اسکول کے پیچیدہ ماحول میں فطری طریقہ علم و تعلم کی بازیافت

مصنف : سلمان وحید

پہلی قسط

اس مقالے کے دو حصے ہیں۔ ایک حصے میں تعلیم کے تحت بچّوں کے ساتھ کی گئی تخلیقی سرگرمیوں کو پیش کیا گیا ہے اور دوسری طرف مسلم اداروں میں جہاں جدید تعلیم کے ساتھ تربیتی محاذ پر بھی کام کیا جارہا ہے لیکن جو سنجیده مسائل در پیش ہیں اُن پر مختصر بحث کی گئی ہے اور ساتھ میں اس محاذ پر کی گئی سرگرمیوں کو پیش کیا گیا ہے۔  

پہلا حصہ

ابتدائیہ

موجودہ تعلیمی اداروں میں بچّوں کا تعلیمی سفر ایک ایسے نہج پر چل رہا ہےجہاں آزادی کے عناصر خاتمہ کے دہانے پرہیں۔ یعنی، بچّہ اپنی فطری رجحان کے اعتبار سے کچھ سیکھنے کی خواہش رکھتا ہو تو اُس کے لئے راہیں ہموار کرنا گویا ایک پورے نظام تعلیم کو متاثر کرنے جیسا ہے۔ جدید تعلیمی تقاضے بچّوں کی انفرادیت  کے مخالف ہوچکے ہیں۔ اتنے غیر محفوظ نظام کے تحت بچّوں کا آزادانہ تعلیمی تجربہ کرنے کا خواب ایک طلسم جیسا ہے۔ یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ سیکھنے کا یہ ماحول بچّوں کو ذہنی اعتبار سے کمزور، بے بس اور تھکا دیتا ہے۔ بچّے ایک ایسے بھنور میں پھنس جاتے ہیں جس سے نکلنے کا خیال خود بغاوت قرار دیا جاتا ہے۔  بچّے اسکول کا ایک ایسا مظلوم طبقہ بن چکے ہیں  جس کو کوئی مظلوم ہی نہیں سمجھتا، اگر کوئی سمجھنے کی کوشش کرے تو اُس کے لئے کوئی ہمدردی ناقابل فہم چیز  گردانی جاتی ہے۔ 

اسکول کا انتظامیہ والدین کو اپنا گراہک سمجھتا ہے، اُسی کی مانگ کے حساب سے تمام تعلیمی منصوبے تیار کیے جاتے ہیں۔ اساتذہ پورے سال اس خوف میں گزارتے ہیں کہ کہیں اسکول انتظامیہ ہم سے ناراض نہ ہوجائے اور کوئی غیر متوقع کارروائی نہ کردے۔ جس کے چلتے اساتذہ اسکول انتظامیہ کی ہر بات پر عمل ناگزیر سمجھتے ہیں۔ جو کیفیت اساتذہ کی انتظامیہ کے سامنے رہتی ہے ٹھیک اُسی کیفیت کے ساتھ اسکول کا انتظامیہ والدین کے سامنے رہتا ہے۔ والدین پوری تعلیمی جدوجہد کو ماہانہ امتحانات کے ذریعے سے پرکھتے ہیں اور اساتذہ کے ساتھ غلامانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے وہ لوگ اُن کی پرورش کررہے ہوں۔ والدین میں سے ہر شخص استاد سے یہی توقع رکھتا ہے کہ ان کے بچّے کو کیسے پڑھایا جائے وہیں دوسری طرف اسکول کا انتظامیہ اساتذہ سے یہ امید رکھتا ہے کہ تمام بچّوں کو کیسے پڑھایا جائے۔ ایک استاد اسکول انتظامیہ اور والدین کی توقعات کے بیچ میں پستا ہے اور ایک طالب علم – انتظامیہ، والدین اور اساتذہ، تمام کی توقعات کا شکار بنتا ہے۔ پورے سال میں بچّے کی انفرادی آزادی، شخصیت کی انفرادیت اور سیکھنے کی خواہش و جستجو کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ 

 ایسے کشمکش بھرے ماحول میں، راقم تحریر نے کچھ اقدامات اٹھانے کی پوری کوشش کی اور بڑی حد تک ناقابل یقین کامیابی بھی ملی جس کے نتیجے میں  بچوں نے اپنی تخلیقات کا شاندار مظاہرہ کیا۔ اور ہاں، آخر میں میرے ساتھ جو  ہوا اس سے  ایک دلچسپ حقیقت سے واشگاف بھی ہوئی ۔ 

 بچّوں کے ساتھ مندرجہ ذیل تخلیقی تجربات کیے گئے ہیں:

1۔ أنقى – سالانہ مجلہ   

اسکول کے آغاز سے ہی میں نے بچّوں کے ساتھ خالص سیکھنے اور سکھانے پر مبنی سرگرمیاں شروع کردیں تھی۔ اسی دوران بچّوں سے بات چیت بھی خُوب ہوتی ۔ میں نے بچوں سے کہا کہ آپ اس اسکول میں مختلف زبانیں سیکھ رہے ہیں، آپ کو کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا چاہیے کیونکہ زبان کا سب سے بہترین استعمال یہ ہے کہ آپ اُس کے ذریعے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کریں۔ اشعار کے ذریعے، کہانی کے ذریعے اپنے دل کا حال بیان کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ بچّوں نے پہلے سے ہی بہت کچھ لکھا ہوا تھا۔ کچھ بچّوں نے اپنی شاعری کی پوری ڈائری پیش کردی جس میں کئی نظمیں تھی، کسی نے کہانیاں تو کسی نے انگریزی زبان میں اشعار و مضامین پیش کردیا جو پہلے سے ہی اُن کی ڈائری میں موجود تھے۔ میں نے پوچھا یہ اب تک آپ نے کہیں کسی کو دکھایا کیوں نہیں؟ بچّوں کے جوابات بہت ہی  تکلیف دہ تھے۔ کسی نے کہا کہ میں نے بہت کوشش کی کہ میرا مضمون کہیں شائع ہوجائے لیکن جب نہیں ہوا تو بہت دکھ ہوا سر۔ کچھ بچّوں نے اجتماعی طور پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ شاید یہ ہمارے اساتذہ کے لئے زیادہ اہم نہ ہو۔ جو چیز میں سمجھ پایا ہوں وہ یہ کہ خدا کی ودیعت کردہ فطری صلاحیت کے اعتبار سے بچّوں نے خود کو اظہار کرنا شروع کردیا ہے لیکن تعلیم یا تعلیمی اداروں میں اُسکی مطابقت دیکھ نہیں پا رہے ہیں یا یہ کہ معلمین کے نزدیک اُسکی کوئی تعلیمی حیثیت نہیں ہے۔ 

یہ بھی احساس ہوا کہ بچّوں کو دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک حوصلہ افزائی یعنی انکی تحریروں کو شائع کیا جائے اور دوسرا بہتر سے بہتر رہنمائی۔ میں نے سوچا کہ سالانہ مجلے کی شکل میں ایک مجلے کی اشاعت پر کام کیا جائے جس میں بچّے بہت کچھ سیکھ پائینگے۔ پانچ مہینوں کی کڑی محنت کے بعد پہلی بار اس اسکول میں بچّوں کا سالانہ مجلہ منظر عام پر آگیا۔ اس مجلے میں مندرج ذیل چیزیں موجود ہیں۔ مضامین ، اردو اور انگریزی میں شاعری، کیلیگرافی، سفر نامہ اور ترجمہ وغیرہ۔ یہ مجلہ چار زبانوں پر مشتمل ہے تاکہ زبان کی قید بچّوں کی صلاحیت میں کوئی رکاوٹ نہ بنے۔ اس مجلے کا نام، اسکول کا نیا لوگو، یعنی مجلے سے جڑی ہر چیز بچّوں کے حیرت انگیز صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ ہم نے مجلے کی ایک باقاعدہ ٹیم تیار کی تھی جس میں پوری ٹیم نے مل کر اس کام کو انجام دیا۔ اسکول والوں نے ہمیں ایک میگزین آفس بھی مہیا کی تھی جس کو بچّوں نے اپنی تخلیقات سے انتہائی خوبصورت بنایا تھا۔ نیچے دی گئی تصویر میگزین آفس کے “Wall Painting” کی ایک جھلک ہے۔ 

میگزین آفس کے دیوار کی پینٹنگ

 

سالانہ أنقى مجلے کی پی، ڈی، ایف کاپی مندرج ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ کریں۔ 

اس لنک پر کلک کریں اور میگزین کاپی ڈاؤنلوڈ کریں

 

وال میگزین

وال میگزین کی کوشش اصل میں سالانہ مجلے کے منصوبے کے تحت شروع کی گئی  تھی  جس میں تمام بچّے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر پائیں۔ جس کے تحت ہم نے کئی نئی چیزوں کا آغاز بھی کیا تھا۔ پانچویں سے لیکر ساتویں کلاس تک کے بچوں نے بہترین وال میگزین تیار کیا ہے۔ اس کوشش کی ایک خاص بات یہ ہے کہ بچّوں نے کڑی محنت کرکے خود سے تمام چیزیں تیار کیں۔ ایک ٹیم بنائی گئی، جس میں، ایڈیٹر، اور ایڈیٹر کی نگرانی میں مختلف شعبے بنائے اور بچّوں کو اس میں تقسیم کردیا۔ میں نے اس حوالے سے رہنمائی کی کہ یہ تمام چیزیں کیسے انجام دی جاتی ہیں، اور اسکے پورے خاکے کو بچّوں کے سامنے رکھا اور تمام چیزیں بچّوں کو خود تیار کرنا تھا۔ حیرت انگیز طور پر بچّوں نے اپنی تخلیقیت کا شاندار مظاہرہ کیا۔ اس میں مندرج ذیل چیزیں شامل تھی۔ حمد، نعت، آزاد نظم، کیلیگرفی ، پینٹنگ، کہانیاں، مضامین، وغیرہ۔ یہ وال میگزین انگریزی، اردو، کنڑا زبانوں  میں تھا تاکہ بچّے زبان کی قید کی وجہ سے ہمت کا مظاہرہ کرنے سے رک نہ جائیں۔ 

وال میگزین کی کچھ تصویری جھلکیاں۔

 پہلی تصویر

دوسری تصویر

تیسری تصویر

 

3۔   باغبانی

جس اسکول میں بچّے پڑھتے تھے وہاں کی زمین بہت ہی سخت، پانی کی قلّت اور پتھریلی  ہونے کی وجہ سے باغبانی ایک ناممکن کام معلوم ہوتا تھا۔ شاید، اسی کے چلتے وہاں پیڑ پودے موجود نہیں ہیں۔ میں نے بچّوں کے سامنے ایک چیلنج رکھ دیا کہ ایسی زمین اور ماحول میں باغبانی ناممکن کام ہے، کیا آپ میں سے کوئی ہے جو اس کام کو ممکن بنا کر دکھائیں؟ اس چیلنج کے دوسرے دن بچّے کئی پودے اور بیج اسکول لیکر آگئے۔ کچھ بچے گملے لیکر آگئے۔ ایک آم کا درخت بچّوں نے کامیابی سے گملے کی مدد سے اُگایا، تربوز کی بیل اگانے میں کامیاب ہوئے۔ کچھ بچّوں نے پانی کی قلّت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک راستہ نکالا۔ سر ہم پانی کی بوتل جمع کرینگے، اُس میں سوراخ کرکے اُس کا چھوٹا سا حصہ زمین میں گاڑھ دینگے، اور پوری بوتل کو پانی سے بھر دینگے۔ اُن چھوٹے سے سوراخ سے پانی ہلکا سا رستہ رہیگا جس سے سخت زمین ہمیشہ نم رہے گی۔ اسی دوران بچّوں کو غیر متوقع طور پر کچھ حضرات(روایتی اساتذہ )کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اپنے اساتذہ سے لڑنا پڑا یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ ایک درست کام میں مصروف ہیں۔ وہ وقت ضائع نہیں کررہے ہیں، وغیرہ۔ کچھ والدین سے یہ خبر بھی پہنچی کہ جب سے باغبانی کا کام شروع کیا گیا ہے تب سے انکا بچّہ اپنے گھر کو مختلف پودوں سے بھرنا شروع کردیا تھا۔  پہلے وہ موبائل وغیرہ میں لگا رہتا تھا لیکن اب پورے شوق سے باغبانی میں مصروف ہو گیا ہے۔ اسی دوران ہم نے بچّوں کو بیج کے پھوٹنے (Process of Germination) کے عمل کو بھی کروا کے دکھایا۔ جب بچّوں نے خود کرکے دیکھا تو انکے چہرے خوشی کی لہر سے سرشار ہو گئے۔ 

4۔ حلقہ مطالعہ  

موجودہ تعلیمی اداروں میں زبان سیکھنے کا جو رواج ہے وہ Language-Centered نہیں بلکہ Subject-Centered ہے۔ اس میں موجود فرق انتہائی اہم ہے۔ سبجیکٹ مرکوز ذہنیت میں بچّہ زبان کو صرف ایک سبجیکٹ کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ جو اسباق، مشق، سوالات و جوابات، اور آخر میں امتحان پر مبنی ہوتا ہے۔ اس پورے عمل میں نمبرات کے ذریعے اُسکی سبجیکٹ کی کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے، بچّہ اسی دائرے میں خود کو جانچتا ہے۔ اس پورے دائرے میں زبان کی سمجھ اور معنی سبجیکٹ مرکوز رہتی ہے۔ زبان مرکوز ذہنیت میں سبجیکٹ کی جگہ جب زبان کا تصور قائم ہوتا ہے تو بچّہ غیر شعوری طور پر زبان کو سیکھتے رہتا ہے۔ وہ زبان کو اعلیٰ اور وسیع سطح پر سمجھنے اور تجربہ کرنے کا لطف اٹھاتا ہے۔ 

اس ضمن میں پہلی کوشش یہ تھی کہ میں نے Mini library مختلف کلاس میں قائم کردی۔ اس کی شروعات ایک کلاس سے ہوئی اور دھیرے دھیرے مختلف کلاس تک خود بہ خود پہنچ گئی۔ ہم نے حلقہ مطالعہ یعنی Reading Club قائم کیا۔ اس کے تحت بچّوں میں مطالعہ سے جڑي تخلیقی سرگرمیاں انجام دیں۔ اپنے کلاس کے بچّوں میں دلچسپی کو بڑھانے کے لئے ایک بورڈ بنایا اور اُس میں اُن بچّوں کے نام لکھ دیے جو کتابیں پڑھ رہے ہیں، جس میں پڑھنے والے کا نام، کتاب کا نام، روزآنہ کتنا پڑھ رہے ہیں وغیرہ تفصیلات چسپاں کیں۔ جو بچّے کتاب ختم کر چکے ہوتے ہیں اُنکی کتاب کے ساتھ ایک تصویر لی جاتی تھی اور اُنکی کتاب اور مطالعہ کے بارے میں مختصر سطور لکھ کر گروپ میں شیئر کیا جاتا تھا۔ اس سے بڑی تعداد میں بچّے کتاب پڑھنے لگے، نئی نئی کتابیں خریدنے لگے۔ پانچویں کلاس سے ساتویں کلاس تک کافی بچّوں نے کتابیں ختم کی جس میں کسی نے ایک، کسی نے دو تو کسی نے تین تک ناول ختم کردیں۔ 

بورڈ حلقہ مطالعہ – تمام پڑھنے والے بچوں کی تفصیلات کے ساتھ۔

 

5۔ کہانی کلاس 

میں نے تقریباً ہر کلاس میں مختلف کہانیاں سنانا شروع کردیا تھا۔ ہر کہانی میں جو کردار تھے وہ اُس کلاس کے بچّے خود ہوتے تھے۔ کہانی میں اپنا کردار دیکھ کر بچّے بڑی ہی دلچسپی اور ڈوب کے سنتے تھے۔ جتنے بھی بچّوں کے مسائل یا لڑائیاں آتی تھی اُنکو کہانی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مثلاً، ایک بچّے کو چار یا پانچ لوگ کافی پریشان کرتے تھے۔ میں نے ان سارے بچّوں کو کہانی کے کردار میں ڈھال دیا۔ جو حقیقی زندگی میں دشمن ہیں اُنکو مسیحا بنا دیا اور انکے جوش اور مدد کے جذبے کو پوری کلاس میں پیش کر دیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اُن بچّوں نے ایک دوسرے کوپریشان کرنا ہی بند کردیا۔ ایک بچّہ امیر باپ کا بیٹا تھا جو اسکول کی بس میں نہیں آتا تھا۔ وہ ابّو کی کار میں آنے پر فخر کرتا تھا۔ کہانی کے ذریعے میں نے اُس بچّے کو ایک محنت اور مشقت کرنے والے بچّے کے کردار میں ڈھال دیا اور کہانی کے ذریعے ہی اُسکے حقیقی دنیا کے عمل کو عیاشی اور کمزوری کا کردار بنا دیا جس کے بعد سے اُس بچّے نے اسکول بس میں آنا شروع کردیا۔ یہ سب حقیقی واقعات ہیں۔ یہاں ایک بات ضرور یاد رہے، یہ تبدیلی ایک وقت کہانی سنا دینے سے نہیں آئی، اس کام کو میں نے تقریباً چھ مہینوں تک جاری رکھا۔ ایک کلاس میں جاسوسی قسم کی کہانی تفصیل سے سنائی لیکن اُس کو مکمل نہ کرتے ہوئے کچھ اہم سوالات اور پہیلیاں بچّوں کے سامنے رکھ دیئے کہ اس کہانی کو آپ خود اختتام تک پہنچاؤ۔  ایک بچے نے چھ اوراق میں پوری کہانی لکھی اور خود اپنی کلاس میں اُس نے وہ کہانی سنائی جسے پوری کلاس نے مکمل خاموشی کے ساتھ سُنا۔ 

6۔ حلقہ امتحانات

امتحانات جیسے ہی قریب آتے ہیں پورے اسکول میں تناؤ بھرا ماحول بن جاتا ہے۔ اس ماحول کو اسکول کا انتظامیہ اور اساتذہ مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے قیامت برپا کردی گئی ہو۔ بچّوں کے بیچ میں تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ اسکول کا انتہائی منحوس مرحلہ ہوتا ہے۔ اچھے بچّے اکیلے پڑھتے ہیں، کمزور بچّوں کو مخصوص دھیان دینے کے نام پر ذلیل کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے بچّوں کو مختلف گروپ میں تقسیم کردیا۔ ان گروپ میں اچھے اور کمزور دونوں بچّے ہوتے تھے۔ اس گروپ کی تقسیم بچّوں سے بات چیت کرکے اُن کی رضامندی پر ہی بنایا جاتا تھا۔ ہر گروپ کو خوبصورت نام دیے گئے اور اُس میں ایک لیڈر، ایک معاون اور باقی ساتھی تھے۔ جو اچھے بچّے گروپ میں تھے انکا پورا رویہ بدل گیا اب وہ ایک ذمےدار کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنے لگے۔ پہلے وہ خود پڑھتے تھے اب وہ پڑھ کر اور تیاری کرکے دوسرے بچّوں کو پوری ذمےداری سے پڑھانے لگے۔ ایک بچی نے کہا کہ سر زندگی میں پہلی بار مجھے ذمےداری کا احساس ہوا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بچّوں نے تفصیل سے ہر موضوع کا منصوبہ بنایا اور اپنے گروپ کے ہر بچّے سے بات چیت کرکے مشکل موضوعات کو منتخب کیا اور شاندار تیاری شروع کر دی۔ اسی پڑھائی کے دوران دوسروں کی مدد کرنے کا جو احساس ہوتا ہے اس احساس سے گزرتے ہوئے بچوں کے مسکراتے چہرے ماحول کو خوبصورت بنادیتے۔ 

نیچے موجود پی، ڈی، ایف، فائل میں اُسی گروپ کی بنائی ہوئی ایک رپورٹ ہے کہ کیسے اُن بچّوں نے اپنا کام انجام دیا۔ اس گروپ کے لیڈر نے خود اپنی تخلیقی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو تیار کیا ہے۔ اسکو جب میں نے دیکھا تو حیران رہا گیا۔ 

بچے گروپ میں امتحانات کی تیاری کرتے ھوئے۔

نیچے دی گئی لنک کو کلک کریں اور بچوں کے ذریعہ بنائی گئی ایک رپورٹ کو ضرور پڑھیں۔ 

اس لنک کو کلک کریں اور فائل کو ڈاؤنلوڈ کریں۔

7۔ پارلیمنٹ  

آٹھویں کلاس کہ بچوں کے ساتھ سوشیل میڈیا اور طلباء کی زندگی پر ایک پارلیمنٹ منعقد کیا گیا تھا۔ یہ بچوں کا پہلا ایسا تجربہ تھا جہاں وہ کھل کر اپنی بات رکھ پائے۔  جب ہم نے ایسا موقع فراہم کیا جہاں بچّے آزادی کے ساتھ اپنی بات رکھ سکیں تو بچّوں نے شاندار تیاری کی۔ سوشیل میڈیا نے طلباء کی زندگی کو جس طرح سے کچلا ہے اُس کو کچھ حد تک بچّے سمجھتے ہیں۔ ہم نے دو‏مقابل گروپ  بنائے جس طرح پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔ ایک اپوزیشن اور اُس  کا لیڈر اور ایک حکومتی حلقہ اور اُس کا لیڈر اور بیچ میں ایک اسپیکر صاحبہ۔ اسی بحث کو ہم نے پارلیمنٹ کے بعد دوسری کلاس میں ایک بات چیت کی شکل میں بدل دیا اور وہاں کافی چیزوں پر بات ہوئی۔ اس گفتگو میں 

اسکول کا ماحول ایسا بن گیا ہے  کہ وہاں تین چیزوں کی بالکل  گنجائش ہی نہیں رہی ۔ ان ہی تین چیزوں کا ذکر جون ٹیلر گیٹو نے اپنی کتاب (Dumbing us down) میں بھی کیا ہے وہ ہیں انفرادیت، تخلیقیت اور تنقیدی سطح پر غور و فکرسے خالی اسکول۔ بچّے آزادانہ طور پر کسی بھی معاملے پر بالکل نہیں سوچتے، جس کے چلتے سوچنے ، سمجھنے اور تنقیدی تجزیہ  کی کوئی تعلیمی حیثیت باقی نہیں رہی۔ کلاس میں اساتذہ سے سوالات  کرنے کا خیال بھی اب بچّوں کے لئے اجنبی ہو گیا ہے۔ اکثر بچے تو کہتے ہیں سوالات کی کوئی ضرورت ہی نہیں پڑھتی کیونکہ وہ سب سمجھ جاتے ہیں۔  اب اسکول میں  ہر موضوع آسان بن گیا ہے۔ اب دشواری بس یہ رہ گئی ہے کہ کتاب میں موجود  دروس امتحان تک کے لئے ذہین نشین کرلیا جائے۔ وہ موضوعات جس کا سیدھا تعلق ہماری نجی زندگی سے ہے جیسے سماجیات اُس میں بھی سوالات اور  مباحث  بالکل بے معنی رہ گئے ہیں۔ اساتذہ پر نصاب کی تکمیل کا ڈر اور  بچّوں  پر امتحان کے دن کا ڈر بیٹھا ہوا ہے۔ اس ڈرنے تعلیم سے جڑ ی ہر چیز  کوبے معنی اور بے غرض  بنا دیا ہے۔  

اختتامیہ

ان کوششوں کا ماحصل یہ ہے کہ ایسی کشمکش اور تناؤ بھرے ماحول میں اگر ایک استاد پوری ایمانداری کے ساتھ تعلیمی و تدریسی فرائض انجام دینا چاہئے تو ہزاروں راستے اُسکے سامنے کھل جاتے ہیں۔ یہ حقیقت بجا ہے کہ دور حاضر نے تعلیم کے اصولوں کو محدود مقاصد تک باندھ کر رکھ دیا ہے اور اُن اصولوں نے کہیں نہ کہیں ایک استاد کے ہاتھ بھی باندھیں ہیں لیکن نیک دل، خلوص اور پر عزم استاد کا دل کسی کے قابو میں نہیں آسکتا۔ جس دنیا نے تعلیم و تعلیمی اداروں کا یہ حال کیا ہے اُسی دنیا میں ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جنہوں نے تخلیقی نہج پر پڑھانے کے ہزاروں طریقے اور مواد تیار کیا ہے اور مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ جدید سرمایادرانہ و نو استعماریت نے تعلیم و تعلیمی اداروں کو جس طرح بازار و بازاری حدود میں جکڑ کر رکھا ہے ٹھیک اُسی طرح ایسے ہزاروں ماہر تعلیم و بہترین اساتذہ موجود  ہیں جن میں سے اکثر اُن ہی حدود میں رہتے ہوئے پھول کھلا رہے ہیں اور کچھ نے پورا باغ ہی بدل ڈالا ہے۔  ایک ایماندار استاد  خود سے  یہ سوال  کرے کہ ہم نے پورے خلوص کے ساتھ صرف بچّوں کی خاطر کتنی کوشش کی اور کیا پوری اُمید کے ساتھ وہ کوشش ابھی بھی جاری رکھی ہے؟  جب اسکول کا انتظامیہ يا بیرونی دباؤ ہم پر  نصاب کی تکمیل وغیرہ چیزوں پر ترجیح کی تاکید کرتا ہے تو کیا ہم خود میں صرف اتنی ہی سکت پاتے ہیں کہ ہم اُسکے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے؟  کیا ایک استاد اتنا کمزور ہو سکتا ہے کہ وہ خود کو کسی بھی سیاق میں مجبور پائے؟  حقیقت یہ ہے کہ استاد سے زیادہ مضبوط اور  طاقتور کوئی شخص نہیں ہے۔ اگر استاد خود کو کمزور اور مجبور محسوس کررہا ہے تو یہ احساس خود کے استاد ہونے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ 

 

مصنف کا تعارف

نام : سلمان وحید

پیشہ : استاد

دلچسپیاں : تخلیقی و تعلیمی تجربات اور کہانیاں لکھنے کا شوق ہے، 

مقام : کرناٹک، بیجاپور

ای میل : [email protected]

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے