لبرل آرٹس اور بے معنی ہونے کی اہمیت

مصنف : دھنواتی نائیک

مترجم : سلمان وحید

کیا آپ کو وہ وقت یاد ہے جب آپ کچھ کرنا چاہتے تھے اور آپ کی فیملی آپ سے کچھ اور کروانا چاہتی تھی، آپ نے اس کی پُرزور مخالفت کی؛ پھر آپ کے اوپر کچھ تادیبی کاروائی کی گئی، آپ نے دوبارہ بغاوت کی۔ بالآخر آپ دل آزردہ ہوکر یہ سوچنے لگے کہ پوری دنیا آپ کی مخالف ہے؟ کیا آپ کو یاد ہے جب آپ سے یہ کہا گیا تھا کہ جو آپ کرنا چاہتے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے؟ آپ کو بالکل یاد ہوں گی یہ سب باتیں، کیوں کہ عملی طور پر نوعمری کے ایام ایسے ہی ہوتے ہیں۔

پریشان اور الجھاٰء ہوا بچہ۔

میرے لئے اور میرے کئی دوستوں کے لیے ۷۰ اور ۸۰ کی دہائیوں والے بمبئی میں پرورش دراصل ہرطرح کے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے اور گھل مل جانے کے تجربے سے عبارت تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم نے ان تمام لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنا اور ان کی موجودگی سے محظوظ ہونا بھی سیکھ لیا تھا۔  

 سبزی فروش،  بائی، دودھ والے، دھوبی، سب ہمارے گھر کی دہلیز پر ایسی دنیا لے کر آتے تھے جس سے ہم بیانیوں، بات چیت اور مکالمے کے ذریعے متعارف ہوتے تھے۔ ہم لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے اسکول جاتے اور راستے میں مختلف تجربات سے ہمکنار ہوتے تھے، علاوہ ازیں دنیا کے ساتھ ہمارا تبادلہ خیال خاص کر عورت کی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ افسانوں، شاعری، پاپولر کلچر اور متنوع تجربات کے ذریعے ہماری تعلیم اسکول کے باہر بہت ہی مختلف ہوتی۔ اور یہ واقعے اس مرحلے سے کافی قبل کے ہیں جب ہمیں یہ ساری باتیں جامعات اور اعلی تعلیمی کورسیز میں لبرل آرٹ کے  مختلف شعبوں میں سکھائی جاتی تھیں۔ انہی کے ذریعے ہم نے اپنے آپ کا اس دنیا سے اور اپنی ذات سے ایک نازک سا رشتہ قائم کرلیا تھا۔

یاد کرو اس سبزی فروش کو جو آپ کے گھر ایک نئی دنیا لے کر آتا تھا۔

جوں جوں  ہم تعلیم کی سیڑھیاں چڑھتے گئے ویسے ویسے بدقسمتی سے “علم کی دنیا” سے “دنیائے تجربات” کا فرق تیزی سے پیدا ہونے لگا، یہاں تک کہ ہم علم کی بنیاد پر ایسے گریجویٹس اور پیشہ ور لوگ بن گئے جن کا دنیا کے دیگر معاملات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ علم اور حقیقی دینا کے بیچ کا تعلق مکمل طور پر منقطع ہو چکا تھا۔ ہم اس علم کے حاملین تھے جس کا منبع کہیں موجود نہیں تھا لہٰذا ہماری راہیں مسدود ہوچکی تھیں۔

پچھلی تین دہائیوں میں  دنیا میں  بڑی سرعت کے ساتھ  کئی تبدیلیاں واقع ہوئیں اور بہیترے طریقوں سے ہوئی ہیں۔ اور ان کی وجوہات ایک جانب نئی تکنیکوں کی ایجادات اور انسانی زندگیوں میں ان کا دخل ہے تو دوسری طرف مڈل کلاس لوگوں میں بڑھتا ہوا اکیلا پن۔ یہاں تک کہ میل ہمارے ڈیسک ٹاپ پر آتا ہے نہ کہ ہماری دہلیز پر، اور ڈاکیہ دن میں کہیں بھی دو بار ڈاک نہیں پہونچاتا۔ علم اور تجربے کی علحیدگی کی نئی جہتیں اور کئی برے نتائج ہیں۔ ہمدردی کے جزبے سے ہم خالی ہوتے جارہے ہیں، اور یقینی طور پر اس جذبے نے کبھی بھی  ہمارے شعور کی حدود میں دستک نہیں دی۔ بکھرے ہوئے خاندان، مالی عدم تحفظ، غربت، ہجرت، تشدد اور جھگڑا ہماری روزمرہ کی زندگی سے جڑے الفاظ کا حصہ ہیں، اور پھر بھی ہم ان سارے مسائل سے بے اعتنائی برتتے آئے ہیں؛  ان دکھ و ظلم کی داستانوں کو ہم صرف ٹی وی میں دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

دنیائے حقیقت سے کٹ کے ٹی وی پر دنیا کی سیر

 یہاں تک کہ اس تنہائی کے عالم میں بھی ہم فیس بک پر مصروف رہتے ہیں۔ ایسا‌ لگتا ہے کہ تنہائی ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے کہ ہم ورچول وقت اور مقام میں صرف ایک کلک سے دوستوں کی لمبی فہرست تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں لیکن وہی لوگ اگرسامنے آجائیں تو ہمارے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔

الغرض، ہم نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے جتنا ورچول دنیا سے جڑے رہتے ہیں اتنا ہی ہم اپنے درون اور اس وسیع دنیا کی حقیقتوں سے اپنا رشتہ کھوتے جاتے ہیں۔

شاعری، ادب، فلسفہ، فن اورہاں لوگ، یہ تمام عوامل مل کر ہمیں ایک مکمل شخصیت عطا کرتے ہیں ،مزید برآں یہ عوامل ہمارے سامنے ایسے مختلف جہانوں (جن سے ہم لا ینحل طور پر وابستہ ہوتے ہیں) کی حقیقتوں کو عیاں کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر موجود گہرائی سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ لیکِن یہ سب کچھ اب ختم ہو چکا ہے۔ ہماری سیاست اور اظہار یگانگت اب سائنس کا حصہ بن چکی ہیں، ہماری اخلاقیات کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ایسی دنیا (جو ہم کو ایک دوسرے سے اور متنوع تجربات سے الگ رکھتی ہے) میں  لبرل آرٹس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ لبرل آرٹس  ہمیں  بحیثیت فرد  اور اس وسیع دنیا سے  ربط قائم  رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ ہم پر دیگر  نظریات اور مختلف نقطہ ہائے   نظر  کو واضح کرتے ہیں۔ہماری زندگی کے ہر لمحے میں چاہے ہم انجینئرہوں یا ڈاکٹر، محاسب ہوں یا استاد، اور ہر عمل و پیشے میں، نہ ضرف  اکیڈمک کی حیثیت سے، وہ ہمیں یاد دھانی کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے اور اس عظیم دنیا میں ایک تسلسل موجود ہے جس کو ہم صرف اپنا خسارہ کرتے ہوئے ہی نظر انداز کرسکتے ہیں۔ ہر نوجوان کی طرح جس نے افسانوں، شاعری، اور آرٹ کے ذریعے خیالات، افہام وتفہیم اور تجربات تک رسائی حاصل کی ہے، یہ واضح کرتا ہے کہ علم بشریات (Humanities) کے سہارے سے ہی ہماری زندگی اور علوم میں حقیقی طور پر سماجی اور انسان دوستی پیدا ہوتی ہے۔

ایسی دنیا (جو ہم کو ایک دوسرے سے اور متنوع تجربات سے الگ رکھتی ہے) میں  لبرل آرٹس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ لبرل آرٹس  ہمیں  بحیثیت فرد  اور اس وسیع دنیا سے  ربط قائم  رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ ہم پر دیگر  نظریات اور مختلف نقطہ ہائے   نظر  کو واضح کرتے ہیں۔ہماری زندگی کے ہر لمحے میں چاہے ہم انجینئرہوں یا ڈاکٹر، محاسب ہوں یا استاد، اور ہر عمل و پیشے میں، نہ ضرف  اکیڈمک کی حیثیت سے، وہ ہمیں یاد دھانی کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے اور اس عظیم دنیا میں ایک تسلسل موجود ہے جس کو ہم صرف اپنا خسارہ کرتے ہوئے ہی نظر انداز کرسکتے ہیں۔

لبرل آرٹس کے بڑے حصے کو کچھ دیگرچیزوں کے ذریعے ممیزکیا گیا ہے اور بہترین طریقے سے کیا گیا ہے۔ جیسے زیادہ تعلیم یافتہ شہری ، تنقیدی سوچ اور عوامی بحث و مباحثہ جو ہماری زندگی کے حصول میں اپنی ذات کے علاوہ دیگر محرکات کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔  اتنی شاندار خصوصیات کے باوجود جو تعلیم لبرل آرٹس کے سائے میں نشو نما پا سکتی ہے، اس کو صاف طور پر ہمارے تعلیمی نظام سے دو “بڑے بھائی” سائنس اور ٹیکنالوجی، ( اور اُن کے سوتیلے بھائی منیجمنٹ) کے ذریعے کھلِّی اڑائی جارہی ہے۔

لبرل آرٹس آپ پر علم و حکمت کے دروازے کھولتا ہے

ہمارے نوجوان نوعمری میں ہی خصوصی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کی بہترین یا بد ترین مثال (آپ کے نقطہ نظر پر منحصر ہے) انڈر گریجویٹ ڈگری میں بزنس منیجمنٹ کے کورس کی پیش کش ہے، جوخود تعلیم کا مذاق ہے۔  درآنحالیکہ لبرل آرٹس کو کسی نہ کسی طریقے سے تعلیم سے کنارے کیا جارہا ہے جب کہ یہ امر بھی واضح ہے کہ اُن ہی کی ضرورت زیادہ ہے۔ جہاں سماجی علوم کو تعلیم میں شامل کرنے کے اہم فوائد ہیں، وہیں اُن کا تدریسی عمل بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔

نیشنل کریکولم فريم ورک 2005 کے مطابق سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سماجی علوم کی تدریس میں افادیت پسندانہ رجحان کا استعمال کیا جارہا ہے، جہاں ایک فرد کو ترقی کے آلے کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔  یہ میعاری رجحان کی تبدیلی کی تجویز کرتا ہے تاکہ مساوات، انصاف اور سماجی وقار کے مسائل پر زور دیا جائے تاکہ بچّوں کے درمیان سماجی عدل جیسے سنجیدہ مسائل پر بیداری پیدا ہوسکے۔  این، سی، ایف اِس چیز پر توجہ نہیں دیتا کہ کیسے اس تک رسائی ہو۔ ہمیں چاہیے کہ ہم علوم بشمول سماجی علوم کوعلم بشریات(Humanities) سے پوری گہرائی کے ساتھ جوڑ دیں تاکہ جو ہم آہنگی اُن میں مفقود ہے اُس کو دوبارہ حاصل کریں۔علم بشریات (Humanities) اور سماجی علوم کے درمیان گہرے ربط کے ساتھ ہی لبرل آرٹس کا دوبارہ تعلیم میں با معنی تعلق قائم ہوسکتا ہے۔

  حیرت انگیز طور پر، افادیت پسندی اور مساوات پرستی کے درمیان جدّدوجہد، عمل کی دنیا (جو حقیقی دنیا ہے) میں گونجتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اگرچہ یہاں معاملہ اُس کے برعکس ہے جہاں لبرل آرٹس جس کا نصاب بھی افادیت پسندی سے متاثر ہے اور اُس پرستم ظریفی یہ ہے کہ اس کو بڑے پیمانے پر غیرمستعمل سمجھا جاتا ہے۔ بہترین گریجویٹس کے لیے کچھ نوکریاں بھی موجود ہیں لیکِن تعلیمی اور این، جي او، کے باہر ان کی تنظیمی زندگی میں ترقی کے لیے کیریئر کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ عملی دنیا اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جن فارغ التحصیل لوگوں کو وہ کام پر رکھتے ہیں، (یہاں تک کہ ایس ٹی طبقہ کے گریجویٹس بھی، لیکن ان کو تنظیموں میں کام مل جاتا ہے) ان کا کم ہی استعمال ہوتا ہے۔

دیگر ڈسپلن کے میدانوں سے کئی دلائل لبرل آرٹس کی دفاع میں آتے ہیں لیکن دیکھئے کہ کیسے ان نیک نیت دفاعوں سے بھی ایسے گمراہ کن تبصرے نمودار ہوتے ہیں جس کی ایک مثال نیو یارک ٹائمزمیں علم بشریات (Humanities )کے معاملے میں ملتی ہے کہ ” آپ کے پاس عظیم قوت ہے اگر آپ وہ شخص ہیں جو دفتر میں ایک صاف اور جامع میمو لکھ سکتا ہو”۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ کوئی بھی ہیومانیٹزاس لئے نہیں پڑھتا کہ وہ ایسی معمولی مہارت کو پائے جس سے وہ اچھا میمو لکھ سکے، “کام کی دنیا” لبرل آرٹس جیسے وسیع علم کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی کرتی ہے کہ اس کو چند مہارتوں میں مقید کردیتی ہے(بلکہ عزر گناہ بدتراز گناہ، سافٹ مہارتوں پر)۔ جب کہ ان مہارتوں کے لئے ہر ایک کو بہت زیادہ لبرل آرٹس کی تعلیم کی ضرورت ہوگی۔

بد قسمتی سے “کام کی دنیا” کی ضروریات کو پورے کرنے کی کوشش میں “تعلیم کی دنیا” ( نظریات کی دنیا یا وہ دنیا جہاں علم کی تعمیر ہوتی ہے) نے خود کو بہتر بنانے کے لئے سماج سے علحیدہ نصاب اور غیر تنقیدی تدریس کے طریقے کے نفاذ کی کوشش کی ہے۔ لہذا طب، انجینئرنگ، منیجمنٹ اور سائنس میں بلا شبہ اچھے پروفیشنل پیدا ہورہے ہیں جو ایک طرف تو اپنا اثر رکھتے ہیں لیکن ان کا علم دنیا سے منقطع ہے اور کئی معاملوں میں بے معنی بھی- 

بے معنی اس لئے کیونکہ وہ فرد کی شخصیت اور معاشرے کو نظر انداز کرتے ہیں، بے معنی اس لئے کیونکہ انہوں نے اُس چیز کو غیر تنقیدی مزاج سے قبول کیا جو اُنہیں سکھایا گیا تھا، بے معنی اس لئے کیونکہ انہوں نے اس بڑے فریم ورک کو نہیں سمجھا جس میں اس علم کی تعمیر کی گئی ہے۔ اُنہیں لبرل آرٹس کی ضرورت تھوڑی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھنے اور جڑنے کی کوشش کرتے ہیں اُس دنیا سے جس نے انہیں بہتر طور پر “فن کا مجموعہ” بنایا ہے اور انتہا درجے تک بے معنی، اور بیکار بھی۔کام کی وسیع دنیا کو لبرل ارٹس کے عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس نے سماج کو اور سماج میں ہمارے مقام و مرتبہ کو انفرادی، سماجی، جمالیاتی اور اخلاقی اعتبار سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اُنہیں سمجھنا ہوگا کہ سماج ایک پیچیدہ تخلیق ہے جس کو کسی بھی معاملے میں مختصر وقت کے لئے محدود کرنا آسان، کارآمد اور نفع بخش لگ سکتا ہے لیکن طویل مدت کے لئے نقصان دہ ہے۔اب پہلے سے کہیں زیادہ معلومات سے بھر پور سماج میں لوگوں کے اندر چیزوں کا جائزہ لینے کی صلاحیت اور مختلف نقطہ نظر پر رائے رکھنے کی صلاحیت کو فروغ دینا چاہیے۔

لبرل آرٹس آپ کے ذہن کو غور و فکر کے پر لگاتا ہے۔

في الاصل، ضرورت مند لوگوں کو حکومت کی زیادہ مدد کی فراہمی کے لئے، بہترین قانون ساز اور ترقی یافتہ حکمرانی کے لئے لبرل آرٹس کی تعلیم کی ضرورت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ جو لوگ لبرل آرٹس میں موجود ہیں وہ دوسرے ڈسپلن اور میدان کار میں سرائیت کرجائیں اورعلم کو دوبارہ سے با معنی بنائیں۔اب وقت ہے ہر مصنف، فلسفی، تاریخ دان، سماجی علوم کا ماہر، شاعر اور فنکار کا، کہ وہ کھڑے ہو اور اس تسلسل کو جاری رکھے۔

میرا مالک میری پونچھ کاٹنا چاہتا ہے کیوں اُسے لگتا ہے کہ اسکی کوئی بازاری قیمت نہیں ہے۔

 

اب ہمارا وقت ہے کہ ہم پُر زور ڈھنگ سے “کام کی دنیا” جو کہ نام نہاد “حقیقی دنیا” کہلاتی ہے، سے کہیں کہ جو بھی  قابلیت، با قاعدگی اور نفع کے نام پر وہ کررہے ہیں، وہ تعلیمی ضرورت کے لحاظ سے بے معنی ہے، یقینی طور پر اُس دنیا کے لیے بے معنی ہے جس کو ہم میں سے اکثر لوگ تجربہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔اِس سے فرق نہیں پڑتا کہ ہم کو کتنا بے معنی، بیکار اور مجہول بنا دیا گیا ہو، یہ لبرل آرٹس ہی ہیں جہاں یہ زندہ دل دنیا، جس میں خیالات جنم لیتے ہیں اور نشوونما پاتے ہیں، جہاں شخصیت کی تعظیم کی جاتی ہے، علم کی اعلیٰ بحثوں میں با معنی اور بے معنی دونوں چیزوں پر بحث و تمحیص کی جاتی، کبھی معنوی سطح پر تو کبھی عوامی حمایت اور بھلائی کی خاطر۔اسی نقطہ نظر میں جو سب سے زیادہ علمی ہے وہی سب سے زیادہ کار آمد ہے، نوعمری میں جو خیالات ہمارے لئے بے معنی اور بیکار تھے اسی جذبے کے ساتھ اُس پر دعویٰ کرنے کا وقت آگیا ہے، اور یہی آج کی ضرورت ہے۔

 

 مصنفہ کے بارے میں : دھنواتی نائیک ایک مصنفہ ہیں جنہو نے معاشیات، بشریات، اور فلسفے میں تعلیم حاصل کی ہے۔ اُنہوں نے ہندوستانی کلاسیکی موسیقی پڑھی ہے۔ پرفارمنس آرٹسٹ کے ساتھ، خاص کر جمالیات، سماجی تھیوری اور عصری رقاصوں کی تعلیم میں قریب سے کام کیا ہے۔ کئی تنظیموں اور ڈومین میں مختلف علمی میدانوں میں کام کیا ہے۔ فی الحال وہ منیپال یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف کمیونیکیشن میں فیکلٹی ہیں۔ اُن سے درجہ ذیل میل سے رابطہ کیا جاسکتا ہے:  [email protected]

بشکریہ : لرننگ کرو – عظیم پریم جی فاؤنڈیشن

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے