوفزدہ ہو گیا ہو  اس کے بارے میں وہ کئی دفعہ بات کریگا یہاں تک کہ اس کے ساتھ اڈجسٹ کر لیتا ہے۔

:ربط و تعلق

جب بچہ کسی دھات سے بنے کھلونے  کے بارے میں اپنے احساسات کا اظہار کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنے آپکو کھلونا تصور کرتا ہے۔ زبان ہمیں بالواسطہ دوسروں کے احساسات کو محسوس کرنے کا ذریعہ دیتی ہے۔

:پیش بینی

بچے اپنے خوف، منصوبوں، توقعات اور اندیشوں کو اکثر ظاہر کرتے ہیں۔ الفاظ سے وہ مستقبل کی ایک تصویر بناتے ہیں۔ یہ تصویر کبھی انہیں مستقبل کو بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے تو کبھی یہ مستقبل کی قبولیت میں مدد کرتی ہے۔

:استدلال اور تحقیق

ہر صورتحال بچے کے سامنے ایک مسئہ پیش کرسکتی ہے جسے حل کرنے کیلئے بچہ کو حالات کے بننے کی وجوہات کو جاننا ضروری ہے۔ اکثر ایسے مسائل ہوتے ہیں جنہیں بچہ کامیابی کے ساتھ حل کرسکتا ہے مثلًا، بس اچنک کیوں رک گئی؟ وہ کیوں نہاتے وقت سر پر پانی ڈالنا نہیں چاہتی؟ ایک تین سالہ بچہ ان مسائل کو سمجھ سکتا ہے  البتہ تمام بچے انکی وجوہات کو بیان نہیں کر سکتے۔ وہ بچے جو ایسا کر سکتے ہیں انہوں نے اپنے بڑوں کو بحث و تحقیق کیلئے زبان کا استعمال کرتے دیکھا ہے اور جنہیں ایسا کرنے کی ترغیب دی گئی ہو۔

مذکورہ بالا مسائل کے علاوہ کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جنکی سائنٹیفک سمجھ بچے حاصل نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر ‘بارش کیوں ہوتی ہے؟’  اور ‘ تیز ہوا چلتی ہے تو درخت کیوں گرتے ہیں’ کی اصل وجہ چار یا پانچ سالہ بچے کی  پہنچ سے بہت دور ہے۔ پھر بھی ایسے مسائل تحقیق و استدلال کیلئے زبان کو ذریعہ بنانے کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ بچے کی سمجھ میں آنیوالی وجوہات صحیح ہیں یا غلط جب تک کہ بچہ ایک نا معلوم چیز کے بارے میں تحقیق کیلئے زبان کو استعمال کر رہا ہے۔ جتنی زیادہ مرتبہ بچہ اہنے بڑوں کو اس کام کیلئے زبان کا استعمال کرتا ہوا دیکھے گا اتنی جلدی اسکے اندر تحقیق و استدلال کیلئے زبان کے استعمال کی قابلیت پیدا ہوگی۔

:جو ہم کہتے ہیں وہ ہم پر اثر انداز ہوتا ہے

بچوں کی زندگی میں زبان کے اثرات و عوامل کی اس پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہیکہ زبان ایک نہایت ہی لچکدار ذریعہ ہے۔ یہ زندگی کے ہر مرحلہ میں کام آتا ہے۔ اسے حالات کے مطابق بناکر ہم حالات سے مطابقت پیدا کر لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں روز مرہ کی زندگی سے ہمیں بہت ساری مثالیں ملتی ہیں۔ جب ہم جانتے ہیں کہ فلاں ہم سے خفا ہے تو ہم اس کے غصے کا جواب  دینے کے لئے ایسے الفاظ ، لب و لہجے کا استعمال کرتے ہیں جس سے حالات ہماری خواہش  کے مطابق ہو جائیں۔  مثلًا ہمیں اگر جھگڑنا ہو تو سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں  اور اگر حالات کو اچھا بنانا ہو تو ہم ہلکے اور  نرم الفاظ کا استعمال کرتے ییں۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زبان کو مہارت کے ساتھ استعمال کرنے کہ ہماری صلاحیت ہی ہمیں زندگی میں آنیوالے مختلف حالات سے نبرد آزما ہونے کی قابلیت بخشتی ہے۔ ایک طرف زبان حالات اور انسے متعلق ہمارے ردعمل کو بیان کرتی ہے ، دوسری طرف یہ حالات کو اپنی خواہش میں ڈھالنے مدد کرتی ہے۔ زبان ہمارے اطراف ہونیوالے واقعات سے مطابقت بنانے میں مدد کرتی ہے۔ اس معاملہ میں چاہے ہم ان حالات کا حصہ ہوں یہ صرف ان پر تفکر کر رہے ہوں زبان ہماری ہر صورت میں مدد کرتی ہے۔

چاہے ہم کسی واقعہ کو اپنی آنکھوں دیکھیں یا نہ دیکھیں اسے بیان کرے کیلئے استعمال کی گئی زبان ہمارے ردعمل کو تشکیل دیتی ہے۔ ہم سے بہت دور روزانہ ہزاروں واقعات ہوتے ہیں۔ یہ واقعات ہم تک اخبار کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ ایک طرح سے اخبار ہمیں کسی واقعے کی تصویر کشی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بچہ اپنی ماں سے گلی میں دیکھی کوئی واقعہ بیان کرے۔ اخبار یا بچے کی یہ تصویر کشی کی درستگی اتنی ہی ہوگی جتنی کہ اسے بیان کرنے کیلئے استعمال کردہ زبان کی درستگی۔ درستگی ہمیشہ سند کا مقام رکھتی ہے اسلئے کہ زبان بیان کرنیوالے کی نیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر بچے نے کوئی حادثہ دیکھا  ہو اور اس سے خوفزدہ ہو گیا ہو تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ اسکے بیان میں کسی حد تک مبالغہ آمیزی کرے ۔ اس مبالغہ آرائی سے  وہ اپنے خوف کو روا رکھتا ہے اوراس طرح سے  وہ بہتر  طریقے سے دیکھے ہوئے واقعہ سے مطابقت محسوس کرتا ہے ۔

آخر کار، زبان ہماری امیدوں اور توقعات کی تشکیل کرتی ہے۔ جو انسان چیزوں کو صبر کےساتھ اور منظم انداز میں بیان کرتا ہے وہ دوسروں سے بھی اسی بات کی  امید رکھتا ہے۔ اسی طرح سے جو انسان کسی چیز کے بارے میں گہرائی سے پوچھ تاچھ کرتا ہے وہ غیرشعوری طور پر دوسروں سے اس بات کی امید رکھتا  ہے کہ دوسرے بھی اس طرح کی پوچھ تاچھ میں دلچسپی رکھیں۔ بیان اور تحقیق کیلئے زبان کا استعمال کرتے ہوئے یہ افراد ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جس میں بیان و تحقیق کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ دوسری جانب، اگر زبان کا ان مقاصد کے لئے  برادری میں اور اداروں میں استعمال نہ کیا جائے  تو وہاں بڑھنے والے بچے  نہ تو غور کرکے چیزوں کو بیان کرسکتے ہیں  اور نہ ہی صبر کے ساتھ بحث و مباحثہ  کر سکتے ہیں۔  اگر والدین اور اساتذہ زبان کو صرف اس لئے استعمال کرتے ہیں تاکہ بچے قابو میں رہیں تو بچے زبان کو دوسروں پر قابو پانے کے ذریعہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسکے نتیجہ میں وہ صرف احکامات بجا لانے والے انسان کے طور پر بڑے ہونگے۔

زبان بچے کی شخصیت کو ےشکیل دیتی ہے کیونکہ بچہ اسی ماحول میں بڑا ہوتاہے اور ارتقاء پاتا ہے جسے زبان بناتی ہے۔ اس ماحول کے بننے میں  استاد کا  معنی خیز کردار ہوتا ہے۔ اگر استاد بچہ کی زندگی میں زبان کے مختلف عوامل کو جانتا ہے تو وہ بچہ کے عقلی اور جذباتی ضرورتوں کا جواب دےسکتا ہے۔ استاد کا  بچے کے مختلف اوقات میں استعمال کی جانے والی زبان کے سلسلے میں رد عمل  بے حد اہم ہے۔ کسی خاص موقع  پر استاد کے ردعمل سے بچہ کو یہ سمجھ میں آجائے کہ استاد اسکے احساسات کو سمجھتا ہے تو بچہ کو اس طور پر زبان استعمال کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ اس کے برعکس اگر استاد طے شدہ صحیح یا غلط کی عصبیت کے ساتھ کوئی ردعمل دیتا ہے تو یہ ردعمل بچہ کی آزادانہ رائے اور اظہار کیلئے رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔

یہ مضمون کرشنا کمار کی کتاب دی چائلڈس لینگویج اینڈ دی ٹیچر- اے ہینڈ بک کے پہلے مضمون کا ایک اقتباس ہے۔ یہ کتاب نیشنل بک ٹرسٹ، انڈیا نے شائع کی ہے۔

کرشنا کمار ستمبر 2004 سے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کے ڈائریکٹر ہیں۔ انکے دور میں این۔سی۔آر۔ٹی نے نیا نیشنل کریکلم فریم ورک جاری کیا اور پرائمری، سیکنڈری اور سینئیر سیکنڈری کیلئے تمام مضامین کی نئی کتابیں شائع کیں۔ ریاستوں کو نصابی ریفارم کیلئے بھی کئی اہم اقدامات لئے گئے۔

Author: Syed Mazhar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے