بچوں کی قابلیت

مصنف : ہرِدے کانت دیوان

مترجم : یحییٰ مظہر

ابتدائی کلاسس میں زبان کی تعلیم اور اسے پڑھانے والے اساتذہ اکثر اس بات سے صرف نظر کرتے ہیں کہ کلاس میں موجود بچوں میں بے انتہا قابلیتیں ہیں۔ ایک چارسالہ بچی زبان میں بالغ ہے اس وجہ سے کہ وہ اپنی زبان میں گفتگو، تصور اور بحث کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک چار سالہ بچی اور بہت سارے کام بھی کر سکتی ہے  بشمول جسمانی کام، تعلقات اوراس میں تبدیلی کی سمجھ، تصور، اندازہ اور اعداد و شمار کی سمجھ۔ اس نے یہ سب فطری طور پر اپنے اطراف کے مشاہدے سے حاصل کیا ہے۔

ان تمام حاصل شدہ قابلیتوں میں مشہور قابلیت ‘زبان’ کی ہے۔ زبان انسانوں اور انسانی بچوں کی تعلیم میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ بات لائق بحث ہے کہ کیا دنیا سے متعلق اسکے تصورات اسکی زبان نے طے کئے ہیں؟ یہ بات طے ہے کہ زبان ان پر اثر انداز ضرور ہوتی ہے۔

بے شک زبان ہمارے وجود کا ایک اہم ترین حصہ ہے  اور یہ ہماری پہچان کا ایک اصولی حصہ اس حیثیت سے ہے کہ  یہ ہماری تعریف بھی کرتی ہےاور ہمارے ارتقاء کی تشکیل بھی کرتی ہے۔

ایک بچی زبان کی ہرصورتحال سے نپٹ سکتی ہے:

اسکول کو آنے والی بچی کی قابلیتوں کو سمجھنے کیلئے ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے اطراف کے سماج سے گفتگو کی اہل ہے اور گھریلو سرگرمیوں میں پوری قابلیت سےحصہ لیتی ہے۔ وہ اس قابل ہے کہ پوری سرگرمی سے اپنے  سماجی، تہذیبی اور لسانی ماحول کے مشکل معاملات میں حصہ لے اور اپنا مدعا بیان کرسکے۔ وہ کسی بھی پس منظر کیلئے اپنی لسانی صلاحیت کا استعمال کر سکتی ہے ،جسکا وہ حصہ ہے یا جسکا اسے تجربہ ہے۔ وہ اپنے مخاطبین اور ماحول کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی بھی پس منظر کو درست بنانے کے لئے اپنی زبان کو مختلف انداز میں ڈھال سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کوئی غلطی نہیں کریگی یا غلط انداز بیان اختیار نہیں کریگی لیکن یہ غلطی حالات کی بےجوڑسمجھ کی وجہ سے ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگرمخاطب اس سے بڑا ہویا اسے درخواست کرنی ہوتواسے عاجزی اختیار کرنی چاہئے اوراگروہ ایسا نہیں کرتی تو ضرور اسکی کچھ وجہ ہوگی۔ وہ رشتوں کی درجہ بندی کوسمجھتی ہے اور حالات کو حسب منشاء اپنے حق میں موڑنے کے قابل ہے۔ وہ اپنی خواہشوں کو ظاہر کرنے، اپنے تجربوں کا ذکر کرنے اوراپنے جذبات کے اظہارکیلئے زبان کو روانی سے استعمال کرتی ہے۔ یہ سب مشکل کام ہیں اوراگرانہیں کرنے کے شرائط کا تفصیلی جائزہ لیں تو ہمیں حیران کن فہرست حاصل ہوگی۔

تصورات اور بچے:

بچے نئے خیالات معلوم کرنے اوراپنے تصورات کی تعمیرکیلئے زبان کو استعمال کرتی ہے۔ ایک چار سالہ بچی مختلف موضوعات سے متعلق تمام تصورات ذہن نشین کر لیتی ہے اگروہ اسکے تجربات پر مبنی ہوں۔ مثال کے طور پر، سماجی اور خاندانی رشتوں سے متعلق تمام طرح کے تصورات، ان کے درمیان اختلافات اور  ان کا نظم و ضبط، زراعت اورنباتاتی زندگی سے متعلق تصورات، تہواراورگھریلو کام سے متعلق تصورات وغیرہ۔ ایک بچی معلومات کو اسفنج کی طرح جذب کرتی ہے۔ ہمارے خیال میں کچھ معلومات غیرمناسب ہیں اورکچھ معلومات کا جاننااس کے لئے ضروری ہے، لیکن وہ سب کچھ سیکھ لیتی ہے۔ جب اس کے اندر ان تمام باتوں کی اور گفتگو کرنے کی قابلیت آجاتی ہے تواسے کوئی روک نہیں سکتا۔ چاہے وہ لوگوں کے نام ہوں، برتن، درخت، پودے، جانور، موسم، کون کب آ رہا ہے، کون کہاں جا رہا ہے، ایک انسان سے دوسرے انسان کا کیا رشتہ ہے، وہ گفتگو جو بازار میں ہوتی ہے  ان کے علاوہ اور بہت ساری چیزیں بچی جان لیتی ہے۔ علاوہ ازیں بچی بحث و مباحثہ کرنے کے لئے ، اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے ، حالات کا جائزہ لینے کے لئے اور اپنے خیال کی دنیا بنانے کے لئے بھی زبان کا استعمال کرتی ہے۔ معلوم کردہ الفاظ کا استعمال کرکے وہ دنیا کی توضیح کرتی ہے اور اپنے خواب سجاتی ہے۔

قواعداور بچے:

کسی بچے کی قابلیت کو جاننے کیلئے اسکے تصورات، لہجوں اور گفتگو سے متعلق اسکے ذہن میں ہونیوالےعمل کی معلومات حاصل کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسکے تحت الشعورمیں موجود قواعدی علم کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ زیربحث حالات کے پیش نظروہ فعل کی تمام قسموں کا استعمال صحیح طریقے سے کرتی ہے۔ وہ اسم اور ضمیر کی قسموں کا بھی صحیح استعمال کرتی ہے اگرچہ زبان میں ان کی گونا گوں قسمیں ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ اپنی زبان میں صحیح زمانے، واحد جمع یا تذکیروتانیث اورحروف عطف کے استعمال میں غلطی نہیں کرتی۔ اگر ہم  انگریزی یا اردو زبان کے دس مختلف جملے لیں اوران کا تجزیہ کریں توہمیں معلوم ہوگا کہ یہ جملے جنہیں ہم نے  مختلف پس مناظرسے منتخب کیا ہے جن سے بچی گذر چکی ہے، بچی میں غیر معمولی صلاحیت بیان اور الفاظ کو جوڑنے کے تحت الشعوری علم کا تقاضا کرتے ہیں۔ تین یا چار سالہ بچی کےاستعمال کردہ جملوں سےانکی امتیازی خصوصیات کا اندازہ ہوتا ہے۔

ہمیں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بچی متواتر نئے الفاظ سیکھتی رہتی ہے۔  ایک بار جب وہ کوئی لفظ اور اس کا تفصیلی مطلب جان لے تو وہ اس کا استعمال مختلف پس منظر میں کرتی ہے تاکہ وہ لفظ کو گہرائی سے سمجھ سکے۔ الفاظ کی تمام قسموں کے ماقبل انکشاف کے بغیر وہ بذات خود اس بات کے قابل ہوتی ہے کہ غیرشعوری طور پر معلوم شدہ اصولوں کو اپناتے ہوئے ان تمام قسموں کی تعمیر کرے۔ ان میں سے بہت سارے اصولوں کو ماہر لسانیات نے قبول کیا ہے اور کچھ اصولوں کو قواعد کی کتابوں میں بھی شامل کیا گیا ہے لیکن بہت سارے ابھی تک پہچانے نہیں گئے ہیں۔ ماہر لسانیات ہمیشہ زبان کے بہترین قواعد مرتب کرنے اور ایسے اصول تجویز کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں جو مختلف پس منظرمیں مستعمل ہوں۔ ان اصولوں کی ترتیب و تدوین سے بہت پہلے ہی ان زبانوں کو بولنے والے افراد اپنی باہمی سمجھ اور تعاون سے انہیں استعمال کرتے آئے ہیں۔ ان اصولوں اور ا  ن میں ہونیوالی تبدیلیوں کا مکمل فہم بچی کے سامنے موجود ہے۔

یہ کیسے حاصل کیا گیا ہے؟

اس بات کو ثابت کرنے لئے کافی دلائل موجود ہیں کہ انسانی گفتگو کی عدم موجود گی میں کسی بچہ کی زبان ترقی نہیں کرتی۔ اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے بھی وسعت سے دلائل موجود ہیں کہ مختلف حالات اور برادریوں سے تعلق رکھنے والے بچے مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور انکے تجربات علم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں سیکھنے کا عمل معیاری نہیں ہے لیکن عموما کچھ یکساں خصوصیات اور کم وبیش یکساں درجہ پائے جاتے ہیں۔ ہم اپنے تجربوں سے یہ جانتے ہیں کہ بڑے، بچوں کی سیکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ  کام وہ اپنی سمجھ کے مطابق بہترین طریقے سے انجام دیتے ہیں۔کبھی یہ بچوں کی طرح بولتے ہیں تاکہ بچہ کو اعتماد حاصل ہو سکےاور کبھی مشکل جملوں کو چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ کر بولتے ہیں اور بچہ سے ہو بہو دہرا کر مشق کراتے ہیں یا بچہ کی غلطیوں کو سدھار کر اس سے صحیح جملے کو دہراتے ہیں۔  اس تصحیح کی اہمیت پر بحث اور اختلاف ہو سکتا ہےلیکن جو بات طے ہے وہ یہ کہ اس اصلاحی عمل میں بچہ سے متعلق فکرمندی کا اظہار اور اسکی شخصیت کی اہمیت کا اقرار ہے۔ یہ اقرار اور حوصلہ افزائی بچی کے سیکھنے میں اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے۔

بہر حال یہ بات واضح ہے کہ اس ترغیب،تشکیل اور رہنمائی سے بہت زیادہ سیکھا نہیں جاسکتا۔ علم اور بچوں کی قابلیت دونوں اس عمل سے سیکھنے سے بہت زیادہ وسیع ہیں۔ بچی کی کتنی غلطیوں کی ہم اصلاح کرسکتے ہیں؟ بچی کو سیکھنے کیلئے ہم کیا دیتے ہیں؟ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بچی وہ بھی سیکھ جاتی ہے جو ہم نہیں چاہتے۔ بچی بہت ساری وہ باتیں بھی سیکھتی ہے جو ہم نہیں جانتے۔ بچی کے سیکھنے کی مقدار کودیکھ کر ہم کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ کوئی شعوری اقدام نہیں ہے بلکہ ایک فطری عمل ہے جو سماج میں رہنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ بچی کی سیکھنے کی صلاحیت کو پروان چڑھنے کیلئے یہ حقیقت نہایت اہم ہے کہ اسکے اطراف انسانی ماحول فراہم ہے اور وہ اپنے سے متعلق مختلف النوع انسانوں سے رابطہ میں ہے۔

کیا بچے تقلید سے سیکھتے ہیں؟

جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بچے انسانی دنیا کے تعلق سے سیکھتے ہیں تو ہم یہ بھی تسلیم کر سکتے ہیں کہ اس تعلق کی نوعیت انکے علم پراثرانداز ہوتی ہے۔  عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچے تقلید کے ذریعے سیکھتے ہیں۔  اس پر غور کرنا بہت اہم ہے کیونکہ یہ ان تجربوں کی نوعیت پر اثر انداز ہوتا ہے جو ہم بچوں کے لئے تیار کرتے ہیں۔ اگر انسان بذریعہ تقلید سیکھتا ہے تو پھر سیکھنے کے طریقے کی یہ تجاویز ہو سکتی ہیں: بچوں کوآپکے کاموں کے مشاہدے کی اجازت دیجئے اور ان سے کہئے کہ آپ کی نقل کریں اور اگر وہ کوئی غلطی کریں تو ان کی اصلاح کیجئے۔ جہاں بچوں نے غلطی کی ہے اس عمل کو بار بار دہرا کر اسکی مشق کرائے۔ بہر حال یہ ثابت ہے کہ جو علم بچی نے اسکول آنے سے پہلے حاصل کیا ہے وہ نامناسب ترتیب میں ہے۔  نہ ہی بچی گفتگو میں حصہ لے سکتی ہے اور نہ ہی وہ اپنے جملے بناسکتی ہے جیسے وہ پہلے کرتی تھی۔ اکثر جملے جو وہ استعمال کرتی ہے وہ انہیں کبھی نہیں سنتی۔ انسانوں کے سیکھنے سے متعلق ہماری موجودہ سمجھ کی بنیاد پر ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ تقلید سے سکھانے کا عمل مکمل طور پر غیر منسلک ہے اور یہ بات صاف ہے کہ بچے کے حاصل شدہ علم کا ایک چھوٹا حصہ سکھانے کے ان طریقوں سے متاثر ہوا ہے۔

سیکھتے ہوئے بچے کی خصوصیات:

حصول تعلیم کاعمل ایک کلیدی پہلو دنیا کو جاننےاور سمجھنے کےلئے انسانی جذبہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس جاننے اور سمجھنے کے عمل میں بچی زیادہ سے زیادہ دنیا کا تجربہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس سے اپنے تعلق کووسیع تر کرنا چاہتی ہے۔ ایک اندرونی ترغیب ہے جو بچی کو نئی چیزیں کرنے اور نئےتجربے حاصل کرنے کے لئے اکساتی رہتی   ہےتا کہ چیلنجس کا فہم حاصل ہو۔

دوسرا کلیدی پہلو اقدام اور آسانی سے ہمت نہ ہارنے کا عزم مصمم اور ارادہ کو ظاہر کرتا ہے۔ چلنےاور سیکھنے کے دوران بچی کھڑی ہوتی ہے اور گرتی ہے پر ہمت نہیں  ہارتی۔ بچی جب بات کرنا سیکھتی ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اسے کوئی نہیں سمجھ رہا ہے اور یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ اس نے کتنا سمجھا ہے  پھر بھی وہ سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے۔ اسلئے، اپنی خواہش کے مطابق نئی چیزیں اور اقدام کو سیکھنے کا ایک عزم مصمم بچوں میں موجود ہے۔

تیسری کلیدی خصوصیت اس کا خود کچھ کرنے کی خواہش اور اپنے انداز سے ہر بات کا اظہار ہے۔ انسانی بچوں کیلئے نتیجہ سے ذیادہ اہم سیکھنے کے عمل میں ان کا کردار ہوتا ہے۔

انسانی بچوں کیلئے نتیجہ سے ذیادہ اہم سیکھنے کے عمل میں ان کا کردار ہوتا ہے۔

چوتھی کلیدی خصوصیت بے انتہا جستجو ہے: کیا ہو رہاہے؟ کس کے ساتھ ہو رہا ہے اور کیوں؟ انسان اپنے بچپن ہی سے اپنے اطراف کی ہرچیز کو سمجھنا چاہتا ہے۔ وہ دنیا کے ساتھ زیادہ مؤثرطور پر معاملہ کرنے کی قابلیت حاصل کرنا چاہتا ہے  اسی لئے وہ بہت متجسس ہوتا ہے۔ یہ اشتیاق اور تجسس ہی وہ پس پردہ وصف ہے جو اسے  کھوجنے اور خود کچھ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی وصف کی وجہ سے انسانی بچے ہمیشہ نئے تجربات، نئے  حالات، نئے چیلینجس اور مہمات کی طرف متوجہ  رہتے ہیں۔ وہ بے خوف ان چیزوں کی بھی تحقیق کرتے ہیں جنہیں انکے والدین جاننا نہیں چاہتے۔ وہ عزم مصمم اور آزادانہ طور پر اپنی جستجو کی مشق کرتےہیں۔

ان خصوصیات کے اثرات:

ان چار خصوصیات سے سمجھ میں آتا ہے کہ بچوں کے ساتھ کس طرح کا تعامل انکے سیکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ یہ اس بات کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہم بچوں کو نئی چیزیں دریافت کرنے، انھیں تجربات کرنے، انھیں اپنی خواہشات اور عزائم کو پہچاننے اور اپنی قابلیت کو تسلیم کرانے کیلئے فکرمند ہوں۔ یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ بڑے اس بات کو مانیں کہ بچے اپنے تجربات اور نئی چیزوں کی دریافت سے بہت سیکھتے ہیں۔  اور انھیں وہ مواقع فراہم کریں جو انکی تعلیم میں معاون ہوسکتے ہیں اور انھیں مہلک خطرات سے دور رکھیں۔ کلاس روم گھر سے مختلف جگہ ہے  اور اس میں بچے کو مختلف ماحول ملتا ہے۔ اس فرق کو پہچاننا بہت اہم ہے۔ کلاس روم ایک ایسی جگہ ہے جہاں سیکھنے کے عمل کو مختلف پس منظر اور تجربات سے آنیوالے بچوں کی ایک جماعت کے لئے منظم کیا جاتا ہے۔ سیکھنے سے متعلق کچھ امیدیں ہیں جنہیں بچوں کو پورا کرنا پڑتا ہے اور بسا اوقات اساتذہ بچوں کی تہذیب اور زبان سے نابلد ہوتے ہیں۔ استاد اور بچوں کے مابین موجود رشتہ گھر کے دوسرے افراد سے بہت ہی مختلف ہے اور ان کا تعلق بھی بالکل الگ نوعیت کا ہے۔ اسکول میں وقت اور مواقع کی محدودیت کی وجہ سے ہر بچے کو اسکی خواہش کے مطابق چیزوں کو دریافت کرنے اور سیکھنے کی آزادی نہیں دی جا سکتی۔ اس فرق کی قدر دانی ہمارے لئے ضروری ہے تاکہ ہم کلاس روم کے لئے ممکنہ و مؤثر تدابیر کر سکیں۔

انسانی بچے کے چار اہم خصوصیات: لا محدود جستجو، آزادی کی خواہش، تحقیق اور تجربہ کا مادہ اور خود کچھ کر گزرنے کی چاہ، اسکول میں بچوں کو سیکھنے کے مواقع فراہم کرنے کی بنیاد ہونا چاہئے۔ یہ مختلف موضوعات میں مختلف پہلووں سے اپنے آپکو ظاہر کرتے ہیں۔

زبان سیکھنے کے پس منظر میں ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ بچے پہلے ہی سے اپنی گھریلو زبان استعمال کرنے کی قدرت رکھتے ہیں، انکے پاس الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے، وہ نحو کا مکمل استعمال کرسکتے ہیں اور گفتگو میں حصہ لےسکتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑیگا کہ بچوں کو ایسے مواقع کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنے بل پر کچھ کر سکے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ  اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں، اپنے انداز میں زبان کا استعمال کریں، اور اپنے نقطہ نظر کے دفاع کیلئے بحث کی تشکیل کر سکیں۔ استاد کی میکانکل نقل یا مختلف ذرائع سے ہوبہو نقل بچوں کی کوئی مدد نہیں کرتے اور نہ ہی وہ بچوں کیلئے دلچسپی کا باعث ہیں۔ لسانی قابلیت کے ارتقاء میں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ بچے مختلف حالات میں اپنا نقطہ نظر بیان کر سکیں، مشکل تر مباحث کی تشکیل کریں، مشکل خیالات سے انکا معاملہ ہو، گفتگو میں زیادہ دیر تک حصہ لے سکیں بشمول جداگانہ تصوارات کی بحث۔ ہماری کلاس روم ایسی جگہ ہوں جہاں بچوں کو یہ تمام چیزیں حاصل ہو سکیں۔

بچوں کی زبان کو اجازت:

ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ضروری ہے کہ بچی کیلئے سیکھنے کا بہترین ذریعہ اپنے اطراف کی چیزوں کی تحقیق ہے اسلئے کہ وہ اس سے متعلق ہیں۔ نئے جملے بنانے اور نئے حالات میں گفتگوکرنے کیلئے اس کے اندر ضروری خود اعتمادی اور ِزبان کے استعمال کی قابلیت ہونی چاہئے۔ اسلئے، اگر کلاس روم کی زبان بچی کی زبان سے میل نہیں کھا رہی ہے اور وہ بچی کو معلوم الفاظ سے نہیں بنی ہے تو کسی بھی طرح وہ بچی کو نئی تحقیق اور نئے چیلنجز کا سامنہ کرنے کا اعتماد فراہم نہیں کر سکتی۔ ایک معتبر تدریسی عمل کے ساتھ خود اعتماد شخصیت کے بجائے وقت اور ذرائع کی ناکافی مقدار کے ساتھ وہ “جاننے” [سطحی علم]کے چکرمیں مجبوراً پھنس جاتی ہے۔

عمومًا کلاس روم میں مختلف لسانی پس منظر رکھنےوالے بچے ہوتے ہیں۔اسلئے،استاد کیلئے ایک کلیدی اصول یہ ہے کہ وہ ایسی زبان  پہچانے اور سیکھے جو سب بچوں کی زبانوں کو جوڑتی ہو۔ کلاس میں بات چیت اسی زبان میں ہو تاکہ اس سے زبان کے استعمال کی قابلیت (منطق، تصور ،خود اعتمادی، گفتگو اور علم کی ترقی وغیرہ) کا ارتقاء ہو۔ گفتگو میں آڑے آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنا استاد کی ذمہ داری ہے۔

بچوں کو اپنی زبان استعمال کرنےکی اجازت ہو اور کلاس میں موجود تمام زبانوں کے ساتھ انہیں تجربات کا موقعہ دیا جائے۔ بچوں کو اپنی بات کے اظہار کیلئے کسی بھی زبان سے الفاظ استعمال کرنے کی آزادی ہو تا کہ انکے اندر گفت و شنید کی ایک معتبر صلاحیت نشونما پاسکے۔

بچے احترام اور اپنی مثبت تصویر کے محتاج ہوتے ہیں:

بچی کی خود اعتمادی کیلئے دوسرا کلیدی نکتہ اسکی ذاتی مثبت تصویر ہے۔ بچی کی تہذیب، زبان اور پہچان کا احترام ہونا چاہئے اور اسی وقت وہ چیزوں کی تحقیق اور اپنے ارادہ اور جستجو کے استعمال کو سیکھتی ہے۔ اسکی باتوں اور جذبات کے احترام کے اعتماد کے بغیر ہم اسکے اندر سیکھنے کے عمل کا ارتقاء نہی دیکھ سکتے۔

اس رویہ کے نتائج کو سمجھنے اور کلاس روم میں تبدیلی کیلئے، ان امکانات کا تصور کیجئے: بورڈ پر ایک تصویر بنائیے اور بچوں سے پوچھئے کہ اسے کیا نام دیں۔ بچوں کے دئے گئے تمام نام بورڈ پر لکھے جائیں، پھر بچوں کو اپنی زبان میں اس تصویر سے متعلق اپنے علم کے اظہارکا موقع دیں۔ اگر کوئی بچی دوران اظہار الفاظ میں ربط کو قائم نہ رکھ سکے یا موزوں تفصیل نہ بیان کر سکے تو اسکی بات کو سمجھانےوالے دوسرے بچے کلاس میں موجود ہونگے۔ بہر حال کلاس میں یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ کوئی بھی اپنی زبان میں اپنی مکمل بات رکھ سکتا ہے۔ کسی واقعے ، سرگرمی یا کسی بھی چیز پر  بات کرنے کی مشق ہو سکتی ہے۔ بچوں سےانکے پسندیدہ فرد یا یادگار وقت کے بارے میں گفتگو کرائی جاسکتی ہے۔

اس بات کو یاد رکھیں کہ زبان، الفاظ اور قواعد سے بہت بڑی چیز ہے، یہ ہمارے وجود کا اظہار ہے اور اسلئے بچوں کو انکی زبان کے استعمال کی اجازت دراصل انھیں اپنے انداز سے اپنی شخصیت کے اظہار اور پیشکش کی آزادی دینا ہے۔


ہرِدے کانت دیوان فی الحال وِدیا بھوَن سوسائیٹی ، ادیپور کے تعلیمی مشیر ہیں۔ وہ فاؤنڈنگ گروپ آف ایکلاویا کے رکن رہ چکے ہیں۔ وہ گزشتہ پینتیس سالوں سے تعلیمی میدان کے مختلف  طریقوں اورپہلووں پر کام کر رہے ہیں۔ خصوصًا وہ ریاست کے تعلیمی خاکے میں جدت اور تبدیلی کی جدوجہد میں  شریک ہیں۔ ان سے رابطہ کیلئے۔ [email protected]

بشکریہ– لرننگ کرو ، عظیم پریم جی یونیورسیٹی ،   بنگلور

Author: Syed Mazhar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے